تحریکِ اسلامی سے میری مراد کوئی خاص جماعت یا حزب نہیں جس کی طرف عموماً آپ کی سوچ چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ ’’اخوان المسلمین‘‘ جو موجودہ دور کی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے جس کے متعلق ڈاکٹر موسیٰ الحسینی نے اپنی کتاب میں آج سے چالیس سال قبل کہا تھا کہ یہی وہ تحریک ہے جسے اسلامی تحریکوں میں ایک عالمگیر حیثیت حاصل ہے۔ بلکہ تحریکِ اسلامی سے میری مراد وہ سارا مجموعی کام ہے جو اجتماعی اور عوامی سطح پر اسلام کی خدمت کے لیے ہو رہا ہے۔ یہ اسلامی کام امت کے ضمیر کی علامت ہے اور اس کی پہچان ہے۔ امت کے دکھوں اور آلام کا سچا ترجمان ہے۔ تحریکِ اسلامی سے میری مراد وہ جماعتی کام ہے جو خلافت کا قلعہ مسمار ہونے کے بعد آج تک ہو رہا ہے۔ اس سے مراد وہ تمام کوششیں اور مساعی ہیں جو اس امت کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔ وہ کام جو امت کے درد اور امیدوں کا ترجمان ہے۔ جو اس کے عقائد، افکار، ثابت شدہ قدروں اور تجدیدی عظمتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اور جو اس امت کو اتحاد و یکجہتی کے فکری جھنڈے تلے جمع کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
لہٰذا تحریکِ اسلامی کا دائرہ کوئی محدود دائرہ نہیں جس میں کوئی خاص دینی و سیاسی جماعت داخل ہو بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں وہ تمام جماعتیں داخل ہو جاتی ہیں جو کسی بھی شکل میں تجدیدِ دین کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ جو شریعت کے نفاذ کے لیے، امت کے احیاء کے لیے، دین کو اپنی اصلی تاریخی اور طبعی حالت کی طرف لوٹانے کے لیے، دین کو اجتماعی قیادت کے تحت تمام شعبہ ہائے زندگی میں نافذ کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ دین مکمل طور پر معاشرے میں نفوذ کرے مثلاً اعتقادات میں، عبادات میں، اخلاق و سلوک میں، فکر و شعور میں، شریعت و طریقت میں اور عدل و انصاف میں۔ (مصنف)
تحریک اسلامی کے ساتھ نشست:
تحریک اسلامی جو کہ امت کی امیدوں کا سہارا تھی، جو اس کشتی کی قیادت کر رہی تھی جس پر امت سوار تھی۔ امت کو یہ توقع تھی کہ تحریک ان کی کشتی کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچا دے گی، کیونکہ اس کشتی کے ساتھ ایک ایسا قطب نما نصب تھا جو اسے راستہ دکھاتا تھا (یعنی کتاب اللہ اور سنت رسولؐ) اس کے سامنے منزل تک پہنچنے کے لیے تمام راستوں کا نقشہ بھی آویزاں تھا یعنی اسلامی شریعت اور دائمی نمونہ۔
لیکن بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تحریک اسلامی اس کشتی کو بحفاظت ساحل تک نہ پہنچا سکی جس کی اس سے امید اور توقع تھی۔ یہی وہ امید اور آس تھی جو لوگوں کو اور خود تحریک اسلامی کو تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک اسلامی اس امید پر پورا نہ اتر سکی تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
تحریک اسلامی کی اس ظاہری ناکامی پر اور اس ناکامی کے اسباب پر مخالفین اور مؤیدین دونوں حلقوں کی طرف سے بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے۔
لہٰذا ہم اگر تحریک پر تنقید کرتے وقت اس کے کمزور پہلوئوں کو نظرانداز کر دیں یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھیں تو یہ بات کسی بھی لحاظ سے قرین انصاف نہیں لگتی۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم بعض جوانب کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں اور بعض میں افراط و تفریط سے کام لیں۔
تحریک اسلامی کو جس ناکامی کا سامنا ہے اس کے اسباب معلوم کرنے سے پہلے ہم یہ تحقیق کریں گے کہ یہ اسباب داخلی ہیں یا خارجی؟ یعنی کیا ان اسباب کے ذمہ داران خود تحریک کے کارکنان ہیں یا ان کے مخالفین؟
ہم میں سے بعض لوگ خارجی اثرات کی کلی طور پر نفی کرتے ہیں اور انہیں محض تخیلات اور اوہام قرار دیتے ہیں، جیسے قدیم دور کے عرب، چڑیلوں اور فرضی پرندوں کے بارے میں خیالات رکھتے تھے، حتیٰ کہ مجھے ایک دوست نے صلیبیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’جناب یہ جو آپ صلیبیت کے بارے میں کہتے رہتے ہیں، اصل میں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ صلیبیت ایک خیالی مسئلہ ہے، آپ کو ویسے ہی گمان ہو جاتا ہے، لوگ خواہ مخواہ اپنی مصلحتوں کے لیے اسے موضوع بحث بنا لیتے ہیں‘‘۔ ایسے آدمی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ واقعات اور حقائق کو چھپانے والی بات نہیں ہے؟
دوسری طرف بعض حضرات ایسے ہیں جو خارجی اسباب و عوامل کو کلی طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صرف بیرونی عوامل ہی تحریک کی ناکامی کا سبب ہیں، یہ عوامل تحریک کے قائدین اور راہنمائوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ان عوامل کی قوت کو اس قدر بڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ تحریکی قیادت خود کچھ حیثیت نہیں رکھتی بلکہ صرف بیرونی اشاروں پر چلتی ہے۔ یہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلیاں ہیں جنہیں خفیہ انگلیاں، نظر نہ آنے والی تاروں سے کنٹرول کرتی ہیں۔
اس دعوے کو ایک مثال کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ تحریک اسلامی ایک کشتی ہے۔ جس کی بیرونی مخالف طاقتیں سمندر کے تھپیڑے، سمندری چٹانیں، پانی کی لہریں، مسلح بحری قذاق، دشمن کی غوطہ خور کشتیاں اور دوسری قسم کی مخالف قوتیں ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو کشتی کے آگے بڑھنے کی راہ میں مزاحمت کر رہے ہیں اور کشتی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ قوتیں کشتی کو اپنی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں اور اسے مجبور کر رہی ہیں کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کرلے۔ ورنہ اس کشتی کو ایسے نقصانات پہنچ سکتے ہیں جو کشتی بانوں کے گمان سے باہر ہیں۔ ان خطرات کا شکار خود کشتی بھی ہوسکتی ہے، یا اس کشتی کے مالکان یا ملاح یا اس میں سوار مسافر سب کے سب پھنس سکتے ہیں یا ان میں سے بعض (اِلا یہ کہ اللہ تعالیٰ خود ان کو بچا کر نکال لے)۔
ممکن ہے خرابی اور خلل کی ذمہ داری نہ داخلی ہو اور نہ خارجی بلکہ ایک تیسرا فیکٹر یا فریق ہو جسے ہم ذاتی سبب کہتے ہیں یعنی خرابی بذات خود تحریک کے اندر موجود ہو۔ یعنی نہ تو خرابی کشتی کے مخالفین کی طرف سے ہے نہ کشتی چلانے والوںکی طرف سے ہے بلکہ خود کشتی میں موجود ہے۔ کشتی سے مراد تحریک ہے، چنانچہ کشتی کی تیاری میں وہ کمزوریاں رہ گئیں جن کی وجہ سے کشتی طوفانوں اور تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کرسکی۔
حقیقت میں اگر انصاف کی نظر اور گہری تحقیق سے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ خرابی کے اسباب و عوامل دونوں طرح کے ہیں، داخلی بھی اور خارجی بھی، عدل یہ کہتا ہے کہ ذمہ داریاں دونوںطرف برابر ہیں۔ تحریک بھی مبرا نہیں اور بیرونی عوامل سے بھی انکار نہیں۔
تحریک اسلامی کی ذمہ داریاں اور ان کا دائرہ کار:
میرے خیال میں یہ بات عدل کے خلاف ہوگی اگر ہم مسلمانوں کی تمام موجودہ خرابیوں اور بربادیوں کی ذمہ داری صرف تحریک اسلامی کے کاندھوں پر ڈال دیں۔ حالانکہ ان خرابیوں اور پسماندگیوں کو پیدا کرنے میں صدیوں کے استعمار کا اور پھر آزادی کے بعد لادین حکومتوں کا بڑا حصہ ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کہ بعض ذمہ داریاں تحریک پر بھی عائد ہوتی ہیں۔
مثلاً اس کے پاس بڑی افرادی، مادی اور معنوی قوتیں اور وسائل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تحریک کو ملے ہوئے ہیں۔ تحریک نے ان وسائل میں سے بعض کو تو استعمال کیا ہے لیکن افسوس! بعض کو یا تو استعمال میں لایا ہی نہیں گیا اگر لایا گیا ہے تو غلط طریقے سے۔
تحریک اسلامی نے جن امور اور معاملات میں کمزوری کا مظاہرہ کیا یا حالات کی وجہ سے کوتاہی واقع ہوئی یا نتائج حاصل کرنے میں ضعف دکھایا ان سب معاملات کے متعلق بھی تحریک اسلامی کسی حد تک معذور ہے۔ یہ معذرت کسی حد تک معقول بھی ہوسکتی ہے اور نہیں بھی۔
تحریک اسلامی کے بارے میں جو لوگ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ یہی امت مسلمہ کے لیے واحد موثر عامل ہے اور مضبوط ترین قوت ہے، وہ غلط ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک اسلامی تو مسلمانوں کی قوتوں میں سے ایک قوت اور لہروں میں سے ایک لہر ہے کہ اس سے آج دنیا کی وہ تمام طاغوتی قوتیں نبرد آزما ہیں جنہوں نے اپنے پنجے اس کے سینے میں گاڑے ہوئے ہیں۔ جو اندرونی طور پر اسلام سے سخت خائف ہیں۔ جبکہ بیرونی طور پر استعماری قوتیں الرجک ہیں۔
تحریک اسلامی دراصل انہی طاغوتی اور اتحادی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتری ہے۔ جب سے تحریک برپا ہوئی ہے اسے پے درپے مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک آزمائش اور ابتلاء سے نکلتی نہیں کہ دوسری آزمائش سامنے ہوتی ہے۔ پہلا زخم مندمل نہیں ہوپاتا کہ دوسرا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔
بعض لوگ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ بس ظاہری کامیابیوں کا گراف ہی اصل معیار ہے۔ اگر یہ گراف اونچا ہو جائے تو تحریک کامیاب ہو جائے گی اور اگر یہ گراف گر جائے تو خسارہ ہی خسارہ اور ناکامی ہی ناکامی ہے، حالانکہ اس گراف کے گر جانے یا اوپر چڑھ جانے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ حق و باطل کا معیار ہے نہ کہ ناکامی و کامیابی کا معیار، دین۔ منطق، تاریخ اور امر واقعہ اس معیار کو تسلیم نہیں کرتے۔ کیونکہ تحریک اسلامی اول و آخر ایک دعوت ہے، اس کا کام لوگوں کی اصلاح اور فساد کو مٹانا ہے۔ لہٰذا ایک داعی کا پیغام دوسروں تک پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے، یہ دعوت کبھی قبول کر لی جاتی ہے اور کبھی رد کر دی جاتی ہے۔
اللہ کے نبی حضرت نوح ؑ اس دعوت کو پہنچانے کے لیے اپنا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ بات کرنے کے تمام اسلوب اختیار کرتے ہیں، مختلف اوقات میں دن رات لوگوں کو پکارتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی دعوت پر لبیک کہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ ہر طرف انکار اور رفض سے جواب ملتا ہے۔ اپنے قریبی رشتہ دار، عزیز و اقارب اور بیوی بچے بھی بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے بلکہ مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ نوحؑ نے جس طرح قوم کو پکارا اور قوم اس پر جو رویہ اختیار کرتی ہے اس کا حال خود قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے:
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَنَہَارًاo فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِیْ اِلَّا فِرَارًاo وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا اَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَاَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًاo (نوح: ۵۔۷)
’’حضرت نوح نے فرمایا: اے میرے رب! میں نے اپنی قوم کو دن رات دین کی طرف بلایا، لیکن انہوں نے میری پکار پر ذرا بھر دھیان نہ دیا بلکہ مجھ سے دور ہی ہوتے رہے۔ میں نے جب بھی انہیں اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے کو کہا تو انہوں نے انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں اور کپڑے جھاڑ کر چلے گئے۔ انہوں نے اصرار اور تکبر کی راہ اختیار کیے رکھی‘‘۔
سورۃ البروج میں چند اہل ایمان کا ذکر ہوا ہے جنہیں اس وجہ سے آگ کے گڑھوں میں زندہ پھینک دیا گیا کہ وہ دین کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ ناکام ہوگئے؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنے دعوے میں اور مقصد میں کامیاب نہ ہوئے؟ کیونکہ جس دین کی طرف وہ بلا رہے تھے اس پر کسی نے لبیک نہ کہا اور وہ اپنی زندگیوں میں دین کی کامیابی نہ دیکھ سکے؟
قرآن مجید میں بعض ایسے انبیاء کرام کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے دعوتی کام میںاپنی متاعِ حیات بھی پیش کر دی اور انہیں قتل کر دیا گیا… لیکن ظاہری طور پر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْز وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَo (البقرہ: ۸۷)
’’تم ایک فریق کو جھٹلا چکے اور اب ایک کو قتل بھی کر چکے ہو‘‘۔
اس بحث کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ تحریک اسلامی ہر قسم کے مواخذے، تنقید اور نصیحت سے مستثنیٰ ہے۔ جیسا کہ بعض مخلص حضرات خیال کرتے ہیں۔ جب وہ تحریک اسلامی سے وابستہ ہوتے ہیں تو وہ تحریک اسلامی اور اسلام کو آپس میں گڈ مڈ کر کے تحریک کو ہی اصل اسلام قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی تحریک پر تنقید کر دے تو ان کی نظر میں یہ اسلام پر تنقید ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بعض سیکولر (لادین) ناقدین بھی افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ جب تحریک اسلامی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ساتھ اسلام، اس کے احکامات اور شریعت اسلامی کو بھی رگڑ جاتے ہیں (گویا تحریک ہی کل اسلام اور اسلام ہی کل تحریک ہے)۔ حالانکہ تحریک اسلامی اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ بنی نوع انسان کی ایک تحریک ہے جو صرف اسلام کی نصرت اور انسانی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس تحریک کے علمبردار بشر ہیں اور انسانوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تحریک کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے وہ وہی طریقے اور وسائل اختیار کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے تحریک کی اور دین کی خدمت ہوگی۔
تحریک کے علمبردار کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ان کے اجتہادات اور آراء کو وحی الٰہی کا
درجہ حاصل ہے، جن پر بحث اور تنقید کفر کے مترادف ہے۔ نہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی ہر بات کو آنکھیں بند کر کے مِنْ وَعَنْ قبول کر لیا جائے کہ ان کی کسی بات کو رد کرنے کی گنجائش نہیں۔
لہٰذا ہم پر یہ واجب تھا کہ ہم تحریک اسلامی کے اندرونی ڈھانچے میں ان اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے جو ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں حائل ہو رہے تھے۔ ان اسباب کی نشاندہی کرنے سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کا تدارک ہو جائے۔ اسلامی معاشرے میں ایک ایسی روح زندہ ہو جائے جو عقائد اسلامی اور شریعت اسلامی کا نمونہ بن جائے۔
یہاں میں چند بڑے بڑے اسباب کی نشاندہی کر کے ان کا تجزیہ پیش کروں گا۔
اوّل۔ ذاتی اور شخصی تنقید کی کمی:
اہل نظر ہمیشہ سے تحریک اسلامی کی اندرونی حالت پر یہ کہہ کر شکایت کرتے رہے ہیں کہ یہاں ذاتی تنقید کی بہت کم گنجائش رکھی گئی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ پہلو سرے سے غائب یا مفقود ہو بلکہ یہ پہلو کمزور ہے یا یوں کہیے کہ ’’نہ ہونے کے بہت قریب ہے‘‘۔
ذاتی تنقید کی اسلامی اصطلاح ’’محاسبہ نفس‘‘ کے مترادف ہے۔
اور قرآن کریم میں اس حالت کو ’’نفس لوامۃ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث شریف میں محاسبہ کے عمل کو عقلمندی کی دلیل بتایا گیا ہے:
مثلاً: اَلْکَیَّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ (رواہ احمد)
’’عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پہچانا‘‘۔
اور حضرت عمرؓ کا قول ہے:
حَاسِبُوا أنْفَسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، وَزِنُوا اَعْمَالَکم قَبْلَ أَنْ تُوزَنُ عَلَیْکُمْ۔
’’اپنے اعمال کا حساب کرو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال کا حساب کیا جائے، اپنے اعمال کا وزن کر لو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال (قیامت کے دن) تولے جائیں‘‘۔
بعض سلف میں سے کسی کا قول اس طرح ہے:
المُؤمِنُ أشَدُّ حِسَابًا لِنَفْسِہ مِنْ سُلْطَانٍ غَاسْمٍ وَمِنّ شَرِیکٍ مَشِیْحٍ۔
’’مومن آدمی ظالم بادشاہ اور بخیل شراکت دار سے بھی زیادہ اپنے نفس کا حساب رکھنے والا ہوتا ہے‘‘۔
ایک مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ جب اس سے حقوق اللہ میں تقصیر اور حقوق العباد کے ضمن میں کوتاہی ہو رہی ہو تو اپنے نفس کا محاسبہ کرے تاکہ اس کا آج اس کے گزشتہ کل سے اور آنے والا کل اس کے آج سے بہتر ہو۔ پس تحریک اسلامی پر بھی واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کا محاسبہ جاری رکھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ضلالت و گمراہی پہ بحیثیت مجموعی اتفاق کرنے سے بچا لیا ہوا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
لَنْ تَجْتَمِعَ اَمّتِیِ عَلَی الضَلَالِ۔ (الحدیث)
’’میری امت غلط بات پر کبھی بھی متفق نہیں ہوگی‘‘۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی مخصوص جماعت کو غلطی اور خطا سرزد نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دے رکھا۔ خاص طور پر اجتہادی معاملات میں تو ہر وقت غلطی کا امکان موجود رہتا ہے کیونکہ جہاں مختلف نقطہ ہائے نظر ہوں اور متضاد آراء و مواقف ہوں تو صواب یا خطا کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اجتہادی غلطی ہو تو اس پر اجر بھی ملتا ہے، یہ غلطی چاہے فرد سے سرزد ہو یا جماعت سے، چہ جائے کہ اجتہاد کا تعلق عملی زندگی کے کسی پہلو سے ہو۔ ایسا اجتہاد تو زمان و مکان اور حالت کے اعتبار سے مختلف حالتیں بدلتا رہتا ہے۔ لیکن اگر غلطی بشری کمزوری کی بنیاد پر سرزد ہو تو اس سے ایمان و تقویٰ کی نفی نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ خطا بشری تقاضے کے عین مطابق ہے اور کوئی بنی آدم غلطی سے مبرا نہیں ہوتا۔ یہاں تو ایسے لوگوں کے پائوں بھی پھسل جاتے ہیں جو ہم سے زیادہ کامل ایمان والے ہوتے ہیں جن کے ایمان کا وزن اللہ کے میزان میں بہت بھاری ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس بات کو غزوۂ احد کے واقعات سے واضح کرتے ہوئے فرمایا:
اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَالا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَاط قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْط اِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (آل عمران: ۱۶۵)
’’اور جب تمہاری ایسی ہار ہوئی جس کے دو حصے تم جیت چکے تھے، تو کیا ایسے وقت میں تم یوں کہتے ہو کہ یہ کدھر سے ہوئی؟ آپؐ فرما دیجیے کہ یہ ہار خاص تمہاری اپنی طرف سے ہوئی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے‘‘۔
اور قرآن کریم نے بعض فروگزاشتیں سرزد ہونے کی جانب بھی متوجہ کیا، جیسا کہ آیت میں ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ صَدَقَکُمُ اﷲُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖج حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَط مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ… (آل عمران: ۱۵۲)
’’اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا تھا جس وقت کہ تم ان کفار کو قتل کر رہے تھے (حکم خدا سے) یہاں تک کہ تم خود ہی کمزور ہوئے اور باہم حکم میں اختلاف کرنے لگے اور تم کہنے پر نہ چلے حالانکہ تمہیں اپنی پسند کی بات دکھلا دی گئی تھی۔ تم میں سے بعض دنیا کے چاہنے والے اور بعض آخرت کے طلبگار تھے‘‘۔
جو لوگ صرف آخرت کے طلبگار تھے اور انہیں دنیا کی کوئی لالچ نہ تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان میں بعض لوگ ایسے تھے جو آخرت کو نظرانداز کر کے دنیاوی مقاصد کو پورا کرتے تھے جو کہ کمزوری اور ضعف بشری کی دلیل ہے۔
تحریک اسلامی کو بھی چاہیے کہ وہ بار بار اپنے آپ کا محاسبہ کرتی رہے تاکہ اصلاح اور رجوع کا امکان باقی رہے۔ اگر اس سے ہمدردی رکھنے والے کوئی نصیحت یا تجویز پیش کریں تو اسے کھلے دل سے قبول کرے بلکہ مزید حوصلہ افزائی کرے۔ اس میں شک نہیں کہ نصیحت کڑوی اور تنقید تکلیف دہ ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کا رویہ سب کے مدنظر ہونا چاہیے، وہ تنقید کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رَحِمَ اللّٰہُ اِمْرَأًأَہْدَی اِلَیَّ عُیُوْبَ نَفْسِیْ۔
’’اللہ اس آدمی پر مہربانی کرے جو مجھ پہ میرے عیوب عیاں کر دے‘‘۔
پھر یہ کہ تحریک اسلامی کسی کی ذاتی یا خاص ملکیت کا نام نہیں بلکہ یہ تو پوری امت اسلامیہ کی مشترکہ میراث ہے اور آنے والی تمام اسلامی نسلیں اس کی وارث ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ اس تحریک کے مضبوط پہلوئوں سے واقفیت، کمزور پہلوئوں کی نشاندہی اور ذمہ داران کا مؤاخذہ کرے، تاکہ اصلاح ممکن ہوسکے۔
تحریک اسلامی کے بعض تابعین (جو مخلص لوگ ہیں) کویہ خوف ہے کہ اگر ذاتی تنقید کا دروازہ تعمیری اور تخریبی سوچ رکھنے والے ہر قسم کے لوگوں کے لیے کھول دیا گیا تو اصلاح سے زیادہ فساد پیدا ہو جائے گا۔
یہ اسی طرح کا عذرِ لنگ ہے جیسا کہ سابقہ زمانے کے بعض علماء اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ ایسے دروازے سے ہر دعوے دار اور طفلانہ سوچ رکھنے والا داخل ہونے کی کوشش کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لوگ ایسی باتیں کہہ دیں گے جن کا انہیں علم نہیں۔ اور بغیر علم کے فتوے صادر کریں گے جس سے وہ خود بھی اور دوسرے بھی گمراہ ہوں گے۔
لیکن میرے نزدیک مناسب بات یہ ہے کہ یہاں اور وہاں ہر دو قسم کے لوگوں کے لیے دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ جس سے ہر طاقت رکھنے والا داخل ہو سکے تاکہ وہی بات باقی رہے جو فائدہ مند ہو، صحیح قول صحیح تر ہو کر سامنے آجائے اور غلط بات غلاظت کی طرح کشید ہو کر باہر نکل جائے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآئًج وَ اَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ… (الرعد: ۱۷)
’’جو میل کچیل ہوتا ہے وہ سیلاب کے ساتھ بہہ کر چلا جاتا ہے جبکہ لوگوں کی فائدہ مند اشیا زمین میں باقی رہتی ہیں‘‘۔
یہ حضرات تنقید سے اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ (ان کے خیال میں) اس طرح کی تنقید اگر قائدین تحریک پر کی گئی تو وہ تہمت کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ یا پھر مخالفین کے لیے وسیلہ و ہتھیار کا کام دے گی۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر کسی نے حسن البناءؒ یا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ یا سید قطبؒ یا مصطفی السباعی اور ان کی طرح کے دوسرے تحریکی مفکرین کی آراء پر تنقید کردی تو گویا تہمت گاڑ دی یا ان کی امامت اور سیادت پر حملہ کر دیا۔
یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ ایک مفکر کی فکری رائے پر ہر کوئی تنقید کرسکتا ہے اور اس کی مخالفت میں اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اگر کسی کی علمی یا تحریکی فکر پر تنقید ہو جائے تواس کا یہ مطلب نہیں کہ بس مفکر اپنے دینی اور اخلاقی مقام سے گر گیا، یا اس کے علمی قد میں فرق آگیا۔ جس طرح تحریک کسی کی ذاتی ملکیت نہیں اسی طرح ان مفکرین کی فکر ان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ اسلامی نسل کی میراث ہے اور ان کا حق بلکہ فرض ہے کہ وہ ان مفکرین کی آراء میں موجود اختلافی اور اتفاقی مقامات کی نشاندہی کریں تاکہ صحیح اور غیرصحیح کی پہچان ممکن ہو جائے۔
دوسری طرف خود ان مفکرین کے متعلق آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی ایک دن بھی معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی اپنے اجتہادات و آراء کو تقدیس کا رنگ دیا، بلکہ حسن البناءؒ نے اپنے بیس نکاتی اصولوں میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ نبیﷺ کے علاوہ ہر کسی کی بات پر تنقید کی جاسکتی ہے اور غلطی پر مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔
سید قطب کو دیکھ لیں۔ اگر اُن کی آراء پر تنقید یا جرح کی گنجائش نہ ہوتی تو وہ خود اپنی آراء کو کبھی نہ بدلتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مختلف مراحل میں اپنی آراء کو تبدیل کیا اور نیا رُخ اختیار کیا۔
آپ جانتے ہیں کہ سید قطب شروع میں صرف اور محض ادیب تھے اور قرآنی بلاغت کے چکاچوند کر دینے والے محقق تھے (مرحلہ التصویر الفنّی فی القرآن ومشاہد القیامۃ فی القرآن) پھر اسلامی صحافی یا کاتب بن کر اسلام کے نظامِ حیات و انصاف کی طرف بلانے لگے۔ (مَرحَلَۃُ العَدالۃ الا جْتَمِاعِیَّۃ والسَّلامُ العَالَمِی فِی الاِسْلَام) اور پھر ایک تحریکی داعی بن گئے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر انہوں نے نظامِ انقلاب اور اجتماعیت کے حوالے سے اپنے افکار اور نظریات سے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کیا، عقائد کی بجائے نظام کی بات کرنے لگے مَرْحَلْۃٌ المَعَالَمٌ والطَّبَقَۃُ الثَانِیَۃ مِنَ الظِلّالٌ ان مراحل کا ذکر سید نے خود ایک مرتبہ اپنے بعض شاگردوں سے کیا تو کسی نے ان سے کہا: پھر تو امام شافعیؒ کی طرح آپ کے بھی دو مذہب ہوگئے ہیں، جدید اور قدیم! جس سے انہوں نے اتفاق کیا اور کہا کہ بالکل یہی بات ہے لیکن امام شافعیؒ نے فروعات میں رُخ تبدیل کیا جبکہ میں نے اصولوں میں تبدیلی اختیار کی۔
کون جانتا ہے کہ ایک محقق اور ناقد کی نظر میں سید کا قدیم مذہب (بعض مسائل میں) جدید مذہب کی نسبت صواب میں کمزور ہو۔ ادھر سید مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر ابوالحسن علی ندوی کی تنقید کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا ہے اور ان سے ذرا بھی خفا نہیں ہوئے (جتنا کہ ان کے تابعین کے دلوں میں تنگی اور تنائو پیدا ہوا)
تحریکی مخلصین کو یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ جب تنقید کا دروازہ ہر ایک کے لیے کھول دیا گیا تو اس نرمی سے ان کے مخالفین غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے تحریک اور اس کے کارکنان پر تشویش اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کا دروازہ خود بخود کھل جائے گا۔ کیونکہ مخالفین کی یہ ہوشیاری ہوتی ہے کہ وہ کمزور نکات کو اکٹھا کرتے ہیں پھر ان میں اپنا من پسند رنگ بھرتے ہیں اور سیاق و سباق یا حالات و واقعات سے ہٹ کر خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
مخلصین کی یہ دلیل کسی حد تک درست بھی ہے جس کا احساس خود مجھے اپنی کتاب (الحل الاسلامی) لکھنے کے بعد ہوا، کیونکہ بعض بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ناقدین نے کتاب کے کمزور نکات کو منتخب کیا اور ان میں تقدیم و تاخیر کا حربہ اپنایا، پھر فنی تکنیک سے کچھ کو حذف اور کچھ کو مختصر کر لیا پھر اسے السَّکِیر نامی شاعر کے اسلوب میں پیش کیا جیسے اس کا کلام ہے:
مَا قَالَ رَبُّکَ: وَیْلٌ لِلألِی سَکٍرُوْا۔
تمہارے رب نے یہ نہیں کہا کہ: ’’شراب پینے والوں کے لیے جہنم ہو‘‘۔
بَلْ قَالَ رَبُّکَ: وَیْلٌ لِلٔہَلّینَا۔
بلکہ تمہارے رب نے یوں کہا ہے کہ: ’’ہمارے نمازیوں کے لیے جہنم ہو‘‘۔
تنقید کا یہ غلط استعمال اور تحریف و تبدل کے اس گھٹیا انداز کے باوجود بھی یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ تنقید کو کلی طور پر حرام قرار دیا جائے بلکہ انصاف یہ ہے کہ ایسی تنقید کو جس میں علمی اخلاص موجود ہو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ کیونکہ یہ بات جائز نہیں کہ قولِ باطل کے خوف سے ڈر کر قولِ حق کو بھی چھپا دیا جائے۔
آپ جانتے ہیں کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنی جگہ سے کس طرح ہٹایا اور اس میں تحریف کی۔ لیکن اس کے باوجود کلامِ الٰہی اپنی صداقت اور حقانیت کی وجہ سے روشن اور درخشاں شکل میں آج بھی باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ تو پھر کس طرح آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارا کلام (جو بشری کلام ہے) اللہ تعالیٰ کے کلام سے زیادہ محفوظ ہونے کا حق رکھتا ہے۔ (۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply