
اسلامی دعوتی تحریک کا مقصد جزوی اصلاحات نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا خطاب انسانیت کے کسی ایک طبقے کے سدھار اور تعمیر سے متعلق ہوتا ہے۔
اسلام کی دعوتی تحریک کی ابتداء فرد کی اصلاح سے ہوتی ہے۔ وہ داعی کے کردار میں ایسا سدھار لانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے، جو اس کے عقیدے، تصورِ حیات، اخلاق اور کردار میں ایسا سدھار پیدا کرے جو اس کو اپنے پروردگار کی رضا اور اس کی خوشنودی کے راستے پر چلنے کی راہ ہموار کر دے۔ یہ تبدیلی تلقین تفہیم کے لیے ایسے ذرائع استعمال کرتی ہے جو فرد کے قلب میں گداز پیدا کریں ۔ اس تک پہنچنے کے لیے وہ خوشگوار انسانی تعلقات کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس جدوجہد کے دوران وہ نصح و خیر و خواہی کے جذبات ابھارتی ہے۔ دعوت کے حسن و جمال کے روشن پہلو اجاگر کرتی ہے۔ یہ دعوت ایسے رب کی طرف انسانوں کو بلاتی ہے جو رؤف و رحیم ہے۔ وہ فرد کی زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی زندگی کی نشوونما کے لیے اس نے زمین اور آسمان کے خزینے فراہم کیے ہیں، ان خزینوں کو بحسن و خوبی استعمال کرنے کے لیے اس کو ہر ضروری استعداد فراہم کر دی ہے۔ اس لیے اسلام تمام انسانوں کو صرف ایک رحیم اور رحمان کے سامنے جھکنے اور شکر گزاری کی دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کے بنیادی تصور میں رب کی ذات والا صفات میں جبر و اقتدار، حکم اور فرمانروائی کے پہلو بہ پہلو فضل و کرم، عفوو درگزر کی وسعت اور رحمت خداوندی کی پنہائیوں کو اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ ہر فرد کا سر بے ساختہ اس کی رحمت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ وہ یہ حقیقت نمایاں کرتی ہے کہ اس کا رب عدل و انصاف کا سرچشمہ ہے، اس لیے وہ ایسے افراد سے اپنی دنیا کو معمور کرنا چاہتا ہے جو عدل و انصاف کے پابند ہوں۔ خود عدل و انصاف پر عمل پیرا ہوں اور اپنی دنیا میں عدل و انصاف کی کار فرمائی چاہتے ہوں۔ ایسے افراد اس کی نظر میں محبوب ہیں جو خود بھی سرچشمۂ رحمت ہوں اور اپنی دنیا میں ایسے چشمے جاری کرنا چاہتے ہوں جس کے طفیل ہر فرد سیراب ہو۔
ایسے فرد میں جو صفات حسنہ پروان چڑھتی ہیں وہ انسانوں کے درمیان جذبات رحمت و شفقت کو فروغ دیتی ہیں۔ جو غرور و استکبار کی جگہ کسرو انکسار کا رنگ چڑھاتی ہیں۔ یہ دعوت اپنے پروردگار کے فضل و کرم اور اس کی رحمت کا پر تو ہوتی ہے۔ یہ انسان کو اپنے پروردگار کی بے پایاں رحمتوں سے معمور جذبات کے طفیل اس کی عبادت اور شکر گزاری کے کردار پر مشتمل انسان بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اِنَّ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَئیٍ اس دعوت کے علمبردار کی توصیف میں اس نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اِناَّ اَرْسَلْنَاکَ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ۔
اس دعوتی تحریک کا مرکز توجہ تمام انسان ہوتے ہیں۔ وہ کسی خاص گروہ یا طبقہ کو مخاطب نہیں کرتی بلکہ تمام افراد کو مخاطب کرتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ الخلق عیال اللہ فاحسنوالی عیالیہ۔ یہ تمام انسانوں کو اپنے پروردگار کا کنبہ سمجھتی ہے۔ اس کا مقصود ہر انسان کی فلاح اخروی ہے اور دنیوی بہبود بھی ہے۔ یہی بنیادی تصور ہے جو سارے انسانوں سے محبت اور یگانگت کا سبق سکھاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ لوگو اپنے پیدا کرنے والے محسن عظیم کی رحمت اور شفقت کی طرف دوڑو۔ اس کی رحمت کے خزینے تم سب کے لیے کھلے ہیں۔ اس کا فضل و کرم ہر فرد کے لیے عام ہے، اس لیے دنیا کے ہر فرد سے محبت کرنا تمہارا شعار ہونا چاہیے، تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ تم اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ نفرت و عداوت کے تعلقات پیدا کرو اور لوٹ مار کرو۔ ہر فردِ انسانی کی جان محترم ہے۔ اس لیے خونریزی سے گریز کرو۔ اگر انسان ایسا سماج بنائے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کا ساتھ دے گی۔
یہ کردار جزوی اصلاحات سے نہیں پیدا ہوتا۔ بلکہ انسانی شخصیت کے ہر پہلو کی اصلاح کا طالب ہے۔ کوئی بھی دعوت بالخصوص اسلامی دعوت فرد کی مجموعی اصلاح کی طالب ہے۔ ادھر ادھر کی کانٹ چھانٹ سے اجتماعی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ کسی مصنوعی اور جزوی اصلاح سے ایسا معاشرہ وجود میں نہیں
آ سکتا۔ ہر فرد کی مجموعی اصلاح اور اس کا سدھار اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے کردار و اخلاق کی اصلاح ہو، اس میں عدل و انصاف کے جذبات فروغ پائیں۔ اس کے قلوب اور اذہان میں انسانوں کے لیے شفقت اور محبت کے جذبات پروان چڑھیں۔ اس کے اندر اپنے رب کے لیے شکر گزاری کے اور احسان شناسی کے داعیات کی کارگری کا غلبہ ہو اور ان سب سے بڑھ کر آخرت کی زندگی سنوارنے پر اس کی توجہات مبذول ہوں۔
فرد کی اصلاح کے ذریعے ہی معاشرے کی اصلاح ممکن ہوتی ہے، اگر افراد کے اندر یہ داعیہ نہ پیدا ہو کہ سب سے مل جل کر باہمی محبت، ایثار نفس اور تعمیر معاشرہ کی فکر کے رجحانات پرورش پائیں۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ تمام انسانوں کو یکساں مخاطب کیا جائے، نفرت اور عداوت کی جگہ باہمی رفاقت پرورش پائے، دعوت اسلامی کا مرکز توجہ عام انسانوں سے تصادم اور عداوت و منافرت پر مبنی جدوجہد نہیں ہوتا۔ وہ اپنے داعی میں عام انسانوں کے دکھ درد میں کام آنے کے جذبات پیدا کرتی ہے، وہ کمزوروں، ضعیفوں اور مظلوم انسانوں کا سہارا بنتی ہے وہ ہر گرنے والے کا سہارا بننے کو اپنا شعار بنانے کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کرتی ہے، اس لیے کہ اس کے ہادی اور رہنما نے اپنی تعلیمات اور کردار سے یہی ثابت کیا ہے، وہ گم گشتہ فرد کو اپنا دشمن نہیں سمجھتی اور نہ اپنے سے دور اور غافل انسانوں کو ناقابلِ اصلاح سمجھتی ہے، وہ دلوں کو جوڑنے اور انسانی ہمدردی کا سبق پڑھاتی ہے۔
معاشرے کی اصلاح اور تعمیر کی یہی فطری ترتیب ہے۔ یہ عالم انسانیت کی بدنصیبی ہے کہ اس نے یا تو سماج کی مادی اصلاح اور تزئین کاری کو اولین اہمیت دی ہے یا اس نے جدید فلسفہ طرازی سے یہ سیکھا اور سکھایا ہے کہ اوپری اصلاح اور جزوی تعمیرات کے ذریعہ انسانی سماج کی اصلاح ممکن ہے۔ چنانچہ دورِ حاضر میں یہ قیاس عام ہو گیا ہے کہ سڑکوں کی کشادگی، مکانات کی فراہمی، علاج اور تعلیمات میں بہتری سے انسانی زندگی حسن و خیال کے ساتھ، انسان میں باہمی خوشگواری کو فروغ دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ان ضمنی اور جزوی اصلاح میں ہی انسانیت کھو گئی۔ اس نے دولت کی عطا کردہ سہولتوں کو اولین مقام پر فائز کر دیا۔ آج کی دنیا میں یہ فضا عام ہے کہ انسان سماج کی عمومی بہتری، سرمایہ کی حاصل کردہ سہولتوں کے حصول پر مبنی ہے۔ اگر بستیاں صحت کی عام سہولتوں سے محروم ہیں، اگر ان کے عوام عمومی قلت اشیاء کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ تو ان پر سرمایہ کی بارش کر دی جائے۔ ان کی نظر سرمایہ کی حصولیابی کے تگ و دو کرنے پر لگا دی جائے۔ تاکہ اس کی توجہ اخلاقی اور انسانیت دوست اقدار سے غافل ہو کر دولت کو اپنی واحد غایت زندگی بنا لے۔ مگر دنیا کی حالت یہ بتاتی ہے کہ سرمایہ کی بہتات کے باوجود معاشرے میں نفرت، بعد اور گروہی اور طبقاتی کشمکش کو فروغ ہوتا رہا ہے۔ جیسے جیسے دولت بڑھتی ہے ویسے ہی لوٹ کھسوٹ کے واقعات بڑھتے ہیں، ناانصافی کو عروج ہوتا ہے، تشدد اور شقاوت کا تناسب اسی تناسب سے بڑھتا ہے جس تناسب سے انسانیت کی تقسیم گہری ہو جاتی ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک فرد واحد کا کوئی عضو معطل ہو جائے تو ماہرین اور پالیسی ساز نہ صرف اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں کہ محض اس عضو کی جراحی اور مخصوص دواؤں کے استعمال سے اس کی عمومی صحت ازسر نو عود کر آئے گی۔ حالانکہ جب تک اس شخص کی غذا، اس کے استعمال کردہ پانی اور صاف ستھری ہوا کی فراہمی کے اسباب نہ فراہم کیے جائیں گے اجتماعی زندگی میں عمومی سدھار نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ دارانہ زندگی کو ہدف اول بنانے سے، مادی زندگی کے عمومی وسائل تو حاصل ہو سکتے ہیں لیکن فرد کے عواطف اور جذبات میں تعمیری اور انسانیت دوست فضا پیدا نہیں ہو سکتی۔ آج ہم کو یہ سبق سکھایا جاتا ہے کہ اگر ہمارا سرمایہ دار بچت کرے اور اس کو بے تحاشا افزائش سرمایہ پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کرے اور اس مقصد کے لیے غریبوں اور کمزوروں کے مفادات کو نظر انداز کرے گا، اس کے دنیوی گلیمر سے معاشرہ سرسبز و شاداب ہو گا۔ مگر دنیوی تاریخ اس کے برعکس نتائج پیدا کرتی رہی ہے۔ اس میں غربت، افلاس، بے بسی اور کمزوروں کی دنیا، امیروں اور طاقتوروں کی دنیا میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس تصور کا علاج کرنے کے لیے ضمنی اور جزوی اقدامات کر کے یہ ڈنکا پیٹا جاتا ہے کہ انسانیت رفتہ رفتہ ترقی اور افزائش اشیاء سے بہرہ ور ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے اسلام کے علمبردار بھی اس خطرناک اور مہلک تصورات سے اس حد تک متاثر ہو گئے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اوپری اور سطحی اقدامات کے ذریعہ وہ اس دین کے حقیقی مقصد اور اصلاح احوال کی اصل غایت تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کو یہ سبق پڑھایا گیا کہ مخصوص عبادتی امور پر توجہ مرکوز کرنے سے وہ اس دعوت کے نصب العین کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنا مادی سدھار کر لیں اور اپنی سیاسی اور دنیوی بے وقعتی پر قابو پا لیں تو فرد اور معاشرہ کی اصلاح بھی ممکن ہو جائے گی۔ اپنے رب کی دعوت اور اس کے فضل و کرم تک پہنچنے کے لیے وہ راستے کھل جائیں گے جو اس دعوت کا منتہا اور مقصود ہے۔ ہر طرح کی مادی قوت اس مقصد کے حصول میں ناکام ہے۔ جب تک اس دین کے حسن و جمال اور اس کی دل پذیری کو عمومی دل پذیری میں تبدیل نہ کیا جا سکے۔ جب تک اسلامی معاشرہ دکھیاروں، مفلسوں، غریبوں اور کمزوروں کا سہارا بننے کی جدوجہد کو اپنی تگ و دو میں مرکزی مقام نہ عطا کر سکے۔ انسانی قلوب کو راغب کرنے اور عوامی زخم کو مندمل کرنے کی ہر وہ کوشش ناکام ہو گی جس کے پروگرام صرف وعظ و نصیحت سے معمور ہوں۔ محبت اور رأفت کا رجحان ہی وہ نسخہ شفا ہے جس کے لوازمات میں پروردگار عالم کی بے پناہ فضل و کرم کا پر تو نمایاں ہو۔ کشش وہاں سے پیدا ہوتی ہے جہاں سے رب رحیم کے اپنے بندوں سے غفران اور بے بہا کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ داعی کا ایسا ہی گروہ اپنے اثرات پیدا کر سکتا ہے جو انسان اور انسان کے درمیان فرق نہیں کرتا۔
ہر غافل انسان کو گلے سے لگانا اور تصادم اور عناد پر قابو پانا دعوت اسلامی کو ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں جن سے انسان جوق در جوق اپنے پالنے والے کی طرف لپکتے ہیں۔ اگر آخرت کی کامیابی مقصد حیات ہو تو انسان کو اپنے شیطانی اور سفلی جذبات پر عبور پانا ہو گا۔ اور داعی کو جزوی اصلاح کا عجلت پسندی سے بالاتر ہو کر انسانی معاشرے کو عمومی اور کامل اصلاح کے لیے صبر آزما جدوجہد کرنی ہو گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: جون ۲۰۰۸)
Leave a Reply