
قسط نمبر۳
منصوبہ بندی کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کوزیادہ اہمیت دینی چاہیے:
(الف) صلاحیتوں کے مطابق درجہ بندی:
ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کے تخصص (اسپیشلائزیشن) کے مطابق اعلیٰ معیاروں پر راہنمائی کی جائے تاکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی مثلاً… علمی، شرعی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، ثقافتی، تربیتی، ابلاغی، انتظامی اور پلاننگ وغیرہ کا یہ شگاف بند اور ہر حاجت پوری ہو جائے۔
(ب) حالات کے مطابق پیش قدمی:
آج کا معاشرہ جدید اور تمدنی معاشرہ کہلاتا ہے۔ یہ کمپیوٹر، ایٹمی اسلحے، فضائی کیمیائی جنگ اور بیالوجیکل انجینئرنگ کا دور ہے۔ یہ ایسی دنیا ہے جس میں ہر دن کوئی نہ کوئی نئی چیز ایسی ایجاد ہوتی ہے جو علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک جن کے برابر سمجھی جاتی ہے۔
ایسے حالات میں جب ہم اپنی ملت کو دیکھتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے کشتیاں لڑ رہی ہے یا لہو و لعب میں لگی ہوئی ہے۔ یا پھر غیروں کی پابوسی کر رہی ہے۔ جبکہ دنیا جدوجہد میں مصروف ہے (اور آگے بڑھنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے)۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تخصص (اسپیشلائزیشن) کا اہتمام کیا جائے جسے شریعت اسلامی نے پوری امت پر فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ بڑی خراب صورتحال ہے کہ صلاحیتوں کو ایک طرف بڑھنے اور نکھرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اس قدر غفلت اور لاپروائی برتی جاتی ہے کہ جب کسی جگہ ضرورت پڑتی ہے تو ایک آدمی بھی میسر نہیں آتا۔
زمانۂ نبوت میں قرآن کریم نے مسلمانوں کی اس پالیسی پر سخت گرفت کی جب وہ سب کے سب صرف جنگوں کی طرف نکل پڑے۔ انہوں نے سمجھا کہ جہاد بالسیف کی بہت زیادہ فضیلت ہے لیکن دوسرے شعبوں کو نظرانداز کرگئے۔ ’’تفقّہ فی الدین‘‘ یعنی دین کا فہم حاصل کرنا ایک ایسا شعبہ تھا جس سے انہوں نے غفلت برتی جس کی اہمیت جہاد سے کم نہ تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے فرمان جاری کیا:
’’اہل ایمان کے لیے جائز نہ تھا کہ سب کے سب جہاد کی طرف دوڑ پڑتے۔ بہتر یہ تھا کہ ہر قبیلے اور گروہ سے چند لوگ ایسے ہوتے جو دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرتے۔ جب علم حاصل کرلیتے تو اپنی قوم کو جاکر تعلیم دیتے تاکہ وہ بھی اللہ کے دین کی طرف رجوع کرنے کے قابل ہوپاتے‘‘۔ (التوبہ:۱۲۲)
اس تناظر میں ہم صرف باتیں بنا رہے ہیں جبکہ مخالفین منصوبے بنا رہے ہیں اور ہمارے مخالفین اسلامی جہاد و دفاع کے ثمرات کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جس کا ہمیں پتا ہی نہیں۔
بلاشبہ استعمار کے خلاف آزادی کے لیے لڑی گئی تمام تحریکوں کا محرک، شرارہ بھڑکنے کا منبع اور دستوں کا کمانڈر، اسلام تھا۔ یہ فقط دعویٰ نہیں بلکہ مشرق و مغرب کے مشاہدین، ناظرین، اتحادی اور انصاف پسند مؤرخین کے اعترافات ہیں۔
مگر افسوس! اسلام کے علمبردار، کھیتیاں تیار کرتے ہیں، فصلیں نہیں کاٹ سکتے۔ شجرکاری کرتے ہیں، پھل نہیں توڑ سکتے۔ کیونکہ سیکولر اور لادین حضرات اور اندرونی طور پر حسد اور سازشیں کرنے والے دشمنانِ اسلام فوری طور پر (اکٹھے یا الگ الگ) منظر پر نمودار ہوجاتے ہیں اور پکے ہوئے پھل پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں، یکدم جہاد اور انفال کی اگلی صفوں میں چھلانگ لگاکر پہنچ جاتے ہیں، اچھی خاصی گونج گرج پیدا کرتے ہیں۔ اتنے میں بہت بڑا دھماکا آنکھوں اور دلوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے تاکہ وہ اکیلے غنیمت پر قابض ہو جائیں اور فتح و نصرت کا پھل توڑ کر کھالیں۔
ہم لوگ دیکھ کر اتنا اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ اسلام کا لبادہ پہنے ہوئے ہیں اور اسلام کے نام سے باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل بالکل خالی ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں اسلام، ان سے اجنبی ہوتا ہے۔ اپنی ظاہری حرکات اور باتوں سے اسلامی گروہوں اور مسلم قوموں کو دھوکا دیتے ہیں جسے وہ چالاکی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جوں ہی تمکن حاصل کرکے اقتدار و اختیارات کی کرسی گرفت میں لے لیتے ہیں تو اپنی اصلی شناخت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام سے بھی برأت کااعلان جاری ہوتا ہے اور اسلام کا ظاہری لبادہ (جس کے سہارے سے اقتدار کی کرسی تک پہنچے تھے) اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ کمال اتاترک کے ہاتھوں ہوا تھا۔ جس نے اسلام کے نام پر اور اسلام کے جھنڈے تلے ترک قوم کی قیادت کی۔ قوم نے اپنا خون، مال اور جان سب کچھ برضا و رغبت پیش کیا حتیٰ کہ فتح و کامیابی رنگ لائی، پورے عالم اسلام سے ’’غازی مصطفی کمال‘‘ کے حق میں نعرے بلند ہوئے اور خوشی کے جشن منائے گئے۔
اس موقع پر احمد شوقی ’’امیر الشعراء‘‘ نے اپنے قصیدے میں کہا:
اللّٰہُ اکبر کَمْ فِی الفَتْحِ من عَجَبِ
یا خَالِدً التُرکِ جَدِّدْ خَالِدً العَرَبِ
اللہ اکبر ایسی فتح کے کیا کہنے! اے ترکوں کے ’’خالد! عربوں کے ’’خالد‘‘ (ابن الولید) کی یاد پھر تازہ کر!
ابھی لوگ فتح و نصرت کے ترانے گا ہی رہے تھے کہ خوشی کی عید ماتمی سوگ میںبدل گئی۔ وہی ’’غازی‘‘ جسے ابھی تک اسلام کی ننگی تلوار (السیف المسلول) کے لقب سے پکارا جارہا تھا، اسلام کی پیٹھ اور دل میں زہر آلود خنجر بن کر کھب گئی۔ جس چھت نے اسے سایہ دیا تھا اسی کو آگ لگا دی اور خلافت کی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے مسمار کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ شخص پوری اسلامی برادری کو تباہی و بربادی میں دھکیل دینے کا سبب بنا۔ اسلام کے اجتماعی وجود کی برکات سے ترک مسلمان قوم کو محروم کر دیا گیا۔
یہ ایسا کرب ناک حادثہ تھا جس نے عالم اسلام کو مشرق سے مغرب تک ہلا کر رکھ دیا۔ اس موقع پر احمد شوقی نے خلافت کی موت پر ایک مشہور مرثیہ کہا:
’’شادی کے گیت موت کے نوحے بن گئے، جن کا اعلان عین خوشی کے موقع پر کیا گیا۔ اپنی شادی کے دن شادی کے جوڑے ہی میں کفنا دی گئی اور شان و شوکت کے مظاہرے کے موقع پر دفنا دی گئی‘‘۔
جلد بازی:
جوش اور جذبات کی علامات میں سے ایک جلد بازی ہے۔ جوش اور جذبات ایسے مظاہر ہیں جو علم، عقل اور منصوبہ بندی پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
جلد باز آدمی کے پاس صبر ہوتا ہے نہ ٹھہرائو۔ بس وہ آج بونا اور کل کاٹنا چاہتا ہے۔ بلکہ یہاں تک بے صبری کرتا ہے کہ صبح درخت لگائے اور شام کو اس کا پھل کاٹ لے۔ لیکن یہ بات اللہ کی کائنات میں اُس کی سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ خالقِ کائنات نے تمام کاموں کے لیے اوقات مقرر کر رکھے ہیں اور ان کے مراحل متعین کر دیے ہیں۔
مثال کے طور پر خالق کائنات نے دنیا کو چھ (۶) دن میں پیدا کیا، حالانکہ وہ اس پرقادر تھا کہ صرف ’’کن‘‘ کہہ دیتا تو فوری طور پر ’’فیکون‘‘ ہوجاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں بتانا چاہتا تھا کہ ہر کام میں ٹھہرائو اور آہستگی اختیار کرنی چاہیے۔
دوسری طرف حضرت نوحؑ اور ان کے ساتھی اہل ایمان کا معاملہ دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ تو غیبی مدد بھی کر سکتے تھے لیکن اس کے باوجود نوحؑ کو کام پر لگائے رکھا اور وہ رات دن سراً وجھراً مسلسل (۹۵۰سال) لوگوں کو بلاتے اور پکارتے رہے۔ پھر آپ کو ایک ایسی کشتی کے ذریعے نجات دی گئی جسے آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ وہ بنی بنائی کشتی آسمانوں سے نازل کر دیتے۔
پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول حضرت محمدﷺ کی ہر طرح سے مدد کرسکتے تھے اور نبیؐ کے دشمنوں کو ایسے عذاب میں مبتلا کرسکتے تھے جو اوپر اور نیچے ہر طرف سے آتا (بالکل دعوت کے ابتدائی دور میں) اور آپ کے ساتھیوں (صحابہ کرام) کو ابتلاء و آزمائش میں ڈالے بغیر۔
اسی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ اور صحابہؓ کو طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکم دیا کہ اپنے ہاتھ اس وقت تک روک رکھیں، جب تک کہ قوت اور ریاست کا مناسب انتظام نہ ہو جائے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے عرصے کے بعد جاکر مسلمانوں کو جہاد و قتال کرنے کی اجازت ملی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر ہر وقت اور ہر لحاظ سے قادر تھا۔
آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ اور تمام اہل ایمان کو اس وقت تک صبر اور عدم عجلت کا دامن تھامے رکھنے کا پابند بنائے رکھا جب تک اوپر سے آخری فیصلہ نہ آجائے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِل لَّہُمْ…(الاحقاف:۳۵)
’’آپؐ بھی باہمت پیغمبروں کی طرح صبر سے کام لیجے اور مخالفین کے لیے جلد بازی نہ کیجیے‘‘۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَ لَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَo (الروم:۶۰)
’’پس آپؐ صبر کیجیے کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور یہ بے یقین لوگ آپؐ کو متزلزل نہ کرنے پائیں‘‘۔
پھر ارشاد ہوتا ہے:
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّآ بِاﷲِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَo (النحل:۱۲۸)
’’آپْ صبر کریں،بے شک آپؐ کا صبر کرنا اللہ کی مرضی کے مطابق ہے، نہ آپؐ ان کے لیے غم و فکر کریں، اور نہ آپؐ کو ان کی چالوں سے دل تنگ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
اور یہ بھی فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْاقف وَ اتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (آل عمران: ۲۰۰)
’’اے ایمان والو! خود صبر کرو اور مقابلے میں صبر کرو اور مقابلے کے لیے تیار رہو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجائو‘‘۔
جلد بازی نے امت کی تحریکوں کا مزاج ایسا بنا دیا ہے کہ یہ وقت آنے سے قبل ہی معرکوں میں کود پڑی ہیں۔ کئی گنا بڑی طاقتوں سے الجھ چکی ہیں۔ مشرق و مغرب سے بیک وقت جنگ شروع کر دی ہے۔ اپنے آپ کو ایسے جھمیلوں میں پھنسا چکی ہیں جن سے نکلنے کے لیے اسے کسی مخرج یا راستے کا پتا نہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی طاقت کے مطابق پابند اور مکلف کیا تھا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط… (البقرہ: ۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی ذی روح کو اس کی طاقت سے بڑھ کر پابند نہیں کرتا‘‘۔
اس لیے اپنے آپ کو کسی ایسی بلا میں مبتلا کرنا جائز نہیں جس کی ہم میں طاقت ہی نہیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو فتنے کی آگ میں جھونک دیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ… (التغابن: ۱۶)
’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا ہو سکے‘‘۔
اور اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے:
’’میںجب تم کو کسی کام کا پابند بنائوں تو اسے بجا لائو جتنی کہ تمہاری استطاعت ہو‘‘۔
اور فرمایا:
’’تم میں سے اگر کوئی منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر وہ ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر زبان سے منع کرے۔ اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے برا منائے اور یہ آخری مرحلہ کمزور ایمان کی علامت ہے‘‘۔
اس حدیث میں آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تین مراحل، بتائے ہیں اور تینوں کو استطاعت کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو سب سے پہلے وہ قدم اٹھانا چاہیے جس کی اس میں قدرت ہے اور جس کام کی اس میں طاقت نہیں اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔
گویا واضح طور پر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عجلت کی مذمت کی ہے کیونکہ عجلت کا انجام پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔
قرآن مجید نے جو ہدایات دی ہیں ان میں بھی یہ واضح دلیل موجود ہے کہ عجلت کا انجام شرمندگی اور خسارے کا باعث بنتا ہے چاہے مقاصد کتنے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں۔ موسیٰؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:
’’اور اے موسیٰ آپ کے اپنی قوم سے آگے، جلدی آنے کا کیا سبب ہوا؟ کہا: یہ تو وہی ہیں جو میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں، اور میں آپ کی طرف جلدی جلدی چلا آیا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔ ارشاد ہوا کہ تمہاری قوم کو ہم نے تمہاری جلد بازی کی وجہ سے بلا میں مبتلا کر دیا۔ انہیں سامری نے گمراہ کر کے رکھ چھوڑا تھا‘‘۔ (طٰہٰ: ۸۳:۸۵)
علامہ آلوسیؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آیت مذکورہ میں حرف الفاء (فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا) حرفِ علت ہے جس سے سابقہ کلام کا سبب ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا جارہا ہو: ’’اے موسیٰ! آپ کو اپنی قوم کے معاملے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے تھا، نہ ان سے تجاوز کرنا مناسب تھا، بلکہ کسی صورت میں بھی ان سے اہمال نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ آپ سے ان کا زیادہ تعارف نہیں ہوا تھا۔ اس پر ان کی ناسمجھی اور حماقت مستزاد تھی جس نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا جس کی وجہ سے شیطان کو مکر و فریب کے جال پھیلانے کا سنہری موقع ملا اور اس قوم کو گمراہی میں ڈالنے کے لیے خوبصورت بہانے تراشتا رہا۔
جب موسیٰ علیہ السلام غم و غصے کے ساتھ واپس آئے تو اپنی قوم کو عجیب و غریب حالت میں دیکھ کر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پر برس پڑے، انہیں سر سے پکڑ کر کھینچا اور کہا:
’’موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا: آپ کیا کر رہے تھے جب وہ گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے؟ کیا آپ نے میری بات کو پس پشت ڈال دیا تھا؟ کیا آپ نے خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کیا‘‘۔ (طٰہٰ: ۹۲:۹۳)
اس پر ہارون علیہ السلام نے جواب دیا اور فرمایا:
’’اے میرے ماں جائے! مجھے ڈاڑھی اور سر سے پکڑ کر نہ کھینچ، میں اس خوف سے چپ اور خاموش رہا کہ جب آپ آئیں گے تو مجھے کہیں گے کہ آپ نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈالااور میری بات کی پاسداری نہ کی‘‘۔ (طٰہٰ: ۹۴)
اس مکالمے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہارون علیہ السلام کا جھکائو، ٹھہرائو اور آہستگی کی طرف تھا تاکہ بھائی کے واپس آنے اور معاملے پر مشورہ کر لینے تک جماعت کی وحدت قائم و دائم رہے۔ باوجود اس کے کہ قوم کا جرم ناقابل برداشت تھا۔
حدیث شریف میں ہے:
الاٰ نَاۃُ مِنَ اللّٰہِ، والعُجلَۃُ مِنَ الشَیطَان۔
’ٹھہرائو اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے‘‘۔
اور فرمایا:
’’بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ جلدی نہ کرے‘‘۔
میں نے اپنے اس موقف کو واضح انداز میں مختلف مواقع پر دھرایا اور کہتا رہا کہ تحریک اسلامی اپنی قوت کو اس وقت ذخیرہ کر سکتی تھی جب اسے حرکت اور نشاط (سرگرمیوں) کی کھلی آزادی حاصل تھی۔ اسے تفریط اور غلو سے کام نہیں لینا چاہیے تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عجلت پسند اور جلد باز لوگ اسے غیر مناسب سطح تک آگے لے جانے میں اور بعض مکار منصوبہ ساز اسے قدم بہ قدم دور لے جانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے۔
لہٰذا تحریک کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی تمام توجہ اسلام کو اپنی حقیقی شکل کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں لگا دیتی۔ اس دعوت کے ذریعے نئی نسلوں کی مکمل اسلامی (عقلی، روحانی، بدنی، معاشرتی) تربیت کرتی۔ اسے چاہیے تھا کہ ایسے کام شروع کرتی جن کے نتیجے میں اسے عوام میں مدغم ہونے اور متعارف و مقبول ہونے کا موقع ملتا۔ اور لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوتی، ان کے دکھ درد دور ہوتے، تحریک کو عوام کے کمزور پہلوئوں کا ادراک ہوتا تاکہ مسائل حل کرنے میںمدد مل سکتی۔ تحریک کو کم ازکم بیس برس اقتدار پر جمی ہوئی قوتوں سے نہیں ٹکرانا چاہیے تھا اور نہ قوت و تشدد کی راہ کو اختیار کرنا چاہیے تھا۔
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر بیس سال تک تشدد کی پالیسی سے اجتناب کیا جائے تو اس کے بعد ضرور ایک خاموش انقلاب ظہور پذیر ہوگا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل جدید ترین ہوگا، سلامتی اور امن کی نوید ہوگا۔ فکری، نفسیاتی اور اخلاقی انقلاب ہوگا جس کے لیے نہ تو اسلحہ استعمال ہوگا اور نہ ہی اعلانِ قتال ہوگا۔
لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے اور وہ یہ کہ اسلام سے خائف اور اس کی مخالف قوتیں تحریکِ اسلامی کے راستے میں حائل ہوچکی ہیں، تحریک کے آگے بڑھنے اور پھیلنے کی راہ میں مزاحمت کر رہی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ یہ تحریک فوری طور پر کچل دی جائے تاکہ اس کی یکجہتی پاش پاش ہو جائے اور بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سلسلہ رک جائے۔
مخالفت اور مزاحمت کا معاملہ تو فطری بات ہے۔ لیکن تحریک پر بھی کسی حد تک ملامت کی گنجائش ہے، کیونکہ جب تحریکی کارکن جوش میں آکر یا جذبات کے سیل رواں کے ہاتھوں اکڑتے ہیں اور جو کچھ عوامی قوت میسر ہوتی ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں ظاہر کردیتے ہیں تو مخالف لیکن مربوط قوتوں کو اشتعال دلا کر خوفزدہ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر غور سے رکھا جائے اور دشمن کو کسی بھی سوراخ سے داخل ہونے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ اللہ سے خیر کی دعا کی جائے، اس کے باوجود بھی اگر کوئی ناگہانی بلانازل ہو جائے تو پھر صبر و شکر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ (۔۔۔جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply