
ہمارے آج کل کے ماحول میں لفظ ’’فلسفہ‘‘ ایک عجیب تاثر ابھارتا ہے۔ اس کے متعلق مختلف اور متضاد رویے پیدا ہوتے ہیں اور کئی لوگوں کے ذہن میں یہ ایک معمہ کی صورت رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عام لوگ جن میں بالکل ہی عام آدمی سے لے کر اوسط درجے کا پڑھا لکھا فرد بھی شامل ہے‘ فلسفہ کو بجا طور پر ایک نہایت ہی عمیق مضمون سمجھتے ہیں۔ اس خیال سے وہ دوسرا گمراہ کن خیال بھی نکلتا ہے جس کے بموجب ہر وہ بات جو انوکھی‘ عجیب اور تضادات سے بھرپور ہو وہ غالباً فلسفہ ہے۔ موخرالذکر خیال کم از کم ہماری طرح کے کم خواندگی اور اس سے بھی کم فہم و سمجھ کی شرح والے معاشروں میں نہ صرف رواج پاگیا ہے بلکہ غلبہ حاصل کر گیا ہے۔
یہ تمہید اس لیے باندھی گئی ہے کہ اس مضمون کا تعلق اسلامی فلسفہ سے ہے۔ وہی تاثر جو لوگوں کے ذہنوں میں فلسفہ کے حوالے سے قائم ہے اس کو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسلامی فلسفہ سے بھی وابستہ کیا جاسکتا ہے بلکہ کیا جاتا ہے‘ کیونکہ اسلامی فلسفہ اصطلاحاً اور حقیقتاً فلسفہ کی ایک خاص قسم ہے۔ ہم اسی نکتہ سے اپنی گذارشات کا آغاز کرنا چاہیں گے۔
ہم نے اوپر عرض کیا ہے کہ اسلامی فلسفہ‘ فلسفہ کی ایک خاص قسم ہے۔ اس ضمن میں تین باتیں ابتدائی طور پر قابلِ ذکر ہیں:
(۱) ’’فلسفہ‘‘ کی تعریف۔
(۲) ’’فلسفہ‘‘ کی خصوصی تعریف۔
(۳) ’’اسلامی فلسفہ‘‘ کی تعریف۔
لفظ فلسفہ‘ یونانی الفاظ philo – sophia کی عربی صورت اور مماثل ہے۔ یونانی اصطلاح کے معنی ہیں ’’حکمت سے محبت‘‘۔ یہ اصطلاح پہلے پہل مشہور قدیم فلسفی فیثا غورث نے استعمال کی تھی۔ فیثا غورث کے نزدیک حکمت کے کئی مدارج تھے‘ جن میں سے اعلیٰ ترین درجہ اس حکمت کو حاصل تھا جس کے تحت تفکر کو حق تک پہنچنے کا وسیلہ بنایا جاتا تھا۔ ارسطو کے لیے حکمت بلکہ حکمت مطلقہ (Wisdom-Sophia) تو صرف باری تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہے۔
انسان کے لیے تو یہی درجۂ کمال ہے کہ وہ حکمت سے محبت کرے اور یہ محبت صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ انسان کا ہر عمل اس کے علم کی عکاسی کرے اور یہ علم کائنات اور اس کی اشیا کے حقائق کا علم ہو گا۔ یوں انسان خود بھی ایک کائنات صغریٰ کی مانند ہو سکتا ہے۔ یہی فلسفہ (philo-sophia) ہے۔
گو کہ سقراط سے قبل اور اس کے بعد عیسائیت کے ظہور تک یونان میں کوئی باقاعدہ مذہب (Revealed Religion) وجود نہیں رکھتا تھا مگر یونانی مفکرین کی ایک بڑی اکثریت کسی نہ کسی طرح اس بات کی معترف تھی کہ عقلِ انسانی بغیر تائید ایزدی کے چیزوں اور کائنات کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ البتہ ان کے ہاں وحی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تاہم قدیم یونانیوں کے ہاں یہ شعور مختلف صورتوں میں اور مختلف حدود تک موجود تھا کہ جسے ہم ’’حقیقت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں وہ محض اس مادی اور حسی سطح حیات کا نام نہیں جس پر ہم اپنی عام زندگی گزارتے ہیں بلکہ ’’حقیقت‘‘ کے اس کے علاوہ اور اس سے بالاتر کئی درجات ہیں۔ لہٰذا ان کے ہاں ہمیں مادے کے علاوہ نفس‘ عقل اور روح جیسے حقائق کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔
مسلمانوں کے ہاں اس فکر کے متعارف ہونے سے پہلے ہی معاشرہ میں ایسے اور ان سے ملتے جلتے افکار مروج تھے۔
ان سے ملتے جلتے سے ہماری مراد یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں پہلے ہی سے یہ سوال کافی اہمیت کا حامل تھا کہ آیا انسان آزاد اور خودمختار ہے یا مجبورِ محض۔ اسی طرح صدر اسلام میں ایک خاص حلقے میں ایسے نہایت عمیق سوالات کی بھی کثرت ملتی ہے جن کا تعلق اس بات سے تھا کہ کائنات کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا اپنے خالق و معبود کے ساتھ کیا تعلق ہے اور انفرادی طور پر بنی نوع انسان کا اور من حیث المجموع کائنات کا نصب العین کیا ہے؟ اس کا ثبوت ہمیں نہج البلاغہ کے موضوعات کے سرسری مطالعے سے مل جاتا ہے۔ نہج البلاغہ حضرت علیؓ کے خطبات‘ مراسلات اور اقوالِ زریں کا مجموعہ ہے۔ ان خطبات‘ مراسالت اور اقوال کا تعلق ۳۵ھ تا ۴۰ ہجری سے ہے۔ کوئی انتہائی متعصب مورخ بھی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ اس دور کے افکار مسلمانوں نے یونانیوں یا رومیوں سے مستعار لیے تھے۔
امر واقع یہ ہے کہ جب یونانیوں کی فلسفیانہ تصانیف کا ترجمہ عربی میں ہوا تو مسلمانوں نے دیکھا کہ یہ ایک ایسا طرزِ فکر ہے جس کا تعلق حکمت سے ہے۔ مسلمانوں کے لیے چاہے وہ کسی دور سے تعلق رکھتے ہوں‘ حکمت ایک خاص اور ممتاز مقام رکھتی ہے کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست اس درجۂ علم سے ہے جو نبوت کا خاصہ ہے۔ مثلاً سورۂ جمعہ کی آیت نمبر۲ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اسی (ذاتِ باری تعالیٰ) نے امیوں میں انہیں کے اندر سے رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا‘ ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا رہتا ہے اور اس سے قبل وہ یقینا صریح گمراہی (غفلت) میں تھے‘‘۔
اسی طرح سورۂ لقمان (آیت۱۲) میں حضرت لقمان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تاکہ وہ اﷲ کا شکر ادا کرے اور جو کوئی شکر کرے گا اپنے ہی فائدہ کے لیے کرے گا اور جو کوئی ناشکری کرے گا تو یقینا اﷲ تو بے نیاز اور لائقِ حمد ہے‘‘۔
سورۂ بقرہ میں باری تعالیٰ نے حکمت کو خیر کثیر کے برابر قرار دیا ہے۔ آیت نمبر۲۶۹ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’(اﷲ تعالیٰ) جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت عطا کی گئی پس یقینا اس کو خیر کثیر عطا کی گئی‘‘۔
درج بالا آیات وافی ہدایہ کے حوالے سے یہ چند باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں:
(۱) حکمت‘ علم کا وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جس کی ترسیل و تبلیغ نبی مرسل ہی کے ذریعہ ممکن ہے کیونکہ ایک طرف تو اس کا تعلق وحی ربانی سے ہے اور دوسری طرف تزکیہ نفوس اور علم کتاب سے ہے۔ یاد رہے کہ سورۂ جمعہ کی جس آیت کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے وہ خود قبولیت دعا کی صورت ہے‘ کیونکہ بعینہٖ انہی الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ نے ربِ تعالیٰ سے اپنی ذریت میں ایک نبی کو مبعوث کرنے کی دعا کی تھی۔ سورۂ جمعہ میں اس دعا کو رسولِ اکرمﷺ کی صورت میں پورا ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
(۲) حکمت کا تعلق معرفت رب سے ہے کیونکہ بغیر معرفت کے شکر ممکن نہیں اور سورۂ لقمان کی آیات میں حکمت کا تعلق حمد اور شکر رب سے بتایا گیا ہے۔
(۳) حکمت چونکہ خالصتاً اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے لہٰذا اس سے وصل اور توسل کیے بغیر حکمت تک رسائی ممکن نہیں۔ (بعد کے ادوار میں فلسفہ مسلمانوں کے لیے ’’حکمۃ لدنیۃ‘‘ کہلایا یعنی وہ حکمت جو عین بارگاہِ ایزدی کی عطا ہو۔ انہی معنوں میں یہ خیر کثیر ہے۔
ہم نے یہاں محض سمجھانے کی خاطر چند کلیدی آیات قرآنی کا ذکر کیا ہے ورنہ حکمت کا ذکر تو اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر کتابِ حکیم میں آیا ہے۔ یہ تمام تفاہیم ان مسلمان مفکرین کے ذہنوں میں راسخ تھے جو فلسفہ کو بطور علم اسلامی تہذیب میں روشناس کروانے کے خواہشمند تھے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی موجودگی میں اس علم کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ نبوی کا مخاطب بلاامتیاز تمام عالمِ انسانیت ہے‘ مگر اسی عالمِ انسانیت میں مختلف عقل و فہم والے لوگ رہتے ہیں اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو نہایت گہری فکر رکھتے ہیں اور جن کی بیشتر فکر تجریدی انداز کی ہوتی ہے اور جو بے حد بنیادی اور عمومی نوعیت کے سوالات رکھتے ہیں۔ وہ کائنات اور اس کے اجزا کو ایک نظم اور ترتیب کے انداز اور رشتے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایک نظام کے تحت وہ خالق‘ مخلوق اور کائنات کے رشتوں کو عقلی طور پر دیکھ اور سمجھ سکیں۔ یہ کام فلسفے کا ہے‘ اس فلسفے کا جو بطور حکمت اپنے مقام اور مرتبہ کو سمجھے اور جو آسمانی ہدایات اور پیغامات وحی اور ارشادات نورانی پیغمبرؐ سے حتی الامکان استفادہ اور رہنمائی حاصل کر سکے۔ اس سلسلے میں فلاسفہ کی رہنمائی سب سے زیادہ اس دعاے نورانی رسالت مآبؐ سے ہوئی کہ ’’اے اﷲ! مجھے چیزوں کو اس طرح دکھا دے جیسا کہ وہ درحقیقت ہیں‘‘۔
سترہویں صدی کے مشہور عارف کامل اور فیلسوف کبیر حضرت صدرالدین شیرازی عرف ملا صدرا نے اپنی ہر کتاب کے آغاز میں اس دعاے پیغمبرؐ کو نقطۂ ہدایت کے طور پر لیا ہے۔ ملا صدرا کے نزدیک خصوصاً حق تک پہنچنے کے لیے تین راستے ہیں: عقل‘ وجدان اور وحی۔
عقل کا تصور روایتی فلسفے اور اسلامی فلسفے میں مشترک ہے۔ مگر ہمارے ہاں یہ نزاعی بھی ہے اور مرکزی بھی۔ نزاعی اس لیے کہ کچھ مفکرین اور ان کے مخالفوں نے اس تصور کو اس طرح اور اس مفہوم میں لیا جیسا کہ وہ یونانیوں کے ہاں تھا۔ یعنی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی خالص انسانی صلاحیت کے طور پر‘ جبکہ ہماری تہذیب میں کبھی بھی‘ کسی وقت بھی ایسا تصور کوئی جگہ نہیں رکھتا تھا اور نہ رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں عقل کا جو تصور رہا ہے وہ ان باتوں سے واضح ہو جائے گا:
(۱) قول رسولِ کریمؐ! ’’اﷲ تعالیٰ نے جو چیز پہلے پہل خلق کی وہ عقل ہے‘‘۔
(۲) حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں عقل سے زیادہ قابلِ قدر کوئی چیز بھی تقسیم نہیں کی‘‘۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’عقل وہ ہے جس سے رحمن کی عبادت کی جاتی ہے اور جنتیں حاصل کی جاتی ہیں‘‘۔
قرآنِ کریم میں جہاں کہیں انسانوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً دعوت تعقل دی گئی ہے وہ انہی معنوں میں ہے۔ الکندی سے لے کر ملا ہادی سبزواری تک عقل کا یہی مفہوم لیا گیا ہے۔ دراصل بدقسمتی سے چند لوگوں کے پیشِ نظر یہ باتیں نہیں تھیں۔ لہٰذا جب انہوں نے دیکھا کہ فلاسفہ عقل کی بات کر رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ یہ تو وہی مغربی انداز ہے جس میں انسان صرف اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو بڑا سمجھ کر تصویرِ کائنات بناتا ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہمارے ہاں عقل ایک روحانی قوت اور صلاحیت کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں تقسیم کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ سوچنے‘ سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے مگر اس کابہت گہرا تعلق ارادے اور عمل سے ہے‘ اس طرح سے کہ انسان جس قدر بھی عقل کی باتوں کو اپنے عمل میں ڈھالے گا اسی قدر اس کی یہ صلاحیت قوی تر ہوتی جائے گی۔ یہاں عقل کی باتوں سے مراد وہی باتیں ہیں جو انسان کو اِطاعتِ رب کے ذریعے اس کے قریب کرتی ہیں۔ اسی لیے ہمارے ہاں جاننے (Knowing) کو ہونے یا تعمیر ذات (Being) سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا گیا ہے۔ بالکل اس کا دوسرا اور شدید تر رخ یہ ہے کہ کوئی بھی فرد حقائق کو صرف اسی قدر گہرائی اور پختگی سے جان سکتا ہے جس قدر اس نے اپنے کردار اور اخلاق کی تعمیر کی ہو۔ لہٰذا اسلامی فلسفے میں عقل کا تعلق ایک طرف تو حصولِ علم سے ہے اور دوسری طرف عمل سے یعنی تعمیرِ ذات سے۔ نتیجتاً علم اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ ایک لازم ہے اور دوسرا ملزوم۔
اس آخری بات کے کچھ اور عواقب اور نتائج نکلتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ علم صرف ظاہری حسی تجربہ کا نام نہیں ہے کیونکہ ہر شے کی حقیقت تہہ دار ہے۔ جتنی گہرائی آپ کی عقل اور کردار میں ہو گی اسی قدر آپ شے کو اس کے نہ صرف ظاہر بلکہ باطن کے حوالے سے بھی سمجھ سکیں گے۔ انہی معنوں میں شاعر نے کہا ہے:
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
اور دوسرا نتیجہ یہ کہ کائنات خود ایک تہہ دار حقیقت ہے۔ یہ محض مادی سطح کی کوئی چیز نہیں کہ جس کے معنی اور حقیقت اس کے ظاہر تک محدود ہوں بلکہ کائنات ایک ایسی تحریر ہے جس کے معنی لطیف اور عمیق ہیں اور صرف عقلی اور روحانی تجربوں اور پختگی ہی سے قاری پر کھلتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ اسلامی فلسفہ کے لیے کائنات کے درجات میں مادی سطح حیات تو ادنیٰ ترین سطح ہے اور ان سے اعلیٰ سطحیں نفسی‘ اخلاقی‘ خیالی اور روحانی ہیں جو سب کی سب لطیف اور غیرمادی ہیں اور عقیدۂ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ ظاہری یعنی مادی سطح کو نظرانداز کرنے کے بجائے اسے روحانی سطح سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا نصب العین ہے۔
ان دونوں باتوں سے نکلنے والا تیسرا اور اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان فلسفی کائنات کو قدر کی جس نگاہ سے دیکھتا ہے اور جس ترازو میں تولتا ہے وہ ہے قربِ الٰہی۔ اس کائنات کی وجودی (Ontological) درجہ بندی مختلف فلاسفہ نے مختلف انداز سے کی ہے مگر ہر ایک میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ درجہ بندیاں ان فلاسفہ کی اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں کی گئیں بلکہ اس میں واحد معیار ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ جس سطح ہستی کا تعلق باری تعالیٰ سے جتنا قریب ہو گا وہ کائنات میں اسی قدر بلند ہو گی۔ لہٰذا ایک اسلامی تصور کائنات میں مرکزی نکتہ تو ذاتِ کبریا کا ہے مگر چونکہ ذاتِ کبریا ماوراے مطلق ہے لہٰذا وہ خالق اسباب و علل تو ہے مگر اس کو کائنات کے سانچے میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ دوسری طرف یہ شعور بھی واضح ہے کہ کائنات کا کوئی بھی ذرہ اس معبودِ حقیقی کی دسترس اور اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں بلکہ ہر ذرہ اسی کی جلوہ گری ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں ہم کچھ مشہور مسلمان فلاسفہ کی پیش کی ہوئی فلسفہ کی تعریفات یہاں نقل کریں:
(۱) پہلے مسلمان فلسفی جناب الکندی فرماتے ہیں: ’’فلسفہ اشیا کی حقیقت کو جاننے کا علم ہے جس قدر کہ انسان کے بس میں ہے کیونکہ فلسفی کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے نظری علم میں حق تک پہنچے اور عملی طور پر اس حق سے مطابقت پیدا کرے‘‘۔
(۲) شیخ الرئیس بو علی سینا فرماتے ہیں: ’’حکمت نفس انسانی کی اس تکمیل کا نام ہے جس میں (انسان) اشیا اور امور کے (صحیح) تصور تک پہنچتا ہے اور جس میں نظری اور عملی حقائق کے متعلق تحاکم قائم کرتا ہے جتنا بھی انسان کی صلاحیت کے بس میں ہے‘‘۔
(۳) اخوان الصفا یوں فرماتے ہیں: ’’فلسفہ کی اول علوم سے محبت ہے‘ اس کا وسط اشیا کے حقائق کا علم جس قدر کہ انسان کی استعداد ہو اور اس کا آخر اس علم سے مطابقت رکھنے والا قول اور عمل‘‘۔
(۴) شیخ شہاب الدین سہروردی نے جو ایک باکمال صوفی بھی تھے‘ حکمت کو عرفان الٰہی سے ملتزم کر دیا اور صاحبِ حکمت کے لیے انہوں نے ’’متالہہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کے معنی ہیں وہ جو اپنی صفات میں خدا نما ہو گیا ہو۔ لہٰذا شیخ الاشراق کے نزدیک حکمت کے معنی ہیں وہ عمل جس کے ذریعہ نفس روحانی حقائق اور معقولات کا پرتو بن جاتا ہے‘‘۔
(۵) موخرالذکر لقب کا مصداق سترہویں صدی کے عظیم فلسفی اور حکیم صدرالدین شیرازیؒ بنے جنہوں نے فلسفۂ اسلامی کو حکمتِ الٰہی کی صورت میں ایک زبردست جلا بخشی جو بفضلہ تعالیٰ آج تک قائم و دائم ہے۔ آپ کو ملا صدرا کی عرفیت سے جانا جاتا ہے۔ آپ نے حکمت کی تعریف یوں کی کہ ’’فلسفہ نفس کی تکمیل کے اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے نفس اپنے امکان کی حد تک اشیا کے عین حقائق کو جانتا ہے‘ جیسا کہ وہ (جواہر اشیا) ہیں اور ان کے وجود کے متعلق عقلی قضیوں تک برہان کے ذریعے پہنچتا ہے نہ کہ محض رائے اور تقلید کے ذریعے‘ اور اگر آپ چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ (فلسفہ نام ہے) کائنات کو معقول نظم اور ترتیب دینے کا جس قدر بھی انسان کے لیے ممکن ہو تاکہ اس کے ذریعے وہ باری تعالیٰ کا پرتو بن جائے‘‘۔
ان سب تعریفوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی فلسفہ میں جہاں علم اور عقل کو بنیادی اور مرکزی مقام حاصل ہے وہاں ’’مابعدالطبیعیات‘‘ کو کلیدی‘ بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس اصطلاح کا تعلق اس قرآنی تصور سے ہے جو عالمِ غیب کہلاتا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے عموماً اور مسلم مفکر کے لیے خصوصاً عالمِ غیب صرف عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تجربی حقیقت ہے۔ اسلامی کائنات میں مقصد اور معنویت کی بنیاد یہی سطح ہے محض عقیدتاً نہیں بلکہ حقیقتاً کیونکہ مسلم فلاسفہ جو تصور عقل و علم رکھتے ہیں اس کے تقاضے اس عالم کے تجربہ کے بغیر اور اس کی عکاسی کیے بغیر پورے ہی نہیں ہوتے۔ روایتی فلسفہ میں اس دائرہ کو مابعد الطبیعیات کہتے ہیں اور یہ ہر اسلامی فلسفے کا ناگزیر حصہ ہے۔۔۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: سہ ماہی مجلہ ’’پیغامِ آشنا‘‘۔ اسلام آباد)
Very nice, knowledgeable material