
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی معرکۃ الآراء کتاب ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ (این الخلل؟) ’’معارف فیچر‘‘ میں قسط وار شائع کی گئی۔ قارئین نے اسے بہت سراہا جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ کا آخری باب ملاحظہ فرمائیے۔ یوں یہ کتاب مکمل ہو گئی:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کچھ اَٹل قوانین مقرر فرمائے ہیں جن کو سنتِ الٰہی کہا جاتا ہے۔ یہ خدائی ضابطے جس طرح آدم علیہ السلام کی اگلی نسلوں میں نافذ تھے، ٹھیک اسی طرح ان کے بعد کی نسلوں میں بھی جاری اورنافذ ہیں۔ سنتِ الٰہی کا معاملہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ یہ قوانینِ الٰہی کبھی اور کسی کے معاملے میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًاo (الفاطر: ۴۳)۔ ’’تم اللہ کی سنت میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پائو گے، اور تم اللہ کی سنت کو ٹلتی ہوئی ہر گز نہ دیکھو گے‘‘۔
اگر ہم ماضی و حال میں سنتِ الٰہی کی کارفرمائیوں کاجائزہ لے کر دیکھیں تو مستقل ہمیں غلبۂ اسلام کی متعدد بشارتیں ملتی ہیں۔ جب ہم دنیا میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات اور حالات کی بدلتی ہوئی کروٹوں کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ جوکچھ ہو رہا ہے وہ امت مسلمہ اور داعیانِ اسلام کے حق میں نیک فال ہے اور آخرکار ان سب کا فائدہ اسلام کو پہنچے گا۔ اس کائنات میں جاری سنتِ الٰہی کے ضابطوں میں سے بعض کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
قوموں کا عروج و زوال:
اس کائنات میں کار فرما الٰہی قوانین میں سے ایک اہم قانون، اقوام و ملل کے عروج و زوال کا ہے۔ اس سنتِ الٰہی کی توثیق اس آیت سے ہوتی ہے جس میں مسلمانوں کو غزوۂ احد کی عارضی شکست پر تسلی دی گئی ہے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اقوام و ملل کے باب میں اپنی سنت ثابتہ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِج وَ لِیَعْلَمَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَط…
(آل عمران: ۱۴۰)۔
’’اگر تمہیں زخم لگا تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمہارے فریق مخالف کو بھی لگ چکا ہے یہ تو گردش زمانہ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان ادل بدل کر لاتے رہتے ہیں اور ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لینا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ کر الگ کر لینا چاہتا تھا جو واقعی حق کے گواہ ہوں‘‘۔
یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔پوری دنیا میں تغیر اور تبدیلی کا عمل انتہائی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ کتنی قومیں اور افراد ایسے ہیں جن کی عزت و سرفرازی کا کبھی ڈنکا بجتا تھا، آج وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس کتنی ہی پست و حقیر قوموں کے سر پر عزت و وقار کا تاج رکھا جارہا ہے۔ کتنی ہی خوشحال زندگیاں تنگ حالی و بدحالی کا شکار ہو گئیں اور کتنے ہی تنگ حال و پریشان حال لوگ فارغ البالی و خوشحالی سے شادکام ہو رہے ہیں:
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo
(الم نشرح: ۵۔۶)
’’پس یقینا تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بلاشبہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔
سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًاo
(الطلاق: ۷)
’’عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی پیدا کردے گا‘‘۔
جن لوگوں کی نظر اقوام عالم کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ تہذیب و تمدن کی شمع یا اقتدار اور حکومت کی کنجیاں کبھی ایک قوم یا فرد کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ایک قوم سے دوسری قوم اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت اقوام عالم کے درمیان تبدیلی کا یہ الٰہی ضابطہ ہمارے خلاف نہیں بلکہ ہمارے حق میں ہے، جیسا کہ امام حسن البناءؒ کا قول ہے کہ ’’اب گردشِ دوران ہمارے موافق ہے، ہمارے مخالف نہیں ہے‘‘۔
اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے زمانہ قدیم میں فرعونی، آشوری، بابلی، کلدانی، فینیقی، ایرانی، ہندوستانی اور چینی تہذیبوں کے غلبہ و تسلط کے باعث دنیا کی قیادت و سیادت مشرقی اقوام کے ہاتھوں میں تھی۔ پھر جب یونانی تہذیب اپنے ایک خاص فکر و فلسفے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور ساتھ ہی رومی تہذیب ایک مخصوص نظامِ حکمرانی کے ساتھ دنیا میں جلوہ گر ہوئی تو ساری دنیا میں ان دونوں تہذیبوں کے غالب آجانے کے نتیجے میں مغربی اقوام، دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز ہو گئیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ طلوع اسلام کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور عربی تہذیب و ثقافت کا بول بالا ہوگیا۔ اس طرح عالمی قیادت ایک بار پھر مشرق کے حصے میں آگئی۔ اسلامی تہذیب دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اس لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس کے اندر سائنس، ایمان و عقیدہ، مادی ترقی اور روحانی بلندی، الغرض سب کے لیے گنجائش پائی جاتی ہے۔ لیکن جب عالمِ شَرق پر مجرمانہ خوابیدگی طاری ہوئی اور وہ اپنے اصل مشن سے غافل ہو گیا تو انجام کار مغرب نے اُس سے زمامِ اقتدار چھین لی اور اس طرح عالمی قیادت پر مغربی اقوام کا دوبارہ قبضہ ہوگیا۔ لیکن مغرب اس امانت عظمیٰ کا حق ادا نہ کر سکا اور بری طرح روحانی و اخلاقی انحطاط کا شکار ہو گیا جس کا لازمی انجام یہ ہوا کہ مغرب نے دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون چلا دیا۔ چنانچہ اعلیٰ اخلاقی قدریں ذاتی مفادات کے مقابلے میں دَب کر رہ گئیں۔ مادیت، روحانیت پر غالب آگئی۔ انسان کی حیثیت اور قدر و قیمت حیوانات و جمادات کے مقابلے میں کم تر ہو گئی۔ انسانی مسائل کے حل کے سلسلے میں دہرا معیار رائج ہو گیا۔ قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے جب سنتِ الٰہی کے مطابق دنیا کی قیادت اور سربراہی نااہل لوگوں سے چھین کر کسی اور کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
تاریخی شواہد سے اس بات کا واضح اشارہ مل رہا ہے کہ تہذیب و تمدن کی شمع پھر مشرق کے ہاتھوں میں آنے والی ہے۔ کیونکہ مشرقی دنیا کے پاس اسلام کا ایک ایسا زندہ پیغام ہے جو مغرب کے پیغام سے بالکل مختلف، منفرد اور ممتاز ہے۔ مغرب نے اپنی بے خدا تہذیب کے ذریعے دنیائے انسانیت کو روحانی کرب اور اخلاقی بے راہ روی کی جس دلدل میں پھنسا دیا ہے، صرف اسلام کا طاقتور اور روحانی پیغام ہی اسے اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مشرقی دنیا کے لوگوں کو اپنی اس حیثیت کا صحیح ادراک ہو اور وہ دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے پوری تیاری کریں اور اپنے اندر اس بارِ گراں کو اٹھانے کی اہلیت پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
عَسٰٓی رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَo
(الاعراف:۱۲۹)۔
’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے۔ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَo
(الانبیاء:۱۰۵)
’’اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے‘‘
ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر عالمی قیادت کا پہیہ مغرب سے گھوم کر مشرق کی طرف آجائے تو یہ کوئی تعجب خیز بات نہ ہوگی حالانکہ مغرب کو اس وقت دنیا کے سارے علوم و فنون میں مہارت اور ہر قسم کا غلبہ و اقتدار حاصل ہے، جبکہ مشرق بالکل پسماندہ اور درماندہ ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مغرب کی فکری و عملی زندگی پر مادیت بُری طرح چھائی ہوئی ہے اور مغربی معاشرہ اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی میں سر سے پائوں تک ڈوبا ہوا ہے۔ اور سنت الٰہی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب، اخلاقی قدروں کو پامال کر کے دیر تک باقی نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی قدروں پر جب تک ایمان و عقیدہ سایہ فگن نہ ہو، اس وقت تک نہ ان کی نشوونما ہو سکتی ہے اور نہ وہ انسانی معاشرے میں کوئی مؤثر کردار ہی ادا کر سکتی ہیں۔
یہ چند برس قبل ہی کی بات ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت (سوویت یونین) بغیر کسی قابل ذکر علامت کے زوال کا شکار ہو گئی، جب کہ اس کے پاس لاتعداد ایٹمی اور بے پناہ اسٹریٹجک ہتھیار تھے اور اسے ہوش ربا فوجی و اقتصادی قوت بھی حاصل تھی۔ ان سب ظاہری قوتوں کے باوجود چونکہ اس کے باطن میں اس کی تباہی کا سامان پیدا ہو چکا تھا اور اس کی مادّی تباہی سے قبل اس کی روحانیت پامال ہو چکی تھی۔ اس لیے دنیا کی یہ دوسری بڑی طاقت، سنتِ الٰہی کے اَٹل قانون کی زَد میں آگئی اور اپنے آپ کو زوال سے نہ بچا سکی۔
تبدیلیٔ احوال کا قانون:
اس کائنات میں کار فرما الٰہی سنتوں میں سے، جن کو اس وقت ہم مسلمان کے حق میں پا رہے ہیں اور انہیں ہم غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں شمار کرتے ہیں، ایک قوموں اور افراد کے حالات کی تبدیلی کا الٰہی ضابطہ بھی ہے۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس سنت الٰہی کو بیان کیا ہے کہ جب لوگ خیر کو چھوڑ کر شر اختیار کر لیتے ہیں، بنائو کے بجائے بگاڑ کے کام کرنے لگتے ہیں اور ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دینے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے ضابطے اور سنت کے مطابق ان کی خوشحالی کو بدحالی سے، طاقت کو ضعف سے، عزت کو ذلت سے اور ان پر جاری اپنی نوازشوں کو اپنے غضب اور عذاب سے بدل دیتے ہیں۔ قرآن میں آلِ فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا انجام بیان کرنے کے بعد، اسی سنتِ الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے:۔
’’یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ آل فرعون اور اُن سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، وہ اِسی ضابطے کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا، تب ہم نے اُن کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے‘‘۔
(الانفال:۵۳۔۵۴)
اب وہ وقت آگیا ہے کہ سنتِ الٰہی کا نفاذ مغربی تہذیب کے علم برداروں پر ہو، جنہیں اللہ تعالیٰ نے رُوئے زمین پر قوت و اقتدار بخشا، اس کی ساری قوتوں کو اُن کے لیے مسخر کر دیا، اُن پر سارے علوم و فنون کے دروازے کھول دیے اور انہیں رزق کی فراوانی سے ہم کنار کیا۔ لیکن اہل مغرب نے اللہ کی نعمتوں کو پاکر زمین میں سرکشی کی اور اسے بگاڑ اور فساد سے بھر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قیادت و سربراہی کی جو امانت اُن کے حوالے کی تھی، انہوں نے اُس کا حق ادا کرنے کے بجائے اُس میں خیانت کی۔ مختصراً یہ کہ وہ اِس کے سزاوار ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے معاملے میں اپنی سنت کو بروئے کار لائے اور دنیا کی قیادت کا منصب اُن سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دے۔
اس سنتِ الٰہی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کے بغیر یہ سنت مکمل نہیں ہوتی۔ اس کا ظہور اُس وقت ہوتا ہے جب جانشینی کے منتظر لوگ اپنے اندر اور اپنے طرزِ عمل میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ جب اُن کی اس تبدیلی کا رجحان شر سے خیر، گمراہی سے ہدایت، انحراف سے استقامت، بگاڑ سے بنائو، کسل مندی سے عمل اور رذائل اخلاق سے اعلیٰ اخلاق کی طرف ہو جاتا ہے، تو وہ اِس ضابطۂ الٰہی کی رُو سے اِس بات کے مستحق ٹھہرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی بدحالی کو خوشحالی، کمزوری کو قوت و شوکت، ذلت کو وقار و عزت، ہزیمت کو فتح و نصرت اور حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دے۔ جس طرح وہ اپنی بداعمالیوں کے سبب سے اس دنیا میں دوسروں کی نگاہ میں بے حیثیت اور بے وزن ہو گئے تھے، اب انہیں اسی دنیا میں اقتدار و تمکنت عطا کرے۔
اِنَّ اﷲَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ
(الرعد:۱۱)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
سنتِ الٰہی کا یہ وہ پہلو ہے جس سے ہم مسلمانوں کے دلوں میں یہ امید جاگزیں ہوتی ہے کہ ہماری حالت بھی ایک دن لازماً بدلے گی اور اس میں بہتری آئے گی۔ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ جب سے احیائے اسلام کا عمل شروع ہوا ہے، بیشتر مسلمانوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ وہ اپنی روزمرہ زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی احکام سے ناواقفیت پر قانع ہونے کے بجائے ان کے اندر اسلامی افکار سے واقف ہونے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ اسلامی تعلیم سے دانستہ یا نادانستہ فرار کی زندگی گزار رہے تھے، اب وہ اسلامی ہدایات کی پابندی میں ذہنی و قلبی اطمینان پاتے ہیں۔ جو کبھی اپنے آپ میں مگن تھے اور امت کے مسائل و معاملات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی، وہ اس کے مسائل کو حل کرنے کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ نوجوان جو دنیوی لذتوں اور خواہشات نفس کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے، اب وہ احیائے اسلام کے عمل میں لگ گئے ہیں اور انہوں نے دین اسلام اور اس کے مقدسات کے دفاع کے لیے جدوجہد اور قربانی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح عورتوں میں پردے کا اہتمام بڑھ رہا ہے اور مسجدیں، جو کبھی نمازیوں سے خالی ہوتی تھیں، اب نمازوں کے علاوہ بھی دینی تعلیمات کے پروگراموں کے سبب بھری نظر آتی ہیں۔
یہی وہ اعمال و آثار ہیں جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے اندر مجموعی طور پر بڑی حد تک تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے عدل اور اس کی سنت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کو یوں ہی بے یارو مددگار نہ چھوڑ دے، بلکہ اس کی اس گہری نفسیاتی اور عملی تبدیلی پر اسے اپنے بھرپور صلے سے نوازے اور اس کی بدحالی و زبوں حالی کو خوشحالی و سرفرازی سے بدل دے اوراس کے جملہ حالات کو سنوار دے۔
آج یہ ضروری ہے کہ شعاعِ امید سے ہر مسلمان کا سینہ روشن ہو، اس کی روشنی اس کے دل میں پہنچ گئی ہو، یاس و قنوطیت کے بادل چھٹ گئے ہوں، دلوں میں یہ شعور و احساس جاگزیں ہو کہ نصرتِ الٰہی ہر آن اس کے مومن بندوں سے قریب ہو رہی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کے گرد سازشوں کا جال بُنا جارہا ہے اور اسلام پر کبھی انتہا پسندی، کبھی دہشت گردی اور اکثر و بیشتر بنیاد پرستی کے نام سے رکیک حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت امت مسلمہ کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہر طرف علانیہ اقدامات اور خفیہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کی غفلت اور ان پر مسلط حکمرانوں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ کے روشن مستقبل اور اسلامی بیداری اور دعوت اسلامی کی کامیابی کے امکانات کم نہیں۔
اگر انیسویں صدی سرمایہ داری کی صدی تھی اور بیسویں صدی اشتراکیت کی صدی تھی، تو اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انیسویں صدی مسیحیت کی صدی تھی اور بیسویں صدی یہودیت کی صدی تھی کہ اسی بیسویں صدی میں یہودیت کو ۲۰ سے زائد عرب ملکوں اور ۴۰ سے زیادہ اسلامی ملکوں پر غلبہ حاصل ہوا۔ لیکن اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی۔ ان شاء اﷲ!
ہم جب بحیثیت دین و مذہب کے یہودیت و مسیحیت کے مقابلے میں اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں یا بحیثیت ایک نظامِ حیات کے سرمایہ داری اوراشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کا جائزہ لیتے ہیں، تواسلام ہر دو پہلوئوں سے ممتاز اور نمایاں نظر آتا ہے۔ اسلام اپنے آپ میں ایک ایسا منفرد دو یکتا مذہب ہے، جس کے مزاج میں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلام کے اندر اپنی ملت کو زندہ رکھنے اور اپنی دعوت کو پھیلانے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ آج دنیا کو اسلام کی سخت ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ آج پوری دنیا میںعدم توازن کے باعث ہر سطح پر فساد اور بگاڑ پھیلا ہوا ہے۔ دنیائے انسانیت کو اس بگاڑ اور فساد سے نجات کے لیے ایک متوازن اور صالح نظام کی ضرورت ہے اور وہ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف جرمن نومسلم اسکالر ڈاکٹر مراد ہاف مین نے اپنی مشہور کتاب ’’اسلام بیسویں صدی میں‘‘ میں بڑے پُراعتماد لہجے میں کیا ہے کہ اب اسلام کے سامنے اس کے پورے مواقع ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں اولین حیثیت کا مذہب بن کر ابھرے گا۔
ایک سابق امریکی کانگریس مَین جیمس میران نے بھی یہی بات کہی ہے۔ انہوں نے امریکیوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں صحیح واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام امن و سلامتی اور رواداری کا دین ہے۔ یہ لوگوں کو محنت و مشقت اور جدوجہد پر ابھارتا ہے اور نظم و ضبط کو پسند کرتا ہے۔ اس کے چشمۂ صافی سے محبت و ہمدردی کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ وہ نہ صرف حضرت محمدﷺ کو تاریخ کا ایک عظیم ترین انسان تصور کرتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے خیال میں تمام اقوام کے لیے ضروری ہے کہ محمدﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات سے بخوبی واقف ہوں۔ لیکن افسوس کہ دو سبب سے ایسا نہ ہو سکا:۔
☼ پہلا سبب یہ ہے کہ غیر مسلموں نے ان تعلیمات کے سلسلے میں تعصب و تنگ نظری اور جانبداری و جہالت کا رویہ اختیار کیا۔
☼ دوسرا اہم اور بڑا سبب یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے بھی دین اسلام سے اغیار کو کماحقہ روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی۔
جمیس میران کہتا ہے کہ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اکیسویں صدی اسلام کی صدی ہوگی اور اس صدی میں اسلامی تہذیب و ثقافت کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوگا اور یہی وہ وقت ہوگا جب دنیا کے چپے چپے کو اسلام کے زیر سایہ امن و سلامتی اور خوشحالی و فارغ البالی سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملے گا۔
فلسفہ عمرانیات کا نقطہ نظر:
ماہرین عمرانیات اس بات کے قائل ہیں کہ آج جو چیزیں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگئی ہیں، ماضی میں ان کی حیثیت محض خواب و خیال کی تھی۔ آج ہم جس چیز کو خواب اور ناممکن سمجھ رہے ہیں، وہ بھی مستقل میں حقائق کا روپ دھار لے گی۔ یہ ایک ایسا نقطۂ نظر ہے جس کی تائید پیش آمدہ واقعات سے بھی ہوتی ہے اور منقطی دلائل و براہین بھی اس کے حق میں ہیں، بلکہ یہی وہ ارتقائی عمل ہے جس سے انسانیت درجہ بدرجہ منزلِ کمال کو پہنچتی ہے۔ آج ہمارے سامنے جو ایجادات و انکشافات ہو رہے ہیں ان کے وجود میں آنے سے چند سال پہلے تک کون یقین کر سکتا تھا کہ سائنس دان یہاں تک پہنچ جائیں گے، بلکہ خود اساطینِ علم و فن بھی اپنے ابتدائی دَور میں انہیں انہونی خیال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب حقائق نے انہیں ثابت کر دکھایا اور دلائل نے ان کی تائید کردی۔ اس کی مثالیں بے شمار اور اتنی واضح ہیں کہ ان کے تذکرے کی چنداں ضرورت نہیں۔
تاریخ کی گواہی:
تاریخ کے اوراق بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ جتنی قومیں تعمیر و ترقی کے بامِ عروج پر پہنچتی ہیں، سب نے ابتداً انتہائی ضعف کی حالت میں قدم آگے بڑھایا اور بظاہر ان کا اپنے منتہائے مقصود کو پالینا ایک امر محال تھا، مگر صبر و ثبات و حکمت اور پیہم جدوجہد نے معمولی حیثیت اور قلیل وسائل کی حامل ان قوموں کو عظمت و سربلندی کی منزلوں پر پہنچا دیا۔
اگر جزیرۃ العرب کا جائزہ لیا جائے تو کیا کوئی یہ یقین کر سکتا تھا کہ اس خشک اور بے آب و گیاہ سرزمین سے ایک دن نور و عرفان کے سُوتے پھوٹیں گے اور اسے دنیا کے ایک بڑے حصے پر روحانی و سیاسی غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی عرصۂ دراز تک صلیبی یلغار کے سامنے ایک مردِ آہن بن کر کھڑا رہے گا۔ اس نے سلاطینِ یورپ کو ان کی کثرتِ تعداد اور فوجی کروفر کے باوجود پسپائی پر مجبور کر دیا، حالانکہ ۲۵ بڑے ملکوں کے سربراہان اس کے خلاف صف آراء تھے۔ موجودہ دَور سے بھی ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
کامیابی کا واحد راستہ جدوجہد:
راستہ خواہ کتنا ہی طویل ہو اور خواہ کتنے ہی مسائل کا سامنا ہو مگر قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی کا واحد راستہ جدوجہد ہی ہے۔ تجربے نے بھی اس نقطۂ نظر کو درست ثابت کیا ہے۔
دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے سامنے یہ تصور ہمیشہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ کام کر کے دراصل وہ اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں۔ پھر دوسرے درجے میںاس عمل کے ذریعے سے اجرِ آخرت کا حصول ان کا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ ان دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد کو تیسرے اور آخری درجے میں رکھنا اس جدوجہد کا تقاضا ہے۔
اگر اس نقطۂ نظر سے دعوت الی اللہ کا کام کیاجائے توگویا ذمہ داری ادا کر دی گئی اور اگر اخلاص و للّٰہیت اور بے نفسی کی مطلوبہ شرائط کے ساتھ اس کارِ عظیم کو انجام دیا جائے تو اس میں شک نہیں کہ اللہ کے یہاں اس کام کے اجر و انعام اور اس کارِ دعوت کے ممکنہ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ لیکن کون سافائدہ کب اور کس شکل میں ظاہر ہوگا، اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بسا اوقات کسی مرحلے میں اس دعوتی جدوجہد کے ایسے عظیم اور بابرکت ثمرات ظاہر ہو سکتے ہیں جن کا پیشگی اندازہ نہیں ہوسکتا۔
اگر دعوتی ذمہ داریوں سے غفلت برتی جائے تو ہم گناہ کے مرتکب ہوں گے اور دعوتی جدوجہد کے اخروی انعام کو بھی نہ پاسکیں گے اور اس کے دنیوی فائدوں سے بھی یقینا محروم رہ جائیں گے۔ اب یہاں فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ان دونوں میں کون سا طرزِ عمل حسن انجام کا مستحق ہے۔ قرآن کریم نے اِس بات کو بڑے عمدہ اور واضح انداز میں پیش کیا ہے:
’’اور انہیں یہ بھی یاد دلائو کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو، جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ: ’’ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں‘‘۔ آخر کار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے، اور باقی سب ظالموں کو جو ظالم تھے اُن کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا‘‘
(الاعراف: ۱۶۳۔۱۶۵)
عملی تقاضے:
اسلام کے غلبے سے متعلق جن بشارتوں کو پیش کیا گیا ہے، ہم ان ہی پر تکیہ کر کے بے فکری سے سو نہ جائیں۔ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم ان بشارتوں کو جاننے کے بعد آرام طلبی اور کسل مندی کو اپنا شیوہ بنائیں اور کسی طرح کی جدوجہد اور مجاہدانہ کوشش کے بغیراس کا انتظار کریں کہ ہمارے اوپر نصرتِ الٰہی کا نزول ہوگا۔ یہ بشارتیں توہم سے اپنی زندگیوں میں ہر پہلو سے انقلابی جدوجہد اور عملِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہیں۔
۱۔ اپنے تہذیبی ورثے سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا اور اسے اپنے لیے رہنما بنانا چاہیے۔ لیکن اسے رسوم و روایات کی ایسی زنجیر نہیں بننے دینا چاہیے جو ہمارے قدموں کو شَل کر دے اور ہماری پیش رفت کے لیے سدِّراہ بن کر رہ جائے۔
۲۔ حکمت و دانائی کی باتیں جہاں کہیں سے بھی حاصل ہوں، ان کو بے تکلف لے لیں اور اس کی فکر ہر گز نہ کریں کہ ان کا مصدر و منبع کیا ہے۔ ہم اپنے آپ کو کسی ایک اسلامی مکتبِ فکر کا پابند نہ بنائیں اور نہ کسی مسلک کی اس طرح پیروی کرنے لگیں کہ اس کے اسیر بن کر رہ جائیں۔ بلکہ ہم متفق علیہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں سارے ہی مکاتب فکر اور مسالک و مذاہب سے استفادہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمیشہ مشتبہات کے بجائے محکمات، ظنیات کے بجائے قطعیات، جزئیات کے بجائے کلیات اور فروع کے بجائے اصول کو اساس قرار دیں۔
۳۔ ہمیں مغربی افکار و نظریات اور اہلِ مغرب کے تجربات سے بھی نفع بخش چیزیں اخذ کر کے انہیں اپنے معیار، ضروریات اور حالات کے پیش نظر اس طرح ڈھالنا چاہیے کہ وہ ہمارے ماحول سے بالکل ہم آہنگ ہو جائیں اور ہمارے نظامِ حیات کا جزو بن جائیں۔ ایسا کرنے میں ہمارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے، جہاں کہیں بھی وہ اسے پاتا ہے لوگوں میں سب سے زیادہ اس کا حق دار وہی ہوتا ہے۔
۴۔ اب ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم پسماندگی کی قید سے آزاد ہو کر تمدن و ترقی کی وسعتوں میں قدم رکھیں اور معاشی، انسانی، مادّی و روحانی، ہر سطح پر حقیقی معنوں میں ترقی کریں۔ اپنی ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو انسان اور زندگی کی ہمہ جہت ترقی کے لیے وقف کردیں، جن کا بڑا حصہ اب تک ہم ضائع کرتے رہے ہیں یاکم ازکم معطل تو ان کو کر ہی رکھا ہے۔ ان قوتوں کو مجتمع کرنے اور انہیں تقویت پہنچانے کے لیے ہمیں خود اسلام کو ایک بڑے محرک کی حیثیت سے اختیار کرنا ہوگا اور صحیح معنوں میں ان طاقتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے عام جدوجہد کے مقابلے میں اس کی دس گنا قوت کا استعمال ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میدانِ جہاد کے ضمن میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِئَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّئَۃٌ یَغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَo
(الانفال: ۶۵)
’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو، اگر تم میں سے بیس (۲۰) شخص ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (۲۰۰) پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں سے سو (۱۰۰) آدمی ہوں تو وہ ہزار (۱۰۰۰) کافروں پر غالب ہوں گے کیونکہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے ہیں‘‘۔
۵۔ قرآن کریم نے اس بات کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ نصرتِ الٰہی کا ظہور ہمیشہ مومن گروہ کے ذریعے سے ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے سے اس کا اتمام بھی ہوتا ہے اور یہ چیز صرف مومنین کے لیے مخصوص ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے:
ہُوَ الَّذِیَ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَo
(الانفال: ۶۲)
’’وہی وہ ذات ہے جس نے اپنی مدد اور مومنوں کے ذریعے سے تمہاری تائید فرمائی‘‘
۶۔ ہمیں اس بات کی توقع ہر گز نہیں رکھنی چاہیے کہ غزوۂ بدر، غزوۂ احزاب اور غزوۂ حنین میں جو فرشتے آسمان سے اترے تھے، وہ آج ایسے لوگوں پر بھی اتریں گے جن کے قلوب ایمانی حرارت سے خالی ہیں اور جن کی زندگیاں اسلامی اخلاق اور مومنانہ اعمال سے بالکل بے بہرہ ہیں۔
۷۔ کسی پیغام یا دعوت کی کامیابی کا انحصار محض اس کی ذاتی خوبیوںپر نہیں ہوا کرتا بلکہ بڑی حد تک اس کی کامیابی کا انحصار پیروئوں اور متبعین کے عمل اور کردار پر ہوتا ہے۔ اسی طرح حق کی سربلندی تنہا حق کے سبب نہیں ہوتی ہے بلکہ سنت الٰہی یہ ہے کہ داعیانِ حق کی ایک ایسی جماعت اسے بلندیوں پر پہنچاتی ہے جو علم و عمل اور اخلاص کے جوہر سے آراستہ ہو۔
۸۔ وہ قوم کبھی اپنے دشمنوں پر غالب نہیں آسکتی ہے جو خود اپنے شریف عناصر سے برسرپیکار ہو اور اپنے ہی سپوتوں کو نکیل ڈالنے کے لیے کوشاں ہو۔ یہاں میری مراد اسلامی عناصر سے ہے۔ یہ عزم و ارادے کے پکے اور پاکیزہ اخلاق کے حامل ہیں۔ یہ قومی اوراجتماعی مقاصد کے لیے دوسرے گروہوں کے مقابلے میں سب سے بڑھ کر مالی و جانی قربانیاں دینے والے لوگ ہیں۔ بحیثیت امت اس صالح عنصر کو پذیرائی ملنی چاہیے۔
۹۔ ایک ایسی قوم کا اپنے دشمنوں پر غلبہ پانا امرِ محال ہے جس کی دلچسپیوں کا بڑا حصہ کھیل تماشوں کی نذر ہو جاتا ہو اور جس کے اخبارات کا بڑا اور اہم حصہ اور جس کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا طویل اور اہم ترین وقت ناچ گانے اور بے ہودہ ڈراموں کے لیے مختص ہو۔ جس قوم کا سماجی اور اجتماعی مزاج اتنا فاسد ہوگیا ہو کہ اس کے درمیان علماء و مفکرین، اہلِ دانش و بینش اور قیادت و رہنمائی کی صلاحیت رکھنے والوں کے بجائے فلمی اداکاروں اور کھلاڑیوں کو عزت و توقیر سے نوازا جارہا ہو، تو بھلا ایسی قوم اپنے دشمن کو کیسے زیر کر سکتی ہے۔
۱۰۔ مقتدر اشخاص کی، جو ملت اسلامیہ کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں اور جن کا امت کے معاملات و مسائل میں ایک مؤثر کردار ہے، ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون سے ملت کو ہر میدان میں اوپر اٹھانے اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے سعی و جہد کریں۔ ان سب کاموں کی تکمیل کے لیے ایک مستحکم منصوبہ بندی اور مستقل گہری نظر کی ضرورت ہے۔
۱۱۔ خود ملتِ اسلامیہ کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے دیرینہ امراض کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لے اور دقت نظری کے ساتھ اسباب و علل کا تجزیہ کرے۔ پھر اس یقین کے ساتھ کہ اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے، ان کے علاج کی فکر کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ کامیاب علاج کے لیے مرض کی درست تشخیص اور مناسب دوا کا استعمال، دونوں ضروری ہیں۔
۱۲۔ امت مسلمہ کو معاشی منصوبہ بندی اور اسراف سے بچانے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ دولت و ثروت کی عادلانہ تقسیم کی طرف توجہ دی جائے کیونکہ اس کے بغیر سرمائے کی گردش صحیح طریق پر ممکن نہیں۔
۱۳۔ ملت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سماجی اور اجتماعی پہلو پر بھی توجہ دے۔ افراد کے درمیان جذبۂ اخوت و محبت کو پروان چڑھائے اور سماج کے مختلف طبقات کے مابین تعاون کی اور مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کرے۔ اغنیاء اور فقراء کے درمیان فاصلہ کم کرکے ان میں قربت پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ باہمی میل جول عام ہو سکے۔ اسی طرح عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے حقوق کا خیال رکھے اور خاندانی نظام کو ایسی ٹھوس بنیادوں پر قائم کرے کہ امن و سکون قائم ہو اور محبت و رحمت ہمیشہ اس پر سایہ فگن رہے۔
۱۴۔ ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ عقلی اور ثقافتی پہلو پربھی توجہ دے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ جتنی جلد ممکن ہو تعلیم و تربیت، ثقافت اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں جس فکری یلغار سے سابقہ ہے، اس سے اور ثقافتی اور تمدنی استعمار کے نقوش و اثرات سے آزادی حاصل کرے کیونکہ ان ہی اسباب کے ذریعے سے انسانی ذہن کی تربیت ہوتی ہے اور عام لوگوں کے نفسیاتی اور فکری رجحانات درحقیقت ان ہی کے ذریعے سے نشوونما پاتے ہیں۔
۱۵۔ سیاسی پہلو سے بھی امت مسلمہ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی محاذ پر سب سے پہلے استبداد اور سرکشی پر مبنی نظام کا مقابلہ کر کے اس کا خاتمہ کرنا ہوگا اور پھر اس کی جگہ شورائی نظام کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ہوگا۔ انسانی حقوق کے لیے ایک واضح پالیسی مرتب کرنا ہوگی اور لوگوں کی تربیت کا ایک ایسا جامع نظام وضع کرنا ہوگا جس میں اصلاً باہمی نصیحت و خیر خواہی اور فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی روح کارفرما ہو۔ جو شخص کسی برائی کو بزور قوت دور کر سکتا ہو تو وہ اس کو دور کرے۔ جو صرف زبان سے اس پر اظہارِ نکیر کر سکتا ہے تو اس حد تک وہ اپنے فرض کو انجام دے۔ یاد رکھیے کہ برائی کودل سے بُرا جاننا عجز و بے بسی کی علامت ہے۔
۱۶۔ ضرورت ہے کہ ایسا واضح دستور وضع کیاجائے جس میں حقوق و فرائض تفصیل سے بیان کیے گئے ہوں اور ہر ایک کی ذمہ داریوں کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا گیا ہو اور ہر ذمہ دار (Authority) کی حدود واضح ہوں تاکہ ادارہ جاتی حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔ اس دستور میں ہر انسان کے لیے یکساں طور پر عزت و احترام، آزادی اور ذمہ دارانہ منصب کے حصول کے جواز کی ضمانت دی گئی ہو۔ دستور کی رو سے اگر کسی کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل ہو تو وہ محض تقویٰ اور خوفِ الٰہی کی بنیاد پر حاصل ہو۔
بلاشبہ غلبۂ اسلام کی بشارتوں کے ذریعے سے ہمارے اندر ایک نئی قوت اور نیا عزم و حوصلہ پیدا ہونا چاہیے تاکہ ہم امت کی ضرورتوں کے مطابق ہر سطح پر مزید جدوجہد اور سرگرم عمل ہونے کا مظاہرہ کر سکیں۔ امت مسلمہ کو ہر گز اس کی توقع نہیں رکھی چاہیے کہ اس کی موجودہ بدحالی و بداعمالی کے باوجود، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نصرت سے نوازے گا۔ بلکہ نصرتِ الٰہی کے حصول کے لیے امت کو اپنی موجودہ حالت بدلنی ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی ذلت و رسوائی اور نکبت کو عزت و سرفرازی اور نصرت سے بدل دے۔
اگر امتِ مسلمہ یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی پسماندگی و افلاس، انتشار و اضطراب، باہمی عداوت اور دشمنی، بے بسی و کسل مندی اور بے پروائی اور غیرذمہ داری کی جس صورتحال سے دوچار ہے، اس کے ہوتے ہوئے بھی یہود پر غالب آجائے گی، تو اس کی یہ توقع سراسر باطل ہے۔
یہ امر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سرگرم عمل لوگوں کے مقابلے میں، کاہلوں کی اور متحد و منظم لوگوں کے مقابلے میں، ان لوگوں کی مدد فرمائے جو انتشار کا شکار ہوں۔ یہ سنتِ الٰہی کے خلاف ہے کہ وہ منظم گروہ کے مقابلے میں پراگندہ حال لوگوں کی اور منصوبہ بند لوگوں کے مقابلے میں الل ٹپ کام کرنے والوں کی مدد کرے یا نظم و ضبط کے پابند لوگوں کے مقابلے میں بے پروا لوگوں کا مددگار ہو یا اپنی ملت کے غم میں فکرمند رہنے والوں کو چھوڑ کر وہ ان لوگوں کی مدد کو پہنچے جنہیں اپنے ذاتی مفاد کے سوا کسی چیز کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔
اب یہ داعیان حق اور مصلحینِ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون کے جذبے سے سرشار ہو کر امت مسلمہ کو اندر سے بدلنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کی پوشیدہ و پنہاں ذاتی قوتوں کو پھر سے بروئے کار لائیں تاکہ تلافیٔ مافات ہو سکے اور امتِ مسلمہ ترقی یافتہ دنیا کی بہترین چیزیں جذب کرے اور اپنی بہترین چیزوں سے انہیں روشناس کرائے۔
ہمیں اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے ہوئے پورے اخلاص، عزمِ مصمم اور ثابت قدمی کے ساتھ اس میدان میں کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور اس کام کو ایسے عزم کے ساتھ انجام دینا ہے کہ کسی طرح کی اکتاہٹ و گھبراہٹ آڑے نہ آئے اور اس کام کی کامیابی پر ہمیں اتنا یقین ہو کہ کوئی شک و تردد اسے متزلزل نہ کر سکے۔ یاس و قنوط کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اور اپنے ہاتھوں میں امید کی شمع لے کر اگر ہم نے جہدِ مسلسل کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا تو کامیابی لازماً ہمارے قدم چومے گی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ
(العنکبوت: ۶۹)
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے، انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔‘‘
(کتاب مکمل ہوئی!)
Leave a Reply