
اسلام دشمن طاقتوں کے لیے ایک نیا دردِ سر صومالیہ بن گیا ہے۔ افراتفری کے شکار اس افریقی ملک میں اسلام پسندوں نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ایک مستحکم اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جمہوریت کے علمبردار قیامِ امن کی اس پیش رفت پر بڑے بے چین ہیں اور وہ اسے سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
’’اسلامک کورٹ یونین‘‘ صومالیہ کی اسلامی سیاسی تحریک کا انتظامی ڈھانچہ ہے جس نے انتشار کے شکار ملک میں عوامی تائید والی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ دارالحکومت موگا دیشو پر اس گروپ نے مئی کے آخر میں قبضہ حاصل کر لیا تھا‘ اس کے بعد اسے ایک فیصلہ کن اور مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ لاقانونیت سے عاجز اور افلاس میں مبتلا عوام اسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں اور تائید و حمایت کے ہار اس کے گلے میں ڈال رہے ہیں لیکن مکمل امن کی منزل ابھی بہت دور ہے‘ امن کی اس ابتدائی کیفیت کو شدید ترین خطرات کا سامنا ہے۔ ایتھوپیا نے اپنی فوجیں اس کی سرحدوں میں داخل کر دی ہیں اور پڑوسی ممالک کی یونین مشترکہ فوج بھیجنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔
صومالیہ نے ۱۹۶۰ء میں برطانیہ اور اٹلی کے تسلط سے نجات حاصل کی تھی۔ مغربی استعمار کی واپسی کے بعد سے اب تک یہ ملک پائیدار اور مستحکم حکمرانی سے محروم ہے۔ ابتدا میں یہاں پارلیمانی حکومت کا ڈھانچہ قائم ہوا تھا لیکن چند سال بعد ہی فوج نے بغاوت کر دی اور جنرل محمد صیاد برے کی قیادت میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ خانہ بدوش قبائل کے حامل اس ملک میں یہ فوجی اقتدار دراصل صومالیہ کے سب سے بڑے قبیلے کی حکمرانی تھی جس سے بغاوت کی کوششیں ہوتی رہیں اور اس کے نتیجے میں باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ۱۹۹۱ء میں عبداﷲ یوسف احمد کی قیادت میں ایک گروپ نے صیاد برے کی حکومت کا خاتمہ کر دیا لیکن اس دوران ملک کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ تب سے ہی یہ ملک مختلف جنگی سرداروں کے درمیان محاذ آرائی اور جنگ و جدل کا میدان بنا ہوا ہے۔
۱۹۹۳ء میں اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے ایک ’’فیڈرل ٹرانزیشنل حکومت‘‘ کا ڈھانچہ بنایا گیا لیکن یہ نام نہاد حکومت ملک میں امن قائم کرنے اور متحدہ سیاسی اکائی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی ہے۔ نفسا نفسی اور لاقانونیت کے اس ماحول میں اسلام پسند تاجروں نے پنچائیت نما مقامی جماعتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور باہمی جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے شرعی عدالتیں قائم کیں۔ پہلی شرعی عدالت ۱۹۹۶ء میں قائم ہوئی۔ اجتماعی نظام کے قیام کا یہ تجربہ کامیاب رہا اور عوام میں اسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس تجربہ سے حوصلہ پا کر اسلام پسندوں نے دوسرے مقامات پر بھی یہ نظام قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ موگادیشو پر قبضہ کے بعد ملک میں Islamic Court Union کے تحت شرعی نظام کی ۱۱۴ اکائیاں قائم ہو چکی ہیں۔ جنگجوئیت اور اسلحہ برداری کے لاقانونی نظام میں مقامی جماعتیں قائم کرنے کی یہ تحریک بھی فطری طور پر ایک ملیشیا (عسکری تنظیم) کے سائے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ان ابتدائی کامیابیوں کو باہمی جنگ میں مبتلا سرداروں اور اس جنگ سے فائدہ اٹھانے والے ہتھیاروں کے عالمی سوداگروں نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ان کی آنکھ تب کھلی جب متعدد شہروں میں عوام نے اس تحریک کا استقبال کرتے ہوئے اس کی مرکزیت بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ موگا دیشو پر قبضے سے پہلے اگرچہ اسلام کے اس ’’خطرے‘‘ کی بو پھیل چکی تھی لیکن اسلام کے عالمی دشمن اسے موگا دیشو پر قبضے سے نہ روک سکے‘ چنانچہ اسلام پسندوں کی اس کامیابی کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے سینٹ کی فارن ریلیشن کمیٹی کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ’’واشنگٹن نے آئی سی یو کی قوت کو کم کر کے دراصل اس گروپ کے بارے میں ناقص سمجھ سے کام لیا‘‘۔
جنگ و جدل میں مصروف سرداروں میں سے مذہبی رجحان رکھنے والے کچھ لوگوں نے اسلامک کورٹ یونین کی اطاعت قبول کر لی ہے لیکن ’’سیکولر‘‘ سرداروں نے اس ’’خطرے‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے لام بندی کر لی ہے۔ ’’اینٹی ٹیررزم الائنس‘‘ کے بینر تلے یہ سردار مجتمع ہو گئے ہیں اور امریکا ان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ ان کی مزاحمت کی وجہ سے موگا دیشو کی فتح کے دوران تقریباً ساڑھے تین سو لوگ ہلاک ہو گئے۔ امریکا نے جو ۱۹۹۳ء میں یو این او کے سائے تلے یہاں وارد ہوا تھا‘ برطانیہ اور اٹلی کی مدد سے ایک کوآرڈی نیشن گروپ بھی اسلامی کورٹ یونین کی کامیابیوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے بنا لیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی جسارت ایتھوپیا نے کی ہے جس کی فوجیں صومالیہ کی سرحدوں میں داخل ہو گئی ہیں۔ ایتھوپیا کے علاوہ کینیا اور ایریٹیریا وغیرہ کی حکومتوں کی نیند بھی اُڑ چکی ہے اور وہ اسلامی کورٹ یونین کی پیش رفت کو پورے علاقے کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ مشرقی افریقہ کے لیڈروں کی ایک اہم میٹنگ اگست کے پہلے ہفتے میں نیروبی میں منعقد ہوئی جس میں یہ طے کیا گیا کہ تقریباً ۶۰۰۰ جوانوں کو صومالیہ میں فیڈرل حکومت (نام نہاد) کی مدد کے لیے بھیجا جائے لیکن اسلامک کورٹ یونین کی قیادت نے ایسے کسی بھی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے‘ اس کے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ ’’ہم ایتھوپیائی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیں گے اگر اس نے صومالیہ سے اپنے فوجی واپس نہیں بلائے‘‘۔ شیخ شریف شیخ احمد نے یہ تنبیہ اسی وقت کی تھی جب جولائی کے آخری ہفتے میں ایتھوپیا کی فوجی گاڑیاں صومالیہ کی سرحدوں میں داخل ہوئی تھیں اور فیڈرل حکومت کے مرکز ’’بیدوا‘‘ کو بچانے کے لیے کمربستہ ہو گئی تھیں۔ حالانکہ اسلامک کورٹ یونین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ بیدوا پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ شیخ یوسف محمد صیاد کے بقول ’’یہ سارے الزامات بیرونی مداخلت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں کا حصہ ہیں‘‘۔ پڑوسی ملکوں کی مشترکہ فوج بھیجنے کے منصوبے پر بھی اسلامک کورٹ یونین کی طرف سے سخت وارننگ دی گئی تھی اور واضح کیا گیا تھا کہ کوئی بھی بیرونی فوج خواہ افریقی ہو یا نہ ہو‘ سختی کے ساتھ پسپا کر دی جائے گی۔
اسلامک کورٹ یونین کے عزائم کو بھانپ کر ’’انٹر گورنمنٹل اتھارٹی آف ڈولپمنٹ‘‘ کے ارادے ڈھیلے پڑ گئے ہیں‘ دوسری طرف عرب لیگ اور او آئی سی نے مداخلت کرتے ہوئے فیڈرل حکومت اور آئی سی یو کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں خرطوم میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں دونوں فریقوں کے درمیان اصولی طور پر کچھ امور پر اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ دونوں فریق ملک میں پائیدار امن کے قیام کی لیے وسیع البنیاد پولیس فورس کے تشکیل پر راضی ہو گئے ہیں۔
صومالیہ کی ساڑھے آٹھ ملین سے زائد آبادی میں ۹۰ فیصد سے زائد مسلمان ہیں جو مختلف قبیلوں میں تقسیم ہیں۔ قدیم قبائلی کلچر یہاں ابھی تک موجود ہے اور ۶۰ فیصد سے زائد آبادی خانہ بدوش قبائل پر مشتمل ہے۔ ۲۵ فیصد لوگ کاشتکاری کرتے ہیں اور زرخیز علاقوں میں آباد ہوئے ہیں۔ شہری آبادی کا تناسب محض پندرہ سے بیس فیصد ہے۔ ۶۳۷۶۵۷ مربع کلو میٹر رقبے والا یہ ملک افریقہ کے مشرقی ساحل پر بحرِ ہند کے کنارے آباد ہے۔ اس کے پڑوس میں کینیا‘ ایتھوپیا‘ جبوتی‘ ایریٹریا‘ یوگنڈا اور سوڈان کے ممالک ہیں۔ یہ خطہ قرنِ اوّل کی اسلامی فتوحات کے دوران اسلام سے متعارف ہوا۔ عربی النسل لوگوں کی خاصی آبادی یہاں موجود ہے اور رابطہ کی زبان عربی ہے۔ مقامی قبائل صومالی زبان بولتے ہیں۔
اس پورے خطے میں اسلامی بیداری کی لہر نے امریکا اور دوسری استحصال پسند عالمی طاقتوں کو یہاں کے قدرتی وسائل لوٹنے میں مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ صومالیہ میں امریکا کی باضابطہ دخل اندازی ۱۹۹۳ء میں اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے ہوئی جب قیامِ امن کے نام پر اس کی فوج یہاں داخل ہوئی۔ سوڈان کے دارفر علاقے میں مرکزی حکومت کے خلاف باغی قبائل کو بھڑکانے اور ان کی ہمدردی کے نام پر اسلام نواز حکومت کی گھیرا بندی کرنے کی کوشش ایک عرصے سے جاری ہیں۔ قیامِ امن کی کوششوں میں امریکا یا اقوامِ متحدہ کی ناکامی اس بات سے ظاہر ہے کہ اقوامِ متحدہ کا ’’پیس کیپنگ مشن‘‘ دو سال بعد ہی یہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ امریکا بہادر یا افریقی ممالک یہاں جاری خانہ جنگی ختم کرانے کے لیے اتنے فکرمند نہیں ہوئے جتنے کہ وہ آئی سی یو کے غلبے اور امن کے قیام میں اس کی کامیابیوں سے پریشان ہیں۔ گذشتہ ہفتے برطانیہ کے ایک بڑے اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی ایجنسیاں غیرقانونی طور پر عبداﷲ یوسف کی قیادت والی حکومت کو جنگی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ اخبار نے امریکی ایجنسیوں کے درمیان خفیہ ای میل پیغامات کے حوالے سے اس سازش کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ صومالیہ کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی رولنگ کی خلاف ورزی ہے۔
اسلامک کورٹ یونین نے نہ صرف شرعی عدالتیں قائم کی ہیں بلکہ اسپتال اور اسکولوں کا ایک کامیاب نیٹ ورک قائم کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسی عبوری حکومت کا نقشہ ہے جسے عوام نے رضا کارانہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ آئی سی یو کی قیادت سیاسی اعتبار سے بالغ نظری اور نظریاتی اعتبار سے ثابت قدمی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔ ایک طرف اس نے سبوتاژ کرنے والی قوتوں کے خلاف جہادی عزائم کا اظہار کیا ہے‘ دوسری طرف ’’دہشت گردی‘‘ کے کسی بھی الزام سے بچنے کے لیے امریکا اور یو این او کو حلفیہ طور پر یقین دلایا ہے کہ صومالیہ کو ’’دہشت گردانہ‘‘ سرگرمیوں کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔ تاہم دہشت گردی اور اسلام پسندی کو گڈمڈ کرنے کی ذہنیت سے صومالی قائدین بے خبر نہیں ہیں‘ اس لیے اسلامک کورٹ یونین کے روحانی سربراہ شیخ حسن ظہیر کا کہنا ہے کہ ’’ہم مسلمان ہیں اور اپنی اسی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنائے جارہے ہیں‘‘۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’المجتمع‘‘ کویت۔ شمارہ: ۱۷۱۷)
Leave a Reply