
راہ نجات:
بدنصیب انسانیت کے لیے نجات کی راہ یہ نہیں ہے کہ اس بلاک میں شامل ہو جائے یا اس میں تاکہ ان میں سے ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اور ساری دنیا اس کی خاطر خالی ہو جائے، وہ اکیلا اس پر مسند اقتدار جما لے اور جس طرح چاہے حکومت کرے۔
اگر تیسری جنگ ہوئی تو اصل معرکہ کا میدان جنگ دونوں بلاکوں کی سرزمین سے باہر ہوگا، یہ جنگ ترکی، ایران، شام، مصر، شمالی افریقہ، پاکستان اور افغانستان میں لڑی جائے گی۔ عبادان اور ظہران کے پٹرول کے ایرانی و عربی چشمے اس کا میدان ہوں گے، وہ ہمارے وسائل کو تباہ کرے گی، ہماری زندگی کو برباد کرے گی اور ہماری سرزمین کو برباد اور تباہ حال کھنڈروں میں تبدیل کرے گی چاہے یہ بلاک فتح پائے یا وہ، بہرحال معرکہ سے ہم ٹکڑے ٹکڑے اور ایندھن بن کر نکلیں گے۔ اس طرح جس طرح کہ اس سے پہلے کوئی قوم کسی جنگ سے نہیں نکلی، جب ہیروشیما ایک چھوٹے سے ایٹم بم کی وجہ سے ضرب المثل بن کر رہ گیا ہے تو ہم ایٹم بموں کے تجربوں کے لیے چھوٹے چھوٹے چوہے بن جائیں گے ہم پر ہائیڈروجن بم، موت کی حملہ آور گیس اور موت کی بے ہوش کن شعائیں، تباہ کن جراثیمی جنگ اور ہر وہ ہتھیار آزمایا جائے گا جو مغربی مجرم ضمیر کی دنیا میں کافر ذہن سے برآمد ہوا ہے۔
مغربی بلاک کے داعی ہم سے کہتے ہیں کہ اگر ہم سرمایہ دار بلاک سے منسلک ہو جائیں جسے وہ جمہوری بلاک کے نام سے پکارتے ہیں، تو وہ ہمارے تمام مسائل حل کردینے کی مہربانی کریں گے، جو سامراج کے ساتھ وابستہ ہیں ، گویا کہ ہم متواتر دو مرتبہ اس بلاک کے ساتھ نتھّی نہیں ہوئے اور گویا کہ ہم اس سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسے گئے، میں اس عجیب و غریب مشکوک موقف کا سبب جانتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ مقامی سرمایہ داری اور مغربی سامراج کے درمیان ایک فطری سا مادّی معاہدہ موجود ہے، غلام بنانے والوں اور سامراجیوں کا یہ ایک مشترکہ مفاد ہے، یہاں کے سرکش اور سامراجی اس طغیان و استحصال سے ذرا بھی نیچے اترنے کو تیار نہیں جس پر وہ مسلسل ڈٹے رہے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سامراج ہی ان کا مادّی سہارا ہے۔ ان کا خالق اور پرورش کنندہ وہی ہے اور اس نے انہیں اقتدار اور سرمایہ بخش رکھا ہے۔ اس سامراج نے ان غداروں کو جزا دی تھی جبکہ انہوں نے عرابی کے لشکر کو دھوکا دیا، اور مصر میں سامراجی حملہ آور فوج کی مدد کی تھی اس نے انہیں زمینیں اور مال و دولت عطا کئے تھے، حتیٰ کہ (یہ سطور معزول بادشاہ (شاہ فاروق) کے زمانے میں لکھی گئی تھیں، ہم نے انہیں صرف ایک تاریخی یادگار کے طور پر اس ایڈیشن میں باقی رہنے دیا ہے) آج وہ شریف گھرانوں کے افراد کے نام سے پکارے جاتے اور باعزت خاندانوں کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں، سامراج ہر جگہ یہی کچھ کرتا ہے۔ اس کی حالیہ قریب ترین مثال غدار ’’الجلاوی‘‘ کی مثال مراکش میں ہے، یہ شخص اس بات پر بھی نہیں شرماتا کہ مراکش میں مسلم باشندوں پر فرانسیسی حملے میں اس کا بیٹا بھی قتل ہوا تھا۔
عوام اگر اس جدید جنگ کا ایندھن بن جائیں تو ارباب اقتدار کا کیا نقصان ہے، جنگوں میں ان کی جائیدادیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، ان کی زمینوں اورکمپنیوں پر سے قرضوں کے بوجھ اتر جاتے ہیں۔ اگر انہوں نے جوئے میں اپنا نقصان کر رکھا ہو، یا بدکاری اور آوارہ گردی میں مال و دولت کو گنوا رکھا ہو تو جنگ میں یہ نقصان پورے ہو جاتے ہیں۔
جنگ کے زمانے میں انہیں ہنگامی احکام کے اختیارات بھی مل جاتے ہیں، جن کے سائے میں وہ اپنی شخصیتوں کو بدنامیوں اور رسوائیوں سے محفوظ کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ انہیں زبانوں پر مہریں لگا دینے، قلم توڑ دینے اور ان آزادی پسند انسانوں کی پکڑ دھکڑ کا موقع مل جاتا ہے، جو عوام میں اپنے حقوق کی خاطر بیداری کی روح پھونکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ارواح کے لحاظ سے بھی جنگ کی تباہیوں سے محفوظ رہتے ہیں جیسے کہ ان کے مال اور جائیدادیں بھی محفوظ ہوتی ہیں۔ پس مشرقی ممالک میں خونی ٹیکس کی ادائیگی صرف مفلس و نادار لوگ ہی کرتے ہیں، ہم نے فلسطین کے معرکوں میں خود دیکھاہے کہ وہ فوجی افسر جو ’’بڑے لوگوں‘‘ کی اولاد ہوتے تھے، وہ کس طرح میدانِ جنگ میں لڑائی کی تکالیف سے بچے رہتے تھے، پھر کس طرح انہیں بہادری کے تمغے عطا ہوتے تھے، حالانکہ وہ قاہرہ کے شراب خانوں، بدکاری کے اڈوں اور ناچ گھروں میں غرق ہوتے تھے۔
پس اربابِ اقتدار اگر اپنے ممالک کو سرمایہ داری کے چھکڑے سے باندھ دیں، جو ان کی فطری حلیف بھی ہے! تو ان کا اس میں کیا نقصان ہے؟ درآں حالیکہ وہ ہر قسم کے نقصان سے بھی محفوظ ہوتے ہیں، اور مغربی سرمایہ داری، جس کے ہاتھ میں ان اربابِ اقتدار کی باگ ڈور ہے جو اپنے حقیقی آقایانِ ولی نعمت کو اور اصلی حمایتیوں کو خوب پہچانتے ہیں، اگر عوام کی آزادی کی چیخوں کو حقیر سمجھتی ہے تو وہ حق بجانب ہے۔
دوسری طرف اشتراکیت کے داعی ہمیں روٹی اور امن سے نوازنے کا وعدہ کرتے ہیں بشرطیکہ ہم اشتراکیت کی صفوں میں شامل ہو جائیں تاکہ وہ فتح یاب ہوجائے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمیں روٹی اور امن کی حقیقی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں قوت اور عزت و احترام بھی درکار ہے۔ اشتراکیت ہمارا کوئی الگ ذاتی وجود ماننے سے انکار کرتی ہے وہ ہمیں انسانوں کی مانند سر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی اس نے اپنے اوّلین لے پالک بچے یوگوسلاویہ کی صورت میں ہمارے سامنے جو مثال پیش کی ہے وہی کافی ہے۔ جب بھی اس ملک نے اپنے ذاتی وجود کو منوانے کا ارادہ ظاہر کیا اس پر جو گزری وہ عبرتناک ہے۔
اشتراکیت عیسائی مادہ پرست یورپ میں اجتماعی مادی عدل و انصاف کو قائم کرنے کا واحد راستہ ہوسکتی ہے لیکن ہمارے ممالک میں وہ واحد راستہ نہیں کیونکہ ہم عدل اجتماعی کو زیادہ جامع اور اشتراکیت کی نسبت زیادہ کامل طور پر قائم کرنے کے وسائل رکھتے ہیں۔ یہ وسائل ہمارے شخصی وجود کی نفی نہیں کرتے اور عزت و احترام کی ہماری فطری خواہش کو نہیں دباتے، ہمارے نزدیک روٹی کپڑے سے یہ چیزیں عزیز تر اور اولیٰ تر ہیں۔
نجات کا راستہ فقط یہ ہے کہ آنے والے معرکہ میں ایک تیسرا بلاک وجود میں آئے جو دونوں موجودہ بلاکوں سے صاف طور پر کہہ دے کہ: نہیں!ہم ہر گز تمہیں اجازت نہیں دیں گے کہ تم ہمارے جسم کے ٹکڑوں اور زندگی کے سازو سامان پر جنگ مسلط کردو، ہم ہر گز اپنے وسائل کو تمہاری خواہشات کا غلام نہ بننے دیں گے ہم ہر گز اپنے اجسام کو تمہاری بارودی سرنگوں کے علاقوں کی صفائی میں استعمال نہ ہونے دیں گے اور بکری اور بھیڑ کے بچوں کی مانند اپنی گردنیں تمہارے سپرد ہر گز نہیں کریں گے۔
صرف یہی وہ چیز ہے جو بخار زدہ دماغوں میں کچھ سکون واپس دلا سکتی ہے اور جنون کے مارے ہوئے قدموں میں کچھ توازن پیدا کرسکتی ہے، پھر مغربی اور مشرقی بلاک محسوس کریں گے کہ اس وسیع و عریض اہم اور ضخیم حصۂ کائنات میں بھی انسان بستے ہیں، جنہیں کچھ اہمیت حاصل ہے وہ حرفِ مہمل مادّی وجود، ڈھور ڈنگر اور خدمت گار نہیں!
جن لوگوں کی ارواح میں دونوں بلاکوں کا پروپیگنڈا رچا ہوا ہے وہ کہا کرتے ہیں کہ یہ ایک امرِ محال ہے، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس وہ قوت نہیں کہ جس کے بل پر دونوں بلاکوں کے درمیان ایک دیوار کی مانند کھڑے ہو جائیں، اس طرف یا اُس طرف کے قدم ہمیں روند ڈالیں گے یہ مناسب نہیں کہ ہم علیحدگی کا اعلان کریں ایک نہ ایک بلاک کے ساتھ وابستگی ناگزیر ہے!
مجھے معلوم ہے کہ پروپیگنڈا ارواح و اذہان پر کس طرح قابو پالیتا ہے، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگ اس ذلیل حد تک اپنے آپ کو کس طرح حقیر بنا دیتے ہیں اور وہ اس بات پر کیوں کر شرمندہ نہیں ہوتے کہ اپنے ارادے سے غلام اور بے جان اشیاء بن جائیں۔
کوئی فوج بھی کسی دشمن سرزمین میں لڑائی لڑنے کے قابل نہیں ہوسکتی۔ اس سرزمین کے رہنے والے اس پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑ سکتے ہیں، اس کے ذخیروں اور راشن کو تلف کرسکتے ہیں، اس کے ذرائع آمدورفت اور مواصلات کو کاٹ سکتے ہیں، اس کے خلاف دشمن کے لیے جاسوسی کر سکتے ہیں، اسے راحت و سکون سے محروم کر سکتے ہیں، چاہے وہ فوج ان سے صلح صفائی رکھے، اور انہیں اپنے کاروبار کے لیے کھلا چھوڑ دے یا ان پر حملہ آور ہو مگر اس آخری صورت میں بیرونی دشمن کے علاوہ اسے اندرونی بغاوت اور شور و شرّ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
جرمنی کی کامیاب فوجیں دو مرتبہ اندرونی بغاوتوں اور شور و شرّ کے باعث میدان جنگ میں شکست کھانے سے پہلے ہی ہزیمت کا سامنا کر چکی ہیں۔ قدیم زمانے کی جنگ ہو یا جدید دور کی، کوئی فوج بھی مقامی باشندوں کی دشمنی کا سامنا نہیں کرسکتی، بے خبر اور بے بہرہ لوگوں کے سوا مقامی دشمنی سے کوئی بھی غافل و مامون نہیں رہ سکتا۔
یہ کروڑوں کی تعداد میں عوام جن کے ملک کے جنگی اہمیت کے مقامات کسی بھی عالمی جنگ میں فیصلہ کُن حیثیت رکھتے ہیں، جن کے مادّی وسائل فتح و شکست میں فیصلہ کُن ہیں، یہ عوام جب کچھ کرنے پر آجائیں تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔ نہ وہ عاجز ہو سکتے ہیں، اس بات کے علاوہ اس سلسلے میں جو کچھ بھی کہا جائے گا وہ بکواس ہو گا۔
کلمہ اسلام:
جو کچھ اوپر بیان ہوا، واقعات کی زبان یہی کہتی ہے، اوضاع و اطوار اور اشیاء پر عملی نگاہ ڈالیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس موقف میں اوضاع اشیاء کی واقعاتی تعبیر میں اسلام کیا کہتا ہے۔
(۱) اسلام زندگی کے بارے میں اپنے کلّی اصولوں کی بناء پر اور امن و سلام کے بارے میں اپنی عام فکر کی بناء پر ان جنگوں پر لعنت بھیجتا ہے، جن میں انسانیت آج کل مصروف ہوتی ہے، وہ ان اسباب کو بھی ملعون ٹھہراتا ہے، جو ان جنگوں کو وجود میں لاتے ہیں، وہ ان جنگوں کے داعیوں اور ان میں کودنے والوں پر بھی لعنت کرتا ہے۔ یہ ایسی جنگیں ہیں جن کے مقاصد ملعون ہیں، واقعات ملعون ہیں اور نتائج بھی ملعون ہیں، کیونکہ یہ تمام لڑائیاں زمین میں کلمتہ اللہ کے خلاف اور ان بلند اصولوں کے خلاف، جن کا وہ علمبردار ہے، اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام ہم پر ان زمینی طاغوتوں کے ساتھ منسلک ہونے کو حرام قرار دیتا ہے۔ وہ گناہ اور تعدی کے ساتھ تعاون کرنے سے ہمیں روکتا ہے، قرآن مجید کہتا ہے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِج وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ۔۔۔
’’جو ایماندار ہیں، وہ تو اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘۔ (النساء:۷۶)
اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج کی جنگ کے اسباب و مقاصد کا کلمتہ اللہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں اور وہ کسی حال میں بھی فی سبیل اللہ نہیں۔
(۲) اسلام ہم پر یہ بات حرام ٹھہراتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو اذیت پہنچانے والوں انہیں جلا وطن کرنے والوں اور ان کے اخراج پر دوسروں کی مدد کرنے والوں کی طرف مدد اور تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔
اِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰـتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۔۔۔ (الممتحنہ :۹)
’’اللہ تمہیں ان لوگوں کی دوستی سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے قتال کیا، تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے اخراج پر دوسروں کی مدد کی‘‘۔
اور انگریز، امریکا اور ان کے ساتھ روس بھی ہمیں فلسطین سے ہمارے گھروں سے نکالنے میں شریک تھے، زمین میں مسلمانوں کا ہر ملک ہمارا ملک ہے۔ فرانس، شمالی افریقہ میں ہمیں اذیت دینے اور ہم سے لڑنے میں شریک تھا اور اب تک شریک چلا آرہا ہے۔ان سب طاقتوں نے دین کی وجہ سے ہمارے ساتھ قتال کیا ہے اور برابر کیے جارہی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ ان چاروں سلطنتوں میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کے ساتھ ہر قسم کا معاہدہ اور ہر قسم کا تعاون ازروئے اسلام سخت حرام ہے، جو حکومت ایسا معاہدہ کرے گی وہ صریح اسلامی حکم کے خلاف بغاوت کرے گی، ایسی سلطنت کی رعایا کے ذمہ اس فعلِ حرام میں اپنی حکومت کی اطاعت واجب نہیں، بلکہ ساری امت پر واجب ہے کہ ہر طریقے اور ہر وسیلے کے ساتھ اس سلطنت کو اس فعلِ حرام سے روکے۔
(۳) اسلام ہمیں یہ حتمی حکم دیتا ہے کہ انسانیت سے ظلم کو دُور کریں اور اس کی ابتداء اپنے آپ سے ظلم کو روکنے کے ساتھ کریں۔ روئے زمین پر سامراج سے شنیع تر کوئی اور ظلم نہیں ہے۔ یہ سامراج آجکل وطنِ اسلامی کے نقطہ نگاہ سے تین ظالم سلطنتوں کے رُوپ میں جلوہ گر ہے۔ انگریز، فرانس اور اسرائیل۔
اسی باعث اسلام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم ہر میدان میں ان تینوں ظالم سلطنتوں کے ساتھ جہاد کریں اور جب پہلی فرصت پائیں تو ان کے سامنے تلوار کھینچ لیں، جب تک یہ سلطنتیں اسلام پر ظلم و عدوان سے باز نہ آجائیں ہم اپنے آپ کو ان کے ساتھ برسر جنگ سمجھیں۔
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ۔۔۔
’’اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں‘‘۔ (البقرۃ:۱۹۰)
(۴) اس ضمن میں جو کچھ سلطنتوں اور حکومتوں پر منطبق ہوتا ہے، وہ جماعتوں اور افراد پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ پس ہر کمپنی، ہر مالی یا تجارتی ادارہ اور ہر فرد جو ان سلطنتوں کے ساتھ کسی نوع کا تعاون کرے وہ اسلام کے خلاف میدان میں نکلنے والا ہے۔ اللہ کے حکم کا مخالف ہے، امت مسلمہ کا باغی ہے اور دنیا بھر میں ہر جگہ مسلمانوں کو ایذا دینے والا ہے اور یہ ٹھیکیدار جو دنیا میں کسی جگہ ان سلطنتوں کی فوجوں کو سامان خوراک یا دیگر ضروری اشیاء سپلائی کرتے ہیں، یہ مزدور جو ان کے لیے چھاؤنیوں میں کام کرتے ہیں یا ان کی بندرگاہوں وغیرہ میں سامان لادتے اتارتے ہیں اور یہ پیشہ ور مشائخ جنہیں سامراجی کمپنیاں مشکلات کے بھنور سے نکلنے کی خاطر استعمال کرتی ہیں، یہ سب لوگ یقیناً اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کا ارتکاب کر رہے ہیں، مسلمانوں سے غداری اور خود اپنے آپ سے خیانت کررہے ہیں اور جب بھی ان کے ہاتھ کسی لقمے کی طرف کسی خدمت یا مدد کے لیے یا کسی فتوے کے لیے اٹھتے ہیں تو اس وقت یہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر رہے ہوتے ہیں۔
اسلام ہر مسلم فرد، ہر مسلم ادارے، ہر حکومت اور دنیا کے ہر گوشہ میں ہر مسلم سلطنت پر یہ حتمی فریضہ قرار دیتا ہے، کہ وہ ان باغی قوتوں سے جہاد کریں، ان کا مقابلہ کریں اور انہیں ہر ممکن طریقہ سے ہر ممکن ضرب لگائیں جب تک یہ قوتیں ہم پر ظلم و ستم کرنے سے باز نہیں آجاتیں، ہم اس وقت تک ان سے حالت جنگ میں ہیں۔ نیز جب تک وہ ساری زمین میں بغاوت و فساد سے باز نہیں آتیں ہماری جنگ جاری رہے گی۔
یہی اسلام کا کلمہ ہے، جو صریح واضح، بلند اور علانیہ ہے یہ ہمارے لیے نجات کی راہ کھولتا ہے اور ساری انسانیت کے لیے جامع کامل اور ہر بغاوت و فساد اور تعدّی سے پاک امن و سلامتی کی راہ کھولتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اسلام کا یہ کلمہ عملی زندگی میں کیوں کر قائم ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں یہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک امّت اسلامیہ دو لازم و ملزوم قدم نہ اٹھائے۔
(۱) پہلا قدم یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی سلطنت میں اسلامی حکومت کی طرف رجوع کیا جائے، قوانین و تشریحات شریعت اسلامیہ سے حاصل کی جائیں اس شریعت سے حاصل کردہ اخلاقی، اقتصادی اور اجتماعی اصولوں کو نافذ کیا جائے اور ان کے تعلیم و تربیت کے طریقے اور تعلیمی نصاب زندگی کے متعلق اسلامی فکر کے سانچے میں ڈھالے جائیں۔
(۲) دوسرا قدم یہ ہے کہ یہ تمام چھوٹی بڑی سلطنتیں اسلامی علَم کے نیچے ایک بلاک بن جائیں، اسی طرح بین الاقوامی سیاست کے میدان میں بھی سب ایک بلاک کے طور پر متحد ہو جائیں، علیٰ ہذا القیاس اقتصادی اور حرب و ضرب کے میدان میں بھی! ان کا اتحاد و اتفاق اس بنیاد پر ہو کہ وہ اپنے لیے اور اپنے عوام کے لیے ہر قسم کی آزادی چاہتی ہیں جو کوئی بھی اس آزادی پر تعدّی کرے گا یہ سب مل کر اس کے خلاف جنگ کریں گی۔
دنیا بھر میں کسی قسم کا ظلم و ستم اور کسی نوع کا سامراج بھی ہو، یہ سب مل کر اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی۔
یہ ہم جنس بلاک ہی وہ جدید علَم اٹھا سکتا ہے جس میں ایک جدید انسانیت کی فکر کا پر تو نظر آئے گا اور اس جھنڈے کو لے کر وہ گمراہ، معذّب، شقی اور بدبخت انسانیت کے لیے راستہ واضح کر سکے گا۔
اس بلاک کی سرحدیں بحر اٹلانٹک کے کناروں سے لے کر بحر الکاہل کے ساحلوں تک باہم ملی ہوئی ہیں۔ اس بلاک میں یہ مسلم ممالک شامل ہیں: مراکش، تیونس، الجزائر، لیبیا، وادی نیل، شام، لبنان، عراق، اردن، جزیرہ عربیہ، یمن، ترکی، ایران، افغانستان، پاکستان، انڈونیشیا۔
اس بلاک کے باشندوں کی تعداد تیس کروڑ سے زائد ہے، اور یہ پٹرول اور خام مواد کے زرخیز ترین چشموں کا مالک ہے، اپنے محل وقوع، جغرافیائی اور فوجی اہمیت کے ٹھکانوں اور ساری دنیا کے مواصلات کے باعث بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
یہ بلاک اپنی اہمیت اور وزن کا مالک ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ گو یہ اسلحہ سے محروم ہو تب بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ دونوں متحارب بلاکوں میں سے ہر ایک کو جنگ کی طرف اقدام کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچنے پر مجبور کر سکے، کیونکہ اس جنگ میں یہ وسیع و عریض علاقے برباد ہو جائیں گے جو ان دونوں بلاکوں کے درمیان حائل ہیں جب تک وہ اس علاقہ کو برباد نہ کر لیں، میدانِ جنگ میں ان کی مڈ بھیڑ نہیں ہو سکتی، یہ بلاک ان دونوں کو استعمار کی لعنت کے باعث فلاکت زدہ اس سرزمین میں اپنی باغیانہ، سرکش اور استعماری سیاست جاری رکھنے پر اصرار کرنے سے قبل کئی مرتبہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
یہ بلاک اس مقام اور اہمیت کا مالک اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس کی بیداری اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ اس فریبی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے سامنے کھڑا ہو سکے جس پر اس سرزمین میں دونوں بلاکوں کے داعی عمل پیرا ہیں جب یہ بلاک جان لے گا کہ اپنے حکاّم کو اور دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے والوں کو ایک خالص اسلامی سیاست اختیار کرنے پر کس طرح مجبور کر سکتا ہے، جب وہ اپنی اقتصادیات اور امکانی وسائل کو منظم کر لے گا اور انہیں اقتصادی سامراج سے نجات دلا دے گا جس میں اس کے حکاّم، سرمایہ دار اور سامراجی اسے پھنسائے ہوئے ہیں جن کے پیش نظر نہ وطن ہے نہ قومیّت اور نہ دین اور مذہب!
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، قوم کے لیے ہے، حکومتوں کے لیے نہیں، عوام کے لیے ہے سرمایہ پرست سامراجیوں کے لیے نہیں مجھے اس وسیع و عریض سرزمین کی اقوام اور عوام پر پورا بھروسہ ہے۔ کمزوری اور افتراق کے اسباب کچھ بھی ہوں ظلم و جبر اور تشدد کے عوامل کچھ بھی اور کتنے ہی کیوں نہ ہوں، داعیوں کا فرض یہ ہے کہ قوموں پر اپنے بھروسے اور اعتماد کو زائل نہ ہونے دیں، کیونکہ عوام جب چاہیں طاقتور لوگوں کے لیے اور ان کے حلیفوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ ان کو ایک دائمی دشواری میں مبتلا کر سکتے ہیں جس کی موجودگی میں وہ اپنے آپ کو تنزل سے محفوظ نہ پائیں اور نہ ہی قلق و اضطراب سے بچ سکیں۔
اب عوام کے لیے وقت آچکا ہے کہ وہ اس مجرمانہ مذاق کے لیے ایک حد مقرر کردیں جو اس بلاک میں ان کے حاکم اور سرمایہ دار ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں اور اپنی قسمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیں اور پھر اس ہاتھ کو قطع کردیں جو ان کی مرضی کے خلاف کسی خاص مقصد کے لیے ان کی قسمت سے کھیلے۔
فلسطین کئی صاحبِ اقتدار و حکومتی گھرانوں کی باہمی کش مکش کی قربان گاہ پر ان کی نذر ہو چکا ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہوا کہ عرب قوم کی قوتیں چاہے وہ کتنی ضعیف ہوں مٹھی بھر یہودیوں کے سامنے کھڑے ہونے سے عاجز آگئی تھیں، ان یہود کی پشت پر گو اشتراکی اور سرمایہ دار دونوں بلاکوں کی مدد موجود تھی، پھر بھی وہ عربوں کو زیر نہ کر سکتے تھے، اگر عرب قوم کی اجتماعیت مجموعے میں اس وقت اتنا احساس اور بیداری ہوتی جس سے وہ خود غرض انسانوں کی خود غرضی کو ختم کرسکتے اور ان کے زیاں کار ہاتھوں کو پکڑ لیتے تو یہ تباہ کن حادثہ پیش نہ آتا۔
اس حادثے کے وقوع کو روکا جا سکتا تھا، مگر متفرق جھنڈوں نے یعنی مختلف کمزور قومیتوں کے جھنڈے! چھوٹی چھوٹی سلطنتوں اور ان کے حاکم گھرانوں کی خود غرضیوں کو اولین درجہ اور غالب مقام دیدیا۔
اسلام کے واحد علَم کی طرف واپسی ہی واحد راستہ ہے جو باقی ہے، آج یہی علم نجات کی علامت ہے، حقیقت یہی ہے کہ اسلام کا کلمہ ہی وہ آخری کلمہ ہے جسے مسلمان نجات کے لیے باآواز بلند پکار سکتے ہیں، بلکہ امن اور زندگی کے لیے انسانیت بھی اسی کلمہ کو پکارے گی۔
(بحوالہ’’امن عالم اور اسلام‘‘۔ مصنف:سید قطب شہیدؒ)
Leave a Reply