اسلام اور تمدّنِ اسلام

اسلام میں وہ قوت تھی‘ جس نے جھنجوڑ جھنجوڑ کر عربوں کو جگا دیا۔ ان میں اعتمادی اور عمل کا جوش بھر دیا۔ واقعی یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جو قوم صدیوں سے محوِ خواب تھی اور بظاہر دنیا کے تمام واقعات سے الگ یکایک اس طرح جاگ اٹھی اور اس نے ایسے زبردست جوش اور جدوجہد کا ثبوت دیا کہ ساری دنیا دنگ رہ گئی اور ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ عربوں کی یہ تاریخی داستان کہ وہ ایشیا‘ افریقا اور یورپ میں کس تیز رفتاری سے چھا گئے اور تہذیب و تمدن کی معراج پر پہنچ گئے۔ تاریخ کے حیران کر دینے والے کرشموں میں شمار ہوتی ہے۔

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ سے پہلے مدینہ سے دنیا کے بادشاہوں کے نام فرمان بھیجے۔ قسطنطنیہ کے فرمانروا کو جب یہ پیغام ملا تو وہ شام میں ایرانیوں سے برسرِ جنگ تھا‘ ایسا ہی محزن ایران کے بادشاہ کو ملا‘ سنا ہے کہ چین کے بادشاہ تاہی سنگ کو بھی اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ ان بادشاہوں کو حیرت ہوئی ہو گی کہ یہ کون غیرمعروف شخص ہیں‘ جو ہم پر اس طرح حکم چلا رہے ہیں۔

ان سپاہیوں میں جو ایمان اور اعتقاد تھا‘ وہی آنحضرتؐ نے اپنے پیروکاروں میں بھی پیدا کر دیا تھا۔ انہوں نے اس سے تسکین حاصل کی‘ اسی سے ابھرے‘ یہاں تک کہ صحرا کے وہ فرزند جنہیں دنیا نے کبھی اہمیت نہ دی‘ اٹھے اور دنیا کا نصف حصہ فتح کر کے دم لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ایمان اور خوداعتمادی بہت بڑی تھی۔ اتنی بڑی کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

اسلام نے اپنے پیرئوں کو اخوت کا سبق سکھایا اور یہ حکم دیا کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور سب برابر ہیں۔ گویا یہ اسلام تھا‘ جس نے عوام کے سامنے ایک طرح کی جمہوریت پیش کی۔ اس زمانہ کی ناکارہ عیسائیت کے مقابلے میں اخوت کے اس پیغام میں نہ صرف عربوں کو بلکہ ان تمام ملکوں کے باشندوں کو وہاں وہ وارد ہوئے ہوں گے‘ کتنی بڑی کشش محسوس ہوئی ہو گی۔

محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ۶۳۲ھ میں ہجرت کے صرف دس سال بعد وفات فرمائی۔ انہوں نے اس تھوڑے عرصہ میں عرب کے جنگجو قبائل کو ایک امت کی صورت میں متحد کر دیا اور جوشِ ایمانی سے سَرشار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ ان کے جانشین ہوئے جو دو سال تک امیرالمومنین رہے۔

ابو بکرؓ و عمرؓ دو شخص تھے‘ زبردست صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے اسلام کی عظمت کا سنگِ بنیاد رکھا اور عربوں کی عظمت قائم کی۔ خلیفہ کی حیثیت سے وہ دونوں مذہبی پیشوا بھی تھے اور سیاسی سردار (امام) بھی‘ ان کا درجہ کتنا بلند تھا۔ ان کی مملکت روز افزوں طاقت پذیر تھی۔ اس کے باوجود سادگی ان کا جوہر تھی۔ انہوں نے شان و شوکت کو ٹھکرا دیا اور عیش و عشرت کو ہمیشہ دور رکھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسلام کی جمہوریت ان کے لیے زندہ چیز تھی۔ وہ تکلفات سے دور تھے اور محسوس کرتے تھے کہ ان کی قوت سادگی اور جفا کشی میں ہے اور اگر عربوں نے بھی ایران اور قسطنطنیہ کے محلات کے تعیشات کو قبول کر لیا تو وہ ناکارہ ہو کر تباہ ہو جائیں گے۔

ان کی بارہ برس کی مجموعی حکومت میں روم اور فارس کی ساسانی حکومت نے شکست کھائی۔ یہودیوں‘ عیسائیوں کے مقدس شہر پر ان کا قبضہ ہوا۔ شام‘ عراق اور ایران ان کی حکومت کا جزو بن گئے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا کی رائج شدہ رسوم اور رواجوں کے خلاف جھنڈا بلند کیا۔ اس مذہب کی سادگی‘ جمہوریت اور مساوات نے آس پاس کے ملکوں کے جمہور عوام کو بہت متاثر کیا۔ مطلق العنان شہنشاہ خودسر اور ظالم پیشوا عرصہ سے عوام کو کچل رہے تھے۔ وہ اس نظام سے تنگ آ گئے تھے اور انقلاب کے لیے بالکل تیار تھے۔ اسلام یہ انقلاب لے کر آیا اور وہ ان کے حق میں نعمت ثابت ہوا۔ کیونکہ اسلام کے ذریعہ طرح طرح کا انقلاب ہوا‘ بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو گیا‘ اسلام نے اگرچہ کوئی اتنا بڑا سماجی انقلاب تو نہیں برپا کیا کہ امیر غریبوں کو بالکل نہ لوٹ سکیں‘ لیکن اس لوٹ کو اس نے بہت کم کر دیا کہ سب ایک عظیم الشان برادری کے فرد ہیں۔ (واضح ہو کہ اس جملہ میں پنڈت جی کی اشتراکیت جھلکتی ہے۔ مرتب)

اسلام کو ماننے والے عرب اپنی بیداری کے ابتدائی دور میں جوشِ ایمانی سے سرشار تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اول درجے کے روادار تھے۔ ان کی مذہبی رواداری کی اتنی مثالیں موجود ہیں‘ جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔

بیت المقدس میں خلیفہ عمرؓ نے اس کا خاص ثبوت دیا۔ اسپین میں عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد تھی‘ جسے پوری طرح ضمیر کی آزادی حاصل تھی۔ اگرچہ ہندوستان میں سندھ کے علاوہ کہیں ان کی حکومت نہیں رہی۔ لیکن ہندوئوں سے اکثر ان کے معاملات رہتے تھے اور بڑے خوشگوار تعلقات رہے‘ سچی بات پوچھو تو یہ ہے کہ تاریخ کے اس دور کی خاص چیز یہی تھی۔ عرب مسلمان جتنے روادار تھے‘ یورپ کے عیسائی اتنے ہی متعصب تھے۔

عہدِ نبوی کے عربوں میں وہ عجیب و غریب طاقت اور زندگی تھی‘ جس کا شہنشاہوں کی فوجیں بھی مقابلہ نہ کر سکتی تھیں۔ وہ اپنے زمانہ میں دنیا کے اندر سرفراز اور سربلند تھے اور جب یہ آسمانی آندھی کی طرح اٹھتے اور طوفان کی طرح بڑھتے تو وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں اور فوجوں کے چھکّے چھوٹ جاتے تھے۔ یہ عام عرب عام انسانوں کی بہتری اور سماجی انقلاب کا پیغام لے کر آئے تھے‘ اس لیے سب ان کا خیرمقدم کرتے تھے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیداری‘‘۔ حیدرآباد۔ شمارہ۔ فروری ۲۰۰۶)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*