گستاخانہ امریکی فلم، عالم اسلام اور احتجاج

امریکا کی ایک گستاخانہ فلم پر اسلامی معاشروں میں جو ردعمل دکھائی دیا ہے، اس سے بہت سے مسلمان پریشان دکھائی دیے ہیں۔ بہتوں کی نظر میں احتجاج حد سے گزر گیا اور اس سے صرف مسائل پیدا ہوئے۔ یہی حال مبلغین اور واعظین کی تقاریر کا تھا۔

۱۴؍ ستمبر کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مشہور زمانہ تحریر اسکوائر میں ظہر کی نماز کے بعد ایک خطیب کھڑا ہوا اور اس نے مجمع کو مخاطب کرکے بولنا شروع کیا۔ انتہائی پرجوش انداز سے خطاب کرتے ہوئے اُس نے مسلمان بھائیوں کو صلیبی جنگجوؤں سے مقابلے کے لیے ہر قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ تیار رہنے کو کہا۔ اس تقریر کے کچھ ہی دیر بعد بڑی تعداد میں نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے کی سلامتی پر مامور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کردیا۔

گستاخانہ امریکی فلم کے انٹرنیٹ پر ریلیز کیے جانے کے بعد مسلم معاشروں میں شدید ردعمل کا پیدا ہونا کوئی حیرت انگیز امر نہ تھا۔ مگر ایک بات ضرور محسوس کی گئی کہ جمعہ کی نماز کے بعد قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں فلم کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی جبکہ اسی اسکوائر میں ہزاروں، بلکہ لاکھوں افراد کا جمع ہونا معمول رہا ہے۔ قاہرہ کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے مگر ان میں چند سو ہی گستاخانہ امریکی فلم کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئے۔ باقی اپنے کام میں مصروف رہے۔

مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں اتحادی سلفیوں کی بات انہیں ماننا پڑ رہی ہے۔ ملک کے نئے آئین میں توہین رسالت کے حوالے سے سخت الفاظ اور اقدامات شامل کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تمام انبیاء، ان کی ازواج مطہرات، چاروں خلفاء اور دیگر صحابہ کی توہین جرم قرار پائے گی اور مجرم قرار پانے والے کو تعزیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم اکثریت والے چھ ممالک میں یوٹیوب وڈیو سروس کے مالک ادارے گوگل کو امریکی فلم کے خلاف شدید احتجاج کے بعد یو ٹیوب سروس بند کرنا پڑی۔

امریکی فلم پر شدید احتجاج کو دیکھتے ہوئے چند ایک حکومتوں نے قدرے متوازن رویہ اپنانے کی کوشش کی ہے۔ قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی پر مبنی فلم کی تیاری پر ۴۵ کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔ مصر کے مفتیٔ اعظم نے اعلان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے ’’محمد کو جانیے‘‘ (Know Muhammad) مہم شروع کی جائے گی۔

گستاخانہ امریکی فلم کے حوالے سے جو احتجاج سامنے آیا ہے اس نے سیاست میں مذہب کے در آنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ مصر میں ایک عالم نے گستاخانہ امریکی فلم پر ردعمل کے دوران بائبل کا نسخہ نذر آتش کرکے عیسائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کے خلاف مصر ہی کے لوگوں نے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ لبنان کی طاقتور شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے امریکی فلم کے خلاف ایک بڑی ریلی کی قیادت کی اور اپنی تقریر کے ذریعے لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر اُکسایا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ امریکی فلم کے خلاف احتجاج کی آڑ میں حسن نصراللہ لبنان کی سُنّی آبادی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض ناقدین حسن نصر اللہ کے اقدامات کو منافقت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حسن نصر اللہ انبیاء کی توہین سے متعلق امریکی مواد کی تو مخالفت کر رہے ہیں مگر شام میں بشار انتظامیہ اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہے تو اُس کے خلاف ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔ یو ٹیوب پر ایسی فوٹیج بھی موجود ہے جس میں شامی فوجیوں کو مساجد شہید کرتے اور قیدیوں کو یہ کہنے پر مجبور کرتے دکھایا گیا ہے کہ کوئی خدا نہیں، صرف بشار الاسد ہے!

امریکی فلم کے خلاف پایا جانے والا اشتعال اب ذرا سرد پڑا ہے تو مسلم معاشروں میں توہین رسالت اور دیگر متعلقہ معاملات اور اسلامی دنیا و مغرب کے درمیان ثقافتی اور معاشرتی فرق کے بارے میں بھی زیادہ غور کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا اور بلاگ پوسٹنگز میں اپنے آپ پر تنقید کا رویہ اپنایا ہے۔ مصر میں ایک شخص نے انٹرنیٹ پر لکھا کہ جب امریکی فلم کے خلاف احتجاج شروع ہوا تب اس فلم کو صرف ۵۰۰ لوگوں نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا۔ اب اسے دیکھنے والوں کی تعداد تیس لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔

لبنان کے ناول نگار الیاس الخوری (Elias Khoury) نے لندن کے اخبار القدس العربی میں لکھا کہ امریکی فلم سازوں نے تو صرف ٹریلر پیش کیا۔ اصل تماشا تو خود مسلمان بن گئے۔

(“Islam & the Protests”… “The Economist”. Sep. 22nd, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*