اسلامی جمہوریہ موریطانیہ

فرانس سے آزادی

فرانس سے آزادی کے ۱۲ برس تک یعنی ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۲ء کے درمیان اسلاک ری پبلک آف موریطانیہ سیاسی اِستحکام اور اِقتصادی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ اس ملک کو اِس دوران نہ صرف خشک سالی کا سامنا ہوا بلکہ ۱۹۷۰ء کی پوری دہائی میں اقتصادی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے بعد ۱۹۷۲ء اور ۱۹۸۷ء کے درمیان خشک سالی اور مغربی صحارا میں جنگ کے ماحول نے اسے متاثر رکھا۔ پورا ملک قرض میں پھنسا ہوا ہے اسے عرب ممالک اور فرانس کی امداد کے سہارے آگے بڑھنا پڑ رہا ہے۔ ابتدائی صدی میں فرانسیسی کالونی کے طور پر استعمال ہونے والا یہ ملک شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ کے درمیان رابطہ کا کام کرتا رہا ہے۔ ۹ ویں صدی کے بعد پورے ملک میں اسلام پھیل گیا تھا لیکن اس کے باوجود اس ملک میں اتحاد قائم نہیں ہوسکا۔ شمال اور جنوب سے آنے والے لوگوں نے مقامی لوگوں پر اپنا اثر قائم کرلیا تھا۔ سب سے پہلے تیسری صدی عیسوی میں بربر‘ شمال سے یہاں آئے اور انہوں نے ملک کے زیادہ تر حصہ پر اپنا تسلط جما لیا۔

مقامی لوگ یا تو ان کے غلام بن گئے یا پھر انہوں نے ان کے یہاں ملازمت شروع کر دی یا پھر جنوب کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد اس ملک میں سوڈانی‘ مالی اور سوگا کے باشندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد ملک میں آمد کی تیسری ہوا اس وقت چلی جب یمنی عرب باشندوں نے یہاں آکر بسنا شروع کردیا۔ اس وقت ایک یمنی گروپ بنی حسن نے ملک پر اقتدار قائم کیا اور اب اسی گروپ کا ملک میں اقتدار ہے اور ان کی اکثریت ہے۔ اس ملک کے سیاہ فام باشندوں کو سینیگال کی طرف روانہ ہونا پڑا۔

۱۶ ویں صدی میں یورپ نے موریطانیہ میں دلچسپی لینی شروع کردی اور سینٹ لوئس کے فرانسیسی تاجر یہاں آنے لگے اور پھر انہوں نے ملک میں اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ ۲۸ نومبر ۱۹۶۰ء میں ملک کو فرانس سے آزادی ملی اور مختار احمد داؤد ملک کے پہلے صدر بنے اور انہوں نے منتشر موریطانیہ کو متحد کرنے کی کوشش شروع کردی۔ آزادی کے پہلے ۱۰ برسوں تک ملک منقسم رہا۔ ملک کے جنوبی حصہ کے سیاہ فام باشندے سیاسی طور پر حاوی رہے۔ ۱۹۷۵ء میں موریطانیہ نے مراکش کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور پولیساریو گوریلاؤں کے خلاف جنگ لڑی اور اس کے بعد عظیم موریطانیہ کی بنیاد ڈالی گئی۔

ایک اور انقلاب

۳ اگست ۲۰۰۵ء اسلامک ری پبلک آف موریطانیہ کے لیے اہم ترین دن تھا جب ملک کی فوج کے سربراہ کرنل علی احمد محمد نے صدر معاویہ سید احمد لتائع کی ۲۰ سے ۳۰ سالہ دور اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا جو اس وقت نائجیریا میں تھے۔ ملک کے اہم مقامات پر جب فوج نے قبضہ کیا تھا تو ہر طرف جشن منایا گیا لیکن اس انقلاب کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی۔ جس وقت ملک میں بغاوت ہوئی تھی اس وقت صدر تائع سعودی عرب کے حکمراں شاہ فہد کے جلوس جنازے میں شریک تھے لیکن ملک میں انقلاب کی خبر ملتے ہی وہ نائجیریا کے دارالخلافہ نیامے آگئے۔ جس وقت قومی ریڈیو پر انقلاب کی خبر کا اعلان کیا گیا تو لوگ جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ اپنی کاروں کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ صبح ۵ بجے ہی اسلحہ بند فوجی گاڑیوں اور فوجیوں نے قومی ریڈیو اور ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کر لیا تھا۔ ذرائع اِبلاغ کی جانب سے نشریات بند کرنے کے ساتھ ہی ایئرپورٹ بند کردیا گیا تھا۔

باغی فوجیوں نے اس سے قبل جون ۲۰۰۳ء میں بھی تائع کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی تھی جبکہ اس سے قبل ۲۰۰۴ء میں بھی انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

صدر تائع نے بھی بغاوت سے اقتدار حاصل کیا تھا:

صدر تائع نے دسمبر ۱۹۸۴ء میں پُرامن انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد تین مرتبہ وہ عام چناؤ میں صدر منتخب ہوئے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے اسلام پرستوں کو ناراض کردیا کیونکہ ملک ایک اسلامی ری پبلک ہے۔ ملک کے ناقدین کا کہنا تھا کہ صدر تائع نے ان کے مخالف اسلام پرستوں کے خلاف امریکا کی جانب سے چھیڑی گئی دہشت گردی کی لڑائی کا استعمال کیا تھا۔

تائع کی اس لیے بھی ملک بھر میں سخت مخالفت ہوئی تھی کہ انہوں نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرلیے تھے۔ اس سال کے اوائل میں سباق صدر محمد خونہ احمد سمیت ۲۰۰ افراد پر مبینہ بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ ملک کے نئے صدر علی محمد آل نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ واضح کر دیا ہے کہ انہیں اقتدار کی کوئی ہوس نہیں ہے۔

سماج اور نسل

موریطانیہ بنیادی طو رپر تین نسل کے لوگوں میں تقسیم ہے۔ ایک قسم عربی بولنے والے گورے لوگوں کی ہے تو دوسری نسل غلاموں کے خاندان کی اور تیسری نسل سیاہ فام مغربی افریقہ کی زبان بولنے والے لوگوں کی ہے۔ ملک کی تقریباً پوری آبادی سنی مسلمانوں کی ہے جو مالکی مسلک کے ماننے والے ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*