
۲۷ تا ۳۰ دسمبر ۱۹۷۸ء کو پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں ایک کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا مقصد ’’نظامِ تعلیم کی اسلامی تشکیلِ جدید‘‘ کے موضوع پر ماہرین کی آرا کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اس موضوع پر ممتاز ماہرِ تعلیم و معاشیات پروفیسر خورشید احمد (سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، حکومتِ پاکستان) نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ کانفرنس میں سعودی عرب سے سید قطب شہیدؒ کے برادرِ حقیقی الاستاذ محمد قطب کے علاوہ الدکتور محمد بن سعد الرشید نے بھی شرکت کی اور اپنے بامعنی اور فکرانگیز خیالات سے شرکا کو آگاہ کیا۔ کانفرنس کی خاص بات سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی علالتِ طبع کے باوجود اس میں شرکت اور طویل و یادگار اور کلیدی خطاب تھا۔ سردست ہم الاستاذ محمد قطب کی فکر انگیز تقریر پیش کر رہے ہیں، کانفرنس کے دیگر شرکا کی تقاریر کو بھی ان شاء اﷲ آنے والے شماروں میں شائع کیا جائے گا۔ (م ظ)
حمد و ثنا کے بعد
میرے عزیز بھائیو اور بیٹو! مَیں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور اُن اساتذۂ کرام سے خطاب کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جو دلوں میں اسلام کا گہرا جذبہ رکھتے ہیں اور صحیح معنوں میں مسلمان اساتذہ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ میرا پہلا دَورہ ہے۔ جب سے یہ مُلک معرضِ وجود میں آیا ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں اُمنگیں اور اُمیدیں اُمنڈتی رہی ہیں اور وہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب پاکستان اسلامی ریاست بنے اور یہاں اسلام کا پرچم بلند ہو۔
اِسلام: کردار کی ضرورت
میرے بیٹو اور بھائیو! اب ساری دنیا اسلام کی حاجتمند ہے۔ اسلام صرف مسلمانوں ہی کی نہیں، ہر انسان کی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر آج ایک طرف مسلمان اِس بات کے حاجتمند ہیں کہ وہ پھر سے اسلام کی طرف رُجوع کریں، خیرِ اُمت بنیں اور خلیفۃ الارض اور تمکُّن فی الارض کے قرآنی فرائض کو پورا کریں تو دوسری طرف عام انسان مسلمانوں سے بھی زیادہ محتاج ہیں کہ اسلام آئے تاکہ وہ اس پریشانی اور حیرانی سے نجات پائیں جس میں ساری دنیا مبتلا ہے۔ انسان آج دنیا کے بیشتر حصوں میں روحانی خلا کا شکار ہے۔ وہ زندگی کی اعلیٰ قدروں سے محروم ہے اور نجات کی راہ تلاش کر رہا ہے مگر اُسے راستہ سجھائی نہیں دے رہا حالانکہ نجات صرف اسلام میں ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ انسان کے سامنے اسلام پیش کریں لیکن محض لفظوں کی صورت میں نہیں بلکہ ٹھوس عملی شکل میں۔
صرف کتابیں لکھنے، تقریریں کرنے اور خیالات کا زبانی اظہار کرنے سے ہم انسانوں کو اسلام کی طرف نہیں لاسکتے چنانچہ یورپ کے بہت سے لوگ جب اسلام کے بارے میں پڑھتے اور سُنتے ہیں اور اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں تو وہ اسلام کے عَلمبرداروں اور مبلّغوں سے پُوچھتے ہیں کہ اگر اسلام ایسا ہے تو پھر مسلمانوں کی زندگیاں اس سے خالی کیوں ہیں۔ اس لیے ہمارا اولین فرض ہے کہ اسلام کو اپنی زندگیوں پر نافذ کریں اور اسے عملی صورت دیں۔ شروع میں بھی اسلام محض باتوں اور زبانی دعووں سے نہیں پھیلا تھا بلکہ لوگوں نے جب اسلام کے عملی نمونے دیکھے اور اس رنگ میں رنگی ہوئی چلتی پِھرتی زندگیاں دیکھیں تو اس کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ چنانچہ سب سے پہلے خود نبی اکرمؐ نے اپنی زندگیٔ مبارک کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پُوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: کَانَ خُلْقُہُ الْقُراٰن۔ یعنی قرآن ان کے اخلاق کی متشکل صورت ہے۔ رسول اﷲؐ نے قرآن کو پہلے دل میں اُتارا، پھر عملی زندگی میں اسے نمونہ بنا کر انسانوں کے سامنے پیش کر دیا۔ پھر اس کی بنیاد پر انھوں نے جو جماعت کھڑی کی، وہ بھی دینی تعلیمات کا مثالی نمونہ تھی اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اسلام کی تاریخ مُرتب کی اور اسلامی تعلیمات کو نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اُستاد عملی نمونہ بنیں
علما انبیاے کرام کے وارث ہوتے ہیں۔ آپ حضرات بھی اُستاد ہیں چنانچہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دُنیا میں اسلام کا ماضی کی طرح بول بالا ہو، اسے اقتدار ملے اور قرونِ اُولیٰ کی تمکنت اور شان و شوکت لَوٹ آئے تو آپ کا فرض ہے کہ پہلے خود اپنے آپ کو اسلام کا عملی نمونہ بنائیں اور پھر اُسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ عام آدمی کے مقابلے میں اُستاد پر اس سلسلے میں کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسلام کی ترویج و اشاعت اُستاد کا اوّلین فریضہ ہے۔
اسلام کا تصورِ تربیت
میرے بھائیو اور بیٹو! یہ عام سی بات ہے کہ مسلمان اسلام کو جانے اور اُس کے مطابق تربیت حاصل کرے مگر افسوس کہ عملی دُنیا میں یہ چیز بھی بہت کم نظر آتی ہے۔ بعض لوگ اسلامی تربیت کا محض یہ مفہوم لیتے ہیں کہ عبادات کی حد تک دینداری اختیار کی جائے اور نماز روزہ کی پابندی کر لی جائے۔ حالانکہ اسلام کا تصورِ تربیت اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ ایک جامع ترین تصور کا نام ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں پر محیط ہے اور انسانی زندگی میں جو کچھ پیش آسکتا ہے، اُس کے بارے میں ایک معیّن و مخصوص رویّہ رکھتا ہے۔ خدا کا تصوُّر، کائنات، خدا اور کائنات سے انسان کا تعلق اور ایسے ہی موضوعات کے بارے میں اسلام اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ چنانچہ ضرورت ایسا نظامِ تعلیم اختیار کرنے کی ہے جو انسانوں کو اس تصور میں ڈھال دے اور جو لوگ اس کے تحت تربیت حاصل کریں، وہ اپنے حواس، تصور اور کردار میں انہی نظریات کے پابند ہوں۔
ہم اپنی بات کا آغاز اس سوال سے کرتے ہیں کہ کیا تعلیم اس بات کا نام ہے کہ کچھ معلومات طالب علموں کو فراہم کر دی جائیں، یا یہ کسی اور چیز کا نام ہے؟ تو پہلی بات یہ جان لیجیے کہ ہم دو باتوں کے حاجت مند ہیں: ایک تعلیم، دوسری تربیت۔ اور سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نظامِ تربیت اور اسلامی نظامِ تعلیم کیسے برپا ہو۔ کیونکہ عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں ان دو چیزوں کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کے معاملے میں ہم نے مغرب کی پیروی کی ہے اور وہی انداز اپنائے ہیں جو وہاں کے تعلیمی اداروں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ تربیت کو ہم نے سرے سے نظرانداز کیا ہے اور اگر کہیں اس کی رَمق موجود بھی ہے تو میری نظر میں وہ اسلامی تربیت نہیں ہے۔
اسلامی تربیت وعظ و تقریر کا نام نہیں!
جب ہم اسلامی تربیت کی بات کرتے ہیں تو بعض لوگوں کا ذہن وعظ و تقریر کی جانب چلا جاتا ہے حالانکہ اسلامی تربیت کا مدار وعظ اور تقریر نہیں ہے۔ اسلامی تربیت کا پہلا وسیلہ معلّم کا کردار ہے اور نصیحت کا عمل کردار کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ یعنی بچوں کو جن اُمور کی تربیت دینا مطلوب ہے، معلِّم اُن کا عملی نمونہ پیش کرے۔ بالفاظِ دیگر اگر ہم اپنی نسلوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے مسلمان معلِّم بننا چاہیے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پرائمری اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک تمام تعلیمی اِداروں میں اسلامی اسپرٹ جاری و ساری ہو اور سارے ماحول پر اسی کا غلبہ و تسلُّط ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اساتذۂ کرام اسلام کو اپنی زندگیوں پر نافذ کریں۔ پھر طالب علموں اور نوجوانوں کے دل خود بخود ان تعلیمات و اعمال کی طرف کھنچنے لگیں گے۔ مختصر یہ کہ ہر مسلمان معلِّم داعی ہے۔ اس کا فرض ہے وہ اسلام کی دعوت کلاس روم کے اندر پیش کرتا رہے۔ صرف نصیحت سے نہیں عملی کردار سے۔ معلِّم کا فرض ہے کہ وہ اپنے عمل و کردار سے دائرے کا مرکز بن جائے اور طالب علم اس کے گرد گھومتے اور متاثر ہوتے رہیں۔ وہ اپنے عمل سے جس چیز کو پیش کرے، طلبہ اس کو اختیار کر لیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب طالب علم معلِّم کو شعائرِ اسلام کی پابندی کرتے ہوئے دیکھیں گے، اسے اسلامی اخلاق کا نمونہ پائیں گے تو خود بخود جان لیں گے کہ اسلام کیا ہے اور اس کی خوبیاں کیا ہیں؟
تعلیم کا مقصد۔ عبُودِیّتِ الٰہی
اب کچھ باتیں اسلامی تعلیم کے بارے میں: اسلام میں تعلیم اِس بات کا نام نہیں کہ چند معلومات طالب علموں کے ذہن میں بھر دی جائیں اور بس۔ اسلام میں ہر چیز ایک مقصد کی طرف جاتی ہے۔ یہاں علم برائے علم کا کوئی تصور نہیں۔ چنانچہ اسلام کی نظروں میں علم انسانی زندگی کا ایک جزو ہے اور انسانی زندگی کا مقصد از رُوے قرآن وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِط اﷲ تعالیٰ کی عبادت قرار دیا گیا ہے، اس لیے اسلام میں علم وہی مستحسن ہے جو انسان کو خالقِ کائنات کا سچا و پکا عبادت گزار بنا دے لیکن عبادت چند اسلامی شعار اور اقوال کا نام نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ دینی مراسم زندگی کا جزو ہیں مگر عبادت اپنے اندر ایک جامع مفہوم رکھتی ہے اور پوری زندگی پر حاوی ہے۔ اسی قسم کی عبادت کا مفہوم سمجھانے کی خاطر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَط یعنی انسان کی عبادت، اس کا جینا، اس کا مرنا سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے لیے ہونا چاہیے۔
عبادت کا یہ وسیع تصور یوں پورا ہو گا کہ انسان پوری زندگی میں اسلام کے اصولوں کی پابندی کرے۔ لہٰذا تعلیم کا مقصد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسا انسان تیار کرے جو اسلام کے اس مفہوم کے مطابق عبادت گزار ہو اور اس کا رکوع و سجود ہی نہیں۔ بلکہ موت و حیات کا مقصد محض اﷲ کی رضا جوئی قرار پائے۔ یہ امر اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم پہلے کچھ سوالات کے جوابات حاصل کر لیں۔
چند سوالات
اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کیا چیز ہے؟ کیا یہ خدا ہے یا حیوان، فرشتہ ہے یا مخلوق؟ اگرچہ بظاہر اس کا جواب بڑا آسان ہے مگر دَورِ حاضر کے جاہلی نظاموں نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارون نے اس کا جواب یہ دیا کہ انسان دراصل حیوان ہے اور اسی نظریے کو موجودہ جاہلیت نے من و عن قبول کر لیا۔ ظاہر ہے اگر انسان کا تعلق حیوانی نسل سے ہے تو پھر اسے کسی عقیدے، اخلاق یا روحانی اَقدار کا پابند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ آج جب آپ انسان کو دین، اخلاق اور اعلیٰ اَقدار سے محروم دیکھتے ہیں تو اس کا سبب یہی بنیادی تصور ہے کہ انسان حیوان ہے۔ چنانچہ اسلامی نقطۂ نظر سے مذکورہ سوال کا جواب دینا بہت ضروری ہے اور بے حد اہم بھی۔
دوسرا سوال ہمارے پیشِ نظر یہ ہے کہ کائنات کے اندر انسان کا کیا کردار ہے اور اسے کون سے فرائض انجام دینے ہیں؟ کیا اس کا کام محض یہ ہے کہ کچھ فائدے حاصل کرے، کچھ چیزوں سے لذت اندوز ہو؟ یا اس کا صرف ایک ہی فریضہ ہے کہ دنیا کو آباد کرے یا تھوڑے عرصے کے لیے جیے اور پھر ختم ہو جائے؟ اس سوال کا جواب بھی پہلے سوال سے کم اہم نہیں اور دراصل یہی جواب انسان کے اُس طریقِ کار کا تعین کرے گا جو دنیا میں اسے انجام دینا ہے۔
بدقسمتی سے اگر پہلے سوال کا جواب جدید جاہلیت نے یہ دیا کہ انسان حیوان ہے تو دوسرے کا جواب یہ دیا کہ انسان خوب جیے، جی بھر کر زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اس امر کی ہرگز پروا نہ کرے کہ اسے کہاں جانا ہے اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہونا ہے؟ چنانچہ آج تعلیمی اداروں میں یہی تعلیم دی جارہی ہے کہ انسان محض لذت و لطف کے لیے پیدا ہوا ہے اور بس۔ نتیجہ یہ کہ اس تعلیم کا پروردہ انسان مادّی مفادات حاصل کرنا اور جا و بے جا طریقوں سے لذّت اندوزی حاصل کرنا انسانیت کی معراج سمجھتا ہے اور یہی اس کے نزدیک زندگی کا مقصد ہے۔ آج مغرب کے تمام تدریسی ادارے انسان کو محض دو مقاصد حاصل کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ مادی فوائد اور حصولِ لذّت جس کے زیرِ اثر سارا مغرب لذت اندوزی اور حصولِ منفعت میں غرق ہے اور اخلاقی و روحانی قدروں کا وہاں دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔
سوالوں کے جوابات
آیئے دیکھیں کہ اسلام ان دونوں سوالوں کا کیا جواب دیتا ہے کہ اسی جواب پر اسلامی تعلیم اور تربیت کا دار و مدار ہے۔
قرآن کی طرف رجوع کریں تو پتا چلتا ہے کہ انسان ہرگز حیوان نہیں اور نہ کبھی تھا اور اسلام کا انسان ڈارون کے انسان سے بالکل مختلف و ممتاز شے ہے۔ پہلے ہی دن اسے بطورِ انسان تخلیق کیا گیا جس کا پتا اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃط کے قرآنی فیصلے سے ہوتا ہے، یعنی انسان کا مقصد خلافتِ الٰہی قرار پایا۔ اسے زمین پر اﷲ کا نائب بنا کر بھیجا گیا اور فرض یہ سونپا گیا کہ وہ اﷲ کی منشا کو اختیار اور نافذ کرے گا۔ بلاشبہ یہ نظریۂ حیات موجودہ جاہلی تصورِ زندگی سے یکسر مختلف ہے جس پر آج کی دنیا عمل پیرا ہے۔
معلومات کو پیش کرنے کا اسلامی و غیراسلامی انداز
بادی النظر میں یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم تو نام ہے فزکس، کیمسٹری، میڈیکل اور انجینئرنگ کا پھر اسلامی نظریات کی مطابقت ان سے کیسے ہو سکے گی۔ کیا اسلامی اداروں میں ان کی صورت اور معلومات مختلف ہو جائیں گی؟ تو میرے بیٹو اور بھائیو! اسلامی طرزِ تدریس میں ان مضامین کی معلومات مختلف نہیں ہوں گی بلکہ ان کے پیش کرنے کا انداز مختلف ہو گا۔ مثال کے طور پر شاید آپ کو اندازہ نہ ہو کہ مغرب کا طرزِ تعلیم بت پرستی پر استوار ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو متذکرہ علوم کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو بار بار اس بات کا اعادہ نظر آئے گا کہ نیچر یا فطرت ہی خالق ہے۔ افسوس کہ اسلامی ممالک میں بھی اسی مشرکانہ اور بت پرستانہ نظریے کو اختیار کر لیا گیا ہے اور ہم اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہوئے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے کہ نیچر یوں کرتا ہے، نیچر وُوں کرتا ہے، نیچر کے قواعد اَٹل ہیں اور یہ بدل نہیں سکتے۔ غرض ہم طلبہ کو نیچرل لاز (قوانینِ فطرت) کی تعلیم ہی دیتے ہیں اور اپنے عمل اور قول سے نیچر یا فطرت کو خدا اور خالق بنا لیتے ہیں اور تمام سائنسی اصول اور کُلّیے اسی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔
یہ طرزِ عمل ایک مسلمان استاد کے شایانِ شان نہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اﷲ تعالیٰ کو خالق و رب العالمین نہیں مانتا۔ مَیں یہاں پر دو سائنسدانوں کی مثالیں پیش کرتا ہوں، ڈارون اور مشہور ماہرِ چشم ابن الہیشم کی۔ ڈارون اپنے نظریات کی بنیاد فطرت پر رکھتا ہے اور خالقِ فطرت کو بالکل فراموش کر دیتا ہے جبکہ ابن الہیشم اپنے خیالات و نظریات کی تشریح کی ابتدا بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے کرتا ہے اور خالقِ اکبر کی حمد و ثنا کرتا ہے۔ جاہل عالم اور مسلمان عالم کے درمیان یہی فرق ہے۔ دونوں کی معلومات میں کوئی فرق نہیں۔ مگر معلومات کو پیش کرنے کا اندازہ کلیۃً مختلف ہے۔ علمی معلومات میں کوئی تغیر نہیں آیا کرتا، نہ ہمارے ہاں، نہ ان کے ہاں مگر موقف دونوں کا الگ الگ ہوتا ہے۔
بالکل یہی مثال تعلیم پر لاگو ہوتی ہے چنانچہ جب ہم موجودہ تعلیم کو اسلامی تعلیم میں بدلنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم کیمسٹری، فزکس وغیرہ میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ بت پرستانہ رویے ترک کر کے اس کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو طالب علم سارا دن کلاس روم اور لیبارٹریوں کے اندر ’’نیچر ہی خالق ہے، نیچر کے قوانین اٹل ہیں‘‘ قسم کی باتیں سنتا رہتا ہے اور اس کے کانوں میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی صنّاعی و قوّت کی بات نہیں جاتی، اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اخلاق، اَقدار یا اعلیٰ اصولوں کا حامل بنے گا عبث اور فضول ہے۔ نیچر ایک ایسا ’’خدا‘‘ ہے جس کے سامنے کوئی عقیدہ ہے نہ اُصول۔ اس کے برعکس جو طالب علم دورانِ تعلیم یہ پڑھتا رہے گا کہ اﷲ تعالیٰ ہی نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔ وہی ساری مخلوقات کا مالک، رازق اور رہنما ہے، وہ اپنے اندر دینی روح پیدا ہوتی ہوئی محسوس کرے گا اور اﷲ سے اس کا تعلق گہرا اور محبت مضبوط ہوتی جائے گی۔
عمرانی عُلوم اور اِسلام
یہ تو ان علوم کی بات تھی جو انسانی تجربات و مشاہدات پر مبنی ہیں لیکن عمرانیات میں معاملہ مختلف ہے۔ یہاں اسلام کا نقطۂ نظر خالص انداز میں سمویا جاسکتا ہے۔ ان علوم میں تاریخ، ادب اور اقتصادیات کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں چونکہ انسانی نقطۂ نظر بار بار مداخلت کرتا ہے، اس لیے انھیں اسلامی تعلیمات کا علمبردار و ترجمان بنایا جاسکتا ہے لیکن اس وقت یہ علوم ہم اپنے بچوں کو جس انداز میں پڑھا رہے ہیں، وہ سراسر مغربی طریقہ ہے۔ مَیں مذکورہ تینوں علوم کی ایک ایک مثال پیش کر کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہوں۔
پہلے تاریخ کو لیجیے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات کو بیان کر دینے کا نام ہے حالانکہ فی الحقیقت یہ واقعات کی تعبیر کا نام ہے۔ تاریخ دراصل انسان کی تاریخ ہے اور جب تک یہ طے نہ ہو کہ انسان کیا ہے، اس کا مقام کیا ہے، اس وقت تک تاریخ سے انصاف نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مورخ لکھتے ہیں کہ یہ فرعونی تہذیب تھی، یہ یونانی تہذیب تھی اور یہ رومی تہذیب تھی اور پھر ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو ’’جاہلیت‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتابِ پاک میں انسان کا جو مقصدِ حیات ’’بندگیٔ رب‘‘ قرار دیا ہے، وہ ان نام نہاد تہذیبوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اسی لیے جب مسلمان مورخ یا معلِّم اس نقطۂ نظر سے مطالعہ کرے گا تو وہ مثال کے طور پر اگرچہ فرعونی تہذیب کی مادّی ترقی کی اعتراف کرے گا مگر وہ ضرور بیان کرے گا کہ فرعون اﷲ کا بندہ نہیں بلکہ خود خدا بن بیٹھا تھا۔ اس دور میں انسان غیر خدا کے بندے بن گئے تھے اور یوں فرعونی تہذیب میں مصر کا انسان اﷲ کی عبودیت کا مقصد پورا نہیں کر سکا تھا۔ بس یہی اختلاف جاہلی تاریخ اور اسلامی تاریخ کے درمیان واقع ہے کہ جاہلی مورخ فرعونی تہذیب کی تعریف میں رطب اللسان ہو گا اور لکھے گا کہ اس دور کے انسان نے اپنی خودی کا اظہار بہترین طریقے سے کیا مگر مسلمان مورخ کے نزدیک اس دور کا انسان گمراہ تھا اور سرتاسر جاہلیت میں ڈوبا ہوا تھا۔
اب اجتماعیات (سوشیالوجی) کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ علم الاجتماعیات کا مشہور ماہر اور فلسفی درگائین فرانس کا یہودی تھا۔ اُس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دین اور اخلاق کی حیثیت مستقل بالذات نہیں، نہ یہ ہمیشہ قائم و ثابت رہ سکتے ہیں۔ یہ تصور اسلامی تصورِ اخلاق و مذہب سے بنیادی طور پر متصادم ہے مگر ایک عرصے سے درسگاہوں میں پڑھا جارہا ہے۔ جب ہم تعلیم کو اسلامی رنگ دیں گے تو یہ غیرحقیقی اور غیراسلامی نظریات ختم کر دیے جائیں گے اور اجتماعیات اور دیگر عمرانی علوم کو دینی عقائد سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اسی طرح اقتصادیات کا علم بھی انسانی نظریات کے تابع ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اور اشتراکیت کا اقتصادی نظام دونوں غیرفطری و غیرانسانی بنیادیں رکھتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے اور وہ دونوں سے مختلف اور انسان پرور ہے۔
علمِ نفسیات میں انسانی نفس کا جزوی تجزیہ کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ انسان کو کیسا ہونا چاہیے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ انسان کیا ہے؟ اس وقت نفسیات کی تدریس خالصتاً مغربی طریقے سے کی جارہی ہے اور ڈارون کا نظریۂ ارتقا اس کا ایک لازمی جزو ہے۔ اسلامی علم النفس دینی تعلیمات پر استوار ہو گا، تاہم یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ مَیں صرف آؤٹ لائن دے رہا ہوں۔
میرے بیٹو اور بھائیو! تاریخ، اجتماعیات اور اقتصادیات و نفسیات کی طرح تعلیم و تربیت کا علم بھی مغربی تصورات پر مبنی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تعلیم کا سب سے بڑا مقصد انسان کو اچھا شہری بنانا ہے جبکہ اسلام کا تصورِ تعلیم پہلے ہی قدم پر اس سے اختلاف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کی اوّلین اور سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صالح انسان پیدا کرے۔ بعض لوگوں کے نزدیک اچھا شہری اور صالح انسان ایک ہی بات ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں لیکن درحقیقت دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں وہ سرمایہ دار اچھا شہری ہے جو اپنے کاروبار کو وسعت دیتا رہے، خواہ وہ کتنے ہی مظلوموں کا خون نچوڑ ڈالے۔ وہ سفید فام شہری اچھا ہے جو بے گناہ سیاہ فام کو مار ڈالے اور وہ امریکی بھی اچھا شہری ہے جو دنیا بھر میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتا پھرے، کمزوروں کو مصائب کا شکار بناتا رہے مگر امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ اسی طرح روس میں وہ شخص اچھا شہری ہے جو اپنے دل و دماغ اور ضمیر کو کمیونسٹ پارٹی کے شکنجے میں کَسے رکھے۔ اسی طرح وہ روسی بھی اچھے شہری تھے جو ۱۹۵۴ء میں ٹینک لے کر ہنگری گئے اور انھوں نے وہاں کے باشندوں کو محض اس لیے کچل ڈالا تھا کہ وہ آزادی کے خواہاں تھے۔
غرض ہر ملک میں اچھے شہری کی مختلف تعریف رائج ہے مگر بنیاد میں ایک ہی جذبہ کارفرما ہے یعنی وطن اور قوم کی پرستش، اسے معبود کے درجے پر فائز کرنے کا عزم جبکہ اس کے مقابلے میں صالح انسان یا مسلمان صرف خدا کا بندہ ہے۔ وہ وطن پوجا نہیں کرتا، نہ اس کی خاطر کسی ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اسی لیے ایک صالح انسان خواہ کہیں بھی چلا جائے، اس کا رویہ یکساں ہو گا کہ اس کی نظر میں خدا ہر جگہ موجود ہے اور اس کی ایک ایک حرکت کی نگرانی کر رہا ہے۔
میرے بھائیو اور بیٹو! آپ نے دیکھ لیا کہ ان تمام علوم سے ہمیں اسلامی نقطۂ نظر سے اختلاف ہے اور اگر ہم انھیں اسلامی رنگ دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے الفاظ، نئی تراکیب اور نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ یہ وقت کی بہت بڑی اور بنیادی ضرورت ہے۔
اسلامیات کے پیریڈ بڑھا دینا کافی نہیں!
آخر میں ہم یہ دیکھیں گے کہ ان علوم میں اسلام کا کتنا حصہ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ محض اسلامیات کے پیریڈ بڑھا دینے سے اسلامی نظامِ تعلیم کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ بالفرض اگر ایسا کر بھی دیا جائے مگر دوسرے مضامین اور علوم کا انداز وہی رہے تو اسلامیات کے ان پیریڈوں کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس کے لیے مَیں اپنے ملک مصر کی مثال پیش کروں گا۔ وہاں اسلامیات کے پیریڈ میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ فرعون خدا کا باغی تھا، ظالم تھا۔ مگر تاریخ کا استاد اسے ایک عظیم انسان کے روپ میں پیش کرتا ہے جو واقعی اتنا اعلیٰ و برتر تھا کہ خدا بننے کے قابل تھا۔ اسی طرح ہم دینیات کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ خدا خالق ہے مگر دوسرے علوم میں نیچر یا فطرت کو اس رتبے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ سائنسی علوم میں طبعی قوانین اور نیچر کو اَٹل قرار دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ خدا بھی ان کو بدلنے پر قادر نہیں ہے اور اسی سبب سے مغربی ذہن معجزات کا انکار کرتا ہے کہ یہ امر علمِ طبیعیات کے خلاف ہے۔ نتیجہ اس صورتِ حال کا یہ ہوتا ہے کہ طالب علم کا ذہن تضاد کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔
دینیات کی تعلیم میں دوسری شکل یہ ہے کہ بچے کو کچھ آیات رٹائی جاتی ہیں اور کچھ عبادات کا تعارف ہوتا ہے۔ تعلیم کا یہ طریقہ ہمیں قرونِ اولیٰ سے ورثے میں ملا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اس زمانے کے مناسبِ حال بھی تھا جبکہ اس وقت اسلامی قانون نافذ تھا، معاشرہ اسلامی تھا اور گھر کے اندر دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اُس دور میں مدرسہ میں صرف عبادات و فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی اور یوں یہ ریاست و معاشرت کی تکمیل کر رہا تھا۔ مگر اب صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ اب گھر کے اندر اسلامی تربیت کا انتظام ہے نہ معاشرے میں۔ اور نہ خدا کا قانون نافذ ہے، اس لیے طالب علم کلاس روم سے جب قرآنی آیات اور فقہ کے اسباق پڑھ کر باہر نکلتا ہے تو اسے سب کچھ مختلف اور غیرحقیقی نظر آتا ہے اور دینی احکام و مسائل کو ناقابلِ عمل سمجھنے لگتا ہے۔ کاش یہ تفاوت دور ہو۔
تیسری بات میں یہ کہوں گا کہ دینیات کے نصاب میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس پیریڈ کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبا میں دین کا احساس، شعور اور محبت پیدا ہو اور اس کے لیے مثالی (آئیڈیل) طریقہ وہ ہے جو قرآن نے بتایا ہے۔ اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ بار بار زمین و آسمان کے مشاہدے کی دعوت دیتا اور انسان کو اپنے آپ پر غور کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس سے دراصل اﷲ تعالیٰ اپنی ذات کی طرف متوجہ اور انسانی ذہن میں دینی حِس بیدار کرتا ہے۔ چنانچہ مجرد فقہ کے اصول یا عبادات کی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ طریقہ بھی اختیار کیا جائے تو پھر جو علوم بھی پڑھائے جائیں گے، سارے اسلامی بن جائیں گے۔ اس کے لیے اساتذہ ایسے ہونے چاہییں جو خود دِین سے عملی شیفتگی رکھتے ہوں اور سبق کے الفاظ ان کے دل سے نکل رہے ہوں۔
میرے بیٹو اور بھائیو! مَیں آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ مَیں نے بڑا وقت لیا ہے مگر یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر تفصیل ہی سے بات ہونی چاہیے۔ تعلیم وہ کارگر آلہ ہے جس کے ذریعے ہم اسلامی معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں اور اگر ہم فی الواقع اسلامی شوکت کا احیا چاہتے ہیں تو اسلامی تعلیم و تربیت کا مثالی نظام بحال کرنا پڑے گا۔ یہ کام بہت ہی اہم ہے اور فوری توجہ کا مستحق بھی۔
☼☼☼
Leave a Reply