
اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اتنی ترقی کہ ایک صدی قبل شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مادی دشواریوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی آسانیاں اور سہولتیں وجود میں آئی ہیں اور دنیا زیادہ پرکشش ہو گئی ہے۔ آمدورفت کے تیز رفتار ذرائع کی وجہ سے مسافتیں کم ہو گئی ہیں، خیالات کی ترسیل اور ابلاغ آسان ہو گیا ہے، جو معلومات چھوٹے سے دائرے میں محصور ہوتی تھیں وہ عام ہو رہی ہیں۔ نشرو اشاعت ایک وسیع انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جو چیز چھپتی ہے وہ گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے، پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، خوشحالی آئی ہے، معیار زندگی بلند ہوا ہے، صحت اور تندرستی کی طرف توجہ ہے۔ امراض کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولتیں فراہم ہیں اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب باتوں کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس ترقی کا پورا فائدہ اصلاً ایک چھوٹے سے طبقہ ہی کو حاصل ہے، لیکن عام آدمی بھی کسی نہ کسی درجے میں اس سے فیضیاب ہو رہا ہے۔
یہ آج کی سائنسی ترقی اور اس کے فوائد اور ثمرات کا حال ہے۔ دوسری طرف سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر پوری دنیا زوال اور پستی کا شکار ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی راہ اسے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ موجودہ دور انسان کے بعض بنیادی حقوق کو تسلیم کر تا ہے، ان میں زندہ رہنے، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے، وسائل حیات سے بلا امتیاز فائدہ اٹھانے، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے، اظہار خیال اور عمل کی آزادی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق قانوناً تو حاصل ہیں لیکن عملاً پامال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی ان کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کا ہر طرف چرچا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی حکومت ہے اور عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں رہ گیا ہے، انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ پرسکون اور امن و امان کی زندگی گزارے، لیکن فتنہ و فساد اور اضطراب کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، مساوات اور برابری کے دعوے ہیں لیکن کمزور افراد اور قومیں طاقتور افراد اور قوموں کا ہدف ستم بنی ہوئی ہیں اور ان کا ہر سطح پر استحصال ہو رہا ہے۔ انسان کے سامنے مال و دولت اور عیش و عشرت کے سوا اور کوئی مقصد نہیں رہ گیا ہے، اس کے لیے غلط سے غلط اقدام میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔ اخلاق اور قانون پر خواہشات نفس غالب آگئی ہیں اور ترقی کے نام پر بے حیائی اور جنسی آوارگی کو فروغ مل رہا ہے۔ انسان جنسی جذبہ کی تسکین کے لیے سماج اور قانون کی بندشوں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ خاندان سے انسان کا جو فطری اور جذباتی تعلق تھا وہ ٹوٹ رہا ہے۔ الفت و محبت، خدمت اور ایثار و قربانی کی جگہ خود غرضی کی فضا پرورش پا رہی ہے۔ اپنی تمام تر مادّی ترقی کے باوجود معاشرے کے رگ و ریشے میں فساد پوری طرح پھیل چکا ہے اور بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی کو اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے پڑ رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دور حاضر کے اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح نظریہ حیات سے محروم ہے۔ اس نے انسان کو مادی لحاظ سے تو بہت کچھ دیا، لیکن اس کائنات اور خود انسان کے بارے میں صحیح نقطہ نظر نہیں فراہم کر سکا۔ اس کی فکری اساس غلط ہے اس لیے وہ ایک طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو دوسری طرف پستی کا شکار ہے۔ متوازن اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی بنیاد صحیح فکر پر ہو۔
بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کی فکری اساس غلط ہے تو اس نے اتنی ترقی کیسے کی ہے؟ کیا غلط فکر کے ساتھ اس طرح کی ترقی ممکن ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مادّی ترقی کے لیے صحیح نظریہ حیات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی اس ترقی کا امکان ہے۔ قرآن مجید نے اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اس نے عبرت و نصیحت کے لیے بعض قدیم قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ان کا فلسفہ حیات غلط تھا، لیکن مادی ترقی کی راہیں ان پر بند نہیں تھیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب ترقی کی۔ قوم عاد جسمانی طور پر بڑی توانا اور تندرست قوم تھی۔ قوت و طاقت میں اس وقت اس جیسی کوئی دوسری قوم نہ تھی (الفجر: ۶۔۷) اس قوم نے تفریح اور عیش کی خاطر اور شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں اور قلعے اس طرح تعمیر کیے جیسے اسے اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے علاقے میں عمدہ زراعت تھی، سرسبز و شادات باغات تھے اور چشمے رواں تھے۔ اسے افرادی قوت بھی حاصل تھی۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پر یہ قوم ہاتھ ڈالتی تو اس کے شکنجے سے نکلنا آسان نہ تھا۔ (الشعراء: ۱۲۳۔۱۳۴)
قومِ ثمود کا بھی یہی حال تھا اس کے علاقے میں زراعت کو بڑا عروج حاصل تھا، پھلوں کی خوب پیداوار تھی، اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر بڑی مہارت کے ساتھ مکانات تعمیر کیا کرتی تھی۔
(الفجر، الشعراء: ۱۴۷۔۱۴۹)
مصر میں فرعون کا بڑا دبدبہ تھا، وہ بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا، اس کے لیے جگہ جگہ خیمے لگتے تھے، ملک میں خوشحالی تھی۔ باغات تھے، چشمے تھے، دولت کے خزانے تھے اور شاندار مکانات تھے۔ (الفجر:۱۰، الشعراء:۵۷۔۵۸)
قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دوسری قوموں کی نادانی یہ تھی کہ وہ مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی تھیں۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ انہیں اپنے علم و فن پر بڑا ناز تھا اور کسی راہ نمائی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھیں۔ اللہ کے رسولوں نے انہیں راہ ہدایت دکھائی لیکن اسے انہوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دن پورے ہونے لگے، ان کی مادّی ترقی انہیں ہلاکت سے نہ بچا سکتی اور وہ تباہ و برباد ہو گئیں۔
قریشِ مکہ نے اللہ کے رسول محمدﷺ کی مخالفت کی تو قرآن نے کہاکہ تم سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کیا تو صفحہ زمین سے مٹا دی گئیں۔ ان کے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تم اللہ کے رسول کی مخالفت کر رہے ہو تو اپنے انجام پر غور کرلو۔
وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰہُمْ فَکَذَّبُوا رُسُلِیْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْر
’’ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی تکذیب کی، حالاں کہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے۔ انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو (دیکھو کہ) میرے انکار کا کیا انجام ہوا‘‘۔ (سبا:۴۵)
قرآن مجید نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی قریش مکہ کو تنبیہ کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:
کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِo وَثَمُوْدُ وَقَوْمُ لُوْطٍ وَاَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ اُوْلٰٓئِکَ الْاَحْزَابُo اِنْ کُلٌّ اِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (ص: ۱۲۔۱۴)
’’اُن سے پہلے جھٹلا چکی ہے قوم نوح (قوم) عاد اور فرعون جو میخوں والا تھا۔ (قوم) ثمود، قوم لوط اور ایکہ والے (حضرت شعیبؑ کی قوم) یہ سب بڑی طاقتیں۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر آکر رہا‘‘۔
اس طرح قرآن نے یہ حقیقت واضح کی کہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کو دریافت کرنے اور ان کو کام میں لانے سے مادّی ترقی ممکن ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرے گی، اس پر مادّی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس ترقی کو کنٹرول کرنے اور پوری زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے صحیح نظریہ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
اسلام اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ صحیح نظریہ حیات پیش کرتا ہے۔ وہ ان تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے جو انسان کے ذہن میں اس وسیع کائنات اور خود اس کی ذات کے بارے میں ابھرتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی، کیا یہ ہمیشہ رہے گی یا اس کی رونق کبھی ختم ہو جائے گی؟ انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے جو مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اس کی ہدایت اور رہنمائی کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس کی آخری منزل کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟
اسلام ان بنیادی سوالات کا جواب ہی نہیں فراہم کرتا بلکہ ان کی اساس پر زندگی کا ایک پورا نظام پیش کرتا ہے۔ اس سے ہر گوشتہ حیات میں متوازن ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور آدمی کو قلبی سکون اور راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیمات سے آدمی کو چاہے روحانی سکون حاصل ہو جائے لیکن مادّی ترقی ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس خیال کی تردید کی ہے، اس لیے کہ یہ مادہ پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔
یہود اپنی دنیا داری میں مشہور ہیں۔ اس کے لیے انہیں کوئی بھی غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کبھی تامل نہیں رہا۔ یہ ایمان کی کمزوری اور اس احساس کا نتیجہ تھا کہ دین کی راہ سے دنیا حاصل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن نے کہا اگر وہ دین پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں تو دنیا ان کے قدم چومنے لگے گی، زمین اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش شروع ہو جائے گی۔
وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوْا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیـْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْط مِّنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌط وَ کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ: ۶۶)
’’اگر یہ توریت اورانجیل کو اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی جانب سے ان کے لیے نازل کی گئی تھیں، تو رزق ان کے اوپر سے بھی اترتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اُبلتا لیکن ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت سیدھی راہ پر ہے اور ان میں کے زیادہ تر برے کام کر رہے ہیں‘‘۔
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اسی رخ سے ہونا چاہیے لیکن مختلف اسباب کی بناء پر مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام اس حیثیت سے دنیا کے سامنے نہ آنے پائے۔ اس نے اسلام کو سمجھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے اسے دیکھا تو صرف اس نقطہ نظر سے دیکھا کہ اسے کس طرح ناقابل قبول اور ناقابل عمل قرار دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر اعتراضات کا جو سلسلہ اپنی تہذیب کے غلبہ کے بعد شروع کیا وہ اب تک جاری ہے بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بعض پہلوؤں سے شدت بھی آگئی ہے۔ اس کے خلاف علمی، سیاسی، تہذیبی ہر طرح کے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی تصویر اس طرح مسخ کی جا رہی ہے کہ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو اور اسلام کا نام آتے ہی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔
اسلام کے بارے میں مغرب کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام موجودہ فکر اور تہذیب کے لیے زبردست چیلنج ہے۔ اس کی نظریاتی اور عملی قوت کو مخالف طاقتیں پوری طرح محسوس کر رہی ہیں اور اس سے خوفزدہ ہیں۔ یہاں بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
۱۔ جو بھی شخص اسلام پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر موجودہ تہذیب کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس کا اس نے جواب نہ دیا اور اس کا حل نہ پیش کیا ہو۔ چاہے اس کا تعلق عقیدہ اور فکر سے ہو، عبادات و اخلاق سے ہو، تہذیب و معاشرت سے ہو، معیشت و سیاست سے ہو یا مادّیت و روحانیت سے۔ کسی معاملے میں اس کے نقطہ نظر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے اسے نظر انداز کیا ہے یا اس سلسلے میں راہنمائی نہیں کی ہے۔
۲۔ آج قیادت کا منصب مغرب کو حاصل ہے۔ پوری دنیا پر عملاً اسی کی حکومت ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والوں کوبری طرح دبایا اور کچلا بھی جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود مغرب میں اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین بھی اسلام کے ماننے والوں میں عام ہے کہ اس کے پاس ایک بہتر اور برتر نظام فکر و عمل ہے، صحیح عقیدہ اور فکر ہے، بہتر اخلاقیات ہیں، اعلیٰ تہذیب و تمدن ہے اور سیاست کے ایسے اصول ہیں جو دنیا کو بے لاگ عدل و انصاف فراہم کر سکتے ہیں اور جن کے ذریعے ہر طرح کے ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی برتری کا یہ یقین صرف ان لوگوں میں نہیں ہے جو دورِ جدید سے بے خبر اور قدامت پسندسمجھے جاتے ہیں، بلکہ ان افراد میں بھی پرورش پا رہا ہے جو مغرب میں پیدا ہوئے، اس کی گود میں پلے بڑھے اور جن کی تعلیم و تربیت ان کے اداروں میں ہوئی اور جن کی ذہن سازی میں وہ مستقل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کے لیے تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں وہ مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وہ مغرب کے فکر کو برداشت تو کر رہے ہیں، قبول نہیں کررہے ہیں۔
۳۔ اس وقت عالم اسلام میں ، بلکہ پوری دنیا میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جو اسلام کو ایک غالب قوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اس صورتِ حال پر قانع اور مطمئن نہیں ہیں کہ دنیا پر فرماں روائی غیر اسلامی افکار کی ہو اور اسلام محکوم بن کر رہے۔ ان تحریکات کے طریقہ کار میں حالات کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن یہ سب اسلام کو سربلند اور غالب دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مغرب کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان تحریکات کے اثرات پھیل رہے ہیں۔ یہ آج کمزور ہیں لیکن کل طاقت ور ہو سکتی ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلم راہنماؤں اور ان کی نمایاں شخصیتوں کی تصویر بگاڑی جا رہی ہے، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں دستوری اور قانونی طریقے سے بھی کامیاب نہ ہونے پائیں اور کامیاب ہوں تو انہیں اقتدار میں آنے سے کسی نہ کسی طرح روک دیا جائے۔
۴۔ مغرب کو یہ فکر بھی پریشان کر رہی ہے کہ مسلم ممالک مادی لحاظ سے بھی اس موقف میں ہیں کہ وہ اس کے حریف بن سکتے ہیں۔ کسی کو فکر کو آگے بڑھانے اور اسے غالب کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہیں۔ ان وسائل پر گو اس وقت عملاً قبضہ مغربی طاقتوں ہی کا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا یہ قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی مادّی ترقی، خوشحالی اور اقتدار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے انہوں نے بیشتر ممالک کے سربراہوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ وہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو مسلم ملک ان کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے، اسے ختم کرنے کی ہزار تدبیریں ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ صورتحال دائمی نہیں ہے یہ بدل سکتی ہے۔ وہ آزادانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کے موقف میں ہو سکتے ہیں۔ اس وقت غالب امکان اس کا ہے کہ ان کے وسائل و ذرائع اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال ہوں۔ یہ چیز مغرب کے لیے باعث تشویش ہے۔
اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں مغرب کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہر صاحب دانش انہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فکری اور تہذیبی کمزوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور وہ مغرب کے عین مراکز میں خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی فطری خوبیاں لوگوں کواپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ صورتحال بظاہر اسلام کے حق میں ہے لیکن خود اسلام کے ماننے والوں کو مختلف قسم کی کمزوریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب تک وہ ان پر قابو نہ پالیں اور اسلام کا نمونہ نہ پیش کریں اسلام کی سربلندی کی تمنا پوری نہیں ہو سکتی۔ یہاں بعض کمزوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اساس پر امت مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ وہ اس پر اپنے ایمان و یقین کا آج بھی اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی دین کے تابع ہو اور اس کا ہر قدم دین کی راہنمائی میں اٹھے، لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ دین کی اس پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے، جو شخص دیندار تصور کیا جاتا ہے، اس کی پہچان یہ تو ہے کہ وہ نماز روزے اور بعض اخلاقیات کا پابند ہے، باقی یہ کہ اس کی شخصیت اس حیثیت سے نمایاں نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بھی درد مند دل رکھتا ہے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کر رہا ہے۔ اس طرح پوری ملت کی کوئی مضبوط دینی پہچان نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ایک محدود دائرے میں۔ سماجی یا معاشرتی سطح پر اس کا دینی کردار دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
۲۔ آدمی کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت اور احترام پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس سے آگے اگر کوئی قوم اخلا ق و کردار کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو اس کا اعتبار قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا اس پر بھروسہ کرنے لگتی ہے اور اس کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت و کردار کے لحاظ سے یہ امت کہیں بھی نمایاں نہیں ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہے کہ وہ اخلاق کی پابند ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے راست باز اور قول و قرار کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، رشوت نہیں لے سکتے اور کسی غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ امت کبھی ایسے افراد سے خالی نہیں رہی اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جا سکتے ہیں جن کے اخلاق قابل رشک ہیں اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی جاتے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں ہے، بلکہ اس کی اخلاقی کمزوریاں اس کی خوبیوں کے مقابلہ میں زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں جب تک تبدیلی نہ ہو امت کا اعتبار قائم نہیں ہو سکتا۔
۳۔ مغرب کے سیاسی اقتدار اور اس کی تعلیم و تہذیب کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر قائم ہے۔ اس کے فروغ سے امت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے اندر بھی دین و دنیا کی تقسیم عمل میں آگئی۔دینی اور دنیوی یا سیکولر تعلیم کے الگ الگ ادارے وجود میں آگئے اور دونوں کے میدان کار بھی الگ ہو گئے۔ امت نے عملاً یہ تسلیم کر لیا کہ علمائے دین انفرادی اور شخصی امور و معاملات میں دینی راہنمائی فراہم کریں گے اور سیکولر تعلیم پائے ہوئے افراد کی قیادت اجتماعی اور سیاسی امور میں ہوگی۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ربط و تعلق اور ایک دوسرے کے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں رہی۔ اس وجہ سے امت سخت کشمکش میں ایک مدت سے مبتلا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت تقسیم نہیں ہو سکتی۔ اگر تقسیم ہو گی تو اس کا ایک متعین رخ نہ ہوگا، بیشتر معاملات میں وہ تضاد کا شکار ہو گی اور کبھی ذہنی اور عملی یکسوئی اسے حاصل نہ ہو گی۔ اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر معاملہ میں دینی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت آج کے حالات میں اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب کہ علمائے دین اور سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان بہت ہی مضبوط ربط و تعلق ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے علم و تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، جس طبقہ میں جس پہلو سے کمی ہے اسے دور کرنے میں اسے تامل نہ ہو اور دونوں طبقات مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ کوئی دوسرا مقصد ان کے سامنے نہ ہو۔
۴۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کے درمیان اصول اور اساساتِ دین پر اتفاق ہے۔ البتہ تفصیلی احکام و مسائل میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات دورِ اول سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اختلافات نے بہت ہی ناپسندیدہ شکل اختیار کر لی ہے۔ اس کا اثر شخصی، سماجی اور معاشرتی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ آپس میں دوری پائی جاتی ہے اور ہر فریق دوسرے کو حریف کی حیثیت سے دیکھنے لگا ہے۔ دین و شریعت اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے رویہ میں تبدیلی آئے اس کے لیے بعض باتوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
یہ اختلافات اصول میں نہیں فروع میں ہیں، جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر علمی ہے۔ اسے علمی موضوع ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ ان کا اثر آپس کے تعلقات پر نہ پڑنے پائے۔ بسا اوقات ہمارے نزدیک اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے لیے سوچتے اور تدبیر کرتے ہیں۔ ملت کا مفاد پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملت کا وسیع تر مفاد پیش نظر ہو تو ہم اپنے اختلافات پر قابو پا سکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اپنی حدود میں رہیں اس کے اندر انہیں برداشت کرنے کا مزاج پیدا ہو جائے تو وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہوگی۔ اسی لیے اب مغرب کی بھی کوشش ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی رہے تاکہ یہ امت آپس ہی میں دست و گریباں رہے اور اصل حریف کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ علی گڑھ)
Leave a Reply