
لازمی تعلیم:
اب میں ہر انسان کے لیے لازمی تعلیم کا ایک سرسری خاکہ پیش کروں گا۔ اس کا ایک آخری معیار طے ہو گا وہ یہ کہ:
۱۔ زبان کی حد تک وہ خودکفیل ہو تاکہ اظہار مافی الضمیر پر پوری طرح قادر ہو اور جس قسم کی اختیاری تعلیم وہ حاصل کرنا چاہے اس سے متعلق کتابوں کو سمجھنے کی استعداد اس کے اندر پیدا ہو جائے۔ زبان کی تعلیم کے سلسلہ میں لازمی ہے کہ ہر بچہ اپنی مادری زبان کے علاوہ قرآنی زبان‘ بین الاقوامی زبان اور ملکی زبان سیکھے اور ہو سکتا ہے کہ ایک زبان ہی ان میں سے تمام حیثیتوں کی مالک ہو۔ یہ سلسلہ شیرخواری کی عمر ہی سے شروع ہو جانا چاہیے جبکہ بچہ چسنی چوستا اور کھلونے سے کھیلتا ہے۔ حسین رنگا رنگ لکڑی یا پلاسٹک یا کسی اور چیز کی بنی ہوئی چسنیاں اور کھلونے جو دراصل حرف تہجی ہوں اسے دیے جائیں اور بولنے لگے تو اس سے طلب کرائی جائیں تاآنکہ آئندہ وہ مفرد اور معروف حروف کو خوب پہنچان جائے‘ پھر ان کے مرکبات دیے جائیں پھر مانوس اور غیرمانوس ضروری چیزوں کی شناخت‘ ان کے نام‘ ان کے موٹے موٹے خواص سے اسے روشناس کرادیا جائے قبل اس کے کہ وہ مہد زمین پر اترے۔
۲۔ حساب میں تناسب (Ratio) تک کی تعلیم ضروری ہے۔
۳۔ جغرافیہ میں وقت کے تمدن کی مناسبت سے جتنا ضروری ہو۔
۴۔ تواریخ میں اسلام کی تاریخ حضرت آدمؑ سے اپنے وقت تک کی‘ اپنے ملک کی تاریخ اور دنیا کی تواریخ ضروری حد تک۔
۵۔ بچے کے پیدائشی ذوق کے مطابق کوئی ضروری فن و حرفہ جس سے وہ آئندہ زندگی میں کسبِ معاش کر سکے۔
۶۔ علمی نہیں بلکہ عملی طور پر تجارت کی معلومات۔
(i)انفرادی تجارت (ii)اجتماعی تجارت (iii)خوردہ فروشی (iv)تھوک فروشی (v)حساب و کتاب (vi)بینک سے معاملات (vii)ٹرانسپورٹ کے تجربات (viii)درآمد و برآمد (ix)غیرملکی زرمبادلہ وغیرہ۔ اس کے لیے ہر یونیورسٹی ایک ملک تصور کر لی جائے۔ ہر یونیورسٹی کی اپنی علیحدہ کاغذی کرنسی ہو جو صرف یونیورسٹی کی حدود میں جاری ہو سکتی ہو۔ اس کرنسی کی قیمت کے برابر بہرحال ملکی کرنسی میں روپے جمع رہنے چاہییں۔ مختلف یونیورسٹی کی کرنسی مختلف Value کی ہونی چاہیے اور اس طرح بین الیونیورسٹی (Inter-University) تجارت کے ذریعہ درآمد و برآمد وغیرہ کے ہر پہلو کے عملی تجربات کروائے جائیں‘ نیز فارن ایکسچینج کی اہمیت اور معاشی اور سیاسی زندگی پر اس کے اثرات کا ہلکا سا تجربہ کرا دیا جائے۔
۷۔ سیاسیات کی تعلیم میں علمی طور پر اسلامی اور غیراسلامی سیاست کا فرق واضح کرایا جائے اور عملی لحاظ سی مذہبی اور سیاسی معاملات میں اختلافات کے حدود اور ان کو انگیز کرنے کی عادت و مشق کرائی جائے۔ انتخاب میں اسلامی اور غیراسلامی طریقوں کا فرق بتایا جائے اور اسلامی طریقوں کی عملی مشق کرائی جائے تاکہ یہ لڑکے کل جب شہری زندگی میں داخل ہوں تو انتخاب کی راہ سے باطل ان کے اندر نہ گھس سکے۔
یہ دراصل سب علموں کی اساس ہے‘ اس لیے اس پر ذراتفصیل سے گفتگو کروں گا۔
۱۔ طالب علم کو مشق کرائی جائے کہ جس طرح وہ ہر دوسری کتاب کو مفہوم سمجھتے ہوئے پڑھتا ہے اسی طرح قرآن کو بھی پڑھا کرے نہ کہ محض ثواب کی نیت سے صرف Rapid Reading کے طور پر۔
۲۔ دوسری زبانوں کے مقابلہ میں قرآنی زبان اور اس کا مخصوص اندازِ بیان اس کو بتا دیا جائے کہ وہ عجمی زبانوں کے انداز پر اس کا مطالعہ کر کے غلط فہمی میں نہ پڑ جائے۔
۳۔ اسے مشق کرائی جائے کہ وہ قرآن کی تلاوت اس طرح کرے جیسے اﷲ سے اس کی باتیں ہو رہی ہوں۔ بعد میں اسے اس طرح مشق کرائی جائے کہ جیسے جیسے خطاب بدلتا جائے ویسے ویسے وہ اپنے ذہن اور تصور میں بھی تبدیلی لاتا جائے۔ مثلاً متکلم خود اﷲ ہے اور مخاطب شیطان ہے تو اسی تصور کے ساتھ پڑھے‘ یا اس کے برعکس صورت میں برعکس تصور کے ساتھ پڑھے۔
۴۔ قرآن میں ہر طرح کا انسانی کردار بیان کر دیا گیا ہے۔ طالب علم سے مشق کرائی جائے کہ وہ اس کے اندر سے کردار کو تلاش کرنے کی مہارت پیدا کر سکے۔ پہلے سادہ اور اکہرا کردار‘ پھر پیچیدہ اور مرکب کردار تلاش کرنے کی مشق کرائی جائے اور آخر میں طالب علم سے کہا جائے کہ وہ خود اپنا کردار اور اپنی تصویر ڈھونڈے۔
۵۔ قرآن بتاتا ہے کہ قصے‘ واقعات اور تاریخ کا بامقصد مطالعہ ہونا چاہیے۔ طالب علم سے مشق کرائی جائے کہ وہ قرآن میں بیان کردہ واقعات میں کسی غلط ابتدا کے برے نتائج کو اور اسی طرح تعمیری پہلو سے اچھی ابتدا کے اچھے نتائج کو تلاش کرے اور ان دونوں کے فطری ربط کو معلوم کرے۔ پہلے سادہ اور پھر پیچیدہ مثالوں سے روشناس کرایا جائے۔
۶۔ اسے قرآنی قصوں سے یہ حقیقت معلوم کرائی جائے کہ ہر نبی نے خواہ وہ کافر قوم میں یا بگڑی ہوئی مسلمان قوم میں مبعوث ہوا ہو بلااستثنیٰ اپنی کوششوں کی ابتدا بنیاری دعوت یعنی توحید‘ آخرت اور رسالت ہی سے کی ہے۔
۷۔ بنیادی مسائل قرآن میں یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ ان کے مختلف پہلوئوں کو مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے کسی مسئلہ کو اس کی کامل اور صحیح شکل میں جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے سے متعلق جتنی آیتیں آئی ہیں سب کو یکجا جمع کر کے ان کے درمیان تطبیق دی جائے۔ گمراہیوں کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ کسی ایک پہلو سے متعلق آیتوں کو یکجا کر کے اسی پہلو کو مکمل مسئلے کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ اس مرحلہ میں مختلف پہلو علیحدہ علیحدہ کیوں بیان کیے جائیں‘ اس کی حکمت سے ان طالب علموں کو واقف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
۸۔ قرآن سے استنباط کے سادہ طریقے بتائے جائیں اور ان کی مشق کرائی جائے مثلاً دعا کے سلسلے میں رسول اﷲﷺ نے حاملین عرش فرشتوں کی دعا سے کس طرح استنباط کر کے دعا سکھائی ہے۔
حضورﷺ کی سکھائی ہوئی دعا:
یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔
سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔
٭ قربانی کے مسئلے میں اس آیت فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر سے استنباط کر کے بقر عید میں نماز پہلے ادا کرنا اور قربانی اس کے بعد کرنا۔
٭ اسی طرح ایک صحابی یہ دعا کر رہے تھے رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا آپؐ نے سنا تو فرمایا یہ اپنے لیے مصیبت مانگ رہا ہے (کیونکہ مصیبت آئے گی تب ہی تو خیر کی ضرورت ہو گی)۔
٭ دعائے یونسؑ کا پس منظر قرآن نے بتایا ہے نادٰی فی الظلمت اس لیے یہ دعا ایسے موقعوں کے لیے تیربہدف ہے جب آدمی ظلمتوں میں گھر گیا ہو۔
۹۔ قرآن کے مختلف مقامات سے آیتوں کے ایسے انتخاب کی مشق کرائی جائے جن سے کوئی سادہ سا مضمون پیدا ہو۔
۱۰۔ کسی سادہ سے عنوان پر قرآن کا مطالعہ۔
نماز کا اہتمام اور تعلیم:
۱۔ نماز کی پابندی کرائی جائے اور اس کی مشق اس طرح کرائی جائے کہ وہ نماز کو خود کارمشین کی طرح نہ پڑھے بلکہ شعوری طور پر اور اﷲ کے سامنے حضوری کے تصور کے ساتھ ادا کرے۔
۲۔ نماز ہی کے ذریعہ اس کے ذہن و دل کو ایسا بنایا جائے کہ وہ اصولِ دین پر جمنا اور فروعِ دین میں اختلافات کو خوش دلی سے انگیز کرناسیکھ لے بلکہ یہ اس کے مزاج کا جز بن جائے۔
۳۔ نماز ہی کے ذریعہ اس کو نظم و ضبط (Discipline) کی تعلیم دی جائے تاکہ یہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جائے۔
۴۔ نماز ہی کے ذریعہ پابندیٔ وقت اور مختلف اوقات کا مختلف اور مناسب ترین مصرف لینا سکھایا جائے۔
۵۔ نماز ہی کے ذریعہ اسلامی اجتماعیت اور فرد اور جماعت کے درمیان رشتے میں توازن اور اعتدال کی تعلیم دی جائے۔
۶۔ نماز ہی کے ذریعہ نظامِ اِطاعت کی خصوصیات اس کے ذہن نشین کرا دی جائیں۔
یہ تو اس بنیادی تعلیم کا خاکہ ہے جو ہر مسلمان کو لازمی ملنی چاہیے۔ اس کے اختتام تک ہر طالب علم کے بارے میں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ آگے تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ نہیں اور اگر رکھتا ہے تو علم کے کس شعبے کی۔ آگے کی تعلیم اختیاری ہونی چاہیے لازمی نہیں۔ البتہ بنیادی اور اعلیٰ دونوں تعلیم لازماً مفت ہونی چاہیے۔
اعلیٰ تعلیم:
اعلیٰ تعلیم اگلے مرحلہ کی اس نہج پر ہونی چاہیے کہ اس سے فارغ ہو کر طالب علم ایک یا چند شعبۂ علم میں مہارت اور اختصاص پیدا کرے۔ دراصل یہی فارغین ہوں گے جو مستقبل کے نگراں‘ مستقبل کی کسی حد تک صورت گری کرنے والے اور ناگزیر مستقبل کے لیے پیشگی رہنمائی کرنے والے ہوں گے۔ اس غرض کے لیے تاریخ‘ علم النفس‘ سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ شعبہ ہائے علم کے ایسے ماہرین نسل میں فراہم کرنے ہوں گے جو ان علوم سے متعلق مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل ہوں اور ساتھ ہی ان کے درمیان کامل تال میل (Co-ordination) ہونا چاہیے۔
علم النفس:
اگرچہ علم النفس کے شعبہ میں مغربی ماہرین نے بہت ترقی کی ہے‘ مگر قطع نظر اس سے کہ کسی بھی شعبۂ تعلیم میں ترقی کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے‘ ان کی ترقی میرے خیال میں وہ انسانی نفسیات (Human psychology) میں نہیں بلکہ حیوانی نفسیات (Sub-human psychology) میں ہے‘ کیونکہ ان کے زیر تجربہ و مشاہدہ جو لوگ رہتے ہیں وہ قرآن کی زبان میں ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ (جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ گئے گزرے) ہوتے ہیں۔ وہ اپنی مادی اور صرف دنیوی خواہشات و اغراض میں گھِرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور جانوروں کی طرح فطرت کے لگے بندھے قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ چنانچہ جس طرح مادی اور طبعی سطح پر ہر چیز متعین ردِ عمل ظاہر کرتی ہے‘ اسی طرح یہ لوگ نفسیاتی سطح پر بھی متعین طریقے پر ردِعمل (Reaction) کا اظہار کرتے ہیں جبکہ انسان کو اس کی قوتِ ارادی کے ذریعہ اس کی لگی بندھی فطرت پر بالادستی عطا کی گئی ہے۔ اس لیے مسلمان ماہرینِ نفسیات کو جہاں مغربی علم النفس کو مزید ترقی دینا ہے وہیں انسانی نفسیات کو نئے سرے سے مدون کرنا ہے۔ اس غرض کے لیے انسان کے اندر جو قوتِ ارادی ودیعت کی ہوئی ہے اس کی نوعیت‘ ماہیت اور اس کے حدود کو پہلے جاننا ہو گا اور اس کی بنیاد پر انسانی علم النفس کی تدوین کرنی ہو گی۔ قوتِ ارادی سے مراد قوت نہیں ہے جس کو مغربی یا جوگیانہ فلسفہ میں قوتِ ارادی کہتے ہیں بلکہ میری مراد اس سے وہ قوت ہے جس کی بنیاد پر انسان فرمانِ خداوندی کا مکلف اور خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔
تاریخ:
تاریخِ اقوام و ملل کے سلسلے میں بتانا ہو گا کہ تاریخ کن مراحل سے گزر رہی ہے اور آگے کون سا موڑ مڑنے والی ہے۔
سائنس:
سائنس کے سلسلہ میں مسلم طالب علم کو غلط راہوں میں بھٹکنے اور غلط ہدف کی طرف بڑھنے کی بجائے ان کے لیے قرآن نے ایک شاہ راہ کھول دی ہے اور اس کے نشانات بالکل واضح کر دیے ہیں۔ قرآن نے فرمایا ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنھار (بیشک زمین و آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کے اختلاف میں نشانیاں ہیں (آلِ عمران)۔ یعنی یہ ہست و بود باطل نہیں بنایا گیا ہے اس لیے کوئی نظریہ جو ان کو کسی حیثیت میں بھی باطل قرار دینے پر منتج ہوتا ہو صحیح سائنسی نظریہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا کہ اس کا ایک انجام بھی ہے۔ اس لیے اگر کسی غلط سائنسی نظریہ پر تمدن کی عمارت کھڑی کی جائے گی تو وہ مآل کار آگ سے دوچار ہو گی (آگ اجزا و شیرازہ کو پراگندہ کر دیتی ہے)۔ جو قوم اس آگ میں داخل کر دی گئی اسے ذلت و خواری سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ حقیقی علمی ترقی اس سائنسی نظریہ کی بنیاد پر ہی ہو گی کہ یہ کائنات نہ تو ہمیشہ سے ہے اور نہ ہمیشہ رہے گی۔ نہ تو اپنے آپ بن گئی ہے اور نہ اس کی بنانے والی ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں۔ اس کو بنانے والا بلکہ خلق کرنے والا ایک اور صرف ایک ہے اور یہ کہ جس طرح ایک حکومت میں ہر جگہ ایک ہی قانون نافذ ہوتا ہے اسی طرح جو قانون کائنات کے کسی ایک گوشہ میں چل رہا ہے وہ لازماً پوری کائنات میں نافذ ہے۔ ایک ماہر سائنس کو اس کائنات پر اور اس کے اندر واقع ہونے والے اختلافات و تبدیلیوں پر مستقل غور و فکر کرنا ہو گا۔
ٹیکنالوجی:
ٹیکنالوجی کے سلسلے میں قرآن نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ اس طبعی اور مادی کائنات کو اﷲ تعالیٰ گرچہ آن واحد میں بنا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا بلکہ ابتدا ہی سے تخلیق کا کام تدریج اور ارتقا کے اصول پر کیا۔ پہلے مجرد اکائیوں کو وجود بخشا اور پھر مرکب در مرکب کرتے ہوئے اس کو کمال تک پہنچایا۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے فعل تخلیق یا کائنات میں اپنے تصرفات کو دو قسموں میں منقسم کیا ہے۔ ایک وہ جو فطری قوانین سے بالآخر ہے۔ یہ عمل تخلیق یا تصرف اﷲ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ دوسری وہ جو فطری قوانین کے مطابق ہے۔ اس صفت تخلیق میں سے اﷲ نے انسان کو بھی ایک حصہ عطا کیا ہے۔ ایسا تصرف انسان بھی کر سکتا ہے بشرطیکہ ان فطری قوانین کو وہ جان لے جن کے مطابق کوئی خاص تخلیق یا تصرف ہوتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں جہاں تک غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں اﷲ تعالیٰ فاعل یا متصرف کی حیثیت سے اپنے لیے جمع متکلم کی ضمیر استعمال کرتا ہے وہاں ایسے تصرفات اور تخلیقات کا بیان ہوتا ہے جو فطرت کے لگے بندھے ضابطوں کے مطابق ہیں۔ مثلاً سورہ لقمان کی آیت ’’وانزلنا من السماء ماء فانبتنا فیھا من کل زوج کریم‘‘ اس میں انزلنا اور انبتنا میں جمع متکلم کی ضمیر آئی ہے۔ اس طرح حضرت عیسیٰؑ کے اندر روح پھونکنے کا تذکرہ جہاں قرآن میں آیا ہے وہاں جمع متکلم کی ضمیر استعمال کی گئی ہے لیکن حضرت آدمؑ کے اندر روح پھونکنے کا ذکر ہر جگہ واحد متکلم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بیان کے اس فرق سے اﷲ کی اس مشیت کا علم ہوتا ہے کہ بغیر ماں باپ کے پیدا کرنے کا کام تو صرف اﷲ تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر صرف بغیر باپ کے تخلیق کا عمل انسان بھی کر سکتا ہے۔
عالمِ آخرت اور دنیا‘ چند نکات:
آخر میں قرآن و احادیث میں بیان کردہ درج ذیل چند حقائق کا ذکر کردوں جو اہلِ علم کے لیے وسیع تر میدانِ عمل فراہم کرتے ہیں:
۱۔ کائنات پوری کی پوری انسان کے لیے مسخر کر دی گئی ہے۔
۲۔ موجودہ کائنات عارضی ہے۔ اس کے بعد دوسری کائنات ہو گی۔
۳۔ جو کچھ وہاں ہو گا اسی موجودہ کائنات کا‘ اس کے اندر ہمارے کاموں کا اور ہماری موجودہ زندگی کا ترقی یافتہ اور کبھی نہ ختم ہونے والا انجام ہو گا۔
۴۔ اس سے پہلے اس دنیا کی ساری پوشیدہ استعداد (Potentialities) ظاہر ہو چکے گی۔
۵۔ وہاں تدریج کا اصول کارفرما نہ ہو گا جبکہ یہاں تدریج کا اصول ہی کارفرما ہے۔
۶۔ وہاں عسر اور یسر دونوں علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ یہاں دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔
۷۔ وہاں خوشی اور غم‘ راحت و رنج‘ آرام و تکلیف بالکل جدا جدا ہوں گے‘ یہاں دونوں باہم بین السطور پائے جاتے ہیں۔
۸۔ ایک ایک جنت اتنی وسیع ہو گی جتنی وسیع موجودہ پوری کائنات ہے‘ کم سے کم وسعت والی جنت ایسی ہے جیسی ہماری یہ زمین اور آسمانی دنیا۔ ایک ایک مومن کو چار چار جنتیں بھی ملیں گی۔ وہاں گھروں کی منزلیں زمین و آسمان کے ستاروں کی بلندی کی مانند ہوں گی۔
۹۔ جنتی کی نگاہ اتنی تیز اور دور رس ہو گی کہ اپنی جنت میں خواہ جہاں پر بھی ہو وہیں سے اپنی جنت یا جنتوں کے ہر گوشہ کو دیکھے گا جب کہ اس دنیا میں ہماری نگاہ محدود مناظر کو ہی دیکھ سکتی ہے‘ اس لیے کہ روشنی کی محض چند لہروں (Light Wave) سے ہماری آنکھ متاثر ہو سکتی ہے‘ وہاں یہ حد بندی ختم ہو جائے گی۔ چھوٹی سے چھوٹی اور لمبی سے لمبی لہر کا اِدراک ہماری آنکھیں کر سکیں گی۔ ان پوشیدہ لہروں میں کیسے کیسے حسین و دلکش مناظر پوشیدہ ہیں وہ ہم ابھی نہیں جانتے ہیں‘ وہاں ہم ان سب سے لطف اندوز ہو سکیں گے‘ البتہ بھیانک مناظر سے ہماری بینائی کو محفوظ کر دیا جائے گا۔
۱۰۔ جنت میں ہماری سماعت بھی لامحدود ہو جائے گی۔ آواز کے لامتناہی زیر و بم میں سے ہمارے کان یہاں صرف چند ہی آواز کی لہروں (Sound waves) کی گرفت کر پاتے ہیں۔ وہاں صورت حال ایسی نہیں ہو گی۔ بلکہ جتنی قسموں کی بھی لہریں (Sound waves) ہیں سب کو ہم سن اور ان سے لطف اندوز ہو سکیں گے‘ البتہ دل خراش آوازوں سے ہماری سماعت کو محفوظ کر دیا جائے گا۔ چکھنے‘ سونگھنے اور چھونے سے متعلق بھی ایسی ہی صورت حال ہو گی کہ جہاں آج یہ ساری قوتیں محدود ہیں وہاں یہ لامحدود کر دی جائیں گی اور ہم ہر طرح کی لذتوں سے متمتع ہوں گے البتہ تکلیف دہ احساسات سے ہمیں بچا لیا جائے گا۔
۱۱۔ سرعت اور رفتار کار کے معاملے میں بھی یہی صورت ہو گی۔ جنت کے جس گوشے میں بھی جس بلندی پر ہم پہنچنا چاہیں گے آن واحد میں پہنچ جائیں گے۔ جنت میں درخت فوراً اُگیں گے اور پھول پھل دیں گے۔ وہاں جسمانی کاوش کے بغیر نہریں کھودی جاسکیں گی۔
یہ ہیں آخرت کی ترقی یافتہ زندگی اور تمدن سے متعلق چند حقائق۔ ترقی کے اس دور کے شروع ہونے سے پہلے کے مراحل موجودہ دنیاوی زندگی ہی میں بتدریج طے ہونے ہیں۔
ہم آج بالائی منزل کے لیے خلائی مشین بنانے لگے ہیں یا ہم نے مسافت کی رفتار میں خاصی ترقی کی ہے یا دور کے مناظر اور آوازیں اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سننے اور دیکھنے لگے ہیں یا درخت سے جلد پھل حاصل کرنے کی سمت میں ترقی کی ہے یا نہر کھودنے اور اس جیسے مشقت طلب کام نسبتاً سہولت سے انجام دینے لگے ہیں تو یہ سب باتیں دورِ آخرت سے مشابہت رکھتی ہیں۔ البتہ ان تمام معاملات میں ہم دنیاوی اور انسانی حدود کے آگے نہیں جاسکے گرچہ ان تمام ترقیات میں موجودہ مقام سے مزید اوپر جانے کا امکان موجود ہے۔
مسلم علمی ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام علوم کی بنا اور ترقی کا نہج قرآن و حدیث کی روشنی میں متعین کریں اور باطل اصول و مبادیات پر ہونے والی علمی ترقی و اختراعات کی نشاندہی کریں نیز انسان کی طبعی‘ تمدنی و اخلاقی زندگی پر ان کے متوقع اثرات سے اور ان کے نتائجِ بد سے بچنے کی صورت سے آگاہ کریں۔ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ مذکورہ تمام باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو نصاب و نظامِ تعلیم مرتب کیا جائے اسے رائج کرے اور مخرب اخلاق و تمدن اور فاسد اختراعات پر پابندی عائد کرے۔
(مرحوم مصنف بھارت کی اسلامی تحریک کے اہم رہنما اور مفکر تھے۔ یہ مضمون کتاب ’’نذرِ ضیاء الہدیٰ‘‘ سے ماخوذ ہے جس میں مصنف کے مضامین و دیگر اہلِ قلم کے مصنف پر مضامین شامل ہیں۔)
{}{}{}
Leave a Reply