
داعش کے جنگجو موصل اور صوبہ انبار پر قبضے کے بعد دو ماہ پہلے تک جنوب کی طرف عراقی دارالحکومت پر قبضے کے لیے پیش قدمی کر رہے تھے۔ لیکن انبار اور موصل پر قبضے کے باوجود وہ بغداد میں داخل نہ ہوئے، اگرچہ ان سے بغداد کی طرف بڑھنے کی توقع بھی کی جا رہی تھی۔ تمام تر توقعات کے باوجود داعش کے عسکریت پسندوں نے عراق میں اپنا رخ شمال میں کردستان کی طرف پھیر دیا۔
شام میں بھی داعش نے اسی طرح کی حکمت عملی اپنائی اور اپنا رخ دمشق کے بجائے شام کے مشرقی شہر الرقہ کی طرف کر لیا۔ مشرقی شہر دیر الزور پر قبضہ کیا۔ پھر بڑی ہی آسانی سے شامی فوج کے ۱۷؍ڈویژن کے بریگیڈ ۹۳ پر قبضہ کر لیا۔ داعش کی اس کامیابی نے اس یقین کو اور مضبوط کیا کہ شامی رجیم اپنی نیت اور ارادے کے ساتھ اپنے دور افتادہ علاقوں کو داعش کے قبضے کے لیے چھوڑ رہی ہے تاکہ اپنی توجہ شامی باغیوں کی جانب مبذول کر سکے۔ شامی رجیم کی کوشش یہ نظر آتی ہے کہ دور دراز کے علاقے داعش کے سپرد کر کے خود جوبر، رکن الدین اور دمشق کے مضافات میں شامی باغیوں سے کامیابی سے نمٹے۔
لیکن الجھاوے کا باعث یہ سوال ہے کہ ’’داعش نے اپنے جنگجوئوں کو شام کے دور افتادہ علاقوں میں پھینک دینا کیوں گوارا کر لیا اور کیا وجہ ہے کہ داعش نے پورا سال اہم اور مرکزی شہروں میں لڑائی سے گریز کی پالیسی اپنائے رکھی؟‘‘
جو ہم نقشے پر دیکھتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کی کوشش سنّی آبادی والے علاقوں پر توجہ اور دوسرے علاقوں کے بارے میں بے توجہی ہے۔ یہ بات ہر ایک کے لیے حیران کن ہے۔ ہو سکتا ہے اس رجحان کی وجہ یہ ہو کہ وہ اسلامی ریاست کا قیام اور خلیفہ کا اعلان اپنی ترجیح رکھتی ہو۔ بجائے اس کے دوسرے علاقوں میں الجھ کر رہ جاتی یا فرقہ وارانہ مسائل سے اٹے علاقوں میں جا کر قبضے اور کنٹرول کی مشکلات میں پھنس جاتی۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک ٹیڑھا انقلاب بن جاتا اور عراق میں نوری المالکی کے حق میں چلا جاتا۔ یہ ایک دور تک پھیلا نظریہ ہے جس پر لوگ قائل نظر آتے ہیں۔ خصوصاً شام میں ایسے بہت سے ہیں جو سوچتے ہیں کہ داعش ایک ایسی تنظیم ہے جسے شام کی رجیم کنٹرول کرتی ہے۔ جس کی ایک مثال القاعدہ کی ہے جس کے بارے میں عراق میں کہا جاتا تھا کہ یہ صرف امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والی تنظیم ہے۔
داعش کو توجہ پانے سے عشق ہے!
ایک ایسی تنظیم، جو توجہ حاصل کرنے اور فتوحات کے اعلان سے محبت رکھتی ہو اور اپنے مخالفین کو دن دیہاڑے ناکام بناتی ہو، کے لیے یہ غیر منطقی ہے کہ بغداد یا دمشق پر حملوں سے صرف اس لیے پیچھے ہو جائے کہ وہ خود کو دور افتادہ علاقوں میں محفوظ سمجھ رہی ہو۔ اختیار، اثرات اور عالمی توجہ بڑے شہروں کی بدولت مل سکتی ہے۔ کردستان کی مثال لیجیے، یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جس سے داعش کو کوئی بڑی اور قابل قدر کامیابی نہیں مل سکتی۔
یہی معاملہ شام کے مشرقی علاقوں کا ہے۔ ان سب علاقوں کی اہمیت ثانوی اور کمتر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ داعش ترکی کی سرحد کے لیے بھی خطرے کا ذریعہ بن رہی ہے اور سعودی عرب کے لیے بھی۔ یہ دونوں وہ ملک ہیں جو شامی رجیم سے سخت اختلاف رکھنے والے ہیں۔ اب اس بنیاد پر اس نظریے کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اس گروپ کی مداخلت شامی رجیم کی وجہ سے ہے۔ اس سے پہلے داعش کی ساری لڑائی سنی صوبوں تک محدود تھی۔
شاید عراقی کردستان داعش کا قبرستان بنے گا، خصوصاً جب پیشمرگہ افواج نے لڑائی شروع کر دی اور امریکا بھی اس جاری جنگ میں پہلی مرتبہ شامل ہو گیا ہے۔ امریکی شمولیت تین برسوں کے دوران پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔ کردستان ایک ناہموار اور سطح مرتفع کا حامل علاقہ ہے، اس لیے یہ داعش ایسی بیرونی تنظیموں کے لیے مشکل علاقہ ہو سکتا ہے۔ اگر داعش نے کردستان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر بھی لیا تو سیاسی میدان میں داعش کے لیے قدم جمانا ممکن نہ ہو گا۔ سیاسی لڑائی بغداد میں ابھی شدید اہمیت کی ہے کیونکہ یہاں نوری المالکی کی جگہ اعتدال پسند شیعہ کو وزارت عظمی پر فائز کیا جا چکا ہے۔ اس لیے ہر کوئی داعش پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا جبکہ عالمی معاونت سے ایک نئی حکومت تشکیل پائے گی۔
(بشکریہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply