
اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (اسنا) نے نائن الیون سانحہ کے تیرہ سال مکمل ہونے پر منعقدہ پریس کانفرس میں امریکا سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ سوسائٹی کے اہم اراکین نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور دینِ اسلام میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شرکا کی جانب سے بطور خاص عراق میں آئی ایس آئی ایس، یا دولتِ اسلامیہ کی کارروائیوں پر احتجاج درج کرایا گیا اور کہا گیا کہ دولتِ اسلامیہ ایک شدت پسند گروپ ہے جس نے اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر گزشتہ کچھ عرصہ میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ دراصل یہ جو کچھ بھی کر رہی ہے، وہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ ساتھ ہی نئی نسل کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس شدت پسند تنظیم کی کسی بات پر بھی کان دھرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے نظریات و عقائد اسلام سے متصادم ہیں۔
دوسری جانب نائن الیون سانحہ کے تیرہ برس مکمل ہونے پر امریکی صدر براک اوباما نے اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ عراق اور شام میں یہ شدت پسند تنظیمیں اسلامی اصولوں کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکا کو سب سے بڑا خطرہ داعش ہی سے ہے۔ لہٰذا یہ جنگجو جہاں بھی ہوں گے، انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ نیز ان جنگجوؤں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ مزید کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکا کی فضائی کارروائی پہلے ہی سے جاری ہے، جس کے دوران عراق میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور دیگر اہداف پر گزشتہ ماہ سے اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔ اوباما نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ ایسے شامی باغیوں کے لیے تربیتی پروگراموں کی توثیق کرے، جو شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔ اسی اثنا میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے اتحادی ملک سعودی عرب نے ان باغیوں کی تربیت کے لیے پیشکش کی ہے۔ صدر اوباما نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی کارروائی عراق اور افغانستان میں جنگ سے مختلف ہوگی جس کی تفصیلات وہائٹ ہاوس اور کانگریس مل کر طے کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ افہام و تفہیم، دعوت و تبلیغ اور ترغیب ہے نہ کہ تشدد۔ دینی مقاصد کے لیے تو تشدد کا استعمال بالکل ہی نامناسب ہے کیوں کہ تشدد، جبر و اکراہ کا آلہ ہے۔ برخلاف اس کے دین میں جبر و اکراہ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے‘‘ (البقرہ:۲۵۶)۔ اسلام مرحمت و شفقت، رواداری اور نرم روی اور عفو و درگزر پر مبنی ہے۔ توڑ پھوڑ، درشتی اور سخت گیری اس کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی۔ اسی تعلق سے حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نرم خو ہے، نرم خوئی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نرم خوئی کے نتیجہ میں وہ کچھ دے دیتا ہے جو شدت پر نہیں دیتا، نہ کسی اور طریقہ پر دیتا ہے‘‘ (مسلم)۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات خوب عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے تشدد سے منع کیا ہے۔ برخلاف اس کے آج زمانے میں چہار جانب تشدد کا بازار گرم ہے۔ تشدد بھڑکانے کے نئے نئے حربے اور طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی زبان و عمل پر گرفت نہ ہونے کی بنا پر بے لگام زبانیں اور غیراخلاقی اعمال، تشدد کے فروغ میں معاون بن رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر دیکھنا یہ چاہیے کہ دنیا آج جس فساد فی الارض میں مبتلا ہے، اس کے فروغ میں اگر ایک جانب مسلمانوں کی حصہ داری مان بھی لی جائے تو وہیں دوسری جانب دیگر بااقتدار حکومتیں، گروہ اور افراد کی جانب سے کیے جانے والے تشدد میں کون کس سے آگے ہے؟ یہ فیصلہ کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جانب سے تشدد کیا جارہا ہے، وہاں بھی درحقیقت مسلمان ہی جان و مال کے نقصانات سے دوچار ہیں اور جہاں راست مسلمانوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، وہاں تو ہر سطح پر نقصان مسلمانوں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور بڑے مقاصد کے حصول کے لیے، بھٹکے یا بھٹکائے ہوئے مسلمانوں کو کام میں لایا جا رہا ہے؟ لیکن ہندوستان کے حالات سے واقفیت کی بنا پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو رہی ہے کہ تشدد کے فروغ میں ایک مخصوص طبقہ اپنے تمام تر وسائل و صلاحیتوں کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ ممکن ہے اس طبقہ کے علاوہ بھی اور گروہ سرگرم ہوں، لیکن صرف مسلمان ہی تشدد کی جڑ ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔
رہی بات عالمی پیمانہ پر تشدد کے فروغ، نائن الیون کے سانحہ اور داعش کی، تو اس میں اپنی یعنی عام مسلمانوں کی رائے کے بجائے، ہم ان افراد کی آرا پر ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں، جن کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعات رونما ہوئے اور جو کسی حد تک ہم سے زیادہ معاملات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ معروف برطانوی صحافی رابرٹ فسک کا مضمون جو ۲۵؍اگست ۲۰۰۷ء میں برطانوی اخبار “The Independent” نے شائع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں واقعی مسلسل تبدیل ہوتے سرکاری موقف سے پریشان ہوں، میں ان عمومی سوالوں کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کہ پنٹاگون پر حملہ کرنے والے طیارے کے اجزا، جیسے انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے؟ پینسلوانیا کی فلائٹ ۹۳ کی تحقیقات میں شامل سرکاری افسران کے منہ کیوں سی دیے گئے؟ میں تو ٹوئن ٹاورز کے بارے میں سائنسی نقطۂ نظر سے سوالات رکھتا ہوں۔ مثلاً یہ درست ہے کہ تیل زیادہ سے زیادہ ۸۲۰ ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پیدا کرتا ہے تو پھر ٹوئن ٹاورز کے وہ فولادی بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گرے جنہیں پگھلنے کے لیے ۱۴۸۰؍سینٹی گریڈ کی حرارت چاہیے؟‘‘ اور یہ سب کچھ صرف آٹھ سے دس سیکنڈ کے دوران ہو گیا اور تیسرے ٹاور، ورلڈ ٹریڈ سینٹر بلڈنگ ۷ یا سالمن برادرز بلڈنگ کی کہانی کیا ہے جو پانچ بج کر بیس منٹ پر، صرف ۶ء۶ سیکنڈ کے اندر خود اپنے ہی قدموں پر ڈھیر ہوگئی؟ یہ اتنی عمدگی کے ساتھ کیوں کر زمیں بوس ہوگئی جبکہ اسے کسی طیارے نے چھوا بھی نہیں؟ امریکن نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی سے کہا گیا تھا کہ وہ تینوں عمارتوں کی تباہی کے اسباب کا تجزیہ کرے۔ انہوں نے آج تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر بلڈنگ ۷ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ رابرٹ فسک کے علاوہ اقوام متحدہ کے اہلکار رچرڈ فاک نے بھی نائن الیون کے حادثہ کو امریکی منصوبہ قرار دیا تھا اور اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ نائن الیون کا حادثہ امریکی حکومت کا تیار کردہ ہے اور اس حادثہ کے حقائق پر امریکی حکام نے جانتے بوجھتے پردہ ڈالا ہے۔ سابق امریکی صدارتی امیدوار رون پاول نے بھی نائن الیون حملوں کو اسرائیلی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانیت سوز واقعہ میں موساد کے ملوث ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔ اب تک ملنے والے تمام شواہد سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یہودی لابی کے ساتھ مل کر یہ کارروائی کی ہے۔ رہی بات داعش کی تو سابق سی آئی اے کنٹریکٹر، اسٹیون کیلے (Steven Kelley) نے پریس ٹی وی، کیلیفورنیا کو اپنے ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا ہے کہ آئی ایس آئی ایس مکمل طور پر یونائٹیڈ اسٹیٹ کا بنایا ہوا ہے اور وہی اس کی فنڈنگ بھی کر رہا ہے۔ ساتھ ہی کیلے کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس گروپ پیش قدمی کر رہا ہے اور وہ جلد ہی بہت آسانی سے شام کے صدر بشارالاسد کی فوجوں پر فتح حاصل کر لے گا۔ وہیں ایرانی وزرات خارجہ کی ترجمان مرضیہ افتخار نے کہا ہے کہ ویلز میں گزشتہ ہفتہ نیٹو سربراہ اجلاس کے بعد اعلان کردہ داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد سے متعلق غیر یقینی کی صورت حال پائی جاتی ہے اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہ کی بیخ کنی کے لیے اس اتحاد کی سنجیدگی اور اخلاص کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد میں شامل بعض ممالک عراق اور شام میں دہشت گردوں کو مالیاتی اور سیکورٹی امداد مہیا کر رہے ہیں۔ اور بعض ممالک کو یہ توقع ہے کہ ان دونوں ممالک میں ان کے مفادات کے مطابق سیاسی تبدیلی آجائے گی۔لیکن ہائے افسوس ’’اسنا‘‘ کے ذمہ داران، عالمِ اسلام کے مسلمانان و دیگر امن پسند افراد کی بصارت پر کہ یہ ان تمام باتوں کو بلا ثبوت تسلیم کر لیتے ہیں جن کو دنیا آسانی سے تسلیم نہیں کرتی!
○○○
Leave a Reply