قرآنِ حکیم کے مطابق انسان کی انسانیت کا انحصار دو باتوں پر ہے‘ ایک علم اور دوسرا روح۔ تخلیقِ آدم کے موقع پر خدا نے انسان کو ایک تو چیزوں کی ماہیت کا علم The Knowledge of the Nature of Things (علم الاسماء) سکھایا اور دوسرے انسان کو بنا سنوار کر اس میں اپنی روح پھونک دی۔ یہ دو خوبیاں یا صلاحیتیں خدا نے کسی امتیا زکے بغیر ہر انسان کے اندر امکانات کی صورت میں رکھ دی ہیں۔ ہر انسان اپنی توجہ‘ محنت اور استقلال سے انہیں اعلیٰ درجے تک لباسِ حقیقت پہنا سکتا ہے۔
ایک ٹھوس مادی دنیا میں رہتے ہوئے انسان فطرت کے رازوں کو آشکار کرکے اسی طرح اپنے سامنے سجدہ ریز کر سکتا ہے جیسے قصۂ آدم میں علم الاسماء جاننے والے آدم کے سامنے فرشتے سجدہ ریز ہوگئے تھے۔ اپنے اندر خدا کی پھونکی روح کو بیدار کرکے انسان فطرت کے ان تمام خزانوں کو‘ جو وہ اس کے علم کی بدولت اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتی ہے‘ خدا ہی کے رنگ میں خدا کی تمام تر مخلوق کی پرورش‘ نشوونما اور عروج کے لیے وقف کر سکتا ہے۔ جب انسان اپنے علم اور اپنی روح کو یوں ہم آہنگ کر لیتا ہے تو اس کی انسانیت کی تکمیل ہو جاتی ہے اور وہ اسلام کے صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
قرآنِ حکیم کے مطابق انسانیت وہ بنیاد ہے جس کے اوپر اسلام کے پانچ ستون۔۔۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور کلمہ کھڑے ہیں۔ ان پانچ ستونوں کے اوپر اسلام زندگی کی ایک متوازن عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق بسر ہونے والی زندگی میں یہ پانچ بڑے بڑے اصول کارفرما ہوتے ہیں‘ جنہیں ہم اسلام کی پانچ روحانی قدریں کہہ سکتے ہیں:
(۱)ایمان (۲)محبت (۳)خیر (۴)صداقت (۵)امن
قرآنِ حکیم کے مطابق خدا کے تمام پیغمبر ایک ہی دین لے کر آئے تھے اور اس دین کا نام اسلام تھا۔ خدا نے سختی سے حکم دیا کہ اس کے پیغمبروں میں فرق نہ کیا جائے۔ یہ پانچ اصول خداے واحد کے دینِ واحد کی جان ہیں اور خدا کے ہر پیغمبر کے پیغام کے بنیادی ارکان ہیں۔ البتہ زمان و مکاں کے فرق کے پیشِ نظر ہر پیغمبر کی شریعت یا نظامِ قانون (Legal System) الگ الگ تھا اور ہے‘ جس کی بنا پر اس کا الگ تشخص کیا جاسکتا ہے۔ اس الگ تشخیص کو مذہب کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا تمام پیغمبروں کا دین تو ایک ہی تھا مگر مذہب الگ الگ تھا۔ چونکہ اسلام سب پیغمبروں اور ان کی مقدس کتابوں کو مِن جانب اﷲ تسلیم کرتا ہے اس لیے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ تکثیر (Pluralism) اسلام کا لازمی جز ہے اور جس طرح خداے واحد تہذیبوں‘ ثقافتوں اور نسلوں کے فرق کے باوجود سب کا خدا ہے‘ اسی طرح اسلام کے دامن میں بھی ان سب کے لیے جگہ ہے۔
شرط صرف یہ ہے کہ اسلام کے دائرے میں آنے والے نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور کلمہ دین کا چہرہ سمجھیں اور لباس‘ حلیے‘ طرزِ رہائش‘ زبان اور علاقائی رسم و رواج کے ظاہری فرق کے باوجود ایمان‘ محبت‘ خیر‘ صداقت اور امن کی روحانی قدروں کو دین کی روح کے طور پر دل و جان سے اپنالیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ ’’مسلمان‘‘ وہی شخص ہو سکتا ہے جو ’’انسان‘‘ بھی ہو۔ کوئی شخص ایک اچھا انسان بنے بغیر ایک اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔ مسلمان کی زندگی کی عمارت کی پہلی منزل انسانیت ہے جس کے اوپر اسلام کی دوسری منزل تعمیر ہوتی ہے۔ دوسری منزل کا وجود اور استحکام پہلی منزل کے وجود اور استحکام پر منحصر ہے۔ اگر پہلی منزل موجود ہی نہ ہو تو دوسری منزل کا وجود ناممکن ہے۔ پہلی منزل کمزور ہو تو دوسری منزل ایک نہ ایک دن دھڑام سے گر جاتی ہے‘ خواہ اس کی تعمیر میں کتنے ہی نیک جذبات‘ محنت اور سرمایہ خرچ ہوا ہے۔
(محمد حنیف رامے کی تصنیف ’’اسلام کی روحانی قدریں‘‘ سے ایک اقتباس)
Leave a Reply