
تاریخ میں پہلی بار معاصر مسلم دنیا کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبی ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل ’اندھیری رات کے دوران‘ جو تقریباً دو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہو گئے جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً بارہ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار ہی میں مغرب سے درآمد شدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کا حصہ (White man’s burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فنِ تعمیر، غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔
نوآبادیاتی، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر ایک ’’بابو کلاس‘‘ پیدا کی گئی جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سائے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اَقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیرملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کی تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن اس ’’بابو طبقے‘‘ اور اس کے زیرِ اثر حلقوں نے مغربی اقدار ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا غیرشعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا۔ آزادی کے بعد ان ملکوں میں اقتدار بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آیا یا لایا گیا۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالمِ اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیرملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھا بلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور ہی کی پیداوار تھی۔ عالمِ اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جارہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورتِ حال ہے۔ جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں ہی سے اقتدار کی وراثت پائی ہے، اُن کی نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی سوچ عوام سے مختلف ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اَقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (عقائد)، اَقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔
تاریخ کا سبق بڑا ہی واضح ہے کہ مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی اُمنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیراسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جاسکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔
پروفیسر ویلفر ڈکینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورتِ حال کے حوالے سے نہایت دلچسپ بات کہی ہے: ’’کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں وہ جتنی جمہوری ہو گی، اُتنی ہی مغربی رنگ سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک بن جائے تو جس حد تک وہ جمہوری ہو گا، اُسی حد تک اسلامی بھی ہو گا‘‘۔
کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جوکسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (مسلم اُمّہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایسپوزیٹو اور وال بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات یعنی احیائے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بہت سے مسلم اسکالر اسلامی جمہوریت کی وضاحت میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ریاستوں میں مذہبی احیا اور جمہوری عمل ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔
حال ہی میں دو اسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکاٹوری نے ’’مسلم سیاست‘‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ: ’’مسلم سیاست کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے لیے ان چیلنجوں کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندِ جواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیرمذہبی منصفانہ حکومت کا تصور بھی متعین نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاثر کو دور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے‘‘۔
اسلام اور مسلم اُمّہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں میں جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا ان کی اُمنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اَقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں لیکن جمہوریت کی ان شاندار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور حقِ اختلاف کی ضمانت سے ہے۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہیں۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ چنانچہ استبداد اور جابرانہ حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، نام نہاد جمہوری ہو یا موروثی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور مسلم عوام کی مرضی، خواہشات اور اُمنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذِ اسلام میں ناگزیر پیشرفت ہے۔ اسلامی اُمنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالمِ اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یا سوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ جبکہ احیاے اسلام، آزادی جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلم اُمّہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنے اندازِ سیاست، اپنے تصورات، اُمنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم اُمّہ ایسے حکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں۔ اس کی اَقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگّا نہ کھاتے ہوں اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بل پر تکمیل خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوں گے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور)
Leave a Reply