
تعارف:
مراکش کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (PJD) کے راہنما سعد الدین العثمانی نے مارچ ۲۰۱۷ء میں اتحادی حکومت کے قیام کا اعلان کر کے پانچ سال سے جاری سیاسی بحران کا خاتمہ کردیا ۔سعدالدین کی کاوشوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی جماعت PJD، جس نے ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، آئندہ بھی حکومت بنائے گی۔ یاد رہے کہ ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے مراکش کی حکومت اسی جماعت کے پاس ہے۔ پی جے ڈی ۲۰۱۱ء میں اقتدار حاصل کرنے والی واحد اسلامی تنظیم نہیں تھی۔عرب بہار کے نتیجے میں پورے شمالی افریقا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو ناقابل یقین مقبولیت حاصل ہوئی اور اس مقبولیت کے ذریعے یہ تنظیمیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔حزب اختلاف کے جماعتوں میں سے اسلامی تحریکوں نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی کے نتیجے میں اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (FJP) اور النہضہ نے بھی با لترتیب مصر اور تیونس کے عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔
ان کامیابیوں کے سات سال بعدمراکش کی PJD وہ واحد جماعت تھی جو قومی انتخابات میں فتح کے تسلسل کو برقرار رکھ سکی۔تیونس اور مصر میں سیاسی مخالفین اور عوام کی کثیر تعداد کو یہ محسوس ہونے لگا کہ مقبولیت حاصل کرتی ہوئی اسلام پسند جماعتیں نہ صرف آمرانہ طرز ِ جمہوریت کو فروغ دیں گی، بلکہ سخت اسلامی قوانین بھی نافذکرنے کی کوشش کریں گی۔ جس کے نتیجے میں النہضہ اور اخوان کی FJP کی اپنے حریفوں سے مڈ بھیڑ ہو گئی اور انھیں عوام کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث ۲۰۱۴ء کے آغاز ہی میں النہضہ نے اقتدار ٹیکنو کریٹ حکومت کے حوالے کردیا۔ بعدمیں النہضہ کو پارلیمانی انتخاب میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی،لیکن وہ ہمیشہ جیتنے والی جماعت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی۔ FJP نے ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعدنہ صرف صدارت حاصل کی، بلکہ ۲۰۱۲ء میں نئے آئین کے لیے بھی بھرپور کوششیں شروع کردیں، جس کے نتیجے میں فوج نے صدر محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کر کے اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا، جو تاحال جاری ہے۔
FJP سے اقتدار چھن جانے کے بعد عرب دنیا میں موجود اسلامی تحریکوں کو شدید جھٹکا لگا، لیکن ان کے وجود کو مٹایا نہ جا سکا۔عرب معاشروں میں اسلامی تحریکوں کے اثرات بہت گہرے ہیں،اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ سیاسی طور پرفعال بھی رہیں گی اور ان کا اثرورسوخ بھی کسی حد تک قائم رہے گا۔ اس لیے یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جب بھی ان تحریکوں کو اقتدار حاصل ہو گا تو یہ کیسا برتاؤ کریں گی۔مذکورہ تجزیے میں مراکش کی PJD، تیونس کی النہضہ اور مصر کی FJP کا تقابلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس جائزے میں مذکورہ جماعتوں کے پہلی مرتبہ اقتدار کے تجربات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کے موئژ طریقے سے حکومت کرنے میں کام یابی اور ناکامی کے اسبا ب پر غور کیا گیا ہے۔مصنفین کی رائے کے مطابق PJD اور النہضہ کے لچک دارانہ اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اور دیگر سیاسی طاقتوں کے ساتھ مل کرکام کرنے پر رضامندی نے انھیں سال ۲۰۱۱ء کے بعد کے سیاسی منظر نامے میں زندہ رکھا۔ اس کے برعکس FJP نے تنہا ہی مصر کے سیاسی نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش میں نہ صرف تیزی دکھائی بلکہ انتہائی جارحانہ رویہ بھی اختیار کیا۔ نتیجتاً اخوان المسلمون کو اس سیاسی نظام سے بے دخل کردیا گیا۔ اس سارے عمل میں مجموعی قومی منظرنامے، بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاسی تبدیلیاں اور پہلے سے موجود مسائل نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
یہاں یہ بات واضح کردی جائے کہ اس تجزیے میں ’’اسلام اور جمہوریت‘‘کے ملاپ پر بحث مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ اگر اسلامی تحریکوں کو حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے تو ان سے کس رویے کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
سال ۲۰۰۵ء میں ’’کارنیگی ایڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘‘ نے ایک مقالہ شائع کیا،جس میں اسلامی تحریکوں کے برسراقتدار آنے کے نتیجے میں اسلامی قوانین، خواتین کے حقوق، اکثریت کی رائے، شہری حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ان کے مبہم طرزعمل پر تفصیلی بحث کی گئی تھی۔
۲۰۱۱ء کے عرب بہار کے بعد تین اسلامی تنظیموں (FJP،PJD، النہضہ) کے پہلی مرتبہ برسر اقتدار آنے کے نتیجے میں مندجہ بالا شعبہ جات میں اسلامی تنظیموں کے ردعمل کے بارے میں بے پناہ شواہد حاصل ہوئے۔ ان شواہد کی بنیاد پر اسلامی تحریکوں کے برتاؤ پر ازسر نو بحث کی جاسکتی ہے۔
اس رپورٹ کے آغاز میں اسلامی تحریکوں کے بنیادی نظریات، تاریخ، عرب بہار سے قبل کا طرز سیاست، ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں حصہ لینے اور بعد ازاں ان کو ملنے والی کامیابیوں کا تجزیہ کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں دو درجن سے زائد افراد کا انٹرویو لیا گیا۔ ان افراد میں سیکولر اوراسلامی تحریکوں سے وابستہ متحرک شخصیات اور سیاست دان شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے اختتام پر النہضہ اور PJD کی مستقبل کی حکمت عملی پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کو اسلامی تحریکوں سے تعمیری تعلقات استوار کرنے کے حواے سے تجاویز دی گئیں ہیں۔
پس منظر:
مراکش، تیونس اور مصر سمیت دنیا بھر کی تحاریک اسلامی ’’دعوت و تبلیغ‘‘ اور ’’سماجی کاموں‘‘ کو معاشروں کے ساتھ جڑے رہنے اور ان ممالک میں اپنے اثرورسوخ کو وسعت دینے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ تمام تحریکیں اس امید کے ساتھ کام کرتی ہیں کہ ان کے ممالک میں اسلامی نظام قائم ہو۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان تحریکوں نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان تنظیموں کو آنے والے وقت میں سیاسی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی تو پارلیمان میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو کبھی انھیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسے موقعوں پر ان تنظیموں نے کبھی حکومتوں کے ساتھ مفاہمت و معاونت کی حکمت عملی اختیار کی تو کبھی مخالفت کے راستے کو اپنایا۔
مصر اور اخوان المسلمون:
ان میں سب سے معروف تنظیم ’’اخوان المسلمون‘‘ ہے، جس کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں حسن البناء (شہید)نے رکھی۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں میں اخوان اور ریاست کے مابین تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اخوان مصر پر برطانوی قبضے کے خلاف تحریک کا حصہ تھی۔ اس تحریک میں اخوان نے جمال عبد الناصر کی قیادت میں قائم Free Officer Movement کے ساتھ بھی کام کیا۔۱۹۵۲ء میں شاہ فاروق کا تختہ الٹے جانے کے بعد اخوان نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے نے اخوان اور جمال عبد الناصر کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ نتیجتاً جمال عبد الناصر نے ۱۹۵۴ء میں اخوان پر پابندی عائد کردی۔ اسی سال جمال عبد الناصر نے مصر کی صدارت سنبھالی جس کے بعد اخوان کے ایک کارکن نے جمال پر قاتلانہ حملہ کیا، جس کے جواب میں جمال نے اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا۔ اس کریک ڈاؤن میں اخوان کے بہت سے رہنماؤں کوقتل کردیا گیا اور ہزاروں کارکنوں کو قید میں ڈال دیا گیا۔ یہ کریک ڈاؤن ۱۹۷۰ء میں جمال کی موت تک جاری رہا۔
جمال ناصر کے بعد انورسادات نے اقتدار سنبھالا۔ انور سادات نے جمال ناصر کے حامیوں اور سوشلسٹوں سے مقابلے کے لیے اخوان کے کارکنان کو جیلوں سے رہا کردیا اور انھیں کام کرنے کی کھلی آزادی دی، لیکن ۱۹۷۷ء میں انور سادات کے یروشلم کے دورے اوراس میں ہونے والے امن معاہدے نے اخوان اور سادات کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ پھر ۱۹۸۱ء میں انوارسادات کو قتل کردیا گیا۔ حسنی مبارک نے بھی حکومت میں آنے کے بعد اخوان سے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور اس کے بہت سے کارکنان کو رہا کردیا جس کے نتیجے میں اخوان دوبارہ تیزی سے متحرک ہو گئی۔ اور ۱۹۹۰ء تک سرکاری اداروں میں اس کی رسائی میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کے بعد اخوان نے روایتی سیاسی طاقت کے حصول کے لیے بھی کوششیں تیز کردیں۔ اخوان نے پہلی مرتبہ ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخاب میں اس نے ۴۵۴ نشستوں میں سے ۸ نشستیں حاصل کیں۔۱۹۸۷ء کے انتخابات میں اخوان نے دو مذہبی تنظیموں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس اتحادنے ۶۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جس میں سے اخوان کے حصے میں ۳۶ نشستیں آئیں۔
۱۹۹۰ء کی دہائی کے وسط میں اخوان سیاسی طور پر زوال کا شکار ہو گئی۔حسنی مبارک کی جانب سے پارلیمان تحلیل کیے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے اخوان نے ۱۹۹۰ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۱۹۹۵ء کے انتخابات میں اخوان نے جبر کے دور میں ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جب کہ اس کے ۱۵۰ نمائندوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس کمزور سیاسی صورت حال کے اسباب میں جہاں مبارک حکومت کا کریک ڈاؤن شامل تھا وہیں اخوان کے اندرونی اختلافات بھی اس کا محرک تھے۔
Carrie Rosefsky Wickham کا کہنا ہے کہ اخوان چوں کہ کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل نہیں تھی اس لیے اس دورمیں تنظیم میں بڑے پیمانے پر نظریاتی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس نظریاتی کشمکش کی بڑی وجہ تنظیم کی شناخت کے بارے میں تھی۔ کچھ افراد اسے خالص دعوتی تحریک کے طور پر لے کر چلنا چاہتے تھے جب کہ کچھ افراد کی نظر میں اخوان کو سیاسی محاذ بھی سنبھالنا چاہیے تھا۔ نوے کی دہائی کے وسط میں اخوان کے کارکنان کی نئی نسل اس بات پراصرار کر رہی تھی کہ ہمیں سیاسی جدوجہد میں بھرپورکردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اخوان کے کارکنان کی نئی نسل اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے خالصتاََ اسلامی ریاست کے بجائے ایک ایسی ریاست کے لیے رضامندی کا اظہار کرنے لگی جو مکمل طورپر تو اسلامی نہ ہو لیکن وہاں اسلامی قوانین کا سہارا ضرور لیا جائے۔ چند افراد نے تو اخوان کے خاص سیاسی ونگ کے قیام کی تجویز بھی دی جسے راہنماؤں نے مسترد کردیا۔ تجویز مسترد ہونے کے بعد ان لوگوں نے اخوان سے علاحدگی اختیار کر کے ایک الگ جماعت’’حزب الوسط‘‘بنانے کا اعلان کردیا۔
حسنی مبارک کے دور میں اخوان کے سینئر رہنماؤں، جنھوں نے جمال ناصر اور سادات دور کے ظلم کا سامنا کیا تھا، دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم سیاسی طور پر مضبوط نہ ہو جائیں ہمیں اس معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ تاہم اس عرصے میں بھی اخوان انتخابی سیاست میں حصہ لیتی رہی۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے اخوان کے ۱۷؍افراد پارلیمان میں پہنچے۔۲۰۰۴ء کے بعد مہدی عاکف کی قیادت میں اخوان نے اپنی توجہ اور وسائل کا رخ پارلیمانی سیاست کی طرف موڑ دیا۔۲۰۰۵ ء میں نسبتاََ آزاد سیاسی ماحول میں اخوان نے پارلیمان کی ۲۰ فی صد یعنی ۸۸ نشستیں حاصل کیں۔ یہ ۲۰۱۱ء سے پہلے کے عرصے میں اخوان کی سب سے بڑی انتخابی کامیابی تھی۔
مراکش کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(PJD):
اخوان سے متاثر ہو کر مشرق وسطیٰ میں بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں۔جن میں PJD اور النہضہ بھی شامل ہیں۔ مراکش میں ۷۰ء کی دہائی میں Islamic Youth Association کے نام سے ایک عسکری تنظیم بنائی گئی لیکن ریاست کی سخت مخالفت کی وجہ سے اس تنظیم پر ۱۹۷۶ء میں پابندی لگا دی گئی، جس کے بعد یہ تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ اسی تنظیم کے سابق ارکان جن میں ’’بن کیران‘‘ بھی شامل تھے، انھوں نے مل کر ۱۹۸۱ء میں اسلامک گروپ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم نے آغاز ہی سے ’’ریاست کے ساتھ مفاہمت‘‘کی حکمت عملی اختیار کی۔۸۰ ء کی دہائی تک اس تنظیم نے تشدد کی مخالفت کی اور حکومت کے مذہبی و سیاسی اختیارات کو قبول بھی کیا۔
۱۹۹۲ء میں اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے Movement of Unity and Reform-MUR رکھ دیا اور اسی نام سے سیاسی جماعت کے قیام کی کوششیں شروع کردیں، لیکن سرکاری حکام نے ان کی درخواست مسترد کردی۔ تاہم جب اس تنظیم نے۱۹۹۶ء میں ہی ایک غیر مقبول تنظیم Popular, Democratic, and Constitutional Movement (MPCD) کے ساتھ اتحاد کیا تو حکومت نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بعد ازاں اس تنظیم کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں ۳۲۵ نشستوں میں سے MPCD نے ۹ نشستیں حاصل کیں۔۱۹۹۸ء میں اس تنظیم نے اپنے آپ کو ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘‘ کے نئے نام سے متعارف کروانا شروع کیا۔ PJD نے انتخابی سیاست میں اپنی توجہ مرکوز کر کے اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا اور کوشش کی کہ MUR کو اپنے آپ سے الگ رکھا جائے جو تحریک کا دعوتی ونگ تھا۔
۲۰۰۲ء کے انتخابات میں PJD ۴۲ نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبرپر، جب کہ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں ۴۶ نشستیں حاصل کر کے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ PJD نے کم نشستوں پر انتخابات لڑ کر شعوری طور پر یہ کوشش کی وہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر حاوی نہ ہو۔ اپنے آپ کو ایسی جماعت کے طور متعارف کروایا جو ’’نہ جیتنے‘‘ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو۔ ان کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں انھیں بتدریج نہ صرف عوام بلکہ بادشاہ کا اعتماد بھی حاصل ہوگیا۔
اس حکمت عملی کے نتیجے میں بادشاہ نے ان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتوں Al Adl wa-Ihssan – AWI اور Justice and Spirituality کے بہترین متبادل کے طور پر قبول کر لیا۔۱۹۸۶ء سے AWI اور ریاست کے درمیان شدید کشمکش جاری تھی۔ یہ حزب اختلاف کی ایک مقبول ترین جماعت تھی اور یہ وہ واحد تنظیم تھی جس نے نہ صرف ریاست کے سامنے سوالات اٹھائے بلکہ بادشاہت کو بھی للکارا۔
اس جماعت کے ارکان نے مراکش کو جمہوری ریاست بنانے کے حوالے سے بھی آواز بلند کی۔ یہ تنظیم پابندی کا شکار رہی تاہم ریاست نے اس گروہ سے سختی سے نبٹنے سے گریز کیا۔ یہ جماعت اس وقت کے مروجہ سیاسی نظام کو غیر قانونی سمجھتی تھی، اس سوچ کی وجہ سے اس گروہ نے تقریباََ تمام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ AWI کے مجموعی فیصلے PJD کے فیصلہ سازی کے عمل میں موزوں کردار ادا کرتے تھے۔ PJD نے اس تنظیم کے فیصلوں کو سامنے رکھ کر ٹکراؤ اور مفاہمت کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے سیاسی فیصلے کیے۔
النہضہ:
PJD کے ساتھ ساتھ النہضہ بھی وجود میں آئی۔ راشد الغنوشی نے ۱۹۷۲ء میں شریک بانی کے طور پر ایک جماعت کی بنیاد رکھی جو بڑی حد تک اخوان سے متاثر تھی۔ اس جماعت نے ابتدا میں تو مذہبی اور سماجی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ۱۹۷۸ء میں جب صدر حبیب بورقیبا نے ملک میں ہونے والے احتجاج کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی تو اس وقت اپنی جدوجہد کی وجہ سے اس جماعت کاطلبہ ونگ نمایاں انداز میں سامنے آیا اور سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ اس کے اگلے ہی برس ایک خفیہ اجلاس کے ذریعے اس گروہ نے خود کو ’’اسلامک ٹینڈینسی موومنٹ‘‘ (MTI) کا نام دے دیا۔
۱۹۸۰ء میں جب پولیس نے اس تحریک کا پتا لگایا تواس جماعت نے عوام میں جا کر حبیب بورقیبا کے خلاف جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جون ۱۹۸۱ء میں MTI نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کروایا اور ساتھ ہی اپنی قیادت کا اعلان بھی کیا۔ اور حکومت سے درخواست کی اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کیا جائے۔ ریاست نے MTI کی درخواست مسترد کردی اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی ساری قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔تھوڑے عرصے کے بعد ایک دفعہ پھر حکومت نے ان کے خلاف ایک زبردست کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ حبیب بورقیبا نے راشد الغنوشی اور دوسرے راہنماؤں کو پھانسی دینے کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن پھر زین العابدین نے انھیں عہدے سے فارغ کردیا۔
بن علی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد MTI کے ساتھ ریاست کے سلوک میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی۔ ابتدا میں تو بن علی نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو عام طور پر اور مذہبی تنظیموں کو راضی کرنے کے لیے خصوصی طور پر آزادی دی جیسا کہ انھوں نے MTI کو سیاسی عمل میں شامل کیا اور اسلامک ہائی کونسل میں بھی شامل کیا۔ MTI نے اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی انتخابی سیاست میں مکمل حصہ لیا۔۱۹۸۸ء کے اوآخر میں MTI نے اپنا نام تبدیل کر کے ’’حرکۃالنہضہ‘‘رکھ لیا۔ اور ایک دفعہ پھر سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹر ہونے کی درخواست دی، اور ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کوآزاد حیثیت سے انتخاب لڑوانے کا فیصلہ کیا۔ ان امیدواروں نے انتخابات میں ۵ء۱۴ فیصد ووٹ حاصل کیے،جو کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں سب سے زیادہ تھے۔لیکن بن علی نے ان کو نشستیں دینے سے انکار کردیا۔ یہیں سے ریاست کے ساتھ تعلقات پھر سے کشیدہ ہو گئے۔حکومت نے النہضہ کی درخواست پھر سے مسترد کر کے اس کے خلاف دوبارہ کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ ۱۹۹۱ء میں اس وقت کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی جب النہضہ کے کارکنان نے بن علی کی پارٹی کے دفتر پر حملہ کر کے جلا دیا اور وہاں ایک شخص کو قتل بھی کردیا گیا۔ یہ واقعہ النہضہ کے خلاف تاریخ کے بد ترین کریک ڈاؤن کی وجہ بنا۔ پھر النہضہ کے بہت سے رہنماؤں نے اگلے بیس برس جیلوں میں،چھپ کر اور جلاوطنی کی صورت میں گزارے۔
عرب بہار اور۲۰۱۱ء کے انتخابات:
۲۰۱۱ء میں جب ’’عرب بہار‘‘ کا آغاز ہوا، تو اس کی قیادت ’’اسلام پسندوں‘‘ کے ہاتھ میں نہ تھی، بلکہ اس کی قیادت وہ نوجوان طبقہ کر رہا تھا جو معاشی، معاشرتی اور سیاسی ظلم و ستم کا شکار تھا۔ جب مظاہروں کا آغاز ہوا تو مذہب پسندوں نے کریک ڈاؤن کے ڈر سے بہت احتیاط سے کام لیا۔ مصر میں اخوان کے مرشد عام نے اپنے کارکنان کو ۲۵جنوری کے احتجاج میں حصہ نہ لینے کی تاکید کی تھی۔مراکش میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی۔تیونس میں بھی جب بن علی کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تو النہضہ اس کا حصہ نہیں تھی۔ ان تنظیموں کے بہت سے لوگوں نے احتجاج کے آغاز ہی میں حصہ تو لیا لیکن انفرادی طور پر، تاہم جب احتجاج کی لہر تیز ہو گئی تو ان کی تنظیموں نے بھی باقاعدہ احتجاج میں شمولیت اختیار کر لی۔ جب مصر اور تیونس میں حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا اور مراکش کی حکومت اصلاحات کے لیے راضی ہو گئی، تو اخوان، النہضہ اور PJD نے سیاسی عمل، یعنی انتخابات میں حصہ لے کر اپنا سیاسی وزن بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اخوان نے پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر اپنی سیاسی پارٹی FJP کے قیام کا اعلان کیا، اور اس کی حمایت کے لیے عوامی سطح پر جا کر کا م کیا۔ جس کے نتیجے میں اس سال ہونے والے انتخابات میں اخوان کو ۳۷ فیصد ووٹ ملے، یعنی وہ ۲۳۵نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اپنے اتحادی ’’سلفی نور پارٹی‘‘جس نے ۲۸ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے،اس کے ساتھ مل کر پارلیمان کا کنٹرول سنبھال لیا۔ مراکش میں PJD نے بھی اپنی سابقہ کامیابی کو برقرار رکھتے ہوئے ۲۳ فی صد ووٹ حاصل کیے اور ۳۹۵ میں سے ۱۰۷ نشستیں حاصل کیں۔ اور ملک کی بڑی پارٹی ہونے کا اعزاز برقرار رکھا۔ النہضہ نے National Constituent Assembly کی ۲۱۷ میں سے ۸۹ نشستیں حاصل کیں۔ اس اسمبلی کوملک میں عام انتخابات کروانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ دہائیوں کے ظلم و جبر کے بعد شمالی افریقا کی اسلامی تحریکوں کواچانک حکومت سنبھالنے کا موقع مل گیا۔
اسلامی تحریکوں کی مقبولیت کا دور:
۲۰۱۱ ء عرب بہار کے نتیجے میں اسلامی تحریکوں کو مصر، مراکش اور تیونس میں حکومت کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے اپنی اپنی اہلیت کے مطابق حکومتیں چلائی۔ یہ تحریکیں حکومت میں آنے کے بعد کیسے برتاؤ کریں گی، اس پر آج تک سب لوگ ابہام کا شکار تھے۔لیکن اب ان کے اقتدار میں آنے پر یہ سب پہلو نمایاں ہو گئے۔ اس مقالے میں اخوان، النہضہ اور PJD کے نظریات، ان کی عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ان کے موقف کا احاطہ کیا گیا ہے۔
نظریہ:
PJD، النہضہ اور اخوان نے اپنے اپنے ممالک میں انتخابات جیتنے کے بعد نہ سخت قوانین کا اطلاق کیا اور نہ شریعت کے نفاذ کا اعلان کیااور نہ ہی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ تینوں جماعتوں کے تجربات اور ان کے ممالک کے حالات نے انھیں مختلف طریقوں سے کام کرنے پر مجبور کیا، تاہم تینوں نے جمہوری روایات کے حوالے سے اپنے موقف میں لچک پیدا کی، ان کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوا کہ آنے والی دہائیوں میں وہ جمہوریت کو بڑی حد تک قبول کر لیں گی۔ جہاں تک اخوان اور PJD کی بات ہے تو انھوں نے یہ لچک پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ہی پیدا کرنا شروع کی،لیکن النہضہ نے اپنی پابندیوں کے دور میں بتدریج اپنے آپ کو تیونسی معاشرے کے مطابق تبدیل کیا۔
“Islamist parties in North Africa”. (“brookings.edu”. July 22, 2018)
Leave a Reply