فلسطین، کشمیر، فلپائن، صومالیہ، بوسنیا ہرزیگووینا اور چیچنیا، عراق، افغانستان اور پاکستان غرضیکہ عالمِ اسلام کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کا خون جیسے کسی صلیبی جنگ میں بہایا جا رہا ہے۔ موجودہ دفاعی جنگوں کو احیائی تحریکوں کی بجائے آزادی کی جنگیں کہنا چاہیے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد چیچنیا کو روس اپنے قبضہ اقتدار میں رکھنے کے لیے اپنی پوری عسکری قوت استعمال کر رہا ہے۔ یہاں ’’احیائی تحریکوں‘‘ کے اس سلسلے کے تحت اسلامی جمہوریہ چیچنیا کے امن پسند مسلم عوام کی تحریک آزادی کی بجائے اس عجیب و غریب ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے عام حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اس لیے کہ چیچنیا کے بارے میں اہلِ پاکستان کو معلومات کم حاصل ہیں۔
چیچنیا قفقاز کے شمال مشرق میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ آزادی کے اعلان سے قبل چیچنیا اور انگوشیا ایک ہی ملک تھے لیکن روس نے سازش کے تحت انگوشیا کو الگ کر دیا تاکہ چیچنیا کی افرادی قوت کم ہو جائے اور یہاں کے مجاہدین پر قابو پانا آسان ہو جائے۔ اس کا رقبہ تیرہ ہزار تین سو مربع کلومیٹر ہے۔ ۱۹۹۱ء کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی کل آبادی پندرہ لاکھ سے زیادہ تھی جس میں دس لاکھ مسلمان، تین لاکھ روسی، ایک لاکھ انگوشی، ۴۱ ہزار آرمینی، ۳ ہزار داغستانی، ۵۱ ہزار تاتاری، ۴ ہزار ترک اور ۵ ہزار یہودی آباد تھے۔ اس کے شمال مشرق میں داغستان، شمال مغرب میں اوستینیا اور انگوشیا اور جنوب میں جارجیا واقع ہے۔ دینی اعتبار سے یہاں کے باشندے حنفی مسلک کے ماننے والے راسخ العقیدہ سُنّی مسلمان ہیں۔ کمیونسٹ حکومت قائم ہونے کے بعد روس نے دیگر مسلم علاقوں کی طرح یہاں بھی مسلمانوں کی عملی زندگی سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اسلامی عبادات و شعائر کی ادائیگی، اسلامی روایات کی پابندی، عربی زبان، یہاں تک کہ عربی حروفِ ابجد کو بھی قانوناً ممنوع قرار دیا گیا۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود یہاں کے مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ دین اسلام سے اپنا رشتہ قائم رکھا، بلکہ خفیہ طور پر نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام کیا کہ اُن کے ذہنوں میں دینِ اسلام کی عظمت اور اسلامی تہذیب کی بالادستی رَچ بس گئی اور یہ اُن مخلص اور دور اندیش مسلمان بزرگوں ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ نئی نسل الحاد و گمراہی اور اباحیت زدہ تہذیب میں ضم ہو جانے سے محفوظ رہ گئی۔
اسلام کا ورود
چیچنیا تک اسلام کی دعوت پہلی صدی ہجری کے دوران ہی پہنچ گئی تھی اور حضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں اس ملک پر اسلامی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ ۱۸ ہجری میں آذربائیجان کو فتح کرنے کے لیے عتبہ بن ابی فرقدؓ اور بکیر بن عبداللہؓ دونوں کی قیادت میں الگ الگ فوجیں روانہ ہوئیں۔ ایک لشکر حلوان سے داخل ہوا جبکہ دوسرا لشکر موصل سے داخل ہوا اور یہ دونوں فوجیں خلیفہ ثانی کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آذربائیجان کو فتح کر کے اسلامی مملکت کے دائرے میں داخل کرانے میں کامیاب ہوئیں۔
اس کے بعد خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ نے سراقہ بن عمرؓ کو ایک عظیم اسلامی لشکر کے ساتھ باب الابواب ’’دربند‘‘ کی مہم پر روانہ کیا اور اللہ کے فضل سے یہ علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔ پھر سراقہ بن عمرؓ نے گردو نواح کے علاقے فتح کرنے کے لیے اپنی ٹکڑیاں روانہ کیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شروان، داغستان اور آس پاس کے ملکوں پر فتح نصیب کی اور یہ تمام ممالک اسلامی خلافت کے دائرے میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد یہ فوجیں چیچنیا کی طرف بڑھیں اور اسے ۱۹ ہجری ۶۴۰ء میں فتح کر لیا (یعنی سندھ و ہند سے بھی پہلے)
اپنی روایات کے مطابق مسلم فاتحین نے اس علاقے میں بھی علما و مبلغین کی ایک جماعت چھوڑی تاکہ نو مسلموں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور قرآن کی تلاوت کرنا سکھائیں اور وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں، مساجد و مدارس قائم کریں تاکہ اس ملک میں اسلامی تہذیب و تمدن کی روشنی پھیلے۔
تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ (۲۳ تا ۳۵ھ) کے عہد میں اللہ تعالیٰ نے سراقہ بن عمرؓ کی قیادت میں مسلمانوں کو آرمینیا کے شہر لان اور تفلیس پر فتح نصیب کی۔ پھر اس مسلم کمانڈر سراقہ نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے قرب و جوار کے ممالک کو بھی فتح کر لیا اور فتوحات کا یہ سلسلہ مغرب کے ساحلی علاقوں میں بحرِ قزوین تک پہنچ گیا۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد یہاں کے لوگ مرتد ہونے لگے تو حضرت عثمان غنیؓ نے شام کے گورنر حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان کو ان کی سرکوبی کی ذمہ داری سپرد کی تو حضرت معاویہؓ نے حبیب بن مسلم کی قیادت ایک عظیم لشکر کو ان ممالک کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ ان مرتدین کا قلع قمع کر کے یہاں اسلام کی بالادستی قائم کریں۔ تفلیس میں اسلامی فوج نے داخل ہوتے ہی وہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ شفقت، محبت اور نرمی کا برتائو کیا۔ ان کی ہر طرح سے دل جوئی اور خبر گیری کی اور اپنے حُسنِ سلوک سے یہاں کے عوام کا دل جیت لیا اور یہاں کی اکثریت برضا و رغبت حلقۂ بگوش اسلام ہو گئی۔
حضرت علیؓ بن ابی طالب کے دورِ خلافت میں سعید بن ساریہ خزاعی اور اشعب بن قیس کندی بالترتیب آذربائیجان کے گورنر مقرر ہوئے۔ حضرت علیؓ نے سوچا کہ آذربائیجان کو صرف فتح کر لینے ہی سے وہاں اسلام کی جڑیں مضبوط نہیں ہوں گے اگر فتح کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جائے تو کچھ دنوں کے بعد ارتداد کا سلسلہ پھر اُبھر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت کو مستقلاً آباد کیا جائے جو نومسلموں کی دینی تربیت کے علاوہ تبلیغ و دعوت کا فریضہ بھی انجام دے۔ چنانچہ عرب مسلمان آذربائیجان میں آباد ہو گئے۔ وہاں انہوں نے مسجدیں تعمیر کیں۔ مصر اور شام سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہجرت کر کے ان علاقوں میں آباد ہو گئی اور پھر ان لوگوں نے یہاں بہتر انداز میں اسلام کی نشرو اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آذربائیجان کے بعد قفقاز کے بیشتر علاقے بھی اس حکومت کے دائرے میں آ چکے تھے۔ یہ جارجیا، آرمینیا اور چیچنیا کے علاقے تھے۔
اُموی دورِ حکومت میں ولید بن عبدالملک (۸۶۔۹۰ھ) نے اسلامی فتوحات کا سلسلہ بڑھاتے ہوئے وسط ایشیا اور قفقاز کے علاقے کے باقی ماندہ ممالک کو فتح کرنے کے لیے فوجوں کو روانہ کیا۔ اسلامی فوجوں کا ان ممالک کے باشندوں کے ساتھ سلوک نہایت مشفقانہ اور مساویانہ رہا، جس کی بدولت یہاں کے باشندے اسلام سے قریب ہونے لگے بلکہ بعض عدل پسند غیر متعصب عیسائی خاندانوں نے بھی بازنطینی حکمرانوں کے بالمقابل مسلمانوں کا ساتھ دیا۔
خلافتِ عباسیہ (۱۳۲۔۶۵۶ھ) نے بھی بلادِ قفقاز میں اسلام کی نشر و اشاعت کی طرف پوری توجہ دی۔ علماء اور مبلغین کی جماعتوں کو ان ممالک میں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے بھیجا، تاکہ وہ یہاں کے مقامی باشندوں کو اسلام کی تعلیمات دیں اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ چیچنیا کے باشندوں کی اکثریت بھی اپنا پرانا مذہب ترک کرتے ہوئے دینِ اسلام میں داخل ہو گئی۔ چیچنیا اموی دورِ حکومت کے اخیر میں اسلامی حکومت کا تابع ہو چکا تھا۔ عباسی دور میں یہاں مسلمانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا اور یہ اسلامی مملکت کا ایک اہم ملک بن گیا۔
عباسی حکومت جب زوال و ضعف کا شکار ہوئی تو قفقاز کے ممالک نے اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان شروع کر دیا۔ سب سے پہلے تفلیس اور نجارنی میں آزاد حکومتیں قائم ہو گئیں۔ پھر جب سلجوقیوں کا غلبہ ہوا تو قفقاز پر پانچویں صدی ہجری کے آخر تک ان کا تسلط قائم رہا۔ پھر جب سلجوقیوں کی حکومت کمزور ہوئی تو شمال کے عیسائیوں نے تفلیس پر پھر سے اپنا تسلط قائم کر لیا۔ یہ صورت حال یونہی چلتی رہی یہاں تک کہ منگولوں نے پورے عالمِ اسلام پر قبضہ کر لیا اور اپنی سفاکیت اور وحشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے ملک میں ہلاکت و بربادی کا بازار گرم کر دیا۔ ۶۵۶ء میں بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد بلادِ قفقاز کا رُخ کیا۔ منگولوں نے یہاں بھی انسانیت سوز وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کیا۔
جب منگولوں کی انتقامی و تخریبی کارروائیوں کا طوفان کچھ تھم گیا اور انہوں نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کچھ نرمی کا برتائو کیا تو پھر اسلام، عیسائیت اور بودھ مذہب کے ماننے والوں نے ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مبلغین اسلام کو اس ضمن میں کامیابی ملی اور وہ منگولوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلام کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہو گئے اور رفتہ رفتہ وہ اسلام دشمن کی بجائے اسلام دوست بلکہ اسلام کے مبلغ بن گئے۔ جب چنگیز خان کو اپنی موت کے قریب آنے کا احساس ہوا تواس نے اپنی تاتاری حکومت کو اپنے چاروں بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔
۱۔ اجتائی: اس کے حصے میں مملکت کا مشرقی حصہ آیا جس میں چین اور اس کے اطراف شامل تھے۔
۲۔ چغتائی: مملکت کے وسطی حصے کا مالک بنا۔
۳۔ باتوبن جوبی: اس کے حصے میں مغربی حصے کی بادشاہت آئی۔
۴۔ تولوی: اس کے حصے میں بلادِ فارس آیا جس کے اندر آگے چل کر ہلاکو خان نے ایشیا کے بڑے حصے کو شامل کر لیا۔
مملکت کے جنوبی حصے یعنی آذربائیجان کے علاقے پر تسلط کے لیے ان بھائیوں کے درمیان کشمکش ہوئی، جس نے منگولوں کی طاقت کو کمزور کر دیا اور پھر یہ وسیع سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو گئی۔ پھر ان کے درمیان قفقاز کے علاقے پر تسلط کے لیے بھی جنگ ہوئی اور ایک زمانے تک یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بنا رہا۔ یہاں تک کہ عثمانی سلطنت کے قیام کے بعد یہ سلسلہ بند ہوا اور یہ پورا علاقہ عثمانی سلطنت کے دائرے میں آ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مملکت کے دائرے کو وسیع کرنے اور ہر طرح سے اسلام کی مدافعت کرنے پر عثمانی حکومت کا اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام عثمانی خلافت کو ختم کرنے کے درپے ہو گئے۔ چیچنیا اور بلادِ قفقاز بھی عثمانی سلطنت میں شامل ہو گئے۔ عثمانی سلطنت کی بھی یہ پالیسی رہی ہے کہ جب بھی انہوں نے کسی علاقے کو فتح کیا تو تعلیم و تربیت کی غرض سے وہاں جید علماء کی جماعت کو بھیجنے کا اہتمام کیا تاکہ اس علاقے میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل سکے۔ اسی طرح عثمانی سلاطین کی یہ روایت بھی رہے کہ انہوں نے جس کسی ملک کو فتح کیا تو وہاں مساجد و مدارس کا جال بچھا دیا، جہاں اسلامی علوم و فنون کے ساتھ سائنسی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
روس اور مغربی ممالک کو اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی اور اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی غرض سے ان علاقوں میں عیسائی مشنری بھیجنا شروع کیے۔ لیکن مغرب کی یہ کوششیں بار آور نہ ہوئیں۔ عثمانی سلاطین نے مسیحیت کو پھیلنے سے روک دیا، بلکہ اُلٹا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض عیسائی قبائل بھی اسلام کے دائرے میں آ گئے۔
لیکن روس چیچنیا میں عیسائیت کو فروغ دینے کی کوششوں سے باز نہیں آیا، بلکہ عسکری اور فوجی مہمات کا سلسلہ بھی جاری کردیا۔ چنانچہ روس نے ۱۸۵۰ء میں چیچنیا پر پوری طرح قبضہ کر لیا، اُس نے طاقت کے زور پر حکومت شروع کی۔ چونکہ یہاں کے عوام کی اکثریت مسلمان تھی اس لیے اسلام اور مسلمانوں پر طر ح طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں اور مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ چیچنیا کے شہروں اور دیہات میں موجود تمام مساجد کو مسمار کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر دارالسلطنت غروزنی سے قریب ایک شہر بریفوردنی میں متعدد مساجد، خانقاہوں اور اجتماعی عبادت کے دیگر مقامات کو روسی حکومت نے بند کر دیا۔ مساجد اور مدارس کو بند کرنے اور ان کو مسمار کرنے کا یہ سلسلہ ۱۹۴۳ء تک چلتا رہا انہوں نے یہاں کے اصل باشندوں کو سائبیریا ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن مساجد کی تالابندی اور جبری جلاوطنی نے چیچنیا کے مسلمانوں کے عقائد میں کوئی کمزوری پیدا نہیں کی، بلکہ اُن کی ایمانی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ ان لوگوں نے اپنے دینی عقائد اور اسلامی شعائر کی حفاظت کی۔ روسی حکمرانوں نے جب یہ دیکھا کہ اس طرح کی تادیبی کارروائیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا تو انہوں نے یہاں کے جلاوطن (مہاجر) باشندوں کو ۱۹۷۸ء میں وطن واپس آنے کی اجازت دے دی لیکن اُس وقت یہاں پورے ملک میں کوئی ایک مسجد بھی نہیں رہ گئی تھی۔
۱۹۷۸ء میں سائبیریا کی جبری جلا وطنی سے واپس آنے کے بعد مسلمانوں نے ازسرنو مساجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔ انتہا پسند اشتراکیت نے جن مساجد کو مسمار کر دیا تھا ان کو ازسرنو تعمیر کیا گیا۔ وہ پھر اپنے علماء کے گرد جمع ہونے لگے جنہوں نے حکومت کے مظالم کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلامی کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ روسی حکومت نے صوفیا کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے ابتدا میں صرف دو مسجدیں کھولنے کی اجازت دی۔ پہلی مسجد شہر بدیفوردنی میں اور دوسری سورہوہی میں کھولی گئی۔ پھر شہر نوفیہ میں پانچ مسجدیں کھولنے کی اجازت دی گئی اور مسلمانوں کو صرف ان مساجد کی حدود تک دینی شعائر ادا کرنے کی اجازت دی گئی اس کے باوجود روسی حکمران اگر کسی عالم کو مقبول ہوتا دیکھ لیتے تو اُسے کسی نہ کسی الزام میں جیل میں بند کر دیتے یا اسے قتل کرا دیتے۔ مسلمانوں کے متعلق روسی حکومت نے یہ پالیسی اختیار کی کہ یا تو وہ عیسائیت قبول کر لیں یا پھر تہذیبی اعتبار سے روسی کلچر کو اختیار کر لیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں ان کو معاشی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا یا ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ اسلام سے مرتد ہونے والوں کے لیے خصوصی مراعات دی گئیں۔ ان کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ انہیں فوجی خدمت سے مستثنیٰ کر دیا جاتا، ان کے بچوں کی تعلیم و کفالت کا انتظام حکومت کے سپرد ہوتا ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے ساتھ سختی برتی جاتی۔ اُن کے لیے کوئی رعایت نہ تھی، بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر کے دور دراز شہروں میں بھیج دیا جاتا سرکار نے اوقاف کی تمام املاک پر قبضہ کر لیا۔۔۔ جاری ہے!
(بحوالہ: پندرہ روزہ ’’ندائے خلافت‘‘ لاہور۔ اکتوبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply