
آج کی دنیا میں انسان کی حیثیت و وقعت اس کی فضیلت اور معاشرہ میں اس کے مرتبہ کی پہچان چند چیزوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ دولت کی کثرت، عہدہ و ڈگری اور بڑھتے ہوئے کھیلوں میں گراں قدر کارنامہ، جو شخص ان چیزوں میں سے کسی میں بھی ممتاز و فائق ہو گا دنیا کی نظر میں وہ محبوب و مقبول و برتر ہو گا، ان میں پہلی چیز مال و دولت کی کثرت ہے۔ مال کا اکتساب اور اسے خرچ کرنے کے طریقے میں دنیا کی قومیں ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہی ہیں۔ اسلام نے روز اول سے ہی ایک جامع و عادلانہ حل پیش کیا جسے مسلمانوں نے نہیں بلکہ مخالف و اغیار نے بھی بسر و چشم قبول کیا اور اس حقیقت کے اعتراف میں ان کی زبان و قلم نے ذرہ برابر بخل نہیں کیا بلکہ اس کی مدح سرائی و اعتراف حقیقت میں سچائی و اعلیٰ ظرفی کا مکمل ثبوت پیش کیا اور کیوں نہیں۔ اسلام کا نظامِ حیات وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے وہ کیمیا اثر ہے جو مٹی کو سونے میں تبدیل کر دیتا ہے اور ایسا رہنما ہے جو بھٹکے ہوئے آہو کو منزل مقصود میں باریاب کر دیتا ہے دشمنوں و مخالفوں سے داد تحسین حاصل کرتا ہے۔ اسلامی نظام معاشیات پر مختصر روشنی ڈالنے اور اس کے کچھ مخصوص گوشوں کو اجاگر کرنے اور دنیا کی اقوام کے سامنے اس کے حقیقی چہرہ کو پیش کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقوام عالم اس معاشی میدان میں دو انتہا پسند نظریوں سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم و اشتراکی نظام سے عاجز آکر ایک ایسے نظام کی متلاشی ہیں جو اعتدال و انصاف اور انسانی فلاح و بہبود کے نظریہ پر مبنی ہو۔ چنانچہ ڈھونڈنے والوں کی متجسس نگاہیں اسلامی معاشیات کے نظام پر مرکوز ہو گئیں۔ ذیل میں ہم چند اربابِ فکر و نظر و محققین کی آراء اس بابت پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ فرانس کے ماہر اقتصادیات جناب چاک اوستری اسلامی نظام معیشت سے حد درجہ متاثر ہو کر رقم طراز ہیں کہ اقتصادی و معاشی ترقی دو مشہور و معروف نظامِ معیشت سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام میں منحصر نہیں ہے بلکہ ایک تیسرا معاشی نظام اسلام کا ہے جو یکتا و منفرد حیثیت رکھنے کے اعتبار سے عالم میں اپنی مثال آپ ہے۔ جو زندگی کا مکمل دستورِ حیات ہے اور تمام خصوصیات کا حامل اور برائیوں سے دور ہے۔ وہ عملی و عمدہ بلند اخلاق و کردار سے لبریز زندگی کا مکمل نظام ہے اور یہ دونوں باہم ایسے مربوط ہیں جنہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے مسلمان سیکولر نظامِ معیشت کو قبول نہیں کرتے کیونکہ وہ جس نظام معیشت کے حامل و علمبردار ہیں وہ وحئی الٰہی سے ماخوذ ہے اور اخلاقی معیشت کا حامل ہے جو اشیاء کی قدر وقیمت کا ایک نیا مفہوم پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور مصنوعی مشینوں کی کثرت سے جو بے روزگاری پیدا ہوئی ہے اُسے دور کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ فرانسیسی مفکر ماسینیوی اس امر پر زور دیتا ہے کہ اسلام امراء کو زکوٰۃ نکال کر فقراء میں تقسیم کرنے اور سود و ربا کو حرام قرار دینے اور ان غیر سود مند ٹیکسوں کو جو ضروریاتِ زندگی سے ماوراء ہیں….. نافذ کرنے کی ممانعت کرنے سے ہی ایک مثالی شان رکھتا ہے وہ اپنے اہل و عیال کی اُلجھنوں کو دور کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح وہ کیپیٹلزم (سرمایہ دارانہ) نظام اور کمیونزم (اشتراکیت) سے ورے ایک معتدل نظام معیشت کو پیش کرتا ہے۔ لیون روشمی اپنی کتاب ’’ثلاثون عامافی الاسلام‘‘ اسلام میں ۳۰ سال میں اس کا اعتراف کرتا ہے کہ لوگ جس دین اسلام کو بدنما قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ میرے نزدیک دنیا کا افضل ترین مذہب ہے وہ فطری نظام معیشت کا حامل ہے۔ اس میں سماجی معاشی دونوں پیچیدہ مسئلہ کا حل موجود ہے۔ اس کی تعلیم ہے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کہ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ تعلیم باہمی اجتماعی تعاون کا زریں اصول ہے اسی طرح ہر مالدار صاحب نصاب پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہے بلکہ اگر کوئی اس فریضہ کے ادا کرنے میں پس و پیش کرے تو اسلامی حکومت جبراً اس سے زکوٰۃ وصول کرے گی۔ چنانچہ ایک مفکر نویس جاروی اور الی ماند شارک اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور سیاست و معاشیات کے میدان میں اس کی حکمت عملی پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک انگریزی مؤرخ مسٹر ویلز اپنی مشہور کتاب ’’ملامح تاریخ الانسایتہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یورپ اپنے انتظامی و تجارتی قوانین اختیار کرنے میں اسلام کا مرہون منت ہے کہ اس کے بیشتر قوانین اسلام ہی سے ماخوذ ہیں۔ بیرقور ایک مستشرق ہے اس کا برملا اظہار کرتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو دنیا کی دلفریبی سے فریب خوردہ نہ ہونے کی تلقین کرتا ہے، اس میں زہد و رواداری کے مابین کافی توازن پایا جاتا ہے۔ پروفیسر وسلز ریجیریکی کہتے ہیں کہ میں فن تہذیب و تمدن اور سماجیات کا ماہر ہوں، اسلام کے سماجی نظام سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں، خاص طور سے اس کے نظام زکوٰۃ و تقسیم میراث، سود کی حرمت اور ظالمانہ جنگ و جدال کی ممانعت سے متعلق قوانین نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے، میں بچپن سے اسلامی اصولوں سے آشنا بلکہ اس کا گرویدہ ہوں اور یہی میرے اسلام میں داخل ہونے کا اصل سبب ہے۔ فرانسیسی مستشرق روجیہ جاروی اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’دعود الاسلام‘‘ میں لکھتا ہے کہ اسلامی اصول و قوانین پر مبنی اس کا معاشی نظام مغربی نظام سے یکسر مختلف ہے کیونکہ مغربی نظام معیشت میں اشیاء کی پیداوار اور ان کا استعمال برابر برابر ہے یعنی پیداوار اگر کثیر ہے تو اس کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ انسانی مقاصد کے لیے مفید ہے یا مضر۔ مزید لکھتا ہے کہ اسلامی نظام معیشت کا مقصد توازن پیدا کرنا ہے، وہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور کمیونزم طرز زندگی سے یکسر جداگانہ ہے۔ وہ اندھی مشینوں کا تابع فرماں نہیں ہے بلکہ انسانی مقاصد و خدائی مقاصد کے مابین ایک مضبوط کڑی ہے۔ توماس کاریل اپنی مشہور کتاب ’’الابطال‘‘ میں اسلام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ اسلام میں ایک عمدہ و مقدس تعلیم لوگوں کے مابین مساوات کا حکم ہے، تمام لوگ اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اسلام نے صدقہ و خیرات کرنے کو صرف محبوب عمل ہی نہیں بتایا بلکہ ہر ہر مسلمان پر اسے فرض و لازم قرار دیا، آدمی کی ثروت و مالداری کو دیکھتے ہوئے اس کے جمیع مال سے چالیسواں حصہ فقیروں، مسکینوں پر خرچ کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ مشہور مفکر برنارڈشا اسلام کے اس امر سے حد درجہ متاثر ہے کہ اس نے مادی اور روحانی منافع کے مابین کیسی ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ طویل و عمیق مطالعہ کے بعد اس نے اپنی مشہور بات کہی کہ بیسوی صدی میں جو نظام یورپ میں رائج ہوا وہ اسلام میں روز اول سے موجود ہے۔ بلکہ اس سے پہلے جرمنی مفکر و دانشور جوتہ نے ببانگ دہل اس امر کا اعتراف کیا کہ اگر اسلام یہی ہے تو ہم تمام کو اس اسلام کا طوق اپنے گلے میں ڈال لینا چاہیے۔ مذکورہ بالا باتیں علماء اور دانشوران مغرب کے وہ اعتراف و شہادتیں ہیں جو اسلامی نظام معیشت اس کی عادلانہ و منصفانہ تعلیمات سے متعلق ہیں جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آج جب کہ ہم آدم اسمتھ اور کارل مارکس کی گتھیوں و تھیوریوں میں پڑے ہوئے ہیں مغرب و یورپ کے ماہرین اقتصادیات اسلامی نظام معیشت کی مدح سرائی میں ہمہ تن مصروف ہیں اور سرمایہ دارانہ کمیونزم نظام معیشت سے عاجز آکر ایک ایسے نظامِ معیشت کے متلاشی ہیں جو پوری دنیا میں قیادت کی اہلیت رکھتا ہو اور پوری انسانیت کو اپنے گھنیری چھائوں میں پناہ دینے کی بدرجہ اتم صلاحیت کا حامل ہو۔ چنانچہ انہیں اسلامی نظامِ معیشت اور اس کی تعلیمات سے آگہی ہوئی جو ان کا متاع گم گشتہ اور مطلوب و مقصودگرا مایہ و قیمتی شئے ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply