
چوتھی اور آخری قسط
مبالغہ آرائی:
مبالغہ آرائی اور دہشت انگیزی بھی جذبات کے آثار میں سے ہے۔ یہ اُن آفات میں سے ایک آفت ہے جن میں پوری امت اس وقت گرفتار ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اکثر معاملات میں ہمیشہ افراط و تفریط کی انتہا پر کھڑے رہتے ہیں۔ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کبھی اعتدال اور وسطی پوزیشن پرآسکیں۔ یہی وسطی اور اعتدالی صفت تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کی تعریف کی تھی کہ:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا
(البقرہ: ۱۴۳)
آپ ذرا انصاف کی نظر سے جائزہ لیں تو واضح ہو گا کہ یہ افراط و تفریط اب تحریک اسلامی میں منتقل بھی ہوچکی ہے۔ مبالغہ آرائی اس کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ مبالغہ آرائی چاہے اپنی تعریف کے معاملہ میں ہو یا دوسروں پر تنقید اور اُن کی تنقیص کے معاملے میں۔ اسی طرح اب ’’تضخیم اور تفخیم‘‘ کی صفات بھی عام ہیں، گونج دار الفاظ اور بھڑک دار جملے۔۔۔ جو اَب زبان زدعام ہو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ داعیوں کی زبان پر اور ان کی کتب و قلم میں اَفْعَلُ تَفْضیل(سپر لیٹیو ڈگری) والے الفاظ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ مثلاً… یہ کہنا کہ ہم سب سے بڑے (اَعْظَم) اور سب سے زیادہ طاقتور (أَقْوَی) اور سب سے زیادہ بہتر (أفْضَل) اور سب سے زیادہ مثالی (اَمْثَل) ہیں اور کوئی دوسرا سب سے زیادہ حقیر (أحْقَر) اور سب سے زیادہ کمزور (أضْعَف) اور سب سے برا (اَسْوَأ) وغیرہ ہے۔
ہم اپنے بارے میں برتری اور عُجب کی نفسیات میں مبتلا ہوتے ہیں، اور دوسروں کے اوپر تنقید کرتے وقت بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔
اگر ہم اپنے آپ پر اور اپنی تہذیب و تمدن پر فخر کریں تو اس پر کسی عقلمند آدمی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ یہ ہر اُس قوم اور امت کا حق ہے جو ترقی کرنا اور اس دھرتی پر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ خاص طور پر جب اسے ثقافتی اور تہذیبی جنگ کا مقابلہ ہو، اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی سازشیں ہو رہی ہوں، اس کی اپنی ذات کو بھی مشکوک بنانے کے حربے استعمال ہو رہے ہوں۔ لیکن جو صورت ناپسندیدہ ہے وہ ایسی خود پسندی ہے جو اندھے اور بہرے غرور کی شکل اختیار کر جائے۔
آپ جانتے ہیں کہ خودپسندی ایسی مہلک بیماری ہے جس کا ذکر خود رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے اور اسے تین بڑی مہلکات میں شمار کیا ہے:
(ثَلَاثُ مُھْلِکاتٍ: شُحٌّ مُطَاعٌ، وہَوَی مَتَبَعٌ، واِعْجَابُ الْمَرئٍ بِنَفْسِہٖ)
اس غرور کی جو کیفیت غزوہ حنین کے موقع پر دیکھنے میں آئی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’اور یاد کرو حنین والے دن کو، جب تمہاری کثرتِ تعداد و وسائل نے تمہیں غرور میں ڈال دیا تھا، مگر وہ غرور تمہارے کچھ کام نہ آیا‘‘۔
(التوبہ:۲۵)
اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:
’’ہلاکت دو باتوں میں ہے: ایک خودپسندی اور دوسری مایوسی‘‘۔
ابن مسعودؓ کے اس مبارک قول پر امام غزالی نے تبصرہ کرتے ہوئے یوں کہا ہے کہ:
ابن مسعودؓ نے یہاں دونوں باتوں کو جمع کر دیا ہے۔ کیونکہ ’’سعادت‘‘ جو کہ ہلاکت کی متضاد ہے، کوشش اور طلب سے حاصل ہو سکتی ہے جبکہ ’’مایوس‘‘ آدمی کوشش کرتا ہے نہ طلب، کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اس کا حصول اس کی نظر میں ممکن نہیں ہوتا۔ جبکہ مغرور اور خودپسند آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے کوشش کرلی اوراپنی مراد پاچکا۔ اس لیے وہ مزید کوشش ترک کر دیتا ہے۔ کیونکہ موجود اورناممکن کو طلب نہیں کیا جاتا۔ اس لیے خودپسند آدمی کے گمان کے مطابق کامیابی موجود اور حاصل شدہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف مایوس آدمی کے نزدیک کامیابی ناممکن ہوتی ہے اس لیے یہاں خود پسند اور مایوس دونوں کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ (امام غزالی کا بیان ختم ہوا)
جب ہم دوسروں (خصوصاً اہل مغرب) کی تہذیب و تمدن پر تنقید کرنے لگتے ہیں تو خوب مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ بے شک مغربی تمدن میں بعض بنیادی اور اساسی برائیاں ایسی ہیں جو ان کی تہذیب کا جزولاینفک بن چکی ہیں۔ مثلاً مادہ پرستی، منافع خوری اور نسلی تعصب وغیرہ۔ اسی طرح مغربی تہذیب کے اچھے پہلوئوں میں جو بعض باتیں قابل ذکر ہیں ان میں… تجرباتی علم، کام کرنے کا بہترین سسٹم اور تنظیم، باہمی تعاون سے گروپ بنا کر کام کرنا، معاشرتی اخلاقیات کا احترام کرنا، انسانی آزادی اور اس کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنا (اپنوں کے لیے ہی سہی)، شورائیت اور باہمی مشورے پر زور دینا، مختلف طبقوں پر حکمرانوں کے ظلم و استبداد کی مخالفت کرنا وغیرہ۔
اس موقع پر مناسب ہو گا کہ آپ کے سامنے اپنے عظیم ورثے سے ایک ایسی تصویر پیش کروں جسے دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے کہ ہمارے سلف صالحین کا اپنے مخالفین کے مقابلے میں انصاف اور حسن سلوک پر مبنی کیسا طرزِ عمل ہوا کرتا تھا۔ اس کے باوجود کہ ان کی آپس میں جنگیں ہوئیں لیکن پھر بھی وہ لوگ اپنے دشمن کی فضیلت کا اعتراف کرتے تھے۔
یہ ایک ایسی حقیقی تصویر ہے جو ادب، تاریخ یا سوانح وغیرہ کتب میںسے قصہ نہیں، بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ یہاں الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ اسے موسیٰ بن علی نے اپنے والد سے اس طرح روایت کیا ہے۔ ترجمہ:
مستور القرشی نے عَمروؓ بن العاص کے پاس فرمایا: میں نے رسول اللہؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’قیامت برپا ہوگی اور رومی سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے‘‘ یہ بات سن کر عَمرو بن العاص نے (مستور القرشی سے) کہا: ’’جو کچھ کہہ رہے ہو اس پر ذرا غور کرلو‘‘۔ اس کے جواب میں مستور القرشی کہنے لگے: ’’میں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو کچھ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے‘‘۔ عَمروؓ بن العاص نے کہا: ’’اگر تو واقعی سچ کہہ رہا ہے تو سن لے کہ ان (رومیوں) میں چار خوبیاں اس کے علاوہ اور بھی ہیں: ایک یہ کہ یہ لوگ فتنہ و فساد کے وقت سب سے زیادہ دور اندیش ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ جب فرار ہو جائیں تو ان کی واپسی بہت مشکوک ہوتی ہے۔ سوم یہ کہ مصیبت کے بعد بہت جلد پُرسکون ہو جاتے ہیں، اور چہارم یہ کہ وہ سب سے زیادہ کسی پر مہربان ہوتے ہیں تو مسکین، یتیم اور ضعیف پر ہوتے ہیں۔ ایک اور پانچویں خوبی ایسی ہے جو بے حد پسندیدہ ہے۔ وہ یہ کہ ان (یتیم و مسکین و ضعیف) کو حکام اور ملوک کے ظلم سے بچانے کی بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں‘‘۔
آدمی کو تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح ایک مسلم فوج کا وہ کمانڈر اور سیاسی زعیم اپنے دشمنوں (رومیوں) کے متعلق مثبت رائے پیش کر رہا ہے جس نے روم، فلسطین اور مصر کے ساتھ متعدد بار جنگ لڑی تھی۔ اسلام ہی تو ایسا دین ہے جو لوگوں کو عدل پر قائم رہنے کے اصول سکھاتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ صرف اللہ واسطے کے سچے گواہ بن جائیں، بے شک یہ گواہی خود اُن کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اور کسی قوم سے نفرت انہیں مجبور نہ کر دے کہ وہ عدل کی راہ ترک کر دیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْاط
’’خبردار! کسی قوم سے عداوت تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل و انصاف سے پِھر جائو‘‘۔
(المائدہ:۸)
دیکھنے والے موجودہ تحریک اسلامی کے بارے میں یہ بات نوٹ کرتے ہیں کہ وہ جب اپنی قوت کا اندازہ لگاتی ہے تو حد سے زیادہ ہی مبالغہ کرتی ہے۔ جبکہ اپنے مدمقابل اور حریف کی کمزوری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اپنے راستے کی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو بہت معمولی قرار دیتی ہے۔ جب تعریف کرتی ہے تو بے حد و حساب کرتی ہے اور جب مذمت پر آتی ہے تو بھی حد سے گزر جاتی ہے۔ اسی طرح محبت اور نفرت کے معاملے میں بھی حدوں سے نکل جاتی ہے۔
احادیث کے آثار میں ایک اس طرح ہے:
’’اپنے حبیب سے ایک حد تک ہی محبت کرو! ہو سکتا ہے کہ وہی شخص ایک دن تمہارا ناپسندیدہ بن جائے۔ اور اپنے ناپسندیدہ شخص سے بھی ایک حد تک ہی نفرت کرو! ہو سکتا ہے کہ وہی ایک دن تمہارا پسندیدہ شخص بن جائے‘‘۔
ایک ضرب المثل یوں ہے:
’’تمہاری محبت تکلیف کا باعث نہ بننے پائے، اور تمہاری نفرت خسارے کا باعث نہ بن جائے‘‘۔
یعنی اتنی محبت کرو کہ تکلف کے بغیر ہو اور اتنی نفرت کرو کہ سب کچھ ضائع نہ ہوجائے۔ قرآن کریم بھی ہمیں یہی ہدایت دیتا ہے کہ ہم ہر معاملے میں عدل اور انصاف سے کام لیں۔ جن سے ہم نفرت کرتے ہیں ان سے بھی انصاف کریں اور جن کو چاہتے ہیں ان سے بھی، حتیٰ کہ اپنے نفس اور اپنے بدترین دشمن سے بھی عدل و انصاف کا معاملہ کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زَد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘۔
(النساء:۱۳۵)
’’اے ایمان والو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم سے عداوت تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل و انصاف سے پِھر جائو‘‘۔
(المائدہ: ۸)
آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا:
تحریک اسلامی کے کمزور پہلوئوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اجتہاد سے خائف اور تجدید سے بیزار اور توسیع و تطور سے گریزکرتی ہے۔ حالانکہ اس تحریک کی دعوت میں نظریاتی طور پر فقہی معاملات میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ وہ فکری اور تحریکی میدان میں تقلید کی طرف مائل ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ ہر قدیم کو اپنی قدامت پر جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
یہ رجعت پسندی صرف ان تحریکوں تک محدود نہیں جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ظاہری میلان یا رجحان کے اعتبار سے اسلام کا صحیح فہم و ادراک رکھتی ہیں، بلکہ یہ حال تمام موجودہ تحاریک اسلامی کا ہو چکا ہے۔ بلکہ ان تحریکوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں جو وسعتِ فکر اور جدتِ نظر کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی ہیں یا ایسے تجربات میں داخل ہوچکی ہیں جن سے ان کا حق تجدید و انقلاب بالکل عیاں دکھائی دیتا ہے۔
تحریک اسلامی کے متعلق یہ بات ملاحظہ کی گئی ہے کہ وہ بعض اوقات دعوتی پروگراموں میں خاص قسم کے وسائل اور طریقوں پر جم کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر مذکورہ وسائل اور طُرق کے مقابلے میں کوئی رکاوٹی پتھر آجاتا ہے یا مسائل درپیش ہو جاتے ہیں تو تحریک اسلامی ہر طرح کے تجدیدی رجحان اور آزادیٔ فکر سے بے زاری یا کم از کم بے نیازی کا رویہ اختیار کرتی ہے، کیونکہ وہ روایتی افکار و اعمال سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ایسے مفکرین پر اپنا دائرہ تنگ کر دیتی ہے جو تجدید یا تطور کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان مفکرین کی آراء کو پہلے سے بنے بنائے سانچوں میں انڈیلنا ممکن نہیں ہوتا۔
ایسے تجدیدی مفکرین کے ساتھ تحریک تادیبی کارروائی بھی کرتی رہتی ہے۔ مثلاً ان کے متعلق ایسے فیصلے اور احکام کہ وہ کچھ محرومیوں کا شکار ہو جائیں۔ جیسے یہ کہ ان کی کتب اور مقالات کو نہ پڑھا جائے، یا ان کے حلقہ ہائے دروس میں شرکت نہ کی جائے وغیرہ۔ اس طرح کا رویہ اختیار کرنے سے بعید نہیں کہ مذکورہ مفکرین ایک ایک کر کے تحریک سے دور ہوتے چلے جائیں اور اِدھر اُدھر اس طرح منتشر ہو کر رہ جائیں جیسے انگلیوں سے پانی نکل کر بہہ جاتا ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ لوگ تحریک کے اہداف و نظریات سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ بلکہ وہ وقتی طور پر فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ اپنی عقل کو فریزر میں منجمد ہونے سے بچا سکیں۔ دوسری طرف تحریک خود بھی ایسے دانشوروں اور مفکرین کے نکلنے سے سکون کا سانس لیتی ہے کیونکہ ایسے لوگ ٹھہرائو کو حرکت دیتے اور ماحول میں اضطراب پیدا کر دیتے ہیں۔
میں نے بعض اسلامی تحریکوں کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے پیروئوں اور کارکنوں کے لیے چند مخصوص قسم کی تعلیمات اور معلومات مقرر کر دیتے ہیں جن کا مفہوم بار بار دہرایا اور ذہن نشین کرایا جاتا ہے، جیسے کہ وہ قرآن کی آیات ہیں جنہیں بار بار تلاوت کیا جارہا ہے۔
جب یہ لوگ کورس سے فراغت حاصل کر کے آتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں ایک اور کیسٹ ریکارڈ ہو کر آگئی ہے اور وہی کچھ سنا رہی ہے جو اس میں بھرا گیا ہے۔ یہ امکان نہ رہے کہ وہ ایک انسان ہے جو سوچتا اور تفکر کرتا ہے یا بحث و مباحثہ اور ردوقدح کرتا ہے، بلکہ وہ تو ایسا کارکن ہے جس کے لیے اپنے امیر اور ناظم کی ہر وہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے جسے اس نے کسی مناسبت پر یا کسی مسئلے پر مخصوص حالات میں بیان کردیا ہو۔ امیر کی کسی بات میں غلطی کا شائبہ ممکن نہیں، بلکہ اس کی بات ایک ایسا حق ہے جس میں باطل کا کوئی امکان یا شائبہ نہیں ہو سکتا۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ تحریک اسلامی تصوف کے اس طریقہ تربیت کا نظریاتی طور پر انکار کرتی ہے جو دماغ بند کر کے صرف سُن لینے اور اندھی تقلید و اطاعت پر یقین رکھتا ہے، (جن کا امتیازی نشان یہ ہے جس نے اپنے پیر و مرشد سے ’’کیوں‘‘ کہا وہ فلاح نہیں پاسکتا)۔ دوسری طرف مرید اپنے پیر صاحب کے ہاتھوں میں یوں میّت کی طرح پڑا ہوتا ہے جیسے غسل دینے والا غسل دے رہا ہو۔ تحریک اسلامی کو اگر دیکھا جائے تو وہ بھی اپنے پیروئوں اور کارکنان کی تربیت کچھ اسی انداز میں کر رہی ہے۔ اگرچہ ان کی زبان سے صوفیاء کے الفاظ ادا نہیں ہوتے۔
تحریکی حلقوں میں ذرا سا فرق پایا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں اگر کسی نے لفظ ’’کیوں‘‘ کہہ دیا تو اس کے بعد اس کے معاملے میں احتیاط برتی جاتی ہے اور اسے ایک خاص زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ خدانخواستہ اگر ’’کیوں‘‘ سے بڑھ کر کچھ زیادہ کہہ ڈالے تو پھر باغی قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں تو پیر و مرید کا معاملہ ہوتا ہے لیکن یہاں پیر و مرید تک بات محدود نہیں رہتی بلکہ علماء، دانشوروں اور مصنفین تک سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تقلیدی انداز کی پیروی کریں اور مرجہ فریم (باکس) سے باہر نہ نکلیں (تفکیر میں، نہ تعبیر میں)۔ اگر وہ اس فریم سے باہر نکلنے کی جسارت کر بیٹھیں تو شدید ترین حملوں کا سامنا کرنے کی تیاری بھی کرلیں۔
یہاں بطور مثال، تحریکِ اسلامی کی نادرِ روزگار شخصیت مرحوم علامہ ڈاکٹر مصطفی السباعی کا تذکرہ مناسب ہو گا۔ انہیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، وہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی اجتہادی رائے سے اسلامی نظام عدل کو اسلامی اشتراکیت (Islamic Socialism) کہہ ڈالا تھا۔ یوں کہنے کا مقصد ان کے نزدیک محض یہ تھا کہ ان لوگوں کو جذب کیا جاسکتا ہے جو اشتراکت سے انس رکھتے اور اسلام کے اقتصادی نظام میں سرمایہ داری کی جھلک محسوس کرتے ہیں۔ علامہ کی طرح ایک اور مسلم مصنف بھی ایسے شدید حملوں کا شکار ہوا تھا۔ کیونکہ اس نے اپنے ہفت روزہ مجلے ’’المسلم المعاصر‘‘ میں ایسی زبان استعمال کرنے کی کوشش کی جس میں ’’بائیں بازو والا مسلمان‘‘ کی اصطلاح ظاہر ہو رہی تھی۔ ایسی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ’’دائیں بازو‘‘ کی اصطلاح کو ختم کیا جائے جو اسلام کی طرف بلانے والوں کے لیے مخصوص ہو چکی تھی۔ اس اجتہاد کی وجہ سے مذکورہ صحافی پر مغرب پسندی اور سرمایہ داری کی نمائندگی کے الزامات لگائے گئے… وغیرہ وغیرہ۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ اس تعبیر کی حمایت کروں یا دوسرے کی۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اہل فکر و دانش کو ان کا حقِ اجتہاد ضرور دیا جانا چاہیے، کیونکہ اس اجتہاد کا انہیں اجر ملتا ہے (چاہے اجتہاد صحیح نشانے پر لگے یا خطا ہو جائے)۔ اگر ان سے آزادی رائے کا حق سلب کیا جائے تو میں اس کی سخت مخالفت کرتا ہوں۔ اس بات کی بھی مخالفت کروں گا کہ اگر کوئی روایات سے ہٹ کر ذرا مختلف رائے دے تو اس پر طرح طرح کے الزامات اور تہمتیں لگائی جائیں۔ کیونکہ رائے یا تجویز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ اگر آج ایک تجویز اکثریت کے ساتھ رَد کی جارہی ہے تو کل وہی رائے یا تجویز مقبولِ عام اورمنظورِ نظر بھی ہو سکتی ہے۔
ایک اسلامی مجلہ نے (جو تحریکی بھی ہے) ایک اسلامی صحافی سے مقالات لکھنے کی درخواست کی۔ مذکورہ صحافی نے جو مقالہ لکھا اس میں یہ رائے ظاہر کی کہ اسلامی نظام کے زیرِ سایہ اسلامی جماعتوں کا قیام جائز ہے۔
اس نے اپنی رائے کے حق میں متعدد دلائل پیش کیے اور اپنے دعوے کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مجلہ نے ان کے مقالے کو شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ مقالہ تقلیدی اور موروثی رائے سے ہٹ کر تھا کہ اسلام میں جماعتوں کے تعدد کا تصور نہیں۔ یہ دعویٰ ایک مجمل دعویٰ ہے جو بیان اور تفسیر کی گنجائش رکھتا ہے اور اس کے خصوصی حالات اور ظروف ہو سکتے ہیں۔
تحریک اسلامی سے وابستہ ایک داعی کو، جو عامل اور شیخ تھے، یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ پانچ سال کے لیے کام کی منصوبہ بندی کریں۔ کام ایک ایسے منصوبے پر کرنا تھا جس میں لائحہ عمل تیار کیا جاتا کہ اسلامی تحریکوں سے خائف قوتوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے (ایسی قوتیں جو اسلام سے الرجک اور تحریک اسلامی کی مخالف ہیں)۔ ایک فکری مذاکرہ شروع ہو جو مستشرقین اور ان کی طرح کے دوسرے مفکرینِ مغرب سے بات چیت کا ذریعہ بن سکے۔ پھر ایک ایسا مذاکرہ منعقد ہو جس میں صرف دین دار علماء شامل ہوں جو بات سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور طاغوتی و مادی قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کے لیے تیار ہوں۔ ایک مذاکرہ ایسامنعقد کیا جانا تھا جو سیاسی نوعیت کا ہوتا، جس میں ڈپلومیٹ حضرات، سفارت کار اور ماہرین سیاست کو مدعو کیا جاتا۔
ان مذاکرات کا مقصد یہ ہونا تھا کہ مخالفینِ اسلام کے قدیم و جدید تصورات کا دلیل و برہان سے رد کیا جائے جن کے مطابق وہ لوگ اسلام کو دہشت پسند مذہب، مسلمانوں کو وحشی انسان اور تحریک اسلامی کو دہشت گرد و خونخوار تحریک سمجھتے ہیں۔
پھر ایسے امکانات پیدا کرنے کی کوشش کی جانی تھی کہ اسلام اور دوسرے آسمانی ادیان کے ماننے والے امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، اور مسلمانوں کے لیے اپنے اوپر خود حکومت کرنے کی فضا بن سکے (یعنی اپنے عقائد اور شریعت کے مطابق)۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس تجویز کو غالب انکار اور مذاق سے لیا گیا۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بزرگ تو جدت پسند ہو گئے ہیں۔
ایسی فضا اور ماحول میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اب ایسے رجحانات مقبول ہو رہے ہیں جو تنگ فکر کے حامل ہیں اور ایسی تجاویز و آراء کو اہمیت دی جانے لگی ہے جن میں تشدد اور سختی کا عنصر بہت نمایاں ہوتا ہے۔ اب ایسی فکر رکھنے والوں کو ’’ہیرو‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
تشدد کی فکر مسلمانوں میں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پھیلنا شروع ہوئی۔ اس دور میں اس قسم کے حالات و واقعات ظہور پذیر ہونے لگے جو اہل نظر پر پوری طرح عیاں ہیں۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ مذکورہ فکر کے دعوے دار اپنے معاشرے سے کٹ کر رہ گئے۔ انہوں نے اپنی ہی سوسائٹی پر جاہلیت مطلقہ کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس فضا میں یہ فکر ابھر کر سامنے آئی جسے ظَاہِرَۃُ الغُلُو فِی الکُفْرِ ’’کفر کے فتوئوں میں انتہا پسندی والی سوچ اور فکر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ فکر ہے جس کی روشنی میں جمہور مسلمانوں کو اس لیے کافر قرار دیا جاتا ہے کہ وہ لاالٰہ الا اللّٰہ کا پورا مفہوم نہیں سمجھ سکتے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا شعور نہیں رکھتے۔
اس طرح کے معاشروںمیں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ دور کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت فضول اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں اسلام سے وابستگی کی یہ خستہ حالی ہو، وہاںاسلامی فقہ کی تجدید کے لیے جو کوشش ہوگی، اس کا مذاق ہی اڑایا جائے گا، بالخصوص ایسے معاشرہ میں جو اسلامی نظام کے مطالبہ کی مخالفت کرنے والا ہو۔
دراصل اس کی وجہ یہ ہے ایسے معاشرے میں پہلا قدم ہی غلط اٹھایا گیا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر انہیں وہ عقیدہ بتانا چاہیے تھا جس کو مان کر آدمی مسلم بنتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نظام، مثلاً: اسلام کا سیاسی نظام، اقتصادی نظام اور معاشرتی نظام وغیرہ بتائے جاتے۔
یہ وہ بڑے بڑے کمزور نکات ہیں یا خلل والی جگہیں ہیں، جہاں سے آپ موجودہ تحریک اسلامی کو پکڑ سکتے یا مواخذہ کر سکتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ان کمزوریوں کا ذکر اس لیے کیا کہ میں جانتا ہوں کہ مجھے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ لہٰذا خیر اِسی میں ہے کہ بہتر سے بہتر کی طرف بڑھنے کی کوشش کروں۔
مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ تحریک سے وابستہ کتنے ہی ایسے حضرات ہیں جن کا دل میری تنقید سے تنگ اور خوف زدہ ہوگا۔ دوسری طرف تحریک کے حریفوں کو بھی ایک موقع ہاتھ آئے گا تاکہ وہ میرے جملوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں تاکہ تحریک اور تحریکی مقاصد میں تشویش یا شبہات پیدا ہوں، بلکہ خود مذہب اسلامی میں تشویش پیدا ہو۔
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس میں ان حالات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں تحریک اسلامی (وسیع تر معنوں میں تحریکِ اسلامی۔ یعنی ہر وہ تحریک جو اسلامی غلبہ کی جدوجہد میں شامل ہے یا اس کا دعویٰ رکھتی ہے) مبتلا ہے اور آزمائش میں پڑی ہے۔ اس کے بعد ان مساعی اور کوششوں کا ذکر کروں گا جو بلاشبہ تحریک کے لیے کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ہیں اور جن پر تحریک کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ان کامیابیوں اور کوششوں کا ذکر آگے ملاحظہ فرمائیے گا۔
☼☼☼
Leave a Reply