اسلامی اتحاد، اسلام اور مغرب کا تصادم اور احیاے اسلام

سوال: اتحاد بین المسلمین کے بارے میں آپ کا نکتہ نظر کیا ہے ؟ اور آپ کے خیال میں اس کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

جواب: اتحاد بین المسلمین کے موضوع کے حوالے سے ہم یہ تصور نہیں رکھتے کہ اس کے ذریعے اسلامی معاشروں میں پائے جانے والے مختلف مذاہب کا خاتمہ کر دیا جائے، بلکہ ہم اسے مد نظر متفقہ موضوعات کے بارے میں غور و فکر کے لیے مسلمانوں کے باہم قریب آنے کا ایک نکتہ سمجھتے ہیں۔ تاکہ اس طرح اختلافی موضوعات کے جائزے کے لیے ایک حقیقی فکری اور نفسیاتی فضا فراہم ہو جائے۔ کیونکہ اتحاد و یگانگت کے جذبات کے سائے میں ہونے والی گفتگو تمام زیرِ بحث موضوعات کے بارے میں مثبت نتائج کے حصول کے لیے ساز گار حالات فراہم کر دے گی۔

اگر ہم بحث کا آغاز اختلافی نکات سے کریں گے تو یہ عمل ایک ایسی فضا و جود میں لے آئے گا جس فضا میں اختلاف کو اصل حیثیت حاصل ہو گی اور یہ امر بحث و گفتگو پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور اس کے جذبات و احساسات پر حاوی ہونے کی بنا پر لوگ اختلافی موضوعات کی توجیہ کرنے لگیں گے۔ اس کے برخلاف اگر گفتگو کا آغاز متفقہ نکات سے کیا جائے تو وحدت کے بارے میں گفتگو کے مثبت ہونے کی امید کی جا سکتی ہیں۔

اسی بنیاد پر ہم مسلمانوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بحث کا آغاز ان نکات سے کریں جن پر اتفاق پایا جا تا ہے تاکہ اس ذریعے سے اپنے اپنے مذہب کی اسلامی ہو یت کو ثابت کریں۔

بنیادی مشکل یہ ہے کہ اختلافات کی طویل تاریخ اور اسی طرح نفسیاتی، سماجی اور تاریخی دبائو کی وجہ سے مذہبی پیچیدگیاں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور اس بات کا موجب ہوئی ہیں کہ مسلمانوں کے مابین پائے جانے والے مذہبی اختلاف، ان کے درمیان اجنبیت اور ایک دوسرے سے دوری کی ایک وجہ بن گئے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیںکہ ایک شیعہ مسلمان اپنے مذہبی خول میں مقید ہونے کی بنا پر ایک مسلمان ہونے کے ناطے سوچنے سے پہلے شیعہ ہو کر سوچتا ہے اسی طرح ایک سنی مسلمان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ اپنے سنی ہونے پر زور دے۔ یوں شیعہ اور سنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ دو مختلف ادیان کے پیرو کاروںکا سا سلوک کرتے ہیں۔

وحدت کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہے کہ دینی فکر کے بارے میں ایک واحد میدان تجویز کیا جائے تاکہ مسلمان باہمی مصالح و مفادات کے پیشِ نظر ایک دوسرے سے نزدیک اور جڑے ہوئے رہیں۔

امتِ اسلامیہ کو جن خطرات کا سامنا ہے وہ مسلمانوں کے لیے اتحاد و اتفاق کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ دشمن مذاہب کو نہیں دیکھتے بلکہ اسلام کو اپنے حملوں کا ہدف قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی اتحاد کو تمام فکری، اجتماعی اور سیاسی پہلوئوں میں صورت پذیر ہونا چاہیے، اس وحدت کے ساتھ ساتھ عسکری پہلو بھی مد نظر رہے بالخصوص جہاں مسلمانوں کو جنگ و جدال کا سامنا ہے۔

جب ہم مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ شیعہ یا سنی اپنے اپنے مذہب کو ترک کر دیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ شیعہ اور سنی مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ متفقہ اسلامی مفاہم کی بنیاد پر گفتگو کریں اور اختلافی امور کی صورت میں آیت قرآنی کی رو سے خدا اور رسولؐ سے رجوع کریں۔ البتہ موانع اور رکاوٹوں کے بارے میں عرض ہے کہ اس سلسلے میں داخلی رکاوٹیں بھی پائی جاتی ہیں اور خارجی رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ داخلی رکاوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر مذہب اپنے خاص عقائد کے دائرے میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اپنے عقائد و شریعت کے تنگ دائرے میں محبوس ہو چکا ہے اور حتیٰ کہ اپنے فکری دائرے کے اندر بھی کسی سوال کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسے حالات میں بہت دشوار ہے کہ ایک مذہب کے محققین اپنی فکری اور تمدنی میراث سے متعلق کوئی سوال اٹھانے کی جرأت کریں۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک مذہب کا باقاعدہ محقق خود کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے مذہب کی تاریخ تک کے بارے میں کچھ سوالات سامنے لائے، اپنے عقائد کے بارے میں سوالات کا اظہار تو دور کی بات ہے۔

ایک مذہب کا حامل کوئی بھی شخص جو خود اپنے مذہب کے بارے میں آزادانہ سو چ بچار نہ کر سکتا ہو وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ایک سنجیدہ بحث و گفتگو نہیں کر سکتا۔ ہم پہلے ہی سے اس بات کو اپنے اوپر مسلط کیے ہوئے ہیں کہ جو کوئی بھی بحث کرنا چاہتا ہے اسے اپنے عقیدے پر تعصب کا اظہار کرنا چاہیے اور بحث کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ فریق مقابل کو اپنی طرف کھنچ لیا جائے، یہ نہیں ہوتا کہ اگر بحث کے دوران اس کے خیالات درست اور حق پر مبنی نظر آئیں تو اس سے نزدیک ہوا جائے۔لہٰذا اس قسم کی مباحث بے نتیجہ اور بے ثمر رہیں گی کیونکہ ان میں شریک افراد حقائق کے بارے میں قطعی نتائج تک پہنچنا نہیں چاہتے اور ان کا مقصد زیادہ تر نکتہ چینی، فریق مخالف کی کمزوریوں کو آشکارا کرنا، اور حقائق تک پہنچنے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے عدم تعاون ہے۔

ہمارے خیال میں جب تک ہم خود اپنے مذہب کے اندر آزادانہ بحث مباحثہ نہ کر سکیں اس وقت تک دوسرے مذاہب کے ساتھ آزادانہ مکالمہ نہیں کر سکتے۔ ان حالات میں ہونے والی مباحث اور گفتگوئوں کو سماعت سے محروم لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ہمارے خیال میں یہ حالت بحث اور گفتگو کے لا حاصل رہنے کی بنیادی وجوہات میں سے ہے۔ کیونکہ گفتگو میں شریک دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی لچک پر آمداہ نہیں ہوتا اور اس میں حقائق کا سامنا کرنے اور انہیں قبول کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس صورت حال میں اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ اس کے اطرافی اور ہوادار اس پر الزامات اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیںگے۔

اگرہم اس سلسلے میں کام کریں تو ہم (ہر مذہب میں) خرافات اور جعلی روایات و احادیث کا ایک ڈھیر سامنے پائیں گے۔ بعض لوگ ان جعلیات کو دیکھنے اور سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس چیز کا مشاہدہ ہم خطابات اور تقریروں میں، مذہبی تحریروں میں اور عام افراد کی سطح پر کرتے ہیں یہاں تک کہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس قسم کی خرافات کی منطقی اصولوں کے ذریعے توجیہ کریں۔ لہٰذا ہمیں اس آسانی سے اتحاد بین المسلمین کا قیام بعید نظر آتا ہے۔ جب تک ہم اپنی موجودہ حالت کو حقیقی اسلام سے قریب نہ کر لیں اور بحث و گفتگو کے لیے ا سلام کے بتائے ہوئے طور طریقے لوگوں کو نہ سکھالیں، وہ طریقے جن کے ذریعے قرآن کریم نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے بحث و گفتگو کی دعوت دی ہے۔ قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینک، ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب آئو ایک منصفانہ کلمے پر اتفاق کر لیں‘‘۔ (آل عمران:۶۴) یا ولا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن الا الازین ظلمو ا منھم وقولوا آمنا بالذی انزالینا وانزل الیکم ’’اور اہل کتاب سے مناظرہ کر و مگر اس انداز سے جو بہترین انداز ہے، علاوہ ان کے جو ان میں سے ظالم ہیں اور یہ کہو کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہماری اور تمہاری دونوں کی طرف نازل ہواہے‘‘۔ (العنکبوت:۴۶) یا بحث و گفتگو کے قرآنی انداز کی پیروی کریں جہاں ارشاد ہوتاہے کہ وانا اوایا کم لعلی ھدی اوفی ضلال مبین ’’اور ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں‘‘۔ (السبا:۲۴)

پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی گفتگو اور اس کے اسلوب و طریقوں سے آگاہ کریں تاکہ قرآنی اسلوب کی بنیاد پر منزل تک پہنچ سکیں جو (ہر قسم کے تعصب سے دور رہتے ہوئے صرف اور صرف) حقیقت کی جستجو کی دعوت دیتا ہے۔

دوسری رکاوٹ یعنی خارجی اور بیرونی رکاوٹ، دو دائروں میں ہے، پہلے دائرے کا تعلق ہر مذہب کی سر کردہ شخصیات سے ہے۔ اس قسم کے افراد اپنی اجتماعی اور سماجی حیثیت محفوظ رکھنے کی خاطر معاشرے میں رائج خرافات اور انحرافات کا ساتھ دیتے ہیں۔ مختلف مذاہب کی مذہبی شخصیات اپنے مذہب کے ماننے والوں کو کسی قسم کی آگہی، تغیر اور تبدل کی اجازت نہیں دیتیں۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنے رتبے اور مقام سے محروم ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ مذہبی مقامات و مراتب کا تبدیل ہو کے سیاسی، سماجی اور تمدنی ترکیب میں متعصب گروہی مقامات و مراتب میں بدل جانا اس بات کا باعث ہوا ہے کہ ایک فکر سے دوسری فکر میں تغیر و تبدل بہت دشوار اور سخت نظر آتا ہے۔

دوسرا دائرہ، عالمی استکبار ہے جس کی مسلسل کوشش ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے سے دوری اور انتشار وافتراق ایجاد کرے۔ مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق استکبار کو بہت سے سیاسی، عسکری، اقتصادی اور اجتماعی مواقعوں سے محروم کر دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک امت واحد میں بدل دیتا ہے جو اپنی ثروت و دولت کو اپنی طاقت، عزت، کرامت اور آزادی واستقلال کے فروغ کے لیے کام میں لاتی ہے۔ عالمی استکبار اپنی تمام تر پرویگنڈہ مشنری اور فکری و سیاسی قوتوں کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی مقصد کے لیے کوشش کرتا ہے کہ ایسے بادشاہوں، امیروں اور صدور کو اسلامی ممالک پر مسلط کرے جو استکباری مفادات کے حصول کے لیے سر گرمِ عمل رہیں اور ہر قسم کے ایسے منصوبوں کا دفاع کریں جن کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان انتشار و افتراق کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کوششوں کو بڑی اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔ البتہ اس کے معنی یہ نہیں کہ اتحاد اسلامی کے لیے کوششیں لغو اور بے قاعدہ ہیں۔ کیونکہ مستقبل کے بارے میں ہم بہت پر امید ہیں اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اسلامی اتحاد کا تجربہ بہت سے جزی موارد میں کامیابی سے ہم کنار ہوا ہے اور یہ کامیابی بڑے موارد کے بارے میں ہماری امید بڑھاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ رکاوٹیں اور ناکامیاں ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنے سے روک نہ دیں اور ہم اسلامی اتحاد کے سلسلے میں اپنی جدو جہد کو جاری رکھیں تاکہ رکاوٹوں کو عبور کریں اور اگر آج کامیاب نہ رہیں تو ہمیں کل کے بارے میں پر امید رہنا چاہیے۔

سوال: کیا اسلام اور مغرب کے تصادم کے بارے میں بعض مغربی سیاستدانوں کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے۔ مستقبل میں اسلام اور مغرب کے تصادم کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟

جواب: مغربی تمدن، مادّیت (Materialism) کی بنیادوں پر استوار ہے۔ مغربی تمدن، عیسائی تمدن نہیں بلکہ مادی تمدن ہے اور شاید اس کے بعض معاملات میں کفر و الحاد بھی شامل ہو، مادیت سے ہماری مرادیہ ہے کہ (وہاں) انسانی اقدار مادی بنیادوں پر استوار ہیں، روحانیت اور خدا پر ایمان کی بنیادوں پر استوار نہیں۔ لہٰذا وہ فکری اساس جو مغربی تمدن کا سر چشمہ ہے وہ اسلام کی فکری اساس سے مختلف ہے البتہ مغربی تمدن کی یہ ماہیت اس میں ایسی علامات دکھائی دینے میں مانع نہیں جو ظاہری لحاظ سے یا نتائج کے اعتبار سے بعض اسلامی تعلیمات سے اشتراک رکھتی ہوں۔

فکری بنیادوں کے مختلف ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ لازماً تمام امور میں اختلاف پایا جائے گا کیونکہ اس بات کا امکان پایا جا تا ہے کہ وہ انداز فکر جن کے سر چشمے بھی مختلف ہوں، بعض نتائج میں ایک دوسرے سے قربت اور اشتراک رکھتے ہوں۔ طرزِ فکر میں اختلاف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ لازماً نتائج میں بھی اختلاف پایا جائے گا شاید اس کی نزدیک ترین مثال اور نمونہ یہ ہے کہ ایک مادہ پرست شخص کسی مسئلے کی تحقیق اور اس کے جائزے کے لیے کسی مذہبی شخص کے ساتھ بیٹھے تو ممکن ہے دونوں ایک ہی جیسے نتائج حاصل کریں لیکن حقیقتاً مذہبی شخص نے اس معاملے کا اس کے خدا سے تعلق کے پہلو سے جائزہ لیا ہو اور مادہ پرست شخص نے اس سلسلے میں خدا کے کسی کردار کا قائل ہوئے بغیر اس کاجائزہ لیاہو۔

ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اسلام اور مغرب میں تمام میدانوں اور تمام امور میں اختلاف پایا جا تا ہے۔ شاید مغرب کے طرز عمل میں (اس طرزِ عمل کی روحانی گہرائی سے قطع نظر) حقوق انسانی وغیرہ جیسے عظیم اسلامی عنادین پائے جاتے ہوں جن کا رواج تمام ہی لوگ چاہتے ہیں۔لہٰذا بعض فکری خطوط میں ہمارے مغرب سے متفق ہونے کا بہت زیادہ امکان موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ کائنات خدا کی مخلوق اور اس کی تابع ہے اور جو کچھ اس میں موجود ہے وہ خدا کی صناعی کا شاہکار ہے لیکن اپنے اس عقیدے کے باوجود ہم قانونِ علیت سے غافل نہیں اور اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ خدا وند عالم نے کائنات میں سنتیں اور قوانین و ضع کیے ہیں۔ ہم جب ایک مادہ پرست فرد کو کائنات کے کسی مظہر کی علت اور اس کے سبب کا جائزہ لیتے اور اس سلسلے میں تحقیق کرتے دیکھتے ہیں تو اس دائرے میں اس سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے لیکن علیتِ اصلی کی تشخیص کے بارے میں ہمارا اس سے اختلاف ہے۔ اس مسئلے میں وہ مادے کی حدود اور سرحد تک محدود ہو کے رہ جا تا ہے اور ہم مادے کو عبور کر کے خدا کا رخ کرتے ہیں یہی نکتہ نظر تمام اخلاقی، سیاسی، اجتماعی میدانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

مغربی اور اسلامی تمدن کے درمیان پائے جانے والے فرق اور اسی طرح ان دوتہذیبوں کے نتائج میں پائی جانے والی مماثلت نے بہت سے معاملات میں باہمی گفت و شنید کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ امر اس بات کا باعث ہے کہ مغرب کے بارے میں لوگوں کا نکتہ نظر سو فی صد منفی نہ ہو بالخصوص جب کہ مغرب کے ساتھ بعض مسائل میں پائے جانے والے اختلاف میں حقائق اور واقعات نمایاں نہیں بلکہ ان میں فلسفی یا فقہی اجتہادات کا دخل نظر آتا ہے جو باہمی گفتگو کے لیے راہ ہموارکرتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ہمیں مغرب کے بارے میں اسلام کے موقف یا اسلام کے بارے میں مغرب کے موقف کو اس انداز سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ گویا یہ دو ایسے مختلف نظریات ہیں جو کہیں ایک دوسرے سے قرب نہیںرکھتے۔ بلکہ انہیں دو ایسے نظریات کے طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے جو بعض امور میں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ اس طرح اختلافی امور میں گفتگو کی جا سکتی ہے اور باہمی تعاون کے لیے قریب آیا جا سکتا ہے۔

سوال: آپ نے سیکولر ازم پر تحقیقی کام کیا ہے۔ کیا ابھی چند حالیہ برسوں میں مسلمان معاشروں میں سیکولر ازم کارنگ کچھ پھیکا نہیں پڑا ہے؟

جواب: جی ہاں! آپ صحیح کہہ رہے ہیں سیکولر ازم کمزور ہوا ہے۔ سیکولرازم کی کوشش ہے کہ دین کو میدان حیات سے علیحدہ اور گوشہ نشین کر دیا جائے۔ سیکولرازم کے مقاصد میں سے ہے کہ خدا کا حصہ خدا کے لیے اور قیصر کا حصہ قیصر کے لیے، یہ کہ دین خدا کے لیے ہے اور وطن سب کے لیے۔ اسی بنیاد پر مغربی استعمار سیکولرازم کی اقدار کو معاشرے میں رائج کرنے میں کامیاب ہوا اور مسلمان بھی کیونکہ ایک فطری نتیجے کے طورپر مغربی زندگی کے دلدادہ اور اسے اپنانے کے خواہشمند ہیں بالخصوص جب کہ مسلمان ایک پسماندہ حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ اسلام جس پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ ان کے لیے شیریں ثمرات کا ذریعہ نہیں بنا ہے۔ لہٰذا مسلمان ان نظریات کے پیچھے چل پڑے اور بعض نے کوشش کی کہ ان نظریات اور اسلام کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کر لیں یہاں تک کہ سوشلسٹ مسلمان اور اسلامی سوشلزم جیسی اصطلاحیں ایجاد کی گئیں۔

ایک مستحکم، ترقی یافتہ، آزاد اور باعزت زندگی فراہم کرنے کے سلسلے میں لادینی نظریات کی نا کامی مسلمانوں کے ایک مرتبہ پھر اسلام کی طرف پلٹ آنے کا سبب بنی ہے۔ بالخصوص اسلامی تحریکوں کے ذریعے اسلام کے ایک مرتبہ پھر متحرک ہونے اور ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلام کے ایک مضبوط عنصر کے طور پر سامنے آنے کی وجہ سے لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ ایک نیا اسلام نمودار ہورہا ہے، ایک ایسا اسلام جس کا مقصد انسانی آزادی اور احترام کی اساس پر دنیا میں ایک جدید نظام کی بنیاد رکھنا ہے۔ ایسے حالات میں سیکولرازم کا کمزور ہونا قدرتی بات ہے۔ لیکن عالمی استکبار جس نے ہمیشہ سیکو لرازم کو اسلام کے مقابل کھڑا کیا ہے اس کی اس مرتبہ بھی یہ کوشش ہے کہ لوگوں کے اذہان میں اسلام کی ایک مسخ تصویر پیش کرے اور مسلمان پر تعصب، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرے۔

ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سیکولرازم ایک کمزور نظریہ ہے اور مسلمانوں کو توازن اور اعتدال کے ساتھ قدم اٹھانے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ان کی رجعت پسندی، اسلامی تحریکوں کے تجربے کی ناکامی کا باعث نہ بنے۔

سوال: کیا سیکولرازم اسلامی تحریکوں کے پھیلائو میںرکاوٹ ہے؟

جواب: قدرتی طور پر اسلامی تحریکوں کی فکری بنیاد اسلامی عقیدہ ہے اور سیکو لر مفکرین یہ عقیدہ رکھتے ہیںکہ عیسائیت کی مانند اسلام بھی خدا اور انسان کے درمیان رابطے کا نام ہے۔ وہ معتقد ہیں کہ اسلام کا کردار صرف روحانی نوعیت کا ہے اور مساجد کے دائرے تک محدود ہے یہ امر اس بات کا باعث ہوا ہے کہ وہ اسلام کو میدان حیات سے باہر نکال دیں اور اس نکتے کی ترویج کریں کہ اسلام زندگی کی مشکلات حل کرنے پر قادر نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیسری دنیا، بالخصوص عرب دنیا میں جو قوانین رائج ہیں وہ عالمی استکباری قوانین سے متاثر ہیں، یہ قوانین اس بات کا پر چار کرتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کی فکر کا سرچشمہ کسی صورت بھی دینی اور مذہبی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاشرے کو نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا میں حکام کی طر ف سے اسلامی سیاسی سر گرمیاں ممنوع قرار دی گئی ہیں۔

سوال: کیا آپ کو مغربی سیکولر تمدن کے دین کی طرف پلٹ آنے اور عالمی سطح پر دین کے احیاء کا امکان نظر آتاہے؟

جواب: ہم برنارڈ شاہ کے اس قول سے متفق ہیں کہ اسلام مستقبل کے انسان کا مذہب ہوگا۔ لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں سنجیدگی سے اقدام کریں اور اسلامی مفاہیم کو حقیقت کا روپ دیں یہاں تک کہ آج کا انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اسلام اس کی مشکلات کا حل ہے اور مستقبل میں اس کی فکری اساس بن سکتا ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیِّنات‘‘۔ ربیع الاول، ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*