
انگولا کے آئین میں تمام باشندوں کو مذہب کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اب انگولا کی حدود میں اسلام کے پیروکاروں کو یہ آزادی حاصل نہیں رہی۔ افریقا کے کئی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق انگولا کی حکومت نے اسلام پر پابندی عائد کردی ہے۔ دنیا بھر میں انگولا واحد ملک ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف اس قدر سخت اقدام کی جرأت کی ہے۔
انگولا کی وزیر ثقافت روزا کروز ای سلوا نے ۲۲ نومبر کو بتایا کہ وزارتِ انصاف و انسانی حقوق نے اسلام کو قانونی حیثیت دینے کے عمل کی اب تک منظوری نہیں دی، اس لیے تمام مساجد تاحکمِِ ثانی بند رہیں گی۔ روزا کروز ای سلوا نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کو قانونی حیثیت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔
روزا کروز کا یہ بھی کہنا ہے کہ انگولا میں اسلام پر پابندی عائد کیا جانا مختلف فرقوں اور مسالک پر پابندی کے عمل کا حصہ ہے۔ انگولا میں راتوں رات بہت سے فرقوں کو مجرمانہ فطرت کا حامل قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
انگولا کے صدر ہوزے ایڈوارڈو ڈوز سانتوز نے اعلان کیا ہے کہ انگولا کی حکومت ملک میں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنے کے لیے حتمی کارروائی کر رہی ہے۔ انہوں نے بھی یہ واضح کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ انگولا کے معاشرے پر اسلام کے اثرات کیا ہیں اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔
لوانڈا کے گورنر بینٹو بینٹو کا کہنا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں کو انگولا میں کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ حکومت مسلمانوں کے لیے مساجد یا عبادت کے دیگر مقامات کو قانونی حیثیت نہیں دے گی۔
انگولا میں ۴۷ فیصد باشندے خطے کے روایتی مذاہب پر عمل پیرا ہیں۔ ان مذاہب میں بت پرستی اور مظاہر پرستی عام ہے۔ ۳۸ فیصد باشندے رومن کیتھولسزم پر عمل کرتے ہیں جبکہ ۱۵ فیصد باشندے پروٹیسٹنٹس ہیں۔
انگولا میں مسلمانوں کی تعداد ۸۰ سے ۹۰ ہزار کے درمیان ہے۔ یہ آبادی کا تقریباً ۱۸ فیصد ہے۔ انگولا کے مسلمانوں کی اکثریت مغربی افریقا اور لبنان سے آئے ہوئے تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
انگولا میں کسی بھی مذہب یا اس کے کسی فرقے کو قانونی حیثیت دینے کا عمل خاصا مبہم ہے۔ کئی فرقوں کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔ روزا کروز ای سلوا کا کہنا ہے کہ انگولا میں کم و بیش ۲۰۰ مذہبی فرقوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہوگا کہ صرف اسلام کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فرقوں اور مسالک کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے کم و بیش ایک ہزار درخواستیں زیر غور ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواستیں بھی شامل ہیں۔ ان میں کوئی بھی درخواست چونکہ اب تک قبول نہیں کی گئی، اس لیے مساجد پر پابندی برقرار رہے گی۔
انگولا میں درجنوں مساجد مقفل ہیں۔ یہ حکومت کی اجازت سے دوبارہ کھولی جاسکیں گی، مگر بہت سی مساجد ایسی بھی ہیں جو ڈھا دی گئی ہیں، یعنی انہیں ختم کردیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اسلام پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد حکام نے اکتوبر میں بہت سی مساجد کے میناروں کو گرادیا۔ رینگو شہر میں واحد مسجد کو حکومتی مشینری نے اکتوبر میں شہید کردیا۔
(“Islam Banned in Angola”… “Guardian Express” Las Vegas. Nov. 24, 2013)
Leave a Reply