پوپ کی اسلام و رحمت اللعالمین ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائی

رومن کیتھولک صلیبی پوپ بینی ڈکٹ شانژدہم نے اپنے دورۂ جرمنی کے دوران یونیورسٹی آف ریجنز برگ میں طلبہ اور اسٹاف سے اپنے خطاب میں اسلام کے نظریۂ جہاد کو نشانۂ تنقید بناتے ہوئے اسے فطرت کے خلاف قرار دیا اور رسواے زمانہ خبیث ترین بازنطینی حکمران مینوئل ٹو کے نبی کریمﷺ کے بارے میں گستاخانہ کلمات کو دہرا کر رحمت اللعالمینﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا۔ عالمِ اسلام کی طرف سے شدید احتجاج پر اظہارِ افسوس کا جو بیان جاری کیا ہے‘ اس میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے کہا گیا ہے کہ مسلمان ’’اس کے بیان کے صحیح معنی سمجھیں‘‘ یعنی پوپ اس قدر چالاک و مکار ہے کہ اپنے اظہارِ افسوس میں بھی مسلمانوں ہی کو جاہل قرار دے رہا ہے جو اس کے الفاظ کے معنی نہیں سمجھ پائے۔

امریکی صدر بش کی طرف سے نائن الیون کے بعد اپنی اہم ترین تقریر میں مسلمانوں کے خلاف ’’کروسیڈ‘‘ پھر امریکا اور یورپ کے کئی پادریوں کی طرف سے نبی کریمﷺ کی کردار کشی کی مہم‘ گذشتہ سال ڈنمارک کے کارٹونسٹوں کی توہین رسالت مہم اور اب کیتھولک پوپ کی طرف سے توہین رسالت کی نئی تحریک نے کوئی ابہام نہیں چھوڑا ہے کہ اہلِ صلیب اور ان کے اتحادیوں کی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ درحقیقت اسلام کے خلاف صلیبی جنگ ہے۔ اب بھی اگر کسی مسلمان کو شک ہے کہ یہ صلیبی جنگ نہیں تو وہ اپنے دماغ کی خرابی کو درست کرائے اور ایمان کا جائزہ لے۔

اس سے قبل کہ ہم پوپ کے بیان ’’اسلام کا تصورِ جہاد خدا کے مقاصد کے برعکس ہے اور اسلام تلوار کی نوک کے ذریعہ پھیلایا گیا۔ مسلمان وحشیانہ پن کے اندھیرسے باہر نکلیں‘‘ کا جائزہ لیں‘ یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے مطالعہ و تحقیق کے مطابق پوپ اور موجود عیسائیت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ لوگ سینٹ پال کے مذہب کے پیروکار ہیں اور جس طرح قادیانی فریب دینے کے لیے اپنا تعلق نبی کریمﷺ سے جوڑتے ہیں‘ بالکل اسی طرح سینٹ پال کے پیروکار اپنی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑ رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے سچے پیروکار صرف مسلمان ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’عیسائیت‘‘ نامی کسی مذہب کے بانی اور پیغمبر نہ تھے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمان تھے اور ان کا شمار پیغمبرانِ اسلام میں ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا عیسائیت الٰہی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ پیشہ ور پادریوں کا خود ساختہ مذہب ہے۔

پاپائیت کی تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو شاذ و نادر ہی کسی پوپ کا کردار قابلِ احترام ہو گا مگر اس کے باوجود ہم مسلمان صلیبیوں کے اس مذہبی عہدیدار یعنی پوپ کا احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔ مسلمانوں کے لٹریچر میں پوپوں اور پادریوں کے گھنائونے اور مکروہ کردار کا اگر ذکر ملتا بھی ہے تو وہ صلیبیوں کے ذرائع ہی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان میں زیرِ پابندی دو کتب ’’اف یہ پادری اور پادریوں کے کرتوت‘‘ کی ورق گردانی کر لیں‘ کم و بیش ۹۰ فیصد مواد صلیبی میڈیا سے لیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ صلیب کے مذہبی رہنما بڑی تعداد میں ’’جنسی دہشت گرد‘‘ ہیں۔ یہی جنسی دہشت گرد اسلام جیسے دینِ فطرت اور اس کے نظریۂ جہاد کو نشانۂ تنقید بنا رہے ہیں کیونکہ اسلام جنسی دہشت گردی کو ایک شیطانی فعل گردانتا ہے اور اس کے خلاف جہاد کا حکم دیتا ہے۔

ذیل کی سطور میں جاہل پوپ کے اس بیان کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ ’’اسلام تلوار کی نوک سے پھیلایا گیا‘‘۔ قرآن مجید اسلام کی بنیادی کتاب ہے اور اس کتاب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘ (البقرہ:۲۵۶)۔ مزد فرمایا: ’’فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر یعنی اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر پر قائم رہے‘‘ (الکہف:۲۹)۔ سورۂ یونس میں ارشاد فرمایا: ’’اگر اﷲ چاہتا تو زمین کے جتنے رہنے والے ہیں‘ سب کے سب ایمان لے آتے‘ کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ مومن بن جائیں‘‘۔ سورۂ ق میں فرمایا ’’تو ان کو (قبولِ ہدایت پر) مجبور کرنے والا نہیں ہے جو کوئی اﷲ کی وعید سے ڈرنے والا ہو اس کو قرآن کی نصیحت کیے جا‘‘۔ سورۃ الغاشیہ میں فرمایا: تو نصیحت کیے جا کیونکہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے‘ تو ان پر داروغہ نہیں ہے‘‘۔ سورۃ الرعد میں فرمایا: ’’تیرے اوپر پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینے والے ہم خود ہیں‘‘۔

قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملتی جس میں کسی کافر کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیے کہا گیا ہو بلکہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اگر (لڑائی میں) کوئی مشرک تجھ سے پناہ کا طالب ہو تو اس کو پناہ دے یہاں تک کہ وہ اﷲ کا کلام سن لے‘ پھر اس کو وہاں پہنچا دے جہاں وہ بالکل بے خوف ہو کر رہ سکے کہ یہ لوگ بے علم ہیں‘‘ (التوبہ:۶)۔ سیرت پاک رسولﷺ میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ملتی کسی مسلمان سے کہا ہو کہ وہ کافروں کو بزور شمشیر مسلمان بنائے۔ غزوۂ خیبر کے دوران جب آپﷺ نے حضرت علیؓ کو علَم عطا فرمایا تو حضرت علیؓ نے پوچھا: ’’کیا یہودیوں کو لڑ کر مسلمان بنا لیں؟‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’نرمی کے ساتھ ان کے سامنے اسلام پیش کرو‘‘۔ اسلام تو باپ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی اولاد کو جبر و تشدد کر کے مسلمان بنائے۔ محمد ابن اسحاق نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص کے دو بیٹے نصرانی تھے۔ اس نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے بیٹے نصرانیت چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے‘ کیا میں انھیں مجبور کر سکتا ہوں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ دین میں جبر نہیں۔نبی کریمﷺ نے ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہما کو یمن بھیجا تو فرمایا: نرمی کرنا سختی نہ کرنا‘ خوش کرنا نفرت نہ دلانا‘‘۔ مکہ کے موقع پر کسی کو قبولِ اسلام پر مجبور نہ کیا گیا۔ قبیلہ بنی جذیمہ میں حضرت خالدؓ نے جب رسولِ اکرمﷺ کی اجازت کے بغیر کشت و خون کیا تو آپ نے علانیہ اظہارِ برأت کیا اور اس قبیلہ کے کتوں تک کی دیت ادا کی۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا غلام اسبق بیان کرتا ہے کہ میں عمرؓ بن خطاب کا نصرانی غلام تھا‘ آپ مجھے اسلام کی دعوت دیتے تھے مگر میں انکار کر دیتا تھا۔ اس پر آپ فرماتے: ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ پھر کہتے ’’اے اسبق! اگر تو اسلام قبول کر لیتا تو ہم تجھ سے مسلمانوں کے کاموں میں مدد لیتے‘‘۔

اس کے مقابل عیسائی تعلیم کا بھی ایک نمونہ ملاحظہ فرمالیں‘ انجیل لوقا میں عیسائیوں کے پیغمبر فرماتے ہیں: ’’میں زمین پر آگ بھڑکانے آیا ہوں اور اگر لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا لیکن مجھے ایک بپتسمہ لینا ہے اور جب تک وہ نہ ہو لے میں بہت ہی تنگ رہوں گا۔ کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں‘ میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں بلکہ جدائی کرانے‘‘ (لوقا باب۱۲‘ آیات:۴۹ تا ۵۱)۔ ابرہہ سے لے کر بش تک عیسائیت اسی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔ آج جو پورا کرۂ ارض آگ میں جل رہا ہے‘ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے۔

اسلام اور تلوار کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے تھامس کارلائل (Thomas Carlyle) نے لکھا ہے: ’’محمدﷺ کے تلوار کے زور پر اپنے دین کی اشاعت کرنے کا بہت چرچا کیا گیا ہے‘ تلوار۔۔۔ مگر تم کو تلوارملے گی کہاں؟ ہر نیا خیال اپنی ابتدائی منزل میں ایک اقلیت میں ہوتا ہے‘ وہ صرف ایک ہی شخص کے ذہن میں نشوونما پاتا ہے‘ دنیا بھر میں صرف ایک ہی شخص اس پر یقین رکھتا ہے اور تنہا وہ ایک شخص تمام اشخاص کے مقابل ہوتا ہے۔ اس شخص کا تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اشاعت کرنے لگنا کچھ بھی مفید نہ ہو سکے گا‘‘۔

معروف جرمن اسکالر مراد ہوف مین لکھتا ہے: ’’عیسائی اسلام کو ایسا مذہب سمجھتے ہیں جو بزور شمشیر پھیلا‘‘۔ حجاز سے قسطنطنیہ تک‘ انڈیا اور وسطی فرانس تک اسلام ناقابلِ یقین سرعت کے ساتھ پھیلا تھا‘ اس پر غور کرنے کی ضرورت تھی جو انھوں نے نہیں کیا۔ عیسائی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اسلام تو ان لوگوں کے لیے نجات دہندہ بن کر آیا جو ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مٹھی بھر پسماندہ عربوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو کیسے فتح کر لیا تھا؟ مگر اس پر غور کرنا چھوڑ کر عیسائیوں نے آج تک وہی من گھڑت کہانی دہرانے پر زور دیا ہوا ہے کہ ’’اسلام آگ اور تلوار سے پھیلا‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے: ’’بہادری‘ شجاعت اور بردباری کا جو مظاہرہ صلاح الدین ایوبی کر رہا تھا‘ وہ دشمن کے لیے باعثِ حیرت تھا۔ اس نے ان پر یہ ثابت کر دیا کہ اگر کوئی وحشی‘ بے رحم اور سفاک ظالم ہو سکتا ہے تو وہ خود عیسائی ہیں‘‘ (اسلام:۲۰۰۰ء)۔

تاریخِ اسلام سے کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ مجاہدینِ اسلام نے کسی کو تلوار کی نوک پر مسلمان بنایا ہو۔ ویسے بھی یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ تلوار ملکوں کو فتح کرتی ہے‘ اذہان کو نہیں۔ بالفرض مستشرقین اور پوپ کا یہ نظریہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یورپ‘ افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک پر حملہ اور مسلمان جرنیلوں کی وجہ سے اسلام کو فروغ ملا تو بتایا جائے کہ آج امریکا و یورپ میں ہر سال جو ہزاروں افراد اسلام قبول کر رہے ہیں‘ یہ کس مسلم جرنیل کے حملہ کا نتیجہ ہے۔ مزید یہ کہ سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا اور اس کے قرب و جوار کے مسلم علاقوں پر تو کوئی مسلم جرنیل حملہ آور نہ ہوا تھا۔ قفقاز قوم کے اسلام قبول کرنے کے پس منظر میں بھی کسی مسلم حملہ آور کے جبر کا ذکر نہیں ملتا۔ منگول جو اپنے دور کی سپر پاور تھے اور مسلم دنیا کو تاخت و تاراج کر چکے تھے‘ سوال یہ ہے کہ انھوں نے کس تلوار کے خوف سے اسلام قبول کیا۔ بربر قوم کی مثال بھی موجود ہے‘ ان کے اسلام قبول کرنے میں بھی وعظ و تبلیغ ہی کا دخل تھا۔

اس وقت تو دنیا پر صلیبی سپر پاور کا تسلط ہے اور دیگر بڑی طاقتیں بھی اسلام سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں رکھتیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی صلیبیوں اور صیہونیوں کا موثر کنٹرول ہے‘ ان ذرائع ابلاغ سے اسلام کے خلاف زبردست مہم جاری ہے اور اسلام کا چہرہ بری طرح مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ ماضی میں صلیبیوں نے ظلم کی من گھڑت داستانیں اگر مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کی بنیاد بنائی تھیں تو آج بھی ان کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑ کر دنیا کو اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عیسائیوں کو نہ صرف عالمی سطح پر سیاسی اقتدار حاصل ہے بلکہ سائنس سمیت دیگر ہر قسم کے علوم میں بھی انہی کی برتری ہے۔ جدید ترین اسلحہ (یعنی طاقت کی تلوار) بھی انہی کے پاس ہے جب کہ مسلمانوں کو کرۂ ارض کے ہر خطہ میں بدترین مظالم کا سامنا ہے۔ افغانستان‘ عراق‘ کسووا‘ بوسنیا‘ چیچنیا‘ اراکان‘ فلسطین‘ کشمیر‘ سنکیانگ‘ بنگشا مورو غرضیکہ ہر جگہ مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے۔ امریکا‘ یورپ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کو لامتناہی مسائل اور امتیازی قوانین کا سامنا ہے۔ بعض مسلمان ملکوں میں بھی بعض اسلامی شعائر پر پابندی ہے مثلاً ترکی میں حجاب پہننا اور داڑھی رکھنا مشکل بنا دیا گیا ہے اور یہ معاملہ صرف ترکی تک محدود نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں عیسائی مشنریوں کو ہر ملک میں سہولتیں میسر ہیں اور وہ کھربوں ڈالر کے بجٹ کے ساتھ دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس مادہ پرست دور میں لالچ انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور عیسائی مشنریوں نے دنیا کے ہر خطہ میں لالچ کے جال پھیلائے ہوئے ہیں‘ اس کے باوجود نو عیسائیوں کی نسبت نومسلموں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ بھارت میں ہندو مت اور میانمار (برما) میں بدھ مت کو بندوق کی نوک پر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید ہی کوئی غیرمسلم ملک ہو گا جہاں مسجدوں کو شہید یا نذرِ آتش یا نقصان نہیں پہنچایا جارہا ہے‘ اس کے باوجود اسلام کے پھیلاؤ کی رفتار سب سے تیز ہے۔ امریکا جسے صلیبی دنیا میں ’’صلیبی خلیفہ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے اور جو اس وقت اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر میدان میں ہے‘ وہاں بھی اسلام دیگر مذاہب کی نسبت کہیں زیادہ تیز تر رفتاری سے پھیل رہا ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں کرۂ ارض پر مسلمانوں کی تعداد میں ۲۳۵ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ عیسائیت میں صرف ۴۷ فیصد۔ اس نصف صدی میں تو طاقت کی تلوار عیسائیت کے ہاتھ میں رہی ہے‘ پھر مسلمان ۵ گنا زیادہ رفتار سے کیوں بڑھے؟

محمد علی کلے‘ مائیک ٹائی سن‘ سنوکر کے عالمی چمپئن رونی اوسلیون‘ معروف اسکالر علامہ اسد‘ مارٹن لنگز‘ محمد مارما پکتھال‘ رینے گینوں‘ کیٹ اسٹیون‘ لارڈ بروٹن‘ امریکی ریاضی دان ڈاکٹر جیفری‘ ڈاکٹر جیری میللر‘ روسی پادری اور رکن پارلیمنٹ ویا شسلف پولوسن‘ جارج اشتون‘ معروف باکسر ڈینی ویلیمز‘ معروف خاتون صحافی ریڈلی اور دیگر بیسیوں بڑی بڑی شخصیتیں صلیبی عروج کے زمانے میں صلیبی ممالک ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئی ہیں‘ انھیں کس تلوار نے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح ہندوؤں میں بڑی بڑی جو شخصیتیں مسلمان ہوئی ہیں‘ وہ انگریز کے دور میں ہوئیں یا پھر ہندو کے اپنے اقتدار میں۔ اسپین میں گذشتہ چند برسوں میں ۲۰ ہزار عیسائیوں نے اور برطانیہ میں ۱۴ ہزار عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ہے‘ ان کی گردن پر تو کسی مسلمان کی تلوار نہ تھی۔ اہلِ صلیب اور دیگر اسلام دشمن عناصر کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اسلام کسی تلوار کے زور سے نہیں‘ اپنی حقانیت کے باعث آگے بڑھ رہا ہے اور اسی دین میں بنی نوع انسان کی نجات ہے۔ جرمن اسکالر ڈاکٹر مراد ہوف مین کی یہ پیش گوئی کہ ’’اسلام مزید پھیلے گا، فروغ پائے گا اور دھماکے سے پھٹنے جیسی کیفیت (یعنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اسلام قبول کرنے) سے گزرے گا‘‘ جلد پوری ہونے والی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اﷲ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اﷲ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا‘ خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

اہلِ اسلام اور اہلِ صلیب کی پُرتشدد کارروائیوں کا بھی جائزہ لے لیں۔ نبی کریمﷺ کی زندگی میں ہونے والی چھوٹی بڑی ۸۲ لڑائیوں میں کل ۲۵۹ مسلمان شہید اور ۷۵۹ مخالفین مارے گئے یعنی کل ۱۰۱۸ انسان کام آئے۔ اس کے بالمقابل اہلِ صلیب کی جنگوں کو دیکھ لیں‘ جنگِ عظیم اول میں صرف افواج سے وابستہ مرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ‘ ۵ لاکھ باسٹھ ہزار بتائی جاتی ہے اور جنگِ عظیم دوم میں ہلاک شدگان کی تعداد ۵ کروڑ ۴۸ لاکھ ۸۰ ہزار ہے۔ مشہور امریکی میلکم ایکس کے مطابق غلاموں کی تجارت کے دوران امریکا اور یورپیوں نے ۱۰۰ ملین سیاہ فاموں کو قتل اور ۱۵ ملین کو غلام بنایا۔ امریکا میں صلیبیوں کی آمد سے قبل اصل امریکیوں کی آبادی تقریباً ۷ کروڑ تھی۔ ان میں سے بچنے والوں کی تعداد ایک کروڑ بھی نہیں بنتی‘ باقی سب کو اہلِ صلیب نے قتل کر دیا۔ اہلِ یورپ کی باہم لڑائیوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ گذشتہ صدی میں فلپائن میں ۵ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو صلیبیوں نے قتل کیا۔ پندرہ لاکھ افغانیوں‘ ۲۰ لاکھ عراقیوں‘ تین لاکھ سے زیادہ بوسنیا کے مسلمانوں‘ کئی لاکھ چیچن مسلمانوں کے قاتل کون ہیں؟ صرف عیسائی۔ روس کے آرتھوڈکس عیسائیوں نے گذشتہ صدی میں ۵۰ لاکھ تا ایک کروڑ مسلمانوں کو شہید اور ہجرت پر مجبور کیا اور ۳۰ ہزار سے زیادہ مساجد کو شہید کیا۔ افریقہ پر قبضہ کے دوران بزور بندوق مسلمانوں کو عیسائی بنایا اور انکار کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کو گولی سے اڑا دیا۔ اسپین میں صلیبیوں کی ایمانی عدالتوں اور پادریوں نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے‘ کیا کوئی انسان انھیں پڑھنے کی ہمت رکھتا ہے۔ صلیبی جنگوں میں ۶۰ لاکھ انسانوں کا خون کس کے سر ہے۔ پوپ اربن دوم اور اس کے ساتھیوں کے سر۔ ایلسلو اڈور‘ مشرقی تیمور‘ صومالیہ‘ پانامہ‘ چلی‘ ویتنام‘ کمبوڈیا‘ کوریا اور کئی دیگر ممالک میں لاکھوں انسانوں کا قاتل کون ہے؟ صلیبیوں کا مذہبی رہنما پوپ۔ گیس چیمبرز‘ اذیتی کیمپ اور اجتماعی قبروں کے خالق کون ہیں؟ صرف صلیبی۔ صرف گذشتہ دو دہائیوں میں لاکھوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کن دہشت گردوں نے کی‘ صرف صلیبی دہشت گردوں نے جنہیں پوپ کی حمایت حاصل تھی۔ چیچنیا‘ افغانستان‘ عراق‘ فلسطین‘ صومالیہ وغیرہ میں ہزاروں دیہات اور شہروں کو کھنڈر میں کس نے بدلا؟ صلیبیوں نے۔ انڈونیشیا اور کئی افریقی ممالک میں انسانی گوشت کن لوگوں نے کھایا؟ صرف صلیبیوں نے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوعمر لڑکوں اور عبادت گزار ننوں (راہبہ) کو جنسی دہشت گردی کا نشانہ کس نے بنایا؟ صرف پادریوں نے۔ اگر پوپ میں اور اس کے پیروکاروں میں رتی برابر بھی شرم‘ انسانیت اور غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تو بحرِ مردار میں جا کر خودکشی کر لیتے۔

حضرت اسامہ‘ ملا عمر‘ زرقاوی شہید‘ حسن نصر اﷲ‘ اسلان مسخادوف‘ زیلم خان اور دیگر مجاہدین کی کارروائیوں میں مرنے والوں کے اعداد و شمار بھی نوٹ کر لیں‘ ان کارروائیوں کے اعداد و شمار بھی ان میں جمع کر لیں جو سی آئی اے‘ کے جی بی اور موساد نے کر کے مجاہدین کے کھاتے میں ڈالی ہیں‘ پھر بھی مرنے والوں کی تعداد چند ہزار سے آگے نہیں بڑھے گی‘ دوسری طرف اہلِ صلیب کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ حالات و واقعات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑے دہشت گرد صلیبی ہیں اور ان کا سرپرست پوپ ہے۔ اگر کسی مذہب نے دہشت گردی کو منظم کیا ہے اور اسے ریاستی تحفظ بھی دیا ہے تو ابرہہ سے لے کر بش تک کی تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ یہ مذہب صرف اور صرف اہلِ صلیب کا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو ہمارا چیلنج ہے کہ کسی بھی عالمی پلیٹ فارم پر مکالمہ کر لو۔

(بحوالہ اداریہ ‘ ماہنامہ ’’خطیب‘‘ لاہور۔ شمارہ: اکتوبر ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*