
قسط نمبر۲
دوم۔ تقسیمات اور خلافات:
موجودہ تحریک اسلامی (وہ تمام جماعتیں مراد ہیں جو غلبۂ اسلام کو مقصود قرار دیتی ہیں) کی بڑی آفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تقسیم در تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ تصویر ہمیں اس کے مختلف گروہوں اور متعدد جماعتوں کی شکل میں نظر آرہی ہے۔ ان میں سے ہر جماعت اور گروہ صرف اور صرف خود کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھتا ہے حالانکہ وہ تو مسلمانوں کی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ بس اسی کے پاس سارے کا سارا حق ہے باقی سب گمراہی اور ضلالت ہے اور یہ کہ جنت میں داخلہ یا جہنم سے خلاصی کی سند صرف ان کے پاس ہے جن پر ان کی جماعت کا لیبل لگ چکا ہے، اور یہ کہ بس وہی اکلوتی جماعت ہے جو فرقہ ناجیہ (یعنی نجات پانے والی جماعت) کہلا سکتی ہے، ان کے علاوہ سب کے سب فنا ہونے والے اور خسران والے ہیں۔
یہ دعویٰ اگرچہ زبان ناطق سے سب لوگ نہیں کرتے لیکن زبان حال سے یہ پوری طرح عیاں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹوٹ پھوٹ اور تشتت و انتشار کا متعدی مرض پوری امت کا گھیرائو کر چکا ہے اور اسلامی تحریکوں کے دائرے میں داخل ہو گیا ہے۔ یہی وہ شکوہ ہے جو مخلص اور دینی حمیت رکھنے والے حضرات دردمندی سے مسلسل کر رہے ہیں تاکہ اسلامی عمل کی رفتار تیز ہو سکے اور راستوں کی رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ اگر ان جماعتوں کا فکری رویہ جوں کا توں رہا تو شکایات کی فہرست مزید طویل ہوتی جائے گی۔ اگر اس جائز شکایت پر کان دھرے جائیں تو ان کے درمیان فاصلے کسی بھی حقیقی ’’قربت‘‘ سے ختم ہو سکتے ہیں۔
میں یہاں ’’قربت‘‘ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں نہ کہ ’’وحدت‘‘ کا کیونکہ میں ذاتی طور پر تعددِ جماعات کا منکر اور مخالف نہیں ہوں اور نہ میری یہ کوشش ہے کہ سب اسلامی جماعتیں ایک تنظیم اور ایک قائد کے ماتحت صرف ایک ہی جماعت میں ضم ہو جائیں۔ کیونکہ یہ محض خوبصورت خواب ہے جس کا حقیقت میں تبدیل ہوجانا آسان کام نہیں اِلا یہ کہ موجودہ انسان پروں والے فرشتوں میں بدل جائیں۔
اگر یہ تعددِ جماعات ضد اور مخالفت کی بجائے تخصیص اور تنوع کی بنیاد پر ہو تو ایسے تعدد کی کوئی ممانعت نہیں۔ مثلاً ایک جماعت مسلمانوں کے عقائد کو خرافات اور شرک سے پاک کرنے اور انہیں کتاب و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے مختص ہو۔ ایک دوسری جماعت عبادات میں کی گئی بدعات اور ملاوٹوں کی تطہیر کرکے لوگوں کو دین کا صحیح فہم عطا کرے۔ ایک تیسری جماعت خاندان اور عورتوں کی مشکلات اور مسائل پر تحقیق کرے اور ان کے ذمے شرعی حجاب کی ترغیب دینے، تبرج و بے پردگی سے روکنے کا کام کرے۔ ایک چوتھی جماعت سیاسی محاذ پر سرگرم ہو۔ انتخابی معرکوں میں شامل ہو کر لادین اور سیکولر نظامِ سیاست کا مقابلہ کرے۔ ایک پانچویں جماعت ایسی ہو جو افراد کی تربیت اور اجتماعی اصلاح کا کام کرے۔ اور ان کی کردار سازی میں اپنا وقت اور مساعی صَرف کرے۔ چھٹی جماعت ایسی بھی ہوسکتی ہے جو ان تمام شعبوں میں بیک وقت کام کرے یا ان میں سے کچھ شعبوں میں۔
یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ بعض جماعتیں عوام میں کام کریں اور بعض پڑھے لکھے دانشوروں اور اسکالروں وغیرہ میں۔ عوامی جماعتیں جذباتی انداز میں لوگوں کے ایمانی جذبوں کو بیدار کریں۔ جبکہ دوسری قسم کی جماعتیں ذہن و فکر کو مخاطب کریں، خاص طور پر ان ذہنوں کو جو مغربی ثقافت (افکار و نظریات) سے متاثر ہیں۔ اس طرح مختلف الانواع جماعتیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ ہر میدان میں جماعت کے اہتمام اور پسند اور اہلیت کے مطابق لوگوں کو منتخب کیا جاسکتا ہے۔ پھر جو لوگ جس جماعت کے ساتھ کام کریں، انہیں چاہیے کہ اپنے میدان میں خوش اسلوبی اور پوری توجہ کے ساتھ کام انجام دیں۔
تفرقہ اور انتشار کے جہاں بہت سے (ظاہری) اسباب ہیں وہاں ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ’’وحدت‘‘ پر حد سے زیادہ زور دینا شروع کر دیتے ہیں اور اسے ’’خدمت گارانِ اسلام کی وحدت‘‘ یا ’’عالمی اتحادِ تحاریکِ اسلامی‘‘ (United Islamic Movements of the World) کا نام دے دیتے ہیں۔
پس اگر کسی کی اجتہادی رائے میں تھوڑا سا مختلف انداز ظاہر ہو جائے (رائے کا تعلق کام سے ہو یا تحریک سے ہو) تو فوراً اس پر علیحدگی یا صف سے نکلنے یا وحدت کو توڑنے کی تہمت لگائی جاتی ہے یاکوئی دوسری اصطلاح گھڑی جاتی ہے۔ اس طرح کے الزامات سے ماسواء افتراق اور دلوں میں دوری کے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی وحدت پر بہت زیادہ زور دینا مزید تفرقہ بازی کا باعث بنتا ہے۔
بہتر یہ ہوگا کہ اس حقیقت کا اعتراف کر ہی لیا جائے کہ آراء اور اجتہادات متعدد ہیں اور کام کے طریقے اور اسالیب مختلف و متنوع ہیں۔ کیونکہ ہر دیکھنے والے کا زاویۂ نظر مختلف ہوتا ہے، اہداف کی ترتیب جدا گانہ ہوتی ہے، وسائل کی فعالیت یا کارکردگی یکساں نہیں ہوتی، ترجیحات کے پیمانے الگ الگ ہوتے ہیں۔ پیش آمدہ رکاوٹوں کی نوعیت، مسافت، زمان و مکان اور حالات میں تبدیلی وغیرہ ایسے مسائل ہیں، جن کی وجہ سے اجتہادات اور فتوے اپنا اسلوب بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہر مجتہد کا اپنا نصیب یا حصہ ہوتا ہے اور ہر ایک کو اپنی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے۔
یہ اختلاف اور تنوع اچھی اور مفید چیز ہے بشرطیکہ سب کا ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن ہو، اختلافی امور میں دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ موجود ہو، ایک دوسرے سے معروف طریقے پر تعاون کرنے اور آپس میں نصیحت اور خیرخواہی کا داعیہ موجود ہو۔
بڑے بڑے اصولی مسائل (مثلاً اسلام کا وجود اور مستقبل) میں سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے اور اکٹھے ہو کر اپنے مشترکہ دشمن (مثلاً: یہودیوں، صلیبیوں، کمیونسٹوں، سیکولرسٹوں اور لبرلز) کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا قول ہے:
’’اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف:۴)
اس آیت کے مطابق دشمن کے خلاف متحد ہو کر معرکہ آراء ہونا ضروری ہے۔ ایسے دشمن کے خلاف جس کی تعداد بہت زیادہ، تیاری بہت معیاری اور مکر بہت نرالے ہیں۔
اگر باہمی افتراق کی خلیج کو مزید بڑھایا گیا اوران دینی جماعتوں کے درمیانی شگاف کو وسیع کیا گیا جو دعوت الی اللہ کا کام کر رہی ہیں، تو میری رائے میں یہ بڑی غلطی ہوگی۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے درمیانی گڑھوں کو تنگ کیا جائے اور دلوں کی تنگی کو دور کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جو راستہ اور جو ذریعہ میسر آئے اختیار کیا جائے (میری رائے یہی ہے)۔
میرے خیال میں امام حسن البناء شہید کے وضع کردہ وہ ’’بیس اصول‘‘ اپنائے جانے چاہئیں جنہیں انہوں نے کارکنانِ تحریک اسلامی (مختلف دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں) کی سوچ و فہم کو یکسو کرنے کے لیے بنیاد بنایا تھا، اصل میں یہ وہ اصول تھے جو انہوں نے مصر کی مختلف دینی جماعتوں کے اتحاد کی خاطر پیش کیے تھے۔ تاکہ وہ ان اصولوں پر چل کر تفرقہ اور اتہامات کی بجائے اکٹھے ہو سکیں۔ ان اصولوں میں حکمت اور اعتدال کا رنگ زیادہ نمایاں کیا گیا تھا… یہ وہ اصول تھے کہ اگر نیتیں صاف ہوں تو تمام مذکورہ مشترکہ فکر رکھنے والی جماعتیں باہم مجتمع ہو سکتی ہیں۔ ان اصولوں کے ساتھ ایک مشہور سنہری قاعدہ (جو روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے) بھی اگر شامل کر لیا جائے تو بہت خوب رہے گا اور وہ یہ ہے کہ نَتَعَاوَنُ فِیْمَا اتفَقْنَا عَلَیہ یَعْذِرُ بَعْضُنَا بَعْضًا فِمَا اخْتَلَفْنَا فِیْہِ۔ (اتفاقی امور میں ہمیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے اور اختلافی امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھنا چاہیے اور معذرت خواہ ہونا چاہیے۔)
اسلامی کام کرنے والی جماعتوں کے درمیان الفت پیدا کرنے کے لیے امام حسن البناء سے زیادہ حریص میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ اس معاملے پر انہوں نے متعدد بار سختی سے زور دیا۔ وہ دوسروں کے دلوں تک پہنچنے کے لیے بڑے عمدہ اسالیب اختیار کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ذرا ان کا یہ پیغام دیکھیں جو انہوں نے چھٹی کانفرنس کے موقع پر اپنے خطاب میں دیا تھا:
’’اسلامی جماعتوں یا اداروں کے متعلق ہمارا موقف (باوجود اختلافی رجحان کے) محبت، اخوت، تعاون اور دوستی کا موقف ہے۔ ہم ان سب سے محبت اور تعاون کرتے ہیں۔ ہم بڑی سنجیدگی سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف نقطہ ہائے نظر کو قریب تر اور منتشر افکار کو یکجا کیا جائے۔ تاکہ باہمی تعاون اور محبت کے زیر سایہ حق کی فتح و نصرت ہو سکے۔ فقہی آراء اور مذہبی اختلافات ہمارے درمیان دوری نہ پیدا کریں۔ اللہ کا دین آسانی کا دین ہے۔ جو بھی اس دین میں سختی پیدا کرے گا، خود مغلوب ہو کر رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بہت میانہ رو قسم کا طریقہ عطا کیا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم حق کو بڑے نرم طریقے سے ظاہر اور واضح کریں تاکہ دل اس کی طرف مائل اور ذہن اس سے مطمئن ہو جائیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ ظاہری شکل، نام، القابات، فوارق اور نظری دیواریں مٹ جائیں گی۔ ان کی جگہ عملی وحدت پیدا ہوگی جو محمدیؐ دستوں کی بکھری ہوئی صفوں کو یکجا کر دے گی۔ اس کے بعد اللہ کے دین کا کام اور اس کے راستے میں جدوجہد کرنے والا، مسلمان بھائیوں (اخوۃٌ مُّسلمون) کے علاوہ کچھ نہ ہوگا‘‘۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اﷲ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘۔ (المائدہ:۵۶)
تحریک اسلامی کوزیبانہیں کہ وہ ان شخصیات کو نظرانداز کردے جو دعوتِ اسلامی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ بے شک یہ لوگ تحریک یا جماعت کے رسمی اور باقاعدہ ذمہ دار نہ ہوں اور اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہوں۔ لیکن ان شخصیات کا اثر اپنے حلقوں اور شاگردوں میں بڑا گہرا اور مضبوط ہوتا ہے، وہاں ان کا اپنا مدرسہ اور اپنے مرید ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ان میںسچے اور ایسے مخلص بھی ہوتے ہیں جو رائے عامہ کو جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں، بشرطیکہ عزم صحیح اور رجحان صادق کے ساتھ آگے بڑھیں۔
منظم، منضبط اور جماعتی کام پر ہمارے زور دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جماعت کے محدود دائرے سے باہر کام کرنے والوں کی جدوجہد اور جملہ کاوشوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیا جائے۔ جو حضرات کسی جماعت سے وابستہ ہوئے بغیر کام کر رہے ہیں ان میں کئی لوگ ہیں جن کے پاس اپنی موجودہ حالت پر قائم رہنے کے لیے معقول و مناسب عذر موجود ہوں گے اور ایسے اسباب ہوں گے جن کی وجہ سے وہ مجبور ہیں۔ کسی کو مالی اور بعض کو معنوی رکاوٹیں درپیش ہوں گی جن کی وجہ سے وہ جماعتی نظام کے اندر آنے سے معذور ہوں گے۔ ان لوگوں کو ہماری نصیحت تو یہی ہے کہ وہ شریعت کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے فکری، عملی اور قلبی طور پر جماعتی کام میں مددگار بنیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ جماعت کے باقاعدہ رکن بھی ہوں۔
اسی طرح کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا شمار اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ ظاہر و باطن ہر لحاظ سے صاف و شفاف ہوتے ہیں اور دعوتِ اسلامی میں انتہائی مخلص۔ ان میں سے بعض سرکاری اداروں میں مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر فائز ہوتے ہیں، اور بعض وزارتِ اوقاف و مذہبی امور یا اسلامی یونیورسٹیوں میں۔ تویہ بات مناسب نہیں کہ انہیں محض اس وجہ سے نظرانداز کر دیا جائے یا انہیں اپنا نہ سمجھا جائے کہ وہ حکومتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ یہ حضرات تو اپنے وسائل و اختیارات اور اپنی رسائی کے سبب اسلامی عمل کے لیے وہ خدمات فراہم کرسکتے ہیں جن کا بدل ملنا عموماً محال ہوتا ہے۔
سوم: عقلی و علمی اعتدال پر جذباتیت کا غلبہ:
تحریک اسلامی کی آفات میں سے ایک آفت یہ بھی ہے کہ اس سے وابستہ افراد علمی بصیرت اور عقلی فراست سے ہٹ کر نِری جذباتیت سے کام لیتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی میں جذبوں کی اہمیت:
میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ تحریک سے جذبات کو کلّی طور پر خارج کر دیا جائے یا قطعی طور پر کچل دیا جائے کہ تحریک محض عقل کی غلام بن کر رہ جائے اور وہ جذبات و احساسات سے خالی ہو جائے۔ کیونکہ ایسا کرنا تحریک کی طبیعت بلکہ فطرت اسلام کے خلاف ہوگا۔
بے شک اسلام عقل کا احترام اور فکر و نظر کی طرف دعوت دینے والا دین ہے۔ لیکن یہ محض عقلی، منطقی اور جامد فلسفہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کی تعلیمات جذباتی پہلو پر اس قدر محیط ہیں کہ انکار کی ذرا گنجائش نظر نہیں آتی۔ جذبوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں مثلاً… اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے نفرت، اللہ کی توفیق پر خوشی اور اس کی معصیت پر حزن و ملال، امید و رجا اور دوسرے نفسیاتی مظاہر۔ ان کی تفصیل اور مطالب و مفاہیم اہل تصوف کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں سے امام ہروی کی کتاب ’’منازل السائرین‘‘ اور اس کی شرح ’’مدارج السالکین‘‘ جو حافظ ابن قیم نے لکھی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض دوسری متعدد کتب ہیں۔
یہ عقل و جذبات میں توازن کا دین ہے۔ ان دونوں میں کوئی تضاد و فساد نہیں، اور نہ جنگ و جدل کی گنجائش۔ کیونکہ اسلام نے شروع سے ہی انسانی عقل اور دل کو بیک وقت مخاطب کیا ہے۔ اسی لیے قرآن نے اُن کی مذمت کی جو ’’الذین لایعقلون‘‘ اور ’’ولایفقہون‘‘ والے تھے۔ اسی طرح اُن کی بھی مذمت کی گئی جو اَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِِّّ… (کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں، اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔الحدید:۱۶) کے زُمرے میں آتے تھے۔ چنانچہ اسلام نے عقلی اور جذباتی دونوں پہلوئوں کاایک ساتھ اہتمام کیا۔ اس موقع پر آپ کے اور ہمارے لیے مندرجہ ذیل (متفق علیہ) حدیث کافی ہوگی جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’اگر تین خصائل کسی میں موجود ہوں تو گویا اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، (۱)یہ کہ اللہ اور رسولﷺ ہر چیز سے زیادہ پیارے ہوں (۲)یہ کہ کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے (۳)یہ کہ وہ کفر کی طرف لوٹنا اُسی طرح ناپسند کرے جیسے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے (تو وہ اپنے آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے)‘‘۔
تحریک اسلامی کی طبیعت بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ یہ تحریک، اسلامی شعور کو زندہ کرنا اور اسلامی جذبوں کو گرمانا اپنے پیغام کا حصہ سمجھتی ہے، اور یہی اسلام کا پیغام ہے۔
یہ جوش اور جذبے کا ایسا پہلو ہے جس کی طرف تحریک اسلامی کو خصوصی دھیان رکھنا چاہیے کیونکہ یہ عمل اور قربانی کی طرف مائل ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ دلوں کو محبت اور اخوت کی غذا بھی جذبوں سے ملتی ہے جو آدمی کوایثار کے مقام تک لے جاتی ہے۔ اسلام کی نصرت کے لیے قائم ہونے والی جماعت کا مقصد جہاں وحدتِ مفاہیم اور وحدتِ تنظیم ہے، وہاں اس کا مقصد وحدت مشاعر (احساسات و جذبات کی ہم آہنگی) بھی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس جماعت کے قیام کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسانی قلوب میں باہمی الفت پیدا ہو اور سبھی قلوب حبِّ الٰہی کی کڑی میں جڑ جائیں، دلوں کے جوڑنے والا اپنا احسان خود اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو یاد دلایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے۔ مگر وہ اﷲ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے۔ یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ اے نبیؐ! تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اﷲ کافی ہے۔‘‘ (الانفال:۶۲۔۶۴)
شہید حسن البناء سوموار کے دن منعقد ہونے والی اپنی ہفتہ وار مجلس میں ہمیشہ دلوں کو ایمان و محبت کے جذبوں سے جگانے کی کوشش کرتے تھے، جسے وہ ’’عَاطِفَۃُ الثلاثاء‘‘ یعنی سوموار کا جذبہ کہا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید رحمہ اﷲ نے ’’اخوت‘‘ کو اپنی بیعت کے ارکان میں شامل کر رکھا تھا۔ ان کے باقاعدہ اقوال میں ایک قول یہ بھی تھا: (اِنَّ دَعْوَتَنَا تَقُومُ عَلَی دَعَائِم ثَلاثٍ: اَلْفَہْمُ الدَّقِیقُ، وَالْاِیْمَانُ الْعَمِیْق، وَالْحُبُّ الْوَثِیْق۔ ]ہماری دعوت کے تین ستون ہیں (۱)باریک بیں نظر / فہم و فراست / غور و فکر (۲)گہرا ایمان (۳)اور مضبوط و معتبر محبت[۔ یہ ہے مقام جذبات کا جو ہمیں اسلامی تعلیمات میں بالعموم اور تحریک اسلامی میں بالخصوص نظر آتا ہے اور آنا چاہیے۔
جذبات میں غلو سے ہماری مراد:
اگر جذبات میں: افراط و تفریط موجود ہے تو پھر اس کے بارے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟ اس کا حال یوں ہے کہ جب جوش و جذبات آدمی کے تصرفات و تعلقات پر حاکم، فکر و نظر پر غالب اور اعمال و اقوال، مواقف و اشخاص، ذکر و سلوک اور افراد و جماعات پر ہمارے احکامات کے نگران بن کر رہ جائیں تو پھر یہی جذبات، عقل سے گزر کر اور علم سے ہٹ کر خواہشاتِ نفس کے غلام بن جاتے ہیں۔
عقل اور علم پر جذبات کا غلبہ ایسا یکطرفہ رجحان ہے جس کے ثبوت میں متعدد دلائل اور روزمرہ کے مشاہدات موجود ہیں۔ میں یہاں صرف تین کا ذکر کروں گا:
منصوبہ بندی اور تحقیق کا ناقص ہونا:
اس کے باوجود کہ اسلام عقل اور علم کو اہمیت دیتا ہے اور مسلمانوں میں اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ ہر ممکن اسباب اور وسائل سے استفادہ کریں، قوانین فطرت کی پاسداری کریں، ہر معاملے میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور آنے والے کل کے لیے ہر لحاظ سے تیاری کریں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی کا موقف اور رویہ ان معاملات میں اچھا نہیں، بلکہ مایوس کن دکھائی دیتا ہے۔
ایک دن میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو بہت بڑے داعی اور تحریک اسلامی کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے ان کے سامنے اس ضرورت کو رکھا کہ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جو حالات و واقعات کے تناظر و تحقیق میں اور مکمل اعداد و شمار کی بنیاد پر قائم ہو۔ میری اس تجویز پر انہوں نے فرمایا کہ کیا اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اوراسلام کے احکامات یاد دلانا بھی منصوبہ بندی اور اعداد وشمار کا محتاج ہے؟!!
حالانکہ نبی کریمﷺ نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود مسلمانوں کی تعداد شمار کروائی۔ ناموں کا باقاعدہ اندراج ہوا۔ جب فہرست مرتب ہو گئی تو ان کی تعداد ایک ہزار پانچ سو کے قریب بنی۔ یہ روایت بخاری اور مسلم دونوں نے بیان کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریمﷺ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کس افرادی قوت کو لے کر چل رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کے پاس معلومات کا مستحکم اور علمی نقشہ ہو اور وہ جائزوں اور اندازوں کو دلیل و زمینی حقائق کی بنیاد پر جانچ سکیں۔
لہٰذا ہمارے لیے واجب ہے کہ ہم امت اسلامیہ کی موجودہ حیثیت کا جائزہ لیں اور اس میں تحریک اسلامی کی جگہ کا تعین کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کے حال سے واقفیت حاصل کی جائے۔
ہمارے سامنے اس وقت تین فریق ہیں جن کے متعلق مکمل معلومات اور اعداد و شمار جمع کرنے ہوں گے۔ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی، تحریک اسلامی اور اسلام دشمن قوتیں۔ ان تینوں سے متعلق ضروری معلومات اور ان کے پروگرام جمع کیے جائیں۔ پھر علمی تحقیق کی روشنی میں ان کا تجزیہ و تحلیل کیا جائے۔ اس کے بعد ایسے لازمی نتائج پیش کیے جائیں جو نفی یا اثبات کی شکل میں تنفیذی مرحلے میں داخل ہو سکیں۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگ جو تحریک اسلامی سے منسوب ہیں ابھی تک اس تحقیقی و علمی کام میں مزاحمت کررہے ہیں حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہماری رائے کو اولیت دینے کے حق میں ہیں۔ مزاحمت کرنے والوں کے لیے تحقیق کی اصطلاح تو ہر تجویز اور منصوبے کے لیے ایک تکلیف دہ نام اختیار کر چکی ہے۔ اسے ایسے فعل سے تشبیہ دیتے ہیں جسے آہستہ آہستہ تکمیل تک پہنچایا جائے (جسے کند چھری سے ذبح کرنا کہا جاتا ہے)۔
ہم نے تحریک کے ذمہ داران سے یہ بھی کہا کہ دعوتی کام کی منصوبہ بندی اور تحقیق اس طرز پر کی جائے جس طرز پر ماہرین اقتصادیات، اقتصادی منصوبے تحقیقات اور اعداد و شمار کی روشنی میں تیار کرتے ہیں، تو ایک ساتھی کہنے لگے کہ جناب، تحقیق کی نوبت تو بعد میں آئے گی۔ پہلے کام کا آغاز ہونا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے۔ ورنہ ساکن ہو کر کھڑے رہ جائیں گے۔ بس کام کریں، چاہے غلط ہو یا ناقص۔ بعد میں جو لوگ آئیں گے وہ ناقص کو مکمل اور غلط کو صحیح کر لیں گے۔
یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس کا کسی حد تک جواز ہے اور کسی حد تک نہیں۔ مگر تجارت کے اصولوں کے مطابق جو کام اس امید کے ساتھ شروع کیا جائے کہ غلط کام کو ترقی اور ٹیڑھی منصوبہ بندی کو سدھار نصیب ہوگا، بالکل خام خیالی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہر کام کو ابتدا ہی سے صحیح خطوط پر چلانے کی کوشش کی جائے۔ پھر خیر و ترقی کی توقع رکھی جائے۔
مخلص لوگ اعلیٰ معیار حاصل کرنے، اصلاح کرنے اور بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے لیے تھکا دینے والی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی پھل توڑنے میں کامیاب نہیں ہوتے اِلا یہ کہ کچھ نتائج مل جاتے ہیں، لیکن اس طرزِ عمل سے خرابی کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے کام ابتدا ہی سے نقص کے ساتھ شروع کیے گئے ہوتے ہیں۔
(۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply