
نظریہ:
PJD، النہضہ اور اخوان نے اپنے اپنے ممالک میں انتخابات جیتنے کے بعد نہ سخت قوانین کا اطلاق کیا اور نہ شریعت کے نفاذ کا اعلان کیااور نہ ہی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ تینوں جماعتوں کے تجربات اور ان کے ممالک کے حالات نے انھیں مختلف طریقوں سے کام کرنے پر مجبور کیا، تاہم تینوں نے جمہوری روایات کے حوالے سے اپنے موقف میں لچک پیدا کی، ان کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوا کہ آنے والی دہائیوں میں وہ جمہوریت کو بڑی حد تک قبول کر لیں گی۔جہاں تک اخوان اور PJD کی بات ہے تو انھوں نے یہ لچک پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ہی پیدا کرنا شروع کی،لیکن النہضہ نے اپنی پابندیوں کے دور میں بتدریج اپنے آپ کو تیونسی معاشرے کے مطابق تبدیل کیا۔
اگرچہ ۲۰۱۱ء کے بعد یہ تینوں گروہ انتخابی عمل میں نمایاں جماعتیں بن کر ابھریں،تاہم انھوں نے اسلامی نظام کی اہمیت کو پس پشت نہیں ڈالا۔اسی طرح اس حوالے سے بڑی غیر یقینی کی کیفیت تھی کہ یہ جماعتیں اسلامی نظریات کو کس طرح روبہ عمل لائیں گی۔اس کو جانچنے کے لیے جو پیمانے رکھے گئے وہ یہ تھے کہ دیکھا جائے کہ یہ جماعتیں اپنی ریاستوں میں کس طرح قانون سازی کرتی ہیں،ان کا طرز حکومت کیسا ہے،خاص کر شریعت کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتی ہیں،اور آیا یہ جماعتیں آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں یا پھر اپنی بنیادی تحریک کے ماتحت کام کرتی ہیں۔
مراکش:اسلام پسندوں اورشاہی محل کا اتحاد:
مراکش کے سیاسی نظام،ثقافتی ورثے اور روایات کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو PJD کے تجربے کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ PJD کے مرکزی دفتر کے ایک رکن’’علی حامد‘‘ کا کہنا ہے کہ مراکش کا معاشرہ عرب کے تمام ممالک کی نسبت زیادہ آزاد ہے۔ اسی لیے PJD بھی اس لحاظ سے کا فی آزاد خیال ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کی روایات سیکولر اور لبرل جماعتوں کی پالیسیوں سے ملتی جلتی ہیں،بس ہماری توجہ عدل و انصاف پر زیادہ ہے۔
PJD کے نظریات کا ایک اہم پہلو مراکش کے معاشرے اور سیاسی نظام میں بادشاہ کے کردار کی قبولیت بھی ہے۔ بادشاہ محمد ششم اور اس کی کابینہ کو ملکی نظام میں مرکزی اختیارات حاصل ہیں،یہی وجہ ہے کہ PJD کی حکومت کا ہمیشہ سے ملکی باگ ڈور سنبھالنے میں محدود کردار رہا ہے۔ پارلیمانی اختیارات ہمیشہ شاہی اختیارات کے مقابلے میں کم ہی رہے ہیں۔
اس کے علاوہ PJD اسلامی ریاست کے قیام کو اپنے لائحہ عمل میں شامل نہیں کرتی،کیوں کہ اس کے نزدیک مراکش پہلے سے ہی اسلامی ریاست ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بادشاہ کو سپریم کمانڈر اور مذہبی معاملات میں بھی اتھارٹی کی حیثیت دیتی ہے۔ظلم و جبر اور پابندیوں سے بچنے کے لیے پارٹی بادشاہ کے دیے گئے فریم ورک میں رہ کر ہی اپنی جدو جہد کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
PJD کی MUR سے علیحدگی ایک تاریخی موڑ تھا،جیسا کہ ہم نے اوپر ا س بات کا تذکرہ کیا کہ گزرتے سالوں میں PJD نے اپنے نظریات پر سمجھوتا کرتے ہوئے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں PJD کی انتخابی مہم کے تشہیری مواد کا با لترتیب ۳۴اور ۵۵ فیصد حصہ اس نکتہ پر مرتکز تھا کہ مراکش کی اسلامی شناخت کو بحال کیا جائے۔اس کے برعکس ۲۰۰۷ء کے پارلیمانی انتخاب میں اس مطالبے کی شدت کم ہو کر ۲۱ فیصد رہ گئی تھی۔
یہ آج تک واضح نہیں ہو سکاکہ PJD نے واقعی اپنے ماضی (نظریاتی بنیادوں) سے خود کو دور کر لیا ہے۔اس کے حامیان کے نزدیک PJD نے اپنے ماضی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک چال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ Party of Authenticity and Modernity (PAM) کے سابق سربراہ الیاس العمری کا کہنا ہے کہ ’’PJD کی MUR سے علیحدگی PJD کی طرف سے دیا جا نے والا ایک دھوکا ہے، PJD آج بھی مراکش کو اسلامی ریاست بنانے کی پرزور حامی ہے‘‘۔ اور اس قسم کی تنقید کا شکار صرف PJD ہی نہیں بلکہ ’’اخوان‘‘اور ’’النہضہ‘‘بھی ہیں۔
۲۰۱۱ء کے انتخابات میں PJD کی MUR سے علیحدگی اس وقت واضح ہو گئی جب PJD نے انتخابی مہم کے لیے مساجد کے استعمال کو ترک کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔اگرچہ مساجد PJD کی انتخابی مہم کا متحرک ترین اثاثہ ہوا کرتی تھیں۔انتخابی ضابطوں کے مطابق عبادت گاہوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ PAM یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ PJD نے MUR کے ذریعے مساجد کا سیاسی استعمال جاری رکھا ہے۔جب کہ PJD اس الزام کی تردید کرتی رہی ہے۔علی حامدکا کہنا ہے کہ مراکش کی مساجد حد سے زیادہ ’’شاہ‘‘کی وفادار ہیں۔
PJD چوں کہ بادشاہت کو قبول کیے ہوئے تھی،اس لیے بعض تجزیہ نگار PJD کو شاہ کی ’’اتحادی جماعت‘‘بھی کہتے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ PJD نے اگر چہ ۲۰۱۱ء کے احتجاج میں حصہ تو نہ لیا لیکن اس کا فائدہ بھرپور اٹھایا۔
PJD نے احتجاجی مہم سے دور رہ کر اور ’’اصلاحی پروگرام‘‘ پر بادشاہ کی مکمل گرفت کی مخالفت نہ کر کے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ احتجاج میں AWI کی شمولیت سے PJD پر احتجاجی مہم میں شمولیت کے حوالے سے دباؤ ضرور بڑھالیکن PJD کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے حصول اور بعد از انتخاب حکومت چلانے کے لیے ’’شاہ‘‘ کی حمایت درکار ہو گی۔اصلاحی پروگرام کے نفاذ کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتائج سے PJD کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوا کہ انھوں نے کامیاب حکمت عملی اختیار کی۔
ہر مذہبی جماعت کی طرح PJD کو بھی اندرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔مراکش میں حکومت میں رہنے والی جماعت عموماً ’’شاہ کے زیر اثررہتی ہیں۔ اس حقیقت کا PJD کو بھی سامنا کرنا پڑا۔ PJD بھی اندرونی طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ مصطفی رمید کی رہنمائی میں بادشاہ کے ناقد جمع ہو گئے، جبکہ بن کیران کے گرد وہ لوگ جمع تھے جن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ’’بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ‘‘ کے ساتھ مل کر چلنے کی پالیسی پر گامزن رہنا چاہیے۔مصالحت پسند گروہ یہ سمجھتا تھا کہ کچھ عرصہ بادشاہ کے ساتھ سمجھوتہ کر کے چلنے سے ہم طویل مدتی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔لیکن ناقدین اور مصالحت پسندوں کے درمیان اس بات پر اختلاف تھا کہ شاہ کے ساتھ یہ’’سمجھوتہ‘‘کس حد تک ہونا چاہیے۔
۲۰۱۶ء کے انتخابات کے بعد PJD اور بادشاہ کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اس وقت عوام پر بھی ظاہر ہو گئی جب بن کیران نے حکومتی اتحاد بنانے کی کوششیں کیں۔ بالآخر بن کیران کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے ان کے نائب ’’عثمانی‘‘ کو بادشاہ نے حکومت بنانے کی دعوت دے دی۔ بن کیران کے استعفے کے ایک ماہ میں عثمانی نے حکومت سازی کا عمل مکمل کر کے دکھا دیا۔دراصل بادشاہ کو بن کیران کی بڑھتی ہوئی شہرت نے پریشان کر دیا تھا۔اس لیے بادشاہ نے بہت جلد ہی ان سے جان چھڑا لی اور PJD کو بلیک میل کرنے کے لیے ایک ڈمی پارٹی بھی بنائی گئی جس کے سربراہ بادشاہ کے دوست عزیز آخنوش تھے،اس طرح بادشاہ نے حکومت سازی کے عمل میں اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی۔ ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں PJD نے ۳۲ فیصد ووٹ حاصل کیے۔مراکش کی تاریخ میں آج تک کسی جماعت نے اتنے ووٹ حاصل نہیں کیے تھے۔بادشاہ کی بنائی گئی اس ڈمی پارٹی نے بن کیران کی طرف سے حکومتی اتحاد کے لیے جاری مذاکرات کو ناکامی سے دوچار کردیا۔پھر یہی ناکامی بن کیران کے استعفے کی وجہ بنی۔پھر جیسے ہی ’’عثمانی‘‘نے منصب سنبھالا تو حکومت سازی کا عمل مکمل ہوگیا اور سیاسی تنازع حل کر لیا گیا۔
النہضہ،اسلامی تحریک سے مسلم ڈیموکریٹ تک:
’’تیونس‘‘جیسی سیکولر ریاست میں ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں النہضہ کی کامیابی تجزیہ نگاروں کے لیے حیران کن تھی۔ النہضہ نے آخری مرتبہ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت اس نے سیاست میں مذہب کی مداخلت اورخواتین کے حقوق کے حوالے سے قدامت پرستی کا مظاہرہ کیا تھا،جس پر انھیں سخت عوامی ردعمل کا سامنا کر نا پڑا تھا۔ اس انتخاب کے بعد النہضہ منظر عام سے غائب ہو گئی۔۲۰۱۱ء میں دوبارہ منظر عام پر آئی تو اسے عوام کی حمایت حاصل تھی،اس عوامی حمایت کی بنیادی وجہ اس پر ہونے والا ریاستی جبر تھا۔النہضہ نے جب ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تو عوام میں اس تحریک اور ان کے نظام حکومت چلانے کے طریقہ کار کے حوالے سے خدشات برقرار تھے۔
اس حوالے سے النہضہ بھی تذبذب کا شکار تھی۔ ۱۹۸۹ء سے ۲۰۱۱ء تک حزب اختلاف کی جماعت کی حیثیت سے اس نے کئی مرتبہ اپنی سیاسی حکمت عملیاں تبدیل کیں۔ اس دوران النہضہ نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے اقتدار ملے گا۔پھر یکدم ہی ایک سال کے مختصر عرصے میں النہضہ ریاستی جبر کا شکار ایک مظلوم پارٹی سے عام انتخابات کی فاتح جماعت بن کر سامنے آئی۔النہضہ کی شوری کے رکن کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں نہ صرف ازسر نوتنظیم سازی کرنی تھی، بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم بھی تشکیل دینا تھا‘‘۔
اگرچہ یہ دونوں عمل جاری تھے،لیکن پارٹی کے بیانات اور فیصلوں سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ النہضہ اپنے نظریاتی ارتقا ء سے گزر رہی ہے۔مجموعی طور پر راشد الغنوشی اوردیگر رہنما اپنے ۱۹۸۹ء کے تجربات اورماضی کے واقعات پر غوروفکر کر رہے تھے،ان کے سامنے الجزائر کے اسلامک فرنٹ کی مثال بھی تھی۔۱۹۹۱ء کے انتخابات میں اس جماعت نے جب فتح حاصل کی تو فوج نے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ اسلام پسندوں کے خلااف ایک سخت کریک ڈاؤن کا بھی آغاز کر دیا اور پھر ملک خانہ جنگی کا شکا ر ہو گیاتھا۔ٹھیک دو دہائیوں بعد النہضہ کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ’’طویل المدتی نتائج کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ سیاست ہی واحد راستہ ہے‘‘۔
حقیقت پسندانہ سیاست سے مراد اسلامی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنے پر زیادہ توجہ دینا تھا۔اس رپورٹ کے لیے النہضہ کے جتنے بھی رہنماؤں سے بات کی گئی ان کا یکساں موقف یہ تھا کہ ’’اِس وقت ہمارا مقصد اور ہماری کامیابی صرف اسی میں ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے جمہوریت کے تسلسل کے لیے فعال کردار ادا کریں‘‘۔کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ بیانیہ حقیقت پر مبنی ہے۔مثال کے طور پر تیونس کے تین سابق صدور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک سابق جج کا کہنا تھا کہ ’’النہضہ ملک کی سب سے زیادہ یا شائد واحد جمہوری جماعت ہے۔ان کے ہاں پارٹی انتخابات کا عمل باقاعدگی سے ہوتا ہے اور فیصلے بھی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں‘‘۔ النہضہ عبوری حکومت کی مرکزی جماعت تھی اس لیے ۲۰۱۴ء میں تیونس کا نیا آئین اسے ہی مرتب کرنا تھا۔
اگرچہ ۸۰کی دہائی کے اواخر میں النہضہ نے اسلامی ریاست کے قیام کی کوششیں ترک کر دیں تھیں،تاہم آئین سازی کے دوران پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ بحث جاری تھی کہ قانون سازی کے عمل میں شریعت کو واضح مقام ملنا چاہیے اور یہی بات سیکولر طبقے کو تشویش میں مبتلا کیے ہوئے تھی۔ بالآخر غنوشی اور دیگر رہنماؤں کے اس موقف کو قبول کر لیا گیا کہ ’’شریعت زندگی گزارنے کے طریقے کا نام ہے نہ کہ قانونی قواعد و ضوابط کا‘‘۔شروع میں تو النہضہ نے اظہار رائے کے چند ’’مخصوص طریقوں‘‘ کو توہین آمیز قرار دے کر جرائم کے زمرے میں لانے کی کوشش کی،جس سے ملک میں ایک بحث چھڑ گئی۔تاہم عوامی اورغیر سرکاری تنظیموں کے دباؤ کے نتیجے میں،قانونی ماہرین سے مشورے کے بعد النہضہ نے اپنے موقف میں نرمی پیدا کی۔اب تیونس کا ۲۰۱۴ء کا آئین عرب دنیا کا سب سے معتدل اور جدید آئین ہے،اور یہ النہضہ کی مصالحت پسندانہ حکمت عملی کا ثبوت ہے۔
تیونس کی منظم ترین اور سب سے بڑی تنظیم ہونے کے باوجود النہضہ نے ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی اسلامی شناخت کو ظاہر کرنے سے گریز کیا۔۲۰۱۱ء کے انتخابات کے بعد تیونس کی سیاست دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف مذہب پسند تھے اور دوسری طرف سیکولر،اس عمل کے نتیجے میں النہضہ کو ایک سخت قسم کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ النہضہ نے طویل مدتی حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے امیدوار میدان میں اتارے جو بظاہر ’’ٹیکن وکریٹ‘‘ لگتے تھے۔انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں جذباتی تقریریں کرنے کے بجائے ملک کو درپیش مسائل پراپنی توجہ مرکوز رکھی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب النہضہ کو انتخابات میں شکست ہوئی اور ’’نِداتونس‘‘ان سے آگے نکل گئی،تو النہضہ کے رہنماؤں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ جشن بھی منایا۔
اس عرصے میں النہضہ نے جو سمجھوتے کیے وہ نہ صرف ان کی حقیقت پسندی کو ظاہر کر رہے تھے بلکہ پارٹی میں جاری ارتقائی عمل کا بھی ثبو ت دے رہے تھے۔۲۰۱۶ء میں النہضہ نے اپنا دسواں سالانہ اجلاس منعقد کیا،یہ ۲۰۱۴ ء کے انتخابات اور آئین کی منظوری کے بعد پہلا اجلاس تھا۔اس اجلاس میں النہضہ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا کہ وہ مذہبی سرگرمیوں اور سماجی خدمات کے بجائے اپنی توجہ سیاسی سرگرمیوں پر مرکوز رکھے گی۔اس کے ساتھ ساتھ پارٹی نے جرمنی کے’’کرسچن ڈیمو کریٹس‘‘کی طرز پر اپنے آپ کو ’’مسلم ڈیموکریٹ‘‘ کہلوانا شروع کر دیا۔النہضہ کے اراکین پارلیمان نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ ان کی پارٹی اب تحریک نہیں رہی بلکہ وہ ایک روایتی سیاسی جماعت بن چکی ہے جو کہ اسلامی اقدار پر زور دیتی ہے۔اس تبدیلی پر عمل کیسے کیا جائے گا؟اس بات کا اظہار ایک رکن پارلیمان نے گفتگو کرتے ہوئے کیا کہ’’وہ ارکان جو دعوتی سرگرمیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں وہ خوشی سے یہ کام کر سکتے ہیں،لیکن بس وہ النہضہ کا نام استعمال نہیں کر سکیں گے‘‘۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ النہضہ بھی PJD اور اخوان کی طرح اپنی ماضی کی مذہبی اور سماجی سرگرمیوں سے قطع تعلق کرتی ہے یا نہیں۔ ’’نِدا تونس‘‘ کے رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ ’’النہضہ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ آئین اور قوانین کے ذریعے مذہب کو تیونس کے عوام پر نہیں تھوپ سکتی۔اس لیے اس نے حکمتِ عملی اختیار کی ہے کہ سیاسی جماعت بن کر لوگوں کو عدل و انصاف کی فراہمی کے ذریعے مذہب کی طرف راغب کیا جائے‘‘۔
اخوان مذہب اور سیاست کے درمیان:
حسنی مبارک کے معزول ہونے کے اگلے ہی روز اخوان المسلمون نے اپنی سیاسی جماعت ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ (FJP) کے قیام کا اعلان کیا۔اخوان کے کارکنان گزشتہ کئی برس سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے،اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے میں رہتے تھے، اس بنا پر ان کا معاملات پر ایک واضح موقف ہوتا تھا۔ تاہم اس نئی صورتحال میں کیا حکمت عملی اختیار کریں گے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔
فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے قیام کا با قاعدہ اعلان ۱۱؍اپریل ۲۰۱۱ء کو کیا گیا۔ محمد مرسی،محمد البلتاجی،سعد الکتاتنی اور عصام العریان جیسے رہنما اس میں شامل تھے۔ سعد اور عصام نے نئی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے اخوان کی شوریٰ سے استعفی دے دیا۔اس اقدام سے یہ بات واضح ہو گئی کہ FJP اور اس کے ارکان پارلیمان پراخوان کی شوریٰ کا اثرورسوخ برقرار ہے۔اس سے مصر کے سیکولر اور لبرل طبقے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ FJP ملکی مفاد میں سیاست کرنے کے بجائے اخوان کے ایجنڈے کو ترجیح میں رکھے گی۔پھر ایسا ہی ہوا کہ ۲۰۱۲ء کے احتجاج میں مظاہرین محمد مرسی کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے ’’محمد بدیع‘‘کی حکومت کے خاتمے کے لیے نعرے بلند کرتے رہے،جو کہ اخوان کے مرشد عام تھے۔
جون ۲۰۱۲ء میں محمد مرسی کے صدر بننے کے بعد اخوان کو جتنے اختیارات حاصل ہوئے اتنے تو مراکش کی PJD اور تیونس کی النہضہ کو بھی کبھی حاصل نہیں ہوئے تھے۔اخوان نے ملکی آئین اور قانون کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی حیثیت کا بھرپور استعمال کیا،اور آئین میں بہت سی ایسی شقیں شامل کیں جن سے نظام حکومت میں مذہب کے عمل دخل میں اضافہ ہونے لگا۔اس اقدام سے مصر کے سیکولر طبقے میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ قانون سازی کے اس عمل میں ایک بات واضح ہوگئی کہ اخوان کے پاس ملکی نظام چلانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ’’اخوان کے لیے ملک کے مذہبی،سماجی، معاشی اورسیاسی حالات پرمخالفت کرنا تو بہت آسان تھا لیکن حکومت میں آنے کے بعد اخوان کی قیادت ملکی مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کے عمل میں بری طرح ناکام ہو گئی۔اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی مذہبی بنیادوں کی عکاسی نہ کر سکی‘‘۔
اس کے نتیجے میں اخوان کو پارلیمان کے اندر نہ صرف سیکولر بلکہ مذہبی جماعتوں کے طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پارلیمان کے ذریعے مصر کے روایتی سیاسی بحرانوں کاکوئی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی۔
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کر چلو:
مذہبی جماعتوں سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مخالف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے معاملات کس طرح لے کر چلتے ہیں؟کیا وہ سیکولر جماعتوں کو بھی اپنی ہی طرح سیاسی جماعت کے طور پر قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ناقدین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنے ’’انتخابی مینڈیٹ‘‘ کا فائدہ اٹھا کر اپنی ترجیحات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر انھیں نافذ کرنے کی کوشش کریں گی۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مذہبی جماعتیں آئندہ انتخابات میں شکست کی صورت میں اقتدار چھوڑنے پر تیار ہو جائیں گی؟ اگر النہضہ، PJD اور FJP کے تجربہ کو سامنے رکھا جائے تو ان تمام سوالات کے جوابات یکساں نہیں ہیں، بلکہ ان کا انحصار ملکی حالات اور ہر جماعت کی انفرادی حیثیت سے جڑا ہو اہے۔
حقیقت پسندانہ طرز عمل:
عمرو حمزاوی کا کہنا ہے کہ مراکش کی PJD نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی تقاضوں،محل اور اپنے بنیادی اسلامی اصولوں کے درمیان ایک توازن قائم رکھا۔ ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد PJD کی جانب سے بنائے جانے والے حکومتی اتحاد اس توازن کی بہترین مثال ہیں۔ PJD نے بیشتر اہم وزارتیں اور عہدے (داخلہ، خارجہ، خزانہ، اسپیکر اسمبلی وغیرہ) اپنے اتحادیوں کو دے دیے،اس کے علاوہ سیاسی نظام پر بادشاہ کی گرفت کم کرنے کے حوالے سے بھی کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔
اگرچہ PJD نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا،اس کے باوجود ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان PJD اور بادشاہ کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے۔ PJD نے ۲۰۱۱ء میں ہونے والی آئین سازی کے عمل میں سیکولر جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی چند تجاویز کو رد بھی کیا۔اس سارے عمل سے پارلیمانی نظام مکمل طور پر بحال تو نہ ہو سکا،تاہم اتناضرور ہو گیا کہ آئین میں اس شق کا اضافہ کر دیا گیا کہ وزیر اعظم اسی جماعت کا ہو گا جو پارلیمان میں زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔
مراکش کے نامور تاریخ دان مطیع منجیب کا کہنا ہے کہ ’’۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۳ ء کے عوامی احتجاج اور AWI جیسی جماعتوں کے دباؤ نے بادشاہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ نہ صرف PJD کو ساتھ لے کر چلے بلکہ بقیہ جماعتوں کے مقابلے میں PJD کو مضبوط بھی کرے‘‘۔موقع سے فائدہ اٹھائے جانے کی غرض سے بنائے گئے اتحاد اور اصلاحاتی عمل کے نتیجے میں ۲۰۱۱ء کی عوامی احتجاجی مہم کمزور پڑگئی۔تاہم داخلی اور علاقائی تبدیلیوں کے وجہ سے سال ۲۰۱۳ء PJD کے لیے ایک اہم سال ثابت ہوا۔مصر میں ہونے والی بغاوت اورحزب اختلاف کی جانب سے PJD کی مخالفت نے پارٹی کواپنی حکمت عملی ازسر نو مرتب کرنے پر مجبور کیا۔
مصالحانہ حکمت عملی:
النہضہ کے اقتدار میں رہنے کے تجربہ کا انحصار بھی اس کے شراکت داروں،دیگر سیاسی جماعتوں،سابقہ حکومت،غیر سرکاری تنظیموں اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ ان کی حکمت عملی دو ترجیحات پر مشتمل تھی،ٹکراؤ سے گریزاور تعمیری شراکت داری۔
کسی حد تک یہ کہنا درست ہو گا کہ ۲۰۱۱ء میں النہضہ نے اپنے سفر کا آغاز بغیر کسی اتحادی کے کیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۱ء سے ۱۹۹۰ء تک تو النہضہ کو معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے مسترد کیے رکھا۔النہضہ ۲۰۰۵ء میں بننے والے حزب اختلاف کے ا تحاد میں تو شامل تھی لیکن وہ تعلقات عرب بہار تک قائم نہ رہ سکے۔تاہم عرب بہار تک النہضہ سیاست کرنا سیکھ چکی تھی اس لیے ۲۰۱۱ء کے بعد اس نے بے شمار سیاسی تعلقات قائم کر لیے۔
۲۰۱۱ء میں عبوری حکومت کے قیام کے دوران اور اس کے بعد النہضہ نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔غنوشی اور النہضہ کے دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر تعلقات تیونس میں تبدیلی کے اس عمل سے اتفاق رائے سے گزرنے کے لیے نہایت اہم تھے۔اس وقت النہضہ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ہمیں بہت زیادہ ’’اسکروٹنی‘‘سے گزارا جائے گا،اس لیے انھوں نے ایک بڑے اتحاد کی تشکیل کی کوششیں کیں۔تاہم کچھ ہی عرصے میں اسے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ چند سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کام ہی نہیں کرنا چاہتیں۔اس لیے انھوں نے تین جماعتی اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس اتحاد کے قیام کے بعد بھی النہضہ نے دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلقات قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کوشش کی وجہ سے اس کے اتحادی اکثر بیشتر ناراض رہتے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ النہضہ اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔پھر اس طرح کے معاملات ہوئے کہ وزیراعظم، اسپیکر اور صدر کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے اور حزب اختلاف نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا اور اس بائیکاٹ میں اتحادی بھی شامل ہو گئے۔جس سے النہضہ بھرپور دباؤ کا شکار ہو گئی۔
تیونس میں حزب اختلاف سے زیادہ مضبوط ’’سول سوسائٹی‘‘ تھی،جس کی قیادت Tunisian General Labour Union (UGTT) کے پاس تھی۔ ایک رکن پارلیمان کا کہنا ہے کہ النہضہ کے طاقت کے توازن کو قائم رکھنے اور ان کے کچھ متنازعہ اقدام کو روکنے میں حزب اختلاف سے زیادہ سول سوسائٹی نے اپنا کردار ادا کیا۔ایک غیر منتخب تنظیم کی جانب سے اتنے زیادہ اثرورسوخ نے النہضہ کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا۔النہضہ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’۲۰۱۱ء کے حالات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کی بنیادی وجہ النہضہ اور UGTT کے بگڑتے تعلقات تھے۔ تاہم ۲۰۱۳ء کے اواخر میں النہضہ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ اگر اس گروہ سے سمجھوتہ نہ کیا گیا تو مصر جیسے حالات یہاں بھی پیدا ہو سکتے ہیں،جس کے نتائج بہت زیادہ خطرناک ہوں گے۔اس لیے النہضہ نے حکومت چھوڑ کر UGTT کی طرف سے جاری مذاکرات میں شمولیت کا فیصلہ کیا‘‘۔
۲۰۱۶ء تا۲۰۱۷ء میں بھی النہضہ کو سول سوسائٹی کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہا۔یہ تنظیمیں سابقہ حکومت کا کڑا احتساب چاہتی تھیں،جب کہ النہضہ یہ قدم اٹھانے سے گریز کر رہی تھی اور اس کا موقف تھا کہ ملک کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ ہم کڑے احتساب کی طرف جائیں لیکن حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ النہضہ کے اس گریز کی وجہ ’’نِدا تونس‘‘کے ساتھ اس کا اتحاد ہے۔اور نداتونس میں سابقہ حکومت کے بہت سے ارکان شامل ہیں۔ایک تجزیہ نگار نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ لوگ (النہضہ) اب سیاست کرنا سیکھ گئے ہیں‘‘۔
النہضہ کو ریاستی اداروں کے ساتھ بھی نمٹنا تھا۔بن علی کے دور میں کوئی ریاستی ادارہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسلامی تحریک کے لوگوں کی ریاستی اداروں میں اتنی مداخلت ہوسکتی ہے۔اس لیے اب النہضہ کے لیے یہ نہایت مشکل تھا کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے۔النہضہ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’ریاستی اداروں میں ہمارے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے،ہمیں نظر انداز کیا جا تا ہے‘‘۔النہضہ کے کارکنان کی اکثریت ملک کے دیہی اور ترقی پذیر علاقوں سے ہے اس لیے ریاستی ادارے ان کو نظر انداز کرتے ہیں۔
وعدہ خلافی اور ٹکراؤ کی پالیسی:
اخوان کو بھی معاشرے کے مختلف گروہوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔النہضہ کو جب اس قسم کی مشکل درپیش تھی تو تیونس کے عوام اس کے ساتھ کھڑے تھے،لیکن اخوان کے ساتھ معاملہ مختلف تھا۔اخوان نے جب سیاسی حمایت کے لیے کوششیں شروع کیں تو عوام میں کئی قسم کے خدشات پیدا ہوگئے۔اخوان نے ان خدشات کو ختم کر نے کے لیے اپنے اقتدار میں توسیع کی کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم یہ ایک عارضی قدم تھا۔ اخوان نے حالات کو سازگار دیکھ کر جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اقتدار کو وسعت دینا شروع کردی۔یہ ایک روایتی طریقہ رہا ہے۔ PJD نے بھی مراکش میں ایسا کئی مرتبہ کیا۔
اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اخوان نے صرف پچاس فیصد نشستوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا، اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ۴۳ جماعتوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا۔تاہم اکتوبر تک اخوان کے حاکمانہ رویہ کی وجہ سے اکثر جماعتوں نے اس اتحاد سے علاحدگی اختیا ر کر لی اور جب انتخاب قریب آئے تو اخوان نے ۷۰ فیصد نشستوں پر حصہ لیا ور ۵۰۸ میں سے ۲۳۵ یعنی ۴۶ فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
PJD اور النہضہ کے برعکس اخوان نے اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھا تے ہوئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے باوجود اخوان نے تمام اہم پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی اپنے ہاتھ میں رکھی،نہ صرف یہ بلکہ آئین ساز کمیٹی میں بھی بڑی تعداد میں اپنے لوگ نامزد کر دیے، جس پر کرسچن،سیکولر جماعتوں اور الازہر کے نمائندوں نے اس کمیٹی سے استعفی دے دیا اور اسے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ لیکن اخوان نے کسی بھی بات کی پروا کیے بغیر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔
“Islamist parties in North Africa”. (“brookings.edu”. July 22, 2018)
Leave a Reply