
تہذیب و تمدن کے ارتقا میں علم کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے اور وہ علم جو انسان اور اس کی دنیا، کائنات اور حیات و ممات کے جملہ مسائل کو حل کرے وہی ابدیت کا حامل بھی ہوتا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی تہذیبوں کی طرح اسلامی تہذیب کی بنیاد بھی علم و تعلیم کی اساس پر استوار ہوئی جس کے بنیادی مبادی میں پڑھنا، لکھنا، درس و تدریس، کتاب و مدرسہ، درس گاہ اور علمی اسفار وغیرہ شامل ہیں۔ اسلام ان میں سے ہر چیز کے لیے غیر معمولی طور پرتاکید کرتا ہے۔ اسلام سے بڑھ کر کسی مذہب نے علم کی حمایت نہیں کی اور نہ اس کے حصول اور ضرورت پر اس شدو مد سے زور دیا ہے۔ اسلام کی ابتدا ہی خداوند قدوس کے اس حکم سے ہوئی کہ ’’پڑھ‘‘۔ قرآنِ کریم کی سب سے پہلی آیت، جو نبی کریمؐ پر اتری وہ یہ تھی: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کچھ پیدا کیا‘‘۔ (سورہ علق، آیت:۱)۔ لکھنا اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمت ہے، فرمایا: ’’پڑھ! اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے علم سکھایا اور انسانوں کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے‘‘۔ (سورہ علق، آیت: ۵۔۳)
تاریخِ انسانیت میں یہ منفرد مقام بھی اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور علمی دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب یا تمدن ایسا نہیں جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہو، یوں اسلام کو اگر ہم ’’علم کا دین‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ دینی و دنیوی اور ظاہری و باطنی فوائد کے باعث اسلام ’’علم و حکمت‘‘ کو خیرِ کثیر قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ’’اور جس شخص کو حکمت دے دی گئی اس کو بلا شبہ خیرِ کثیر سے نواز دیا گیا‘‘۔ (البقرہ: ۱۶۹)
قرآن میں علم کا تصور بہت وسیع ہے۔ اس میں دینی علوم کے ساتھ کائنات کے تمام علوم بھی شامل ہیں بلکہ اصل علم ان سب کے مجموعے کا نام ہے، چنانچہ یہ علم و حکمت جہاں سے بھی ملے مسلمانوں پر اس کا حاصل کرنا فرض ہے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’حکمت مومن کی متاعِ گم گُشتہ ہے جہاں بھی ملے وہ دوسروں کے مقابلے میں اس کے لینے کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔ (جامع الترمذی، ابواب العلم)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بھی علم ہی سے تعبیر کیا ہے۔ سورۂ اعراف کی آیت ۵۲ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے: ’’اور بے شک ہم ان لوگوں کے پاس ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بناء پر فضیلت عطا کی ہے جو ایمان والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے‘‘۔
اسلام نے قرآن پاک کے ذریعے انسان کے دل و دماغ کو یکسر بدل دیا۔ یہ ایک ایسا انقلاب تھا جو آگے چل کر اُس علمی تحریک کا سبب بنا جس نے حقائق فطرت کے بے باکانہ اکتشاف میں تجربہ و امتحان اور استقرا کا راستہ کھول دیا۔ یہ عالم اسلام ہی تھا جہاں صحیح معنوں میں علمی روح بیدار ہوئی۔ اس سے پہلے یونان ہو یا مشرق، کسی نے بھی علم کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا جیسا کہ اس کا تقاضا تھا۔ علم کے بغیر گویا اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اسی بناء پر ایک المانوی مستشرق پروفیسر فرینز روز نتھل (Prof.F.Rosenthal) اپنی تصنیف Knowledge Triumphant کے پانچویں باب کا عنوان ’’علم ہی اسلام ہے‘‘ مقرر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
علم ایک ایسا تصور ہے جو اسلام پر ہمیشہ چھایا رہا اور اس نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو ایک خاص شکل و صورت دی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم کے تصور نے مسلمانوں کی تہذیب کو ہمہ جہتی طور پر وسعت وقوت سے متاثر کیا ہے۔
اسی علم کی بنیاد پر مسلمانوں نے پوری دنیا میں فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑے اور ہر جگہ تہذیب و تمدن کے ایسے نقوش ثبت کیے کہ رہتی دنیا تک وہ نشانِ راہ بنے رہیں گے۔ سرجیمس جارج فریزر لکھتا ہے:
دنیا کی جن عظیم قوموں نے فتح و نصرت کے جھنڈے بلند کیے، تہذیب و تمدن کے پھیلانے میں عام طور پر انہی کا سب سے زیادہ حصہ رہا اور اس طرح امن میں انہوں نے ان زخموں پر مرہم رکھ دیا جو جنگ میں ان کے ہاتھوں لگے۔ ماضی میں بابل، یونان، روم اور عرب کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔
مسلم قوم کی تاریخ پر آپ جتنا غور کریں گے اتنا ہی اسے حیرت انگیز پائیں گے۔ ابتدائی دور سے سولہویں صدی کے آغاز تک پورے ایک ہزار سال تک مسلسل جدوجہد کے اس طوفانی دَور میں بھی اس حیرت انگیز قوم نے، بڑے بڑے تہذیبی کارنامے انجام دینے کے لیے کافی مواقع نکال لیے۔ اس نے قدیم علوم کے مدفون خزانوں کو باہر نکالا اور محفوظ کیا، ان میں ٹھوس اضافے کیے، ایک منفرد نوعیت کا ادب تخلیق کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مکمل نظام قانون مرتب کیا۔
اسلام نے دیگر تہذیبوں کے اعلیٰ اوصاف اپنانے کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھا۔ مسلمانوں نے علوم و فنون میں جو ترقی کی اس کی اہم وجہ فتوحات تھیں۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے غیر مسلموں کے علوم و فنون سے خوب استفادہ کیا۔ انہوں نے دیگر اقوام کے مذہبی مواد کے علاوہ تمام مضامین اور تمام زبانوں پر مشتمل ہر زمانے کی کتابوں کو مقدور بھر جمع کیا۔ نقول تیار کیں اور تراجم کیے۔
جزیرہ نمائے عرب کے اندر اسلام کا پہلا باقاعدہ تہذیبی ربط یہودیت سے ہوتا ہے اور اس کے فوراً فعد ایک طرف ایران میں مجوسیت سے اور دوسری طرف حبشہ اور بازنطینی سلطنت کی صورت میں عیسائیت سے۔ وہ علاقے جو تیزی سے اسلامی دنیا کا حصہ بنے وہاں ایسے مراکز موجود تھے اسی طرح انطاکیہ، ایدیسیا اور نیسبیس وغیرہ میں سبائیوں اور حرانیوں کے مسالک کی روایات، علاوہ ازیں ہندوستانیوں اور ایرانیوں کی میراثِ علم بھی مسلمانوں کے ہاتھ آئیں۔ ایران میں اس تازہ پرجوش عربی فکر کا رابطہ صرف مانی مت، زرتشت مت اور عیسائی اعتقادات سے ہی نہ ہوا، بلکہ یونانی سائنسی تحریروں سے بھی ہوا جو یونان میں بھی محفوظ تھیں اور ان کے شامی زبان میں ترجمے بھی ہوئے تھے۔ انہیں مصر میں بھی یونانی فکر قبول عام ملی۔ ہر جگہ اور خاص طور پر اسپین میں انہیں مفروضے قائم کرنے اور بحث کرنے کی ایک متحرک یہودی روایت مال غنیمت میں ملی۔ وسطی ایشیا میں انہیں بدھ مت کی فکر سے آگاہی اور چینی تہذیب کی ترقی سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے چینیوں سے کاغذ تیار کرنے کا طریقہ سیکھا جس سے کتابوں کی طباعت ممکن ہوئی۔ پھر جس سے یہ مستفید ہوئے وہ ہندوستانی ریاضیات اور فلسفہ تھا۔ ایچ جی ویلز لکھتا ہے:
اس طرح سامی دنیا کی حیرت انگیز حیاتِ نو کے باعث اس کا بھی پھر سے احیا ہوا۔ ارسطو اور اسکندریہ کے عجائب گھر کا بیج جو مدتوں سے بے ثمر اور تہ خاک تاریکی میں گم تھا، اس پر پھر سے کونپلیں پھوٹیں اور وہ ثمر آور ہوا۔ ریاضیاتی، طبی اور طبعی علوم میں عظیم اضافے ہوئے۔ رومی بھونڈے اعداد کی جگہ عربی ہندسوں نے لے لی جو ہم آج استعمال کرتے ہیں۔ صفر کا استعمال بھی تبھی شروع ہوا، الجبرا بھی عربیوں ہی کا شاہکار ہے۔ ’’کیمیا‘‘ بھی عربی لفظ ہے۔ ستاروں کے نام جیسے الگول، الڈبران اور بوٹس آسمان پر عربوں کی فتوحات کے نشان ہیں۔ یہ ان کے فلسفے کا کمال ہے کہ اس نے فرانس، اطالیہ اور تمام مسیحی دنیا میں قرونِ وسطیٰ کے فلسفے کے احیائے نو کو ممکن بنایا۔
جہاں جہاں عرب فاتحین گئے وہاں وہاں لکھنے پڑھنے کی روایت بھی پہنچی۔ آٹھویں صدی تک عربی اثرات سے شرابور دنیا میں ایک عظیم علمی تنظیم پیدا ہوئی۔ نویں صدی عیسوی میں اسپین میں قرطبہ کے مدرسوں کے فارغ التحصیل قاہرہ، بغداد، بخارا اور سمرقند کے اہلِ علم سے مباحث میں مصروف تھے۔
علم و حکمت کے اسلامی نظریے کے لحاظ سے مسلمانوں کا تعلق ایک ایسی انسانی جمعیت سے تھا جو ساری دنیا کے وارث تھے اور انہوں نے علم و حکمت کی نشوونما بھی ایک فریضے کے طور پر سرانجام دی۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے علوم و فنون کے اس ذخیرے کو جو مشرق و مغرب میں بکھرا پڑا تھا جمع کیا اور اپنی قوتِ اخذ و اکتساب سے اسے اور زیادہ وسعت دی۔ یہ مرحلہ طے ہو گیا تو پھر اپنی غیر معمولی ذہانت اور فطانت سے کام لیتے ہوئے وہ اساسات اور تصورات، علیٰ ہذا حصولِ علم کے عملی طور طریق مہیا کیے جن پر صحیح معنوں میں اس کے ارتقا کا دار و مدار ہے۔
علم کی دنیا میں اسلام نے چار بنیادی کارنامے سرانجام دیے:
o تجرباتی طریقِ تحقیق و استدلال کی بنیاد رکھی جس میں استخراج کی بجائے استقرا سے کام لیا جاتا تھا۔
o پچھلی تہذیبوں کے علوم کو عربی زبان میںمحفوظ کر کے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
o ان علوم پر مزید تحقیق کر کے ان کو ترقی دی۔
o دنیا کو کئی متنوع علوم دیے مثلاً تفسیر، اُصول حدیث، علم الرجال، علم فقہ، فلسفہ تاریخ، علم تجوید، تصوف، شاعری، لغت، نحو، بلاغت، طب، بیطرہ، علم الحیوان، کیمیا، نباتیات، زراعت، ریاضیات، فلکیات، احکام النجوم، آثار علویہ، فلسفہ، منطق، نفسیات، اخلاق، سیاسیات، علم الاجتماع، جغرافیہ، طبیعات، ارضیات اور موسیقی وغیرہ۔
علم و حکمت کا سب سے زیادہ روشن زمانہ جو ایشیا کے لیے سرمایہ صد افتخار و نازش ہے المامون کا عہدِ خلافت ہے۔ اس نے بغداد کو سائنس کا مرکز بنا دیا۔ وہ علوم و فنون کا سرپرست تھا اور اس نے ایک عظیم ثقافتی نشاۃ ثانیہ برپا کی۔ ادبی تنقید، فلسفہ، شاعری، طب، ریاضی اور فلکیات نہ صرف بغداد میں بلکہ کوفہ، بصرہ اور حران میں بھی فروغ پا رہے تھے۔ ذمیوں نے یونان اور شام کی طبی اور فلسفیانہ کلاسیکی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کر کے اس نشاۃ ثانیہ میں حصہ لیا۔ ماضی کے علم کو بنیاد بنا کر جو انہیں دستیاب تھا، مسلمان عالموں نے اس زمانے میں پوری سابقہ تاریخ سے زیادہ سائنسی دریافتیں کیں۔ اس دور کا سب سے بڑا قابل فخر کارنامہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں نے اسلامی علوم و فنون کی تدوین کی اور دوسری زبانوں سے علوم فلسفہ و حکمت کے تراجم کیے۔ صرف تراجم ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان علوم کے مسائل پر روشن دماغی کے ساتھ غور و خوض کر کے ان پر تنقید کی۔ ان کے معائب و اسقام کو طشت ازبام کیا اور مختلف علوم و فنون کی تدریس و اشاعت کے لیے مکاتب اور مدارس بلکہ یونیورسٹیاں قائم کیں۔ علما کے گراں قدر وظائف اور مشاہرے مقرر تھے اور وہ اطمینان سے اپنے علمی کاموں میں شب و روز مصروف و مشغول رہتے تھے، پھر علمی کاموں کے علاوہ صنعت و حرفت، فنِ تعمیر اور شعر و ادب کو بھی بہت ترقی ہوئی۔ ادب و تاریخ کی کتابوں میں جو واقعات مذکور ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرد تو مرد عورتیں بلکہ باندیاں تک اس زمانے میں شعر و ادب کا بہت ستھرا اور شستہ ذوق رکھتی تھیں۔
علمائے اسلام نے جملہ انسانی مسائل کے حل کے لیے علم کی انواع و اقسام اور ان علوم کی باضابطہ شعبہ وار تقسیم کی طرح بھی ڈالی۔ علومِ اسلامی کی تقسیم بندی سب سے پہلے بظاہر ابویوسف یعقوب الکندی (وفات: بعداز ۲۴۷ھ) نے کی۔ ابن ندیم نے الفہرست میں اُس کی دو کتابوں اقسام العلم اور فی ماہیتہ العلم و اضافہ کا ذکر کیا ہے جو اب دستیاب نہیں۔ محمد بن یوسف خوارزمی کا علمی انسائیکلو پیڈیا مفاتیح العلوم ان علوم و فنون کی تقسیم کے سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا زیادہ تر تعلق سائنسی اصطلاحات سے ہے۔ اسے فارسی میں حسین خد یوجَم نے منتقل کیا اور ۱۳۴۷ھ / ۱۹۶۹ء میں تہران سے شائع ہوا۔ بقول یاقوت حموی (ارشاد لاریب الی معرفتہ الادیب، جلد اوّل، صفحہ ۱۴۳) یعقوب الکِندی کے ایک شاگرد ابوزید بلخی (وفات: ۳۲۲ھ) نے بھی اقسام علوم پر ایک کتاب لکھی تھی جو اب مفقود الاثر ہے۔ ابونصر فارابی (المتوفی: ۳۳۹ھ) نے احصاء العلوم لکھی جو ایران میں شائع ہو چکی ہے۔ رسالہ اخوان الصفاء، ابوالحسن عامری کی الاعلام بالمناقب الاسلام، امام غزالی کی احیاء علوم الدین اور ابن خلدون کی مقدمۂ تاریخ میں علوم کی تقسیم بیان کی گئی ہے۔ شیخ الرئیس ابن سینا کے رسالتہ فی اقسام العلوم العقلیہ کے لاطینی اور عبرانی زبان میں ترجمے موجود ہیں۔ تقسیمِ علوم کی بحث شیخ الرئیس کی دیگر معروف تصانیف الشفا اور حکمتہ المشرکین کے مقدموں میں بھی موجود ہے۔ اس سلسلے کی دیگر معروف تالیفات مندرجہ ذیل ہیں: ارشاد القاصد الی اسنی المقاصد، ازاکفانی، اقسام الحکمۃ از نصیر الدین طوسی، ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم، ابن فرجون کی جوامع العلوم، حدائق الانوار فی حقائق الاسرار از امام فخر الدین رازی (یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس کا ترجمہ جامع العلوم کے نام سے عربی زبان میں موجود ہے)۔ خلیفہ المستعصم (۶۴۰۔ ۶۵۶ھ) کے معاصر ابوالریح کی تالیف سلوک الممالک فی تدبیر الممالک، شہر زوری کی کتاب شجرۃ الایلخانیہ، حاجی ظنون (خلیفہ) کی کشف الظنون، ابن حزم الاندلسی (۴۵۶ھ / ۱۵۶۴ء) کی مرأۃ العلوم، مفاتیح العلوم از عبداللہ خوارزمی، طاش کبری زادہ کی مفتاح السعادۃ، سکاکی خوارزمی کی مفتاح العلوم اور علامہ محمد محمود آملی کی نفائس الفنون فی عرائس العیون، مذکورہ بالا تمام کام اہلِ فلم و فن کی آسانی کے لیے کیا گیا۔ اس کی ناگزیریت کے بارے میں روزن تھل، لکھتا ہے:
اسلام کا میلان اس جانب تھا کہ انفرادی ضابطوں کو زیادہ سے زیادہ تخصیصی شعبوں میں بانٹا جائے۔ بالآخر یوں ہوا کہ سینکڑوں کی تعداد میں آزاد شعبے پیدا ہو گئے۔ حُکما نے یہ طریقِ کار پسند کیا اور ضروری سمجھا۔ اس طرح الگ الگ ضابطوں اور شعبوں میں آسانی سے منطقی رابطہ قائم ہو جاتا تھا اور دنیا کے علمی ڈھانچے میں ان کی حیثیت واضح ہو جاتی تھی۔
ذوقِ کتب بینی اور کتب اندوزی کو بھی مسلمانوں نے ایک دینی اور ثقافتی روایت کے طور پر اپنایا اور کتب خانوں کی بنیاد رکھی۔ ہارون الرشید کے دور کا ’’بیت الحکمت‘‘ اس روایت کی ابتدا تھی۔ ڈاکٹر گستائولی بان، تحریر کرتا ہے:
جس زمانے میں کتاب و لائبریری یورپ والوں کے لیے کوئی مفہوم نہیں رکھتی تھیں اور تمام کلیسائوں میں راہبوں کے پاس پانچ سو سے زیادہ کتابیں نہیں تھیں اور وہ بھی سب مذہبی تھیں۔ اس وقت بھی اسلامی ممالک میں کافی سے زیادہ کتابیں اور لائبریریاں موجود تھیں۔ خود بغداد کی لائبریری ’’بیت الحکمتہ‘‘ میں چار ملین‘ قاہرہ کی لائبریری میں ایک ملین‘ طرابلس کی لائبریری میں تین ملین کتابیں تھیں اور تنہا اسپین میں سالانہ ستر، اسّی ہزار کتابیں اکٹھی کی جاتی تھیں۔
ایک اہم امر جس نے کتب خانوں کو حیرت انگیز ترقی دی وہ یہ تھا کہ جہاں جہاں درس گاہ یا جامعہ ہوتی وہاں کتب خانہ ضرور ہوتا اور یہ کتب خانے کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ پوری اسلامی قلمرو میں پھیلے ہوئے تھے۔ خولیان ریبیرا، مقری کے حوالے سے لکھتا ہے کہ اندلس کے باشندوں کے لیے عزت و امارت کا معیار کتب خانے تھے۔ نیز ان کتب خانوں میں مشہور کاتبوں اور نایاب نسخوں کی تعداد سے ایک عام آدمی اہم شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ سارٹن لکھتا ہے: ’’سب سے زیادہ گراں قدر، سب سے زیادہ اوریجنل اور سب سے بڑھ کر پُرمغز کتابیں عربی میں لکھی گئیں۔ آٹھویں صدی کے نصف آخر سے گیارہویں صدی کے اختتام تک عربی ہی بنی نوع آدم کی سائنسی اور ترقی پسند زبان تھی۔ اس دور میں اگر کوئی شخص خوب باخبر ہونا اور تازہ ترین معلومات حاصل کرنا چاہتا تو اسے عربی پڑھنی پڑتی‘‘۔ ڈاکٹر لوسین لیک لرک اپنی تالیف The History of Arab Medicine (صفحات ۹۲۔ ۹۱) میں یوں رقمطراز ہے: ’’دنیا پھر کبھی وہ اعجاز آفریں منظر نہ دیکھے گی جو نویں صدی میں عربوں نے پیش کیا۔ یونانیوں کے تمام علوم عربوں کی گرفت میں تھے۔ انہوں نے اپنی صف میں اوّل درجے کے طلبہ پیدا کیے جنہوں نے اسی وقت علمِ حقیقی کے صحیح مذاق کا اظہار کیا۔ فرانسیسی مؤرخ اور عالم موسینو سید یو تاریخِ عرب میں لکھتا ہے: ’’اب ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ عربوں نے کاغذ، قطب نما، بارود اور توپوں کو ایجاد کیا اور ان کی اس ایجاد سے تمام دنیا کی ادبی، سیاسی اور فوجی حالت میں کیسا انقلابِ عظیم رونما ہوا۔ بعض یورپی اہلِ قلم جنہوں نے عربوں سے ان چیزوں کے ایجاد کرنے کا شرف زبردستی چھین لیا ہے ان کے بیان پر التفات و اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان اشیا کے موجد عرب ہی ہیں اور عربوں ہی نے اہلِ یورپ کو ان کا استعمال سکھایا ہے‘‘۔ ہیرو ڈوٹس لکھتا ہے: ’’عرب تمام اقسام کی دستکاریوں میں استادِ یگانہ ہوئے ہیں اور دنیا کی جملہ اقوام اس بات کو جانتی تھیں کہ چمڑے کا پکانا، رنگنا، زیورات کا بنانا، دھاتوں کا ڈھالنا، اسلحہ پر جِلا اور جوہر پیدا کرنا، طرح طرح کے کپڑے بننا، عربوں کے کارنامے ہیں اور یہ کہ وہ جملہ ایسے کاموں کے ماہر کامل تھے جو قینچی اور نال کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ نہایت تیز کاٹ کرنے والی تلواریں اور ہلکی پھلکی مستحکم زرہیں جن میں سوئی کا گزرنا بھی مشکل ہو، عربوں کی بنائی ہوئیں آج بھی بکثرت ملتی ہیں۔ وہ فن آہن گری میں ان کی پیش دستیوں کو عیاں کرتی ہیں۔ قالین اور اعلیٰ درجے کے بنے ہوئے اونی، ریشمی، لسٹری اور کتان کے کپڑے جن کا ادنیٰ نمونہ زمانہ حال کی کشمیری شالیں ہیں، عربوں ہی کی دستکاری کی یادگاریں ہیں۔ عربوں کے بے شمار نتائج افکار اور ان کی نفیس نئی نئی ایجادیں اس بات کی شاہد عادل ہیں کہ وہ سب باتوں میں اہلِ یورپ کے استاد ہیں‘‘۔ Ecclesiastical History کا مصنف موشین کہتا ہے: ’’اس امر کا اعتراف کرنا چاہیے کہ طبیعیات ہو، نجومیات ہو یا فلسفہ، ریاضیات ہو یا کیمیا، وہ تمام علم جو دسویں صدی سے یورپ میں پھیلا اصل میں عرب علما ہی سے حاصل کیا گیا تھا‘‘۔ ڈکن ٹائونس یوں اعتراف کرتا ہے کہ مسلمانوں کی علمی مساعی اور تصنیفی و تدریسی سرگرمیوں کے بغیر ریاضی اور سائنس کے میدان میں سرزمین یورپ میں گلیلیو اور نیوٹن کا پیدا ہونا مشکل تھا۔
مسلمان سائنس دانوں نے طب، زراعت، جغرافیہ اور حربی فنون جیسے مختلف اور متضاد علوم کے شعبوں تک اپنی تحقیق اور عملی تجربوں میں بہت اضافہ کیا۔ اس زمانے میں مغرب کا اثر عملاً نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مغرب کے پاس اس وقت دینے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ مسلمانوں کی تحقیقات لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر یورپ پہنچ رہی تھیں۔ خود یورپ کے طالب علم مسلمان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس کے علاوہ یورپ میں بھی اسلامی علوم کے مرکز قائم کیے گئے تھے۔ دسویں صدی عیسوی میں لی ایج اور لورین کے شہروں میں عربی تعلیم کے مراکز قائم تھے، جہاں سے یہ تعلیم فرانس، جرمنی اور انگلستان تک پھیلی۔ ۱۱۸۰ء میں راجر ہیری فورڈ نے انگلستان میں عربی تعلیم کا مرکز قائم کیا۔ ان مراکز میں طب، نجوم، فلسفہ اور کئی دوسرے علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان علوم کے ساتھ سائنس کا تحقیقی طریقہ بھی یورپ میں پہنچا۔ فلپ ہٹّی لکھتا ہے:
تیرہویں صدی کے آخر تک عربی سائنس اور فلسفہ دونوں یورپ میں منتقل ہو چکے تھے۔ وہ ذہنی راستہ جو طلیطلہ کے پھاٹکوں سے شروع ہو کر پیرنییز کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتا ہوا فرانس پہنچتا تھا، وہ جنوبی فرانس میں پرائونس اور الپائن کے درّوں سے گزرتا ہوا جرمنی اور وسطی یورپ سے ہوتا ہوا رودبار انگلستان پار کر کے اب انگلستان پہنچ گیا تھا۔
اسلام کے تمام جغرافیائی، مذہبی اور نسلی تعصبات سے بالاتر ہو کر علم کی اشاعت کے سلسلے میں کی گئی کوششوں کے بارے میں جارج سارٹن، مقدمہ تاریخِ سائنس میں لکھتا ہے کہ علم و حکمت کی سچی تڑپ اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم اپنے انکسار اور فروتنی کا دائرہ اپنی ہی ذات تک محدود نہ رکھیں بلکہ ساری نوع انسانی کو اس میں شریک سمجھیں۔ اوروں کی طرح ڈاکٹر ڈریپر بھی اس پر متعجب ہے کہ انتہائی مختصر عرصے میں ایک وحشی قوم کا علم کے لائے ہوئے انقلاب سے متمدن ہو جانا یقینا ایک معجزہ تھا۔ اپنی مشہور تصنیف معرکہ مذہب و سائنس میں وہ لکھتا ہے: ’’ہمیں رہ رہ کر تعجب ہوتا ہے کہ عربوں کا وحشیانہ تعصب کیونکر اس قدر جلد تحصیل علوم و فنون کی زبردست خواہش کی شکل میں بدل گیا۔‘‘
وہ عرب جن کی زندگی سادہ تھی اور جن کو علوم و فنون سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ تیسری صدی ہجری میں یونان و روم، ہند و چین اور ایران کے علوم و فنون کے خزانوں کے مالک ہو گئے۔ ان علوم پر انہوں نے نہ صرف اضافہ کیا بلکہ نئے نئے علوم وفنون ایجاد کیے۔ عظیم الشان درس گاہیں اور یونیورسٹیاں جگہ جگہ قائم کیں۔ بڑی بڑی لائبریریاں اور رصد گاہیں تعمیر کیں انسانی تہذیب و تمدن کو وہ ترقی دی کہ ویرانہ عالم چمن زار بن گیا۔ آج یورپ کی جس ترقی سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں یہ اصل میں اسلام کی ہی دین ہے، بقول اقبال:
حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست
اصلِ اُو جُز لذتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلمان زادہ است
این گُہر از دستِ ما افتادہ است
(بحوالہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘ اسلام آباد۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply