اسلام پسندوں کا اقتدار، مغرب اور عرب حلقے

عرب ممالک میں استبداد، کرپشن اور نظام حکومت کے سقوط کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ عجیب و غریب اور مشکوک و مشتبہ ہے۔ دو برس قبل ’’عرب بَہار‘‘ نے تیونس سے لے کر مصر، لیبیا، یمن اور شام کو اپنی لپیٹ میں لیا، ان میں سے بیشتر ممالک نے جمہوری راستے کے واضح شعارات (پارلیمانی و صدارتی انتخابات سے لے کر دستوری ترمیمات کے استصواب تک) کو اپنایا، لیکن اس کا اثر نہ سیاسی استحکام پر دکھائی دیا، نہ اقتصادی خوشحالی پر۔ اگر ہم شام کو چھوڑ دیں جہاں پُرامن عوامی انقلاب گھمسان کی جنگ میں بدل چکا ہے، تو باقی ممالک تیونس سے لے کر مصر، لیبیا اور یمن تک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں جانتا۔ اسلامی طاقتیں صدارت یا پارلیمان میں صاف ستھرے آزادانہ انتخابات کے ذریعے پہنچیں جن کی شفافیت میں کسی کو اشکال نہیں تھا، پھر ان کے نتائج کے خلاف یہ وبال کیوں؟ تمام قومیں آزادی و جمہوریت چاہتی ہیں، اب وہ حاصل ہو گئی تو حاسدین کیا چاہتے ہیں؟

مصر میں انتخابات میں کامیاب ہونے والی اسلامی طاقتوں نے جمہوریت کے تمام معیارات و وسائل کی اور عدالت کے احکام کی پابندی کی، جس نے دست درازی کرکے پارلیمان کو تحلیل کر دیا اور منتخب صدر جمہوریہ پر بھی ہاتھ صاف کرنے والی تھی، جبکہ صدر محمد مرسی نے تواضع و انکار ذات کی بلند ترین مثالیں قائم کیں، وہ اب بھی قاہرہ کی ایک سڑک پر واقع پانچویں منزل پر کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں، جہاں نہ جمہوری گارڈز کا گزر ہے نہ پولیس حفاظت کا، (اور ہر دن پڑوس کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کرنے جاتے ہیں، اسی طرح جب سعودی عرب کے پہلے سرکاری دورے پر جاتے ہوئے ان کے اہل و عیال نے ہمراہی میں عمرے کی ادائی کا خیال ظاہر کیا تو انہوں نے ان کو اپنے مصارف سے پرائیویٹ ہوائی کمپنی سے تنہا بھیجا) صدارتی محل کے محاصرے کے وقت جب فتنہ پرداز اس میں گھسنے کے لیے اس کے دروازوں پر سنگ باری اور آتشیں بم پھینک رہے تھے، اس وقت بھی انہوں نے دوسروں کی آزادیوں (بلکہ انتشار اور دست درازی) کا لحاظ کیا، دنیا میں کون صدر اس کی اجازت دیتا ہے؟ میدانِ تحریر میں اب بھی بے روزگار خیمے گاڑے ہوئے ٹریفک میں رکاوٹ اور اقتصادی سرگرمی کو معطل کر رہے ہیں، ان کو پولیس ہٹا سکتی ہے، لیکن نظر انداز کر رہی ہے، تو یہ لوگ کیسی آزادی چاہتے ہیں اور کب تک؟

تیونس کے انتخابات میں النہضہ تحریک کے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود راشد الغنوشی نے کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کیا، بلکہ تحریک کے ایک کارکن حمادی جبالی کو حکومت تشکیل دینے کا کام سونپا (جنہوں نے قدیم نظام کے زمانے میں سولہ برس جیل میں گزارے تھے) انہوں نے عوامی، وطنی اور لبرل طاقتوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائی اور کسی ایسے مسئلے کو نہ چھیڑا جس سے سیاست متاثر ہو کر ملکی اقتصادیات کو نقصان پہنچائے، لیکن دیگر سیاسی عناصر کو سکون نہیں ہوا، بلکہ وہ مظاہروں اور پبلک زندگی کو معطل کرنے پر مصر ہیں، اور جب بائیں بازو کے شکر بلعید کا قتل ہوا تو حکومت بلکہ راشد الغنوشی پرالزام لگانے لگے، جبکہ راشد الغنوشی اور ان کی تحریک اپوزیشن اور بائیں بازو کی طاقتوں کے ساتھ اپنے روادارانہ سلوک کی پابندی کرتے ہیں، جو کبھی کبھی دیگر اسلامی اتحادیوں کو برا بھی لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی رجحان کے مخالفین کیا چاہتے ہیں؟ اگر ان کو آزادی و جمہوریت چاہیے تو وہ بلند ترین معیار سے حاصل ہے اور اگر وہ ہر قیمت پر مخالفانہ انقلاب اور مظاہرے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اسلام پسند بھی جوابی مظاہرے کر سکتے ہیں، لیکن اس سے ملک برباد ہوگا اور رجوع تو عوام ہی کی طرف کرنا ہوگا جن کو پیغام پہنچ چکا ہے اور وہ اس کو اچھی طرح سمجھ بھی چکے ہیں، وہ ہرگز اسلامی رجحان سے دستبردار نہیں ہوں گے، جس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسلام اور امت کے مسائل سے وفاداری کے زیادہ پابندہیں۔ یہاں ایک تیسرا احتمال پیدا ہوتا ہے کہ دیگر اسلامی طاقتیں سامنے آئیں جو لبرل رجحانات کا زیادہ طاقت سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت صرف عوامی میدان ہی میں نہیں بلکہ دھماکا خیزی میں بھی رکھتی ہوں، جیسا کہ اُس وقت ہوا تھا، جب کھلے ذہن کی اسلامی تحریکوں کا ’’سیاسی اسلام‘‘ کے نام سے استبدادی نظاموں نے محاصرہ کیا تھا، تو عسکریت پسند یا انتہا پسند طاقتوں نے اپنے معروف اسلوبوں سے مقابلہ کیا تھا۔

شام میں یہ احتمال مستبعد نہیں ہے، اس لیے کہ وہاں اسلامی رجحان زیادہ وسیع پیمانے پر موجود ہے اور اس نے سب سے زیادہ ظلم و ستم برداشت کیا ہے۔ ان میں نمایاں ترین رجحان اخوان المسلمون کا ہے جس کا وجود گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی سے ہے، لیکن شام کے مسئلے میں عرب علاقائی اور بین الاقوامی بااثر طاقتیں اس اسلامی گروہ کو مدد دینا چاہتی ہیں نہ مجلس وطنی کو جو گزشتہ برس استنبول میں بنی تھی، نہ معاذ الخطیب کی سربراہی میں قاہرہ میں بنے ہوئے اتحاد کو، اسی وجہ سے تلخی کے ساتھ خطیب نے اپنے آخری انٹرویو میں موجودہ نظام کے ساتھ گفتگو کی پیشکش کی جبکہ تمام اپوزیشن گروہ اس گفتگو کے خلاف ہیں، اس لیے سب کو یقین ہے کہ اگر موجودہ نظام ختم ہوا تو اس کا متبادل نہ امریکی و مغربی حلقوں کو قبول ہوگا نہ علاقائی عرب خاص طور سے خلیجی ممالک کو جو کہ شامی انقلاب کے سیاسی اور تعمیری پہلوئوں کی مدد کر رہے تھے۔

صحیح بات یہ ہے کہ عرب انقلابات کے وقت مغربی حلقے، خاص طور سے امریکا، صدارتی انتخابات میں مشغول تھا اور وہ عرب خطے میں اپنے ایجنٹوں کو ایک کے بعد ایک گرتے ہوئے دیکھتا رہا، اگر بشارالاسد کا نظام بھی ڈھیر ہوتا تو وہ ہر گز افسوس نہ کرتا، اگرچہ کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی مدت دراز تک پابندی کرتا رہا، لیکن وہ لبنان میں مزاحمتی گروہوں کی مدد کرتا تھا، مگر ترجیحی متبادل کے طور سے اسلامی طاقتیں حماس و جہاد اسلامی سے ربط کی بنا پر صہیونی و امریکی مفادات کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہو سکتی تھیں، اس لیے عرب اور مغربی طاقتوں نے شام میں جنگ کی مدت دراز کرنے اور اپوزیشن کو فتح حاصل نہ کرنے دینے کی پالیسی اختیار کی۔ اب اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی شام اور اس کے عوام کی مدد کرے۔

(اداریہ ہفت روزہ ’’الامان‘‘، بیروت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*