
شمال مغربی افریقا میں عرب ممالک تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، لیبیا کو ایک ہی معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک کی سرحدیں ان کا استحصال کرنے والی بڑی مغربی اقوام سے گھری ہوئی ہیں۔ یہ استعماری طاقتیں ماضی میں ایک سے زیادہ بار انہیں ہڑپ کر کے اپنے اپنے ملک میں شامل کرنے کی مذموم کوششیں کر چکی ہیں۔
اس خطے میں اسلامی تحریک گزشتہ صدی کی ۷۰ کی دہائی میں اس وقت برپا ہوئی جب اسے ’’سیکولر‘‘ یامغربی بنانے، اس کی تہذیب کو کھوکھلا کرنے اور اسے دنیائے قدیم میں محصور کر دینے کی کوششیں کافی حد تک کامیاب ہو چکی تھیں۔ ان ممالک کے مسلم معاشرے، بالخصوص اسکولوں، یونیورسٹیوں، کلبوں، انتظامی اور مالی امور کے شعبوں پر فرانسیسی چھاپ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مراکش اور تیونس دونوں ایک مدت سے فرانسیسی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ صدی کے ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں یونیورسٹیوں میں تدریس کی زبان فرانسیسی تھی۔ تاہم طاقتور اسلامی رجحان کی بدولت ۷۰ کے عشرے کے اختتام پر عربی کو تدریسی زبان بنوانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ تحریک اسلامی اللہ کے فضل و کرم سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اسلام کو نوجوان نسل کے قلب و دماغ میں ازسرنو راسخ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ نتیجتاً نوجوان نسل انتہائی تیزی اور قوت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہو گئی۔
اسلامی تحریک کو مختلف سطحوں پرمسلسل ایسی سازشوں کا ہدف بنا دیا گیا جو اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں نے ان ممالک کے تشخص کا معرکہ جیت لیا، حتیٰ کہ تیونس پر مسلط سنگدل و بدمزاج سیکولر نظام جو دینی شعائر اور اسلامی تعلیمات کا سخت مخالف تھا، بھی اس بات پر مجبور ہو چکا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اسلامی شناخت رکھنے والے اطلاعاتی و نشریاتی چینلوں کو کھولنے کی اجازت دے اور سیاسی اسلام کے حقیقی نمائندوں، مثلاً شیخ القرضاوی اور الشیخ سلمان العود کو تیونس دعوتی دورے کرنے میں مزاحم نہ ہو۔ لیبیا کے ماسوا عالم عرب کے اس پورے مغربی خطے کے ممالک میں عربیت اور فرانسیسیت کے حامیوں کے مابین ثقافتی معرکہ آرائی اب تک جاری ہے۔ کسی فریق کو اگر ایک قدم کامیابی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے قدم پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی فرانسیسی زبان انتظامیہ، مالی امور، یونیورسٹی کی تعلیم، میٹرک کی سطح کی تعلیم، بلکہ پرائمری تعلیم تک چھائی ہوئی ہے۔ الجزائر میں تعریب (Arabization) کا جو پروگرام شروع ہوا تھا، ۱۹۹۲ء میں اسلامی محاذ (الجبہ الاسلامی) کو کچلنے کے بعد اسے مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔
آیئے ان ممالک کی موجودہ صورتحال کا مختصر جائزہ لیں:
تیونس میں اسلامی بیداری کی لہر کو مسلسل بیخ کنی کی پالیسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ اور موجودہ دور حکومت میں وہاں پر اسلام کے سرچشمے خشک کرنے کی پالیسی پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اسلام سے متعلق ہر چیز کو ہدف بنایا گیا، حتیٰ کہ ایک لمبے عرصے تک نماز کی ادائیگی کو بھی سیاسی صف آرائی کی علامت قرار دیا جاتا رہا۔ حجاب ممنوع تھا اور اب تک ممنوع ہے۔ اسلام سے متعلق لٹریچر حتیٰ کہ قدیم اسلامی کتب کی اشاعت اور تصنیف و تالیف پر پابندی ہے۔ وزارت داخلہ کے سیاسی امور سے متعلق شعبے کے کمیونسٹ افسروں کی اجازت کے بغیر پورے ملک میں کوئی کتاب قابلِ مطالعہ نہیں ہوتی۔ یہ اقدامات ۱۹۸۹ء کے ان انتخابات کے بعد شدید تر ہو گئے جس میں حرکت النہضت الاسلامیہ (اسلامی تحریک نہضت) نے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ جمہوریت کے دعوے دار مغربی ممالک کی تائید و حمایت سے انتخابی نتائج مسخ کر دیے گئے اور کامیاب امیدواروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
تیونس اب تک انتخابی نتائج تبدیل کر دینے اور عوام کی رائے سلب کر لینے کے بد اثرات سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔ برسراقتدار ٹولہ ملک پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہر جتن کر رہا ہے۔ حکمرانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کریں گے۔ حکمران ٹولے کی تمام پالیسیوں میں یہی سوچ اور یہی خوف غالب ہے۔ اس پالیسی کو اپنانے اور جاری رکھنے میں حکمران ٹولے کو بیرونی سانحات و واقعات سے بھی خوب تقویت ملی ہے چنانچہ الجزائر کے اسلامی محاذ کے خلاف حکومتِ الجزائر کے اقدام سے شہ پاکر تیونسی حکومت نے بھی اسلامی تحریک کو مزید کچلنا شروع کر دیا اور ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر شروع ہونے والی عالمی امریکی یلغار کو بھی اپنے ان ہی مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کیا۔
الجزائر: اب تک ۱۹۹۲ء کے ان انتخابات کے نتائج کے خوف میں مبتلا ہے جنہیں مسترد کر کے فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تحریک اسلامی کو کچلنے کے لیے فوج کی برپا کردہ شورش کو ۵۱ برس سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں الجزائر کو ’’اسلامی خطرات‘‘ سے محفوظ کرنے کے کئی اقدامات کیے جا چکے ہیں، مگر ابھی تک الحیتہ الاسلامیت للانقاذ (اسلامک سالویشن فرنٹ) کا ہوّا اور خوف، فوج کے ذہن و قالب پر چھایا ہوا ہے۔ فوج نے قوم کے حق رائے دہی اور اس کے شہری اداروں کی خود مختاری کو سلب کر رکھا ہے۔ فوج کو ہر وقت یہی اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اسے پھر اسلامک فرنٹ جیسی کسی قوت کی کامیابی کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑ جائے۔
اس ہدف کے حصول کے لیے حکمران ٹولہ ہر حربہ آزما چکا ہے، کئی صدر تبدیل کیے جا چکے ہیں، کئی بار انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی حتیٰ کہ مسلح گروہوں سے بھی مصالحت کے متعدد دَور کیے ہیں، لیکن وہ کسی بھی صورت میں اسلامی محاذ اور اس کی اہم شخصیات کو میدان سیاست میں واپسی کا راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورتحال کو اسلامی فرنٹ کی قیادت کو ہمیشہ کے لیے سیاست بدر کرنا قرار دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے ملک پر مسلط ایجنسیوں کی طاقت کا بھی اندازا کیا جا سکتا ہے، جو عوام کے حقیقی نمائندوں کو ہر حالت میں اقتدار سے دور رکھنے پر مصر ہیں۔
۹۰ کے عشرے سے لے کر اب تک الجزائر میں ۵ صدر برسراقتدار آ چکے ہیں، بیسیوں وزراء آئے اور چلے گئے مگر ایک شخصیت ایسی ہے جو اب تک اپنے منصب پر قائم ہے اور وہ ہے عسکری انٹیلی جنس کے محکمے کا سربراہ۔ اسی سے اندازا لگا لیجیے کہ اقتدار کے سرچشمے کا اصل مالک کون ہے؟ سیاسی ڈرامے میں شریک سبھی لوگوں نے اسلامی فرنٹ سے عوام کی وابستگی ختم کرنے کے لیے باہم تعاون کیا ہے مگر اس سال کے آغاز میں فلسطین میں غزہ کے واقعات نے گھڑی کی سوئیوں کو واپس ۷۰ کی دہائی میں پہنچا دیا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے اسلامی فرنٹ کے اہم رہنما علی بلحاح اور ان کے ساتھیوں نے ۱۰ لاکھ افراد پر مشتمل جلوس کی قیادت کی، جس میں ۷۰ کی دہائی میں لگنے والے نعرے پھر دہرائے گئے۔ قومیں زود فراموش نہیں ہوا کرتیں بالخصوص الجزائری قوم جیسی مضبوط اعصاب کی مالک قوم کا حافظہ کمزور نہیں ہوا کرتا۔ لیکن اس قوم کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ الجزائر کے موجودہ سیاسی نظام کا ڈھانچا اور مزاج بالکل اپنے برادر ملک تیونس جیسا ہے۔
موریطانیہ: تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں کو کچلنے کے اقدامات نے موریطانیہ کی سیاسی صورتحال پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں، جہاں اسلامی تحریک کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں موریطانیہ کے حکمران ولد الطائع کی حکومت جاتی رہی۔ اس سے قبل اسلامی تحریک کو تسلیم کر لیا گیا تھا، اسے پارلیمنٹ میں جانے کا موقع بھی ملا اور ملک کی انتظامیہ میں بھی۔ یہ اس وقت ہوا جب ابھی فوج نے قومی حق خود ارادیت پر ایک بار پھر شب خون نہیں مارا تھا۔ فوج کے اس اقدام نے وقتی طور پر اسلامی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ تحریکِ اسلامی، موریطانیہ میں جمہوریت کی جانب واپسی کا نعرہ بلند کرنے والوں میں سرفہرست تھی۔ فوجی ٹولے نے اصولی مؤقف اور ترقی پذیر سوچ کے حامل افراد کو مسترد کر کے، فرینڈلی حزب اختلاف کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ اگرچہ موریطانیہ کے کچھ بالائی طبقے فرانسیسی زبان و تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، تاہم مجموعی طور پر موریطانیہ اب بھی شرعی علوم اور عربی علوم و آداب کا مضبوط قلعہ ہے۔ تحریک اسلامی کے دینی تعلیمی ادارے اور تحریکی علمائے کرام معاشرے میں انتہائی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
مراکش: مقامِ شکر ہے کہ تیونس اور الجزائر میں اسلام پسندوں اور جمہوریت کے خلاف کیے گئے اقدامات نے مراکش پر زیادہ منفی اثرات نہیں ڈالے۔ وہ اب تک اپنی مستحکم تاریخی و دینی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہاں پر بادشاہ اور عوام کے مابین تعلق، بڑی حد تک باہمی احترام اور خیر سگالی پر مبنی ہے اور ایک ایسا سیاسی نظام قائم ہے جس میں کسی قدر جمہوریت سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ مختلف سیاسی رجحانات رکھنے والے گروہوں جن میں اسلام پسند طبقے بھی شامل ہیں کے مابین ایک طرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان میں بائیں بازو کے کچھ ریڈیکل گروپ ہیں اور کچھ سلفی جہادی گروپ، تاہم ان میں جمعہ العدل والاحسان شامل نہیں ہے۔ ان اسلامی گروپوں میں سے جو غیر تشدد پسند ہیں جیسے جمعہ العدل والاحسان۔ ان کے ساتھ سرکار کے تعلقات قدرے کشیدہ اور محتاط نوعیت کے ہیں اور ان تعلقات کی وہی نوعیت ہے جو مصر میں ارباب اقتدار کی اخوان سے ہے۔ البتہ مراکش میں تشدد پسند مسلح جماعتوں کے خلاف مملکت کی تلوار ہر وقت بے نیام رہتی ہے۔
مراکش میں اسلامی تحریک کی سیاسی جماعت (انصاف و ترقی پارٹی) کو ایک ایسا مقام حاصل ہے جس نے اسے حکومت مخالف پارٹیوں کی صف اول میں شامل کر دیا ہے، اس پارٹی نے یہ مقام شدت پسند سے اعتدال پسند ہونے کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔
مراکش میں بھی سماجی اور معاشی مسائل دیگر مسلمان ممالک کی طرح سنگین ہیں۔ اقتدار اور سرمائے سے وابستہ حکمراں طبقے اور عوام الناس کے مابین بہت زیادہ فرق ہے۔ اس وجہ سے فساد، غربت، بے روزگاری اور قومی غیظ و غضب میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مراکش کے حکمرانوں اور سیاسی عمل میں شریک پارٹیوں کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہی چیلنج لیبیا کے استثناء کے ساتھ خطے کے باقی ممالک کے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے۔ تغیر اور تبدیلی کی تحریکوں کے لیے یہی چیلنج ایندھن کا کام دیا کرتا ہے۔
تعلیمی و ثقافتی منظر پر سیکولر طاقتوں اور اسلام چاہنے والوں، فرانسیسی بولنے والوں اور عربی بولنے والوں کے مابین ایک تصادم اور کشمکش برپا ہے، جس میں اسلام اور عربیت کا پلّہ بھاری ہے۔
لیبیا: لیبیا کی صورتحال کے مطالعے سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مغربی ثقافتی یلغار نسبتاً کمزور ہے، عربی اسلامی ثقافت کو برتری حاصل ہے، اور عربی زبان کو کسی لسانی مخالفت کا سامنا نہیں ہے، البتہ یونیورسٹیوں کے کچھ شعبوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام پسند گروہوں کے ساتھ حکومت کے تعلقات نسبتاً بہتر ہیں۔ جن میں سے کچھ اخوان ہیں اور کچھ عسکریت پسند تنظیموں سے متعلق لوگ ہیں۔
القذافی فائونڈیشن نے اسلام پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ اس کی ابتدا جیل میں قید اور جیل سے باہر اخوانیوں سے ہوئی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں انہیں رہا کر کے ملازمتوں کے تعین کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مذاکرات کا دائرہ اب، مسلح اسلامی جماعت کے قیدیوںتک بڑھا دیا گیا ہے۔ اب مذاکرات اس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں کہ یہ لوگ تشدد کی کارروائیاں بند کر دیں گے اور حکومت باقی ماندہ قیدیوں کو رہا کر دے گی تاکہ یہ بھی ملک کے باقی شہریوں کی مانند اس اصلاحی منصوبے میں شرکت کے اہل ہو سکیں جس کی قیادت القذافی فائونڈیشن کر رہی ہے اور جس کا مقصد دستور کی بالادستی بحال کرنا ہے۔
مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں دستوری پوزیشن کی بحالی کے لیے قومی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ ان کانفرنسوں کے شرکا کا ایک گروپ لیبیا کے لیے ایک نئی دستوری دستاویز تیار کرے گا۔ تحریکِ اسلامی کے کچھ افراد جیسے الشیخ علی الصلابی بھی ان ماہرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ یہ منصوبہ ابھی حکام اور اپوزیشن کے مابین زیر بحث ہے۔
تحریک اسلامی کا مستقبل
ان ممالک میں تحریک اسلامی کا مستقبل کیا ہے؟ اس حوالے سے یہ نکات قابل غور ہیں:
جبر کے باوجود بیداری کی لہر
ثقافتی و تعلیمی لحاظ سے اس خطے کے ممالک میں دو طرح کے حالات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ممالک ہیں جن میں اسلام اور عربی زبان و ثقافت کے بارے میں اعتدال کارویہ اختیار کیا جاتا ہے، اگرچہ وہاں کا حکمران طبقہ اس اعتدال کا پابند نظر نہیں آتا، بالخصوص الجزائر اور مراکش میں، جہاں فرانسیسی زبان بولنے والوں کا طبقہ تعلیم و تدریس، ذرائع ابلاغ اور سیاست کے میدانوں میں گہرے اثر و رسوخ کا مالک ہے، لیکن یہ لوگ رائے عامہ کے نمائندے نہیں، اس لیے تحریک اسلامی کے ساتھ ان کا ٹکرائو رہتا ہے۔ یہاں اسلام اور سیکولر ازم کے مابین تصادم بھی جاری ہے۔ اس تصادم کا اصل اور نمایاں سبب تو سیاسی کشمکش ہے۔ تاہم تعلیمی و ثقافتی وجہ بھی موجود ہے۔ یہ صورتحال موریطانیہ سے لیبیا تک کے اکثر ممالک میں پائی جاتی ہے۔
دوسری صورتِ حال کا نمونہ تیونس ہے۔ تیونس پراپنے بانی صدر بورقیبہ کی گہری چھاپ ہے۔ جس نے کچھ اپنی کوشش اور کچھ بیرونی استعماری طاقتوں کی مدد سے قومی تحریک کی قیادت پر قبضہ کر لیا۔ صدر بورقیبہ کچھ زیادہ ہی مغرب زدہ تھے۔ اتاترک اس کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ ان دونوں باتوں نے اس کی شخصیت و ذہنیت کو ایک خاص نہج پر ڈھال دیا۔
الجزائر، مراکش اور موریطانیہ میں بھی کم و بیش تیونس جیسے گروہ کو اقتدار سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ہے، مگر یہ لوگ اقتدار کی بنا پر وہ کچھ نہیں کر سکے جو تیونس میں ہوا۔ ان تینوں ممالک میں حکمران ٹولے کو تیونس کی طرح کا مغرب زدہ معاشرہ ورثے میں نہیں ملا۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ نے ملک کا سربراہ مقرر ہوتے ہی اسلامی عقائد، شریعت اور شعائر اسلام پر حملوں کا آغاز کر دیا جس کے نتیجے میں ملک میں ایک انتہا پسند سیکولر اور مخالف اسلام ٹولہ وجود میں آ گیا۔ اس گروہ نے اسلام کو ختم کر دینے یا پھر اسے مغربی نمونے کے مطابق ڈھالنے کا مشن سنبھال لیا۔ اس طرح تیونس میں عوام الناس سے الگ تھلگ ایک اعلیٰ طبقہ قائم ہو گیا جو عوام کو حقیر و کمتر سمجھتا تھا۔ رنگ و نسل پر مبنی ایک سخت متعصبانہ نظام میں جو تعلق گوروں کا سیاہ فاموں سے ہوتا ہے وہی اس طبقے کا عوام سے تھا۔
عصرِ حاضر کے مشہور مؤرخ پروفیسر محمد الطالبلی نے اپنی کتاب الانسلاخیوں میں اس طبقے کے حالات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ تحریک اسلامی کے لیے اس قسم کے طبقہ اشرافیہ کے ساتھ معاملہ کرنا بہت مشکل تھا۔
تیونس کے موجودہ صدر زین العابدین بن علی کے دورِ حکومت میں اس سیکولر انتہا پسندی میں کسی قدر کمی ہوئی ہے، کیونکہ عوام نے اس انتہا پسندی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ بن علی کا تعلق بھی اس مخصوص سیکولر لابی سے تھا۔ اقتدار پر ذاتی تسلط رکھنے کی اس کی حرص، نیز سیکورٹی کے بارے میں اس کے مخصوص مزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اقتدار پر اپنے شخصی تسلط کے لیے تحریک اسلامی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور اسے کچلنے کا تہیہ کر لیا۔ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں تحریک نہضت کی کامیابی نے اس کے ارادوں کو مزید پختہ کیا۔ یہ نتائج خود تحریک کے لیے بھی حیران کن تھے، چنانچہ صدر بن علی نے نہضت کو مکمل طور پر میدان سے باہر دھکیلنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے تمام سیاسی اور نظریاتی مخالفین سے بھی مدد لی۔ ان سب لوگوں نے اسلام، عربیت اور اسلامی ثقافت پر یلغار کی خاطر صدر بن علی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ تاہم گزشتہ برسوں میں سیکولر اتحاد میں قدرے کمی آئی ہے، اسلامی تحریک کو کچلنے کے جامع سیاسی منصوبے پر اب بھی اسی طرح عمل کیا جا رہا ہے، جیلوں سے نہفت کے تقریباً ۳۰ ہزار قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ اب صرف اسلامی تحریک کے سابق سربراہ ڈاکٹر صادق شورو اور ان کے بھائی جیل میں رہ گئے ہیں۔ جیلوں سے رہا ہونے والے یہ ہزاروں شیدائیانِ اسلام اپنے دین پر استقامت سے قائم رہے ہیں۔ انہوں نے اذیت رسانی کا ہر مرحلہ بڑی پامردی سے طے کیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے شہادت کے منصب پر فائز ہو کر یا بتدریج موت کے منہ میں جاکر اپنے پیچھے عظیم یادیں چھوڑی ہیں۔ ہزاروں نوجوان تنگ و تاریک جیلوں سے باہر آکر اب ملک کی کھلی اور متحرک جیل میں آ چکے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں ہیں، ملک سے باہر جا سکتے ہیں نہ ملک کے اندر سفر و حرکت میں آزاد ہیں، سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں، علاج معالجے کے حق سے بھی محروم ہیں، سیاسی اور سماجی تنہائی کا شکار ہیں۔ گویا وہ غزہ میں محصور ہیں۔ ان کی اس حالت کو بجاطور پر قسط وار موت کہا جا سکتا ہے۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ ملک کی جیلیں اب خالی پڑی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جیلوں کو ملک کی آزادی کے بعد کبھی ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں رکھا گیا۔ ایک گروپ رہا ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ پہلے بائیں بازو والوں کی جگہ اسلام پسندبند رہے۔ آجکل نہضت کے کارکنوں کی جگہ الصحو ’بیداری‘ کے نوجوانوں کا اسلامی گروپ بند ہے۔
تیونس کے ماضی قریب کے حالات کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کا سرکاری منصوبہ بیداری کی نئی لہر کے سامنے بالکل ناکام ہو گیا ہے، اسی طرح برسراقتدار طبقے کا تحریک، نہضت کو کچلنے اور اسے الگ تھلگ کرنے کے منصوبے کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ چنانچہ نہضت حزب مخالف کی مختلف الجہات جمہوری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے دوبارہ میدانِ سیاست میں آچکی ہے۔ نہضت نے اپنی کارکردگی پر نظرثانی کی ہے اور حالات و مواقع کا اندازہ لگانے میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کا برملا اعتراف کیا ہے۔
بیداری کی اس تازہ لہر کی وجہ سے حکومت نے بھی اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کے لیے اپنے منصوبے سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ چنانچہ حکومت نے ریڈیو الزیتون کو قرآن کریم کی تلاوت و تشریح اور دینی مواعظ کی اجازت دے دی ہے۔ اس ریڈیو اسٹیشن نے بہت تھوڑی مدت میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مخالفوں کو کچلنے کی سیاست سے یہ تدریج پسپائی کمیونسٹوں اور بورقیبوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور آمریت کے سہارے پھر سے تحریک نہضت کو اپنا سیاسی ہدف بنائیں۔ فی الوقت ایسی علامات سامنے نہیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ برسراقتدار طبقہ تحریک نہضت یا کسی بھی سخت جان حزب مخالف کو مٹانے کے لیے اپنے پروگرام سے دستبردار ہو جائے گا۔ تیونس کے ماضی کے ورثے میں استبداد اور شخصی حکمرانی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ خیال کہ تیونسی حکمران اپنی روش بدل لیں گے محض ایک دلفریب آرزو ہے، تاہم پیش رفت ضرور ہے جو خوش آئند بات ہے۔
سیاسی تشخص
ان ممالک میں تحریک اسلامی نے مختلف سطحوں پر جس طرح اپنے تشخص کا معرکہ جیت لیا ہے، اسی طرح اس نے حکومت میں شریک ہو کر بھی اور کبھی حزب اختلاف کی صورت میں اپنا سیاسی وجود بھی منوا لیا ہے۔ اس نے نوجوان نسل کے دلوں تک رسائی حاصل کر لی ہے اور یوں مراجعت الی الاسلام (اسلام کی طرف واپسی) کی منزل قریب آ گئی ہے۔ اگر کوئی محقق اس بات کا تدریجی جائزہ لے کہ تیونس میں حقوق انسانی کے مسئلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے تو وہ یقینا اس نتیجے تک پہنچے گا کہ تحفظ حقوقِ انسانی کی جدوجہد میں تحریک اسلامی کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔
جب حقوق انسانی کے تحفظ کی خاطر تیونس لیگ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا تو مارکسی طاقتوں نے اس تنظیم سے حامیانِ اسلام کو دور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر اب حقوق انسانی کی ان تنظیموں کی کامیابی سب کو دکھائی دے رہی ہے جو اسلام پسندوں کے قریب تر ہیں۔ پہلے یہ تنظیمیں بائیں بازو کے کسی شخص کا پاسپورٹ ضبط کیے جانے کی تو مذمت کرتی تھیں مگر اسے ان ہزاروں سیاسی قیدیوں کے بارے میں لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی تھی جن کی کھالیں ادھیڑی جا رہی تھیں۔ وہ ان مظلوموں کے بارے میں چپ سادھے رکھتی تھیں جو صرف حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کے باعث جیلوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ یہ تنظیمیں حقوقِ انسانی کے یورپی اداروں کے توسط سے تیونس کے حکمرانوں کے لیے حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ آج حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی اکثریت اسلام پسندوں کے قریب ہے۔
غرضیکہ تحریک اسلامی نے اسلام کی طرف سفر کا ایک مرحلہ بحسن خوبی طے کر لیا ہے۔ مسلمان معاشرے تمام تر سختیوں، رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اسلام ہی سے اظہارِ محبت کرتے ہیں۔ اپنے درخشندہ مستقبل کے لیے ان کی واحد امید اسلام ہی ہے۔
ہمہ جہت جدوجہد
آج تحریک اسلامی کی جدوجہد محض ملکی تشخص کے دفاع تک محدود نہیں بلکہ اسے ایک عظیم تر مہم درپیش ہے۔ آج بھی توسیع پسندانہ عزائم کی حامل بڑی قوتوں کی طرف سے ان ممالک کو نشانہ بنا کر ہر طرح کے حملے کیے جارہے ہیں۔ تحریک اسلامی وسیع تر اصلاح کی علمبردار سماجی تحریک ہے۔ سیاست تو اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اگر مملکتیں استبداد پر مبنی نہ ہوتیں اور ان میں حد سے بڑھی ہوئی مرکزیت نہ ہوتی اور اس کی سب سے بڑی سرگرمی دعوت دین کے ساتھ ساتھ عوام کی صحت، تعلیم اور ترقی میں ان کی خدمت ہوتی۔
تحریکِ اسلامی کا ایک اور شاندار کارنامہ نوجوان نسل کو منشیات، جرائم اور بے کاری کے مشاغل سے بچانا ہے۔ وہ احیائے اسلام کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے نیز اپنے اپنے ملکوں کی خودمختاری، تحفظ اور استحکام کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اسے عالم اسلام کے مسائل جیسے فلسطین، عراق اور افغانستان سے بھی گہری دلچسپی ہے۔
تحریک اسلامی کو جب بھی آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ غریبوں، یتیموں، بے سہارا افراد کی نگہداشت اور مستحق جوڑوں کی شادی کرانے جیسے سماجی کاموں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریکِ اسلامی بالعموم حزبِ اختلاف میں رہی ہے۔ خواہ اسے حزبِ مخالف تسلیم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ان کی حکومتوں کا رویہ یا تو احتیاط کا ہے، یا پھر سرکاری مشینری کھلم کھلا اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے خطے میں طاقتور ترین حزب اختلاف تحریکِ اسلامی ہی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا معرکہ سر کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غیر جانبدارانہ شفاف انتخابات میں اس کا پلڑا بھاری رہتا ہے، خواہ یہ ملک کے عام سیاسی انتخابات ہوں یا طلبہ یا کسی مزدور یونین وغیرہ کے۔ لہٰذا اب ان تحریکوں کا حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا محض وقت کا مسئلہ رہ گیا ہے۔
تفصیلی تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک میں تحریک اسلامی کا تنہا اقتدار سنبھالنا نہ صرف اس کے لیے، بلکہ متعلقہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں، خواہ ووٹوں کی اکثریت کی بنا پر تنہا حکومت کرنا اس کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ تحریک اسلامی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مختلف معاہدوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہو کر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائے اور دیگر حکومتی امور سرانجام دے۔ بتدریج تبدیلی ہی زیادہ مؤثر اور دیرپا انقلاب کا باعث ہوتی ہے۔ بتدریج عمل کائناتی اور عمرانی حقیقت ہے۔
(راشد الغنوشی تحریک نہضت اسلامی تیونس کے سربراہ اور معروف دانشور ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘دہلی۔ ۱۶ ؍اپریل ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply