
عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کیا اُٹھی، دنیا بھر میں جِہادی تحریکوں کو نئی زندگی مل گئی۔ عرب دنیا میں عوامی سطح پر اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا جذبہ بیدار ہوا تو جہادیوں کو بھی اپنی صفوں میں نئے رنگروٹ لانے کا موقع ملا۔ کئی ممالک میں نوجوانوں کو بہلا پُھسلا کر جہادی تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کرنے میں غیر معمولی مدد ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ اور اس کی ہم خیال دیگر جہادی تنظیموں اور گروپوں نے ایک نئے جذبے اور لگن کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ عراق اور شام میں القاعدہ سے الگ ہوکر ایک گروپ نے اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے نام سے کام شروع کیا۔ یہ گروپ انتہا پسندی کے معاملے میں واقعی انتہا پسند ثابت ہوا۔ غیر معمولی تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانے کی خاطر داعش نے دشمنوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے متعلق ہر وہ حربہ آزمایا جس کے بارے میں صرف سوچا جاسکتا ہے۔ داعش نے اب تک یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ اپنی ’’مقبولیت‘‘ کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتی۔ اس تنظیم نے اپنے زیرِ تصرف علاقوں میں طاقت کے استعمال کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں، جنہیں دیکھ کر اپنے اور پرائے سبھی خوف کی شدت سے کانپ اٹھتے ہیں۔
عرب دنیا میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر نے جنم لیا تو القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ عرب اور افریقی خطے کے کئی ممالک تبدیلی چاہتے تھے۔ نئی نسل کسی بھی حقیقی تبدیلی کے لیے جان کی بازی لگانے کو بھی تیار تھی۔ جہادی گروپوں کو یہی تو درکار تھا۔ جب لوگ مرنے کے لیے تیار ہوں تو اُنہیں موت کی طرف آسانی سے دھکیلا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر، لیبیا اور تیونس میں پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی اور عدم استحکام نے نوجوانوں کو جہادی تحریکوں کی طرف دھکیل دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ممالک میں بہت کچھ تبدیل ہو۔ اقتدار پر قابض مفاد پرست عناصر سے چھٹکارا پانے کی تمنا سب کے دل میں تھی۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ مصر اور لیبیا میں حالات کی خرابی نے جہادی گروپوں کو اور زیادہ کھل کر کام کرنے کا موقع دیا۔ معاملات جب زیادہ بگڑے تو یمن بھی جہادی تحریکوں کی گرفت میں آگیا اور یہاں سے انہوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ جزیرہ نما عرب میں پیدا ہونے والے تیل کا بڑا حصہ یمن کے پاس سے گزرتا ہوا بحرِ ہند میں داخل ہوتا ہے۔
القاعدہ اور داعش کے درمیان جہادی تحریک کی سربراہی کے حوالے سے جو اندرونی کشمکش چلتی آئی ہے، اس نے عراق اور شام کے علاوہ لیبیا، مصر، تیونس اور مالی وغیرہ میں بھی بہت کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔ یہ سب کچھ جہادی تحریکوں میں بھی اندرونی کشمکش کا باعث بنا ہے۔ دنیا بھر میں جہادی تحریکوں کو نئی زندگی دینے والے حالات نے اب قیادت کی لڑائی بھی تیز کردی ہے۔ القاعدہ کو عالمگیر جہادی تحریک کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جب تک اسامہ بن لادن زندہ تھے، تب تک عالمگیر جہادی تحریک سے وابستہ تمام چھوٹے بڑے گروپ القاعدہ کے پرچم تلے جمع تھے۔ کوئی بھی جہادی گروپ اپنے طور پر کچھ کرنے سے گریز کرتا تھا اور اس کی کوشش ہوتی تھی کہ جو کچھ بھی وہ کر رہا ہے، اسے القاعدہ کی باضابطہ حمایت حاصل ہو۔ اسامہ بن لادن نے تمام معاملات پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ جہادی تحریک ایک پرچم تلے رہے اور اس میں کبھی تفرقہ نہ پڑے۔ القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت کے بعد معاملات ایک نیا رخ اختیار کرگئے۔ جہادی گروپوں نے آزادانہ حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔ عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ نے جنم لیا۔ یہ گروپ دراصل القاعدہ ہی سے تعلق رکھتا تھا مگر جب طریق کار تبدیل کرلیا تو القاعدہ کی مرکزی قیادت نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ فروری ۲۰۱۴ء میں القاعدہ نے داعش کو الگ کیا۔ اس اقدام کے بعد عالمگیر جہادی تحریک کی سربراہی کے لیے کشمکش تیز ہوگئی۔ داعش سے وابستہ بڑی شخصیات چاہتی تھیں کہ جہادی تحریک کی قیادت داعش کے ہاتھ میں آجائے۔ ایسی صورت میں غیر معمولی سطح پر پذیرائی اور حمایت کا امکان تھا۔
جہادی تحریک کی قیادت کے حوالے سے القاعدہ اور داعش کے درمیان جاری لڑائی امریکا اور اس کے ہم خیال ممالک کے لیے ایک سنہرا موقع ہے۔ امریکا اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جہادیوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور یوں جہادی تحریک کے لیے بھی مشکلات بڑھیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ صورتحال سے کس طور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ امریکا اگر جہادی تحریک کی قیادت کے حوالے سے پائی جانے والی اندرونی کشمکش سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے پہلے دونوں بڑے گروپوں کے طریق کار میں پائے جانے والے اختلاف کو سمجھنا ہوگا۔
القاعدہ اور داعش دونوں ہی کا مقصد ایک ہے، عالمگیر خلافت قائم کرکے شرعی قوانین کا نفاذ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں گروپوں کے طریقِ کار میں اب زمین آسمان کا فرق ہے۔
القاعدہ نے ڈیڑھ عشرے تک طاقت کو اپنی بنیاد مانا ہے۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ القاعدہ کے قائدین چاہتے ہیں کہ تنظیم کو زیادہ سے زیادہ مقبولیت دلانے کے لیے اس کی سیاسی بنیاد بھی قائم کی جائے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ القاعدہ کی مرکزی قیادت اب تمام معاملات محض طاقت کے استعمال کے ذریعے درست کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس نے اپنی سوچ اور طریقِ کار دونوں میں تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے۔ القاعدہ کی قیادت چاہتی ہے کہ ہر معاملے میں بہت زیادہ شور نہ مچایا جائے یعنی بیشتر افعال خاموشی سے انجام دیے جائیں۔ اب تک القاعدہ خوف کی علامت رہی ہے مگر قائدین چاہتے ہیں کہ تنظیم کا ایک نرم چہرہ بھی ہو جسے دیکھ کر کوئی خوفزدہ نہ ہو بلکہ اس کی طرف بڑھ کر مقاصد اور حکمتِ عملی جاننے کے لیے متجسّس ہو۔ ایسی کوئی بھی تبدیلی راتوں رات رونما نہیں ہوجایا کرتی۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت بھی یہ بات جانتی ہے، یہی سبب ہے کہ بتدریج آگے بڑھنے کا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔
چند برسوں کے دوران القاعدہ کی قیادت نے اپنی تنظیمی ساخت اور طریقِ کار پر بہت غور کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ایک نئی تنظیم اُبھرے، جس سے کسی کو لازمی طور پر خوف محسوس نہ ہو۔ ایک دور تھا کہ القاعدہ ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتی تھی۔ ہر اقدام کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا۔ کہیں بھی کچھ ہوتا تھا تو القاعدہ فوراً بتا دیتی تھی کہ یہ سب اُس نے کیا ہے۔ اب بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ القاعدہ بے ڈھنگے انداز سے کام نہیں کرنا چاہتی۔ اب وہ اس بات کو لازم سمجھتی ہے کہ بہت کچھ ایسا بھی ہو، جو انتہائی خوشی سے کیا جائے، اِس طرح کہ اندرونی حلقے کے بہت سے لوگوں کو بھی علم ہی نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، یا کیا کیا جارہا ہے۔
بنیادی فلسفے اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے اب القاعدہ اور داعش میں بعد المشرقین والمغربین والی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ القاعدہ نے چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کا فلسفہ اور طریقِ کار اپنالیا ہے۔ دوسری طرف داعش نے فاشسٹ طریقِ کار اپنایا ہے۔ یہ طریقہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں کیوبا میں اپنایا گیا تھا۔ اس حوالے سے سب سے بڑا نام چی گویرا ہے، جو چھاپا مار کر ڈھنگ سے لڑنے پر یقین رکھتا تھا۔
ماؤزے تنگ نے چین میں انقلاب برپا کرنے کے لیے طویل اور خاصی صبر آزما جدوجہد کی تھی۔ ان کا بنیادی فلسفہ انقلاب برپا کرنے کا تھا، مگر وہ اس کے لیے زیادہ پُرتشدد انداز اختیار کرنے کے حق میں نہ تھے کیونکہ مختلف زمانوں میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں سے متعلق وسیع مطالعہ کرکے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کسی بھی حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ محض تشدُّد کی راہ پر گامزن نہ رہا جائے بلکہ فکر کی گہرائی کو بھی وقتاً فوقتاً اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہ سیاسی بصیرت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کی بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ انقلابی تحریک کی سیاسی اور فکری بنیاد بھی ہو، تاکہ عوام میں جانا اور ان سے بھرپور حمایت کی اپیل کرنا ممکن ہو۔ محض تشدد کی راہ پر گامزن رہنے سے عوام بِدک جاتے ہیں اور پھر اگر ان کے سامنے گزارشات رکھی جائیں تو وہ زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔
۲۰۱۰ء میں کینتھ پین نے اپنی کتاب ’’اسٹڈیز اِن کونفلکٹ اینڈ ٹیرراِزم‘‘ میں لکھا کہ القاعدہ نے فاکوئسٹ طریق کار اپنانا شروع کردیا ہے۔ تب تک واقعی ایسا تھا۔ القاعدہ کی طاقت گھٹ رہی تھی اور قائدین کو یہ فکر لاحق تھی کہ بھرتیوں کا گراف کس طور بلند کیا جائے۔ تنظیم نیم مردہ ہوچلی تھی۔ ایسے میں بہتر یہ جانا گیا کہ طاقت کا استعمال بڑھاکر نئی نسل کو متاثر کیا جائے اور اسے یقین دلایا جائے کہ طاقت کے استعمال کے ذریعہ مطلوبہ نتائج زیادہ تیزی اور عمدگی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ متعدد ممالک میں القاعدہ نے اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا طریقہ اپنایا۔ تشدد کا گراف بلند ہوا تو معاملہ کسی حد تک بیک فائر کرگیا۔ القاعدہ سمجھ رہی تھی کہ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ لوگ القاعدہ کے بارے میں کسی اور انداز سے سوچنے لگے۔ انہیں یہ احساس ہوگیا کہ اس گروپ کے نظریات کو قبول کرنے اور اپنانے سے زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ القاعدہ کے قائدین نے جب یہ دیکھا کہ تنظیم کو نئی زندگی بخشنے سے متعلق ان کی کوششیں بیک فائر کر رہی ہیں تو انہوں نے اپنا فلسفہ اور حکمتِ عملی، دونوں ہی میں بنیادی تبدیلی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ کل تک جو تنظیم بات چیت پر یقین نہیں رکھتی تھی، اس نے مذاکرات اور غور و فکر کا آپشن بھی اختیار کیا اور تشدد کو قدرے پیچھے چھوڑ کر پُرامن طریقے سے کام کرنے کا ذہن بنالیا۔
ماؤزے تنگ نے انقلاب برپا کرنے کے لیے عوام کی حمایت کو لازم قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی انقلابی گروہ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو تو اس کے لیے کھل کر کام کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے عوام میں جانا ہوتا ہے، ان کی ہمدردی حاصل کرنا پڑتی ہے، انہیں منظم کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ بھی انقلابی عمل میں کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک شریک ہوں۔ اس پورے عمل کی تکمیل کے بعد ہی دشمن کو بہترین ہتھکنڈوں سے زیر کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔
۲۰۰۹ء کے بعد القاعدہ نے شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مرحلہ وار تطبیق کا طریقہ اپنایا۔ القاعدہ کے قائدین نے محسوس کیا کہ ہر کام کو بتدریج کرنے سے عوام میں اس کے قبول کیے جانے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ القاعدہ کو داعش سے الگ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ الگ سے کرنا بھی لازم تھا۔ اس صورت میں زیادہ کارگر طریقے سے کام کرنا ممکن تھا۔ ماؤزے تنگ کا فلسفہ اور حکمتِ عملی اپنانے سے نقصان کا اندیشہ کم سے کم تھا، اور زیادہ سے زیادہ عمدگی سے کام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔
۱۹۵۰ء میں کیوبا میں فاکوئسٹ طریقِ کار اختیار کیا گیا۔ یہ طریقِ کار خالص تشدد پر مشتمل تھا۔ چی گویرا، ریجس ڈیبرے اور ان کے ہم خیال دیگر انقلابی قائدین نے طے کیا کہ اپنی بات منوانے کے لیے بھرپور تشدد کا سہارا لیا جائے۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ معاشرہ امن کی باتوں سے تبدیل نہیں ہو رہا تھا۔ اقتدار پر قابض عناصر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور نظامِ حکومت تبدیل کرنے والوں پر قیامت ڈھانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تھا۔ چی گویرا اور ان کے ہم خیال انقلابی قائدین کا خیال تھا کہ سیاسی بنیاد طاقت کے ذریعے ہی کھڑی کی جاسکتی تھی اور یہ کہ ایک بار سیاسی بنیاد مضبوط ہوجائے تو تشدد ترک کرکے معاملات کو بات چیت کے ذریعے بھی طے کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ اور داعش کے طریقِ کار میں فرق ہے مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی اب تک ماؤئسٹ یا فاکوئسٹ طریق کو مکمل طور پر نہیں اپنایا۔ دونوں کی پوری کوشش ہے کہ حالات کے مطابق خود کو تھوڑا بہت تبدیل کیا جائے مگر اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں رہنے کی گنجائش بھی چھوڑی جائے۔ دونوں گروپ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہر گروپ زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
القاعدہ نے شام میں ناکام ہونے والے انقلاب اور لیبیا، تیونس اور مصر میں کامیاب ہونے والی بغاوت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ بدلے ہوئے حالات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ القاعدہ کی مرکزی قیادت کو اندازہ ہے کہ حالات کی خرابی سے جہادی تحریک کو نئی زندگی ملی ہے۔ جن علاقوں میں القاعدہ پہلے کبھی فعال نہ رہی تھی، وہاں بھی اب فعال ہے اور تیزی سے قدم جمارہی ہے۔ بھرتی کا گراف بھی کسی حد تک بلند ہوا ہے۔ بہت سے نئے علاقوں کے لوگ القاعدہ کو قبول کرتے جارہے ہیں۔ عالمی سطح پر ساکھ کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کا ازالہ کرنے میں القاعدہ بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔
القاعدہ کی مرکزی قیادت اب اس بات کو بہت اہمیت دیتی ہے کہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ اس صورت میں تنظیم کے لیے مضبوط عوامی بنیاد بھی بن سکتی ہے جو اس کے سیاسی چہرے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس معاملے میں ماؤزے تنگ کے اس جملے کو یاد رکھا جاتا ہے کہ جہادیوں کو عوام میں اسی طور نقل و حرکت کرنی چاہیے جس طور مچھلی پانی میں کرتی ہے یعنی عوام انہیں اس حد تک قبول کرتے ہوں کہ انہیں اپنے درمیان پاکر نہ صرف یہ کہ خطرہ محسوس نہ کریں بلکہ خوش ہوں اور مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
۲۰۰۵ء میں القاعدہ کے تب کے نائب امیر ایمن الظواہری نے القاعدہ عراق کے قدرے لاپروا امیر ابو مصعب الزرقاوی کو ایک خط میں لکھا تھا کہ اگر کچھ کرنا ہے تو عوام میں جڑیں گہری کرنا ہوں گی۔ اور یہ کہ جب تک عوام ہمیں قبول نہیں کریں گے، تب تک ہمارے لیے بہتر ڈھنگ سے کام کرنا ممکن نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا کہنا درست تھا۔ القاعدہ نے اپنا طریقِ کار تبدیل کرنا شروع کیا تاکہ بات بنے، مگر بعد میں جب القاعدہ کے امیر اسامہ بن لادن کو قتل کردیا گیا، تب تنظیم ایک بار پھر کچھ مدت کے لیے تشدد کی طرف مُڑ گئی۔ مگر پھر جلد ہی واپس بھی آگئی۔ قائدین کو اندازہ ہوگیا کہ محض تشدد سے بات نہیں بنے گی، دال نہیں گلے گی۔
دوسری طرف داعش نے اب تک صرف تشدد کو اپنا رکھا ہے۔ وہ بات کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کا کوئی نرم چہرہ بھی نہیں۔ اب بھی اسے یقین ہے کہ تشدد کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے وہ اپنے تمام مقاصد حاصل کرسکتی ہے۔ داعش کے قائدین اب تک یہ ماننے کو تیار نہیں کہ سیاسی بنیاد بات چیت اور قبولیت سے بنتی ہے نہ کہ جبر اور تشدد سے۔ داعش سے جڑے ہوئے لوگ اب بھی ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے درست کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور اس بات کی چنداں پروا نہیں کرتے کہ اگر عوام کی بھرپور حمایت حاصل نہ رہے تو کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا۔ وہ القاعدہ کی بدلی ہوئی حکمتِ عملی کو بھی بہتر نہیں سمجھتے اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کے خلاف جاکر ہی وہ عوام میں اپنی جڑیں گہری کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
القاعدہ اور داعش کی راہیں الگ ہوچکی ہیں۔ ان کے درمیان رابطے کم ہیں اور اشتراک عمل برائے نام۔ ایسے میں امریکا اور اس کے یورپی حلیف بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ القاعدہ اپنے لیے ویسی ہی عوامی حمایت چاہتی ہے، جیسی اِخوان کو ملتی رہی ہے۔ دوسری طرف داعش اب تک صرف طاقت کی پوجا کر رہی ہے۔ ایسے میں دونوں کے درمیان پائی جانے والی کشمکش سے ان کے مشترکہ دشمن بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمگیر جہادی تحریک میں قیادت کا بحران سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ القاعدہ اور داعش دو انتہاؤں کا نام ہے۔ ان کے درمیان اختلافِ فکر و عمل کی اتنی وسیع خلیج حائل ہے کہ دونوں طرف کے چند اعتدال پسند عناصر چاہیں بھی تو کچھ نہیں کرسکتے۔ حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ خلیج مزید وسیع ہوتی جارہی ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن ان کے درمیان فاصلے بڑھا رہا ہے۔ یہ سب کچھ جہادی تحریک کے دشمنوں کے لیے سنہرے موقع سے کم نہیں۔ امریکا اور یورپ شاید اسی وقت کا انتظار کررہے تھے۔ جن اسلامی ممالک میں انقلاب کی تیاریاں کی گئی تھیں، اُن میں اب خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ القاعدہ اور داعش، دونوں ہی کے لیے بہت اچھے حالات پیدا نہیں ہو پارہے۔ ایسے میں ان کے مشترکہ دشمن زیادہ مؤثر انداز سے کام کرسکتے ہیں۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Islamic State vs. Al-Qaeda: The war within the Jihadist movement”. (“warontherocks.com”. Jan.13,2016)
پوری تحریر ہی مفروضات اور متضاد باتوں پر مشتمل ہے۔ مصنف نے ہر ممکن طرح سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ داعش مسلمانوں کی نمائندہ کوئی تنظیم ہے جبکہ ایک عام ناظر بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ جو کام داعش کرتی ہے وہ کسی بھی طرح اسلامی نہیں کہے جا سکتے۔ مصنف اسے کبھی حہادی تنظیم بتاتے ہیں اور اگلی ہی سانس میں اس کو ماؤزے تنگ کا پیروکار بتاتے ہیں۔
کیا ایک عام آدمی بھی اس تضاد کو تسلیم کر سکتا ہے؟