آخرکار مورد کئی ونیونو کو اسرائیل کی قید میں ۱۸ سال رہنے کے بعد ۲۱ اپریل کو رہائی مل گئی۔ ان کی رہائی کے ساتھ ہی ایک بار پھر عالمی میڈیا کو وہ ساری باتیں یاد آرہی ہیں جن کا انکشاف کرنے پر اسرائیلی شہری کو اپنی حکومت کے ہاتھوں ناقابلِ بیان اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ خوفناک حقیقت جس سے دنیا کو پہلی بار آگاہ کرنے والے وینونو کو ۱۸ برس تک جیل میں رہنا پڑا اسرائیلی جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہے۔ یہ ونیونو تھا‘ جس نے پہلی مرتبہ دنیا کو بتایا کہ اسرائیل کے پاس ۱۵۰ سے ۲۰۰ تک نیو کلیائی بم موجود ہیں۔ ونیونو کی حالیہ رہائی نے دنیا کے تمام باضمیر شہریوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ امریکا کی اس پالیسی کو چیلنج کریں کہ وہ کس طرح اسرائیل کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی حمایت کرتا ہے‘ جب کہ ایران اور کوریا جیسے ممالک کو محض ایٹمی ہتھیار سازی کی صلاحیتوں کی بنا پر سزا دینے کے درپے ہے۔ امریکا نے عراق کی اینٹ سے اینٹ اس لیے بجا دی کہ عراق ایٹمی ہتھیار بنا رہا تھا۔ لیکن اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ اسے نظر نہیں آتا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایران اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے امریکا پر تنقید کی تھی کہ وہ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے اور اسرائیلی ایٹمی پلانٹ کی اقوامِ متحدہ کے ذریعہ نگرانی کرانے پر کیوں زور نہیں دے رہا ہے؟
گزشتہ سال عراق پر امریکا‘ برطانیہ اور ان کے حلیف ممالک کے حملے سے تین روز پہلے ۲۰ مارچ کو بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم نشر کی تھی‘ جس کا آغاز ان سوالوں سے ہوا:
مشرقِ وسطیٰ میں کس ملک کے پاس غیرعلانیہ جراثیمی و کیمیاوی صلاحیت ہے؟ مشرقِ وسطیٰ کے کس ملک میں معائنہ کرنے والے ماہرین نے کبھی قدم نہیں رکھا؟
بی بی سی کی نامہ نگار اولینکا فرینکیل چاہتیں تو یہ سوالات بھی کر سکتی تھیں‘ جو زیادہ خوف ناک تھے۔ وہ کون سا ملک ہے جو دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پانچویں بڑے ذخیرے کا مالک ہے؟ وہ کون سا ملک ہے جو‘ جوہری طاقت ہونے کا اعلان کیے بغیر ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ کر چکا ہے؟ وہ کون سا ملک ہے جو جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیار استعمال کر چکا ہے؟ وہ کون سا ملک ہے جس نے اپنے جوہری پروگرام پر دبائو ڈالنے والے امریکی صدر کو قتل کروایا تھا؟ ان سب سوالات کا ایک ہی جواب ہے۔۔۔ اسرائیل۔۔۔ بے لگام بدمعاش اور سفاک صیہونی ریاست! بی بی سی کی دستاویزی فلم ’’اسرائیل کے خفیہ ہتھیار‘‘ برطانیہ میں ۱۷ مارچ کو نشر کی گئی تھی۔ صیہونی حکومت نے اس کی نشریات کو رکوانے کی پوری کوشش کی اور موقف اختیار کیا کہ یہ پروگرام تعصب پر مبنی ہے لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ بی بی سی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ۲۹ جون کو ۴۵ منٹ کی یہ دستاویزی فلم بی بی سی ورلڈ کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے پیش کر دی۔ اولینکا فرینکیل کی فلم تلخ حقائق پر مبنی ہے اور اس کی بنیاد سابق اسرائیلی ٹیکنیشین موردکئی وینو کی ذات کو بنایا گیا ہے۔
۱۷ سال پہلے کی بات ہے کہ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے رپورٹر پیٹرہونیم نے افواہ سنی کہ کوئی باغی ٹیکنیشن اسرائیل کے جوہری پروگرام کے بارے میں باتیں کرتا پھر رہا ہے۔ ہونیم کو معلوم ہوا کہ وینونو نے اب عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور وہ آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ وہ وینونو سے ملاقات کے لیے آسٹریلیا پہنچ گیا اور اسے مجبور کیا کہ اپنی کہانی سنانے کے لیے سنڈے ٹائمز کے دفتر آئے۔ وینونو لندن کے مضافات میں ایک ہوٹل میں روپوش ہو گیا اور اسے کار کی ڈکی میں چھپا کر اخبار کے دفتر لایا گیا۔ لیکن موساد سے کچھ چھپا نہیں رہ سکا۔ اس کے ایجنٹ مسلسل وینونو کے پیچھے تھے۔
سنڈے ٹائمز نے وینونو کی سنسنی خیز کہانی ۵ اکتوبر ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں شامل کی لیکن اُس وقت وہ خود لندن میں نہیں تھا۔ چند روز قبل اس کی ملاقات ایک امریکی حسینہ سے ہوئی تھی۔ جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ روم میں اس کے ساتھ محفوظ رہ سکتا ہے۔ بے چارہ وینونو یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ حسینہ بھی اسرائیلی ایجنٹ ہے۔ روم پہنچتے ہی اسرائیلی ایجنٹوں نے وینونو کو اغوا کر لیا‘ اسے مارا پیٹا اور بے ہوشی کی حالت میں اسرائیل منتقل کر دیا۔ یہ واقعہ ۳۰ ستمبر ۱۹۸۶ء کو پیش آیا۔
وینونو پر اسرائیل میں خفیہ مقدمہ چلایا گیا اور غداری کا الزام ثابت ہونے پر اسے اٹھارہ سال کی سزا دی گئی۔ اس کی سزا ۲۷ مارچ ۱۹۸۸ء کو شروع ہوئی اور پہلے ۱۴ سال اس نے ۹x۶ فٹ کی کوٹھری میں قید تنہائی میں گزارے۔ مغربی دنیا میں کوئی شخص اتنا عرصہ قید تنہائی میں نہیں رہا‘ لیکن وہ صرف غدار نہیں تھا‘ اس نے یہودیت کو بھی مسترد کیا تھا۔ اس کے سگے والدین نے اعلان کیا کہ بیٹا ہمارے لیے مر چکا ہے۔ اب بھری دنیا میں وینونو کا کوئی نہیں تھا۔
اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کا آغاز غالباً اس کے قیام کے اعلان کے فوراً بعد ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر تھی کہ صیہونی ریاست کے وجود کو روزِ اول سے اپنے تمام ہم سایوں سے خطرات لاحق تھے اور اسرائیل اس کی بقا کے لیے ایٹمی ڈھال کو ضروری سمجھتے تھے۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشروں میں کئی یہودی سائنس داں فلسطین ہجرت کر چکے تھے‘ جن میں ارنسٹ ڈیوڈ برگین بھی شامل تھا۔ یہ شخص بعد میں اسرائیلی ایٹمی توانائی کمیشن کا سربراہ بنا اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کا بانی ثابت ہوا۔
اسرائیل نے جوہری پروگرام کا آغاز فرانس کے تعاون سے کیا تھا۔ ۱۹۴۹ء میں ایک فرانسیسی جوہری سائنس داں فرانس پیرن نے اسرائیل کے وائزمین انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا۔ وہ برکمین کا ذاتی دوست اور فرانس کے ایٹمی توانائی کمیشن کا سربراہ تھا۔ فرانس جنگِ عظیم دوم سے قبل‘ جوہری سائنس کی تحقیق میں سب سے آگے تھا لیکن جنگ کے بعد امریکا‘ روس‘ برطانیہ اور حد یہ کہ چین بھی اس سے آگے نکل گئے۔ فرانس کو بھی تعاون کی ضرورت تھی اور اسرائیلی سائنس دانوں سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ چنانچہ ستمبر ۱۹۵۶ء میں اس حوالے سے پہلا سمجھوتہ ہوا اور چند ماہ کی گفت و شنید کے بعد ابتدائی معاہدہ ہو گیا۔ یہ وہی وقت تھا جب فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہرِ سوئز پر قبضے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں امریکی اور روسی دبائو پر دست بردار ہونا پڑا تھا۔ ایٹمی ری ایکٹر سیکیف میں بیرشیبا کے قریب دمونہ میں خفیہ طور پر قائم کیا گیا۔ اس کی تعمیر ۱۹۵۸ء میں شروع ہوئی تھی۔ ری ایکٹر کے لیے ۱۹۵۹ء میں ۲۰ ٹن بھاری پانی ناروے سے خریدا گیا۔ ۱۹۶۰ء میں ری ایکٹر کے کام شروع کرنے سے قبل فرانس میں ڈیگال صدر بن گئے اور انہوں نے دستِ تعاون کھینچ لیا۔ وہ اس شرط پر دوبارہ تعاون کرنے پر رضامند ہوئے کہ اسرائیل اس منصوبے کا اعلان کرے اور جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کا وعدہ کرے۔ ابھی اسرائیلی اس بارے میں غور کر رہے تھے کہ ۲ دسمبر کو امریکی محکمہ خارجہ نے بیان جاری کیا کہ اسرائیل میں خفیہ ایٹمی تنصیبات قائم کی گئی تھیں۔ ۱۶ دسمبر کو نیویارک ٹائمز نے یہ خبر شائع کر دی اور دنیا کو پہلی بار اس بارے میں کچھ معلوم ہوا۔ ۲۱ دسمبر کو اسرائیلی صدر بین گوریاں نے اعلان کیا کہ اسرائیل پرامن مقاصد سے ایٹمی ری ایکٹر قائم کر رہا ہے۔ فرانس نے ۱۹۶۲ء میں دوبارہ تعاون شروع کر دیا اور فرانسیسی ماہرین نے پلوٹونیم پلانٹ پر کام بحال کر دیا۔ ۱۹۶۵ء تک اسرائیل ایٹمی ہتھیار تیار کر چکا تھا۔ دمونہ کے پلانٹ کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی فضائیہ کا اپنا ایک طیارہ غلطی سے اس طرف آنکلا تو اسے مار گرایا گیا۔ ۱۹۶۷ء ہی میں چھ روز عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو صیہونی حکومت کے پاس کم از کم دو ایٹمی ہتھیار موجود تھے۔ اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں کو سخت نقصان پہنچایا تھا‘ اور جنگ ختم ہوتے ہی فریقین نے دوسری جنگ کی تیاری شروع کر دی تھی۔ ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو مصر اور شام نے اسرائیلی تہوار یوم کپور پر اچانک حملہ کر کے اس کی فضائی طاقت کو شدید متاثر کیا۔ زبردست حملے کی وجہ سے اسرائیلی فوجی دستے گولان کی پہاڑیاں چھوڑ کر فرار ہو چکی تھیں۔ اور اسرائیل کو بدترین شکست سامنے نظر آرہی تھی۔ اس وقت بظاہر صیہونی حکومت کے پاس ہتھیار استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ ۱۸ اکتوبر کو وزیراعظم گولڈامیئر کے حکم پر نیوکلیئر الرٹ جاری کیا گیا۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو ۱۹ اکتوبر کی صبح اس بارے میں علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے صورتحال کی نزاکت بھانپ کر اسرائیل کو فوری طور پر فوجی امداد فراہم کی جس کی وجہ سے جنگ کا نقشہ پلٹ گیا‘ اور جوہری حملے کا امکان ختم ہو گیا۔
اسرائیل نے دمونہ کی سرگرمیاں چھپانے کے لیے پلانٹ کو طرح طرح کے نام دیے ہیں۔ کبھی اسے ٹیکسائل فیکٹری کہا گیا اور کبھی مینکنیز پلانٹ کہا گیا۔ امریکی انٹیلی جینس کو ۱۹۵۸ء کے اختتام پر اس کے بارے میں علم ہوا جب امریکی جاسوس طیارے نے اس کی تصاویر اتاریں۔ وینونو کے بعد اگر کسی اور شخص نے اسرائیل کے جوہری عزائم کا بھانڈہ پھوڑا ہے تو وہ اسرائیلی دانشور ایونر کوہن ہیں۔ ان کی کتاب ’’اسرائیل اینڈ دی بم‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی‘ جس میں انہوں نے صرف اسرائیلی جوہری پروگرام کی تصدیق نہیں کی بلکہ متعدد انکشافات بھی کیے۔ اب امریکا میں رہائش پذیر کوہن نے بتایا کہ امریکی انٹیلی جینس کو دمونہ پلانٹ کا علم اس کے قیام کے تین سال بعد ہوا جو اس کی بدترین ناکامی تھی۔ جہاں تک کہ ایٹمی عدم پھیلائو کا تعلق ہے‘ اسرائیل اس کا بھی قائل نہیں رہا۔ ۲۰ اپریل ۱۹۹۷ء کو اسرائیلی اخبار Ha’aretz میں رپورٹ شائع ہوئی کہ ۸۰ء کی دہائی کے آغاز میں اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو ایٹمی صلاحیت کے حصول میں مدد دی تھی۔ قبل ازیں ۱۹۹۳ء میں جنوبی افریقہ میں بعض خفیہ سرکاری دستاویزات عام ہونے سے بالواسطہ تعاون کا انکشاف ہوا تھا۔ اسرائیلی اخبار نے بتایا کہ ہتھیار سازی میں تعاون کے علاوہ اسرائیل نے جنوبی افریقہ سے ۵۰۰ ٹن یورنیم خریدا تھا‘ جب کہ بدلے میں اسے تکنیکی معلومات اور جوہری ہتھیاروں کی قوت بڑھانے کا مواد فراہم کیا تھا۔ اسرائیل نے کبھی ان خبروں کی تردید یا تصدیق نہیں کی وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر کام کر رہا ہے لیکن حقیقت چھپ نہیں پاتی۔ ۱۹۹۲ء میں ایک اسرائیلی مال بردار طیارہ ایمسٹر ڈیم کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں ۴۳ افراد ہلاک ہوئے جبکہ سیکڑوں لوگ پُراسرار بیماری میں مبتلا ہو گئے‘ جس کی وجہ سے ڈچ پارلیمان کی کمیٹی کو اس بارے میں تحقیقات کرنا پڑی۔ اسرائیلی حکام نے کہا کہ طیارے میں پھول اور پرفیوم لدے ہوئے تھے‘ لیکن ڈچ حکام نے اپنی تحقیقات جاری رکھی۔ آخر ۱۹۹۸ء میں انکشاف ہوا کہ طیارے میں ۵۰ گیلن ڈی ایم ایم پی موجود تھی‘ جو اعصابی گیس کی تیاری کا لازمی جزو ہے۔ یہ ڈیم ایم ایم پی نیس صیہونا میں اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ آف بایولوجیکل لیبارٹری کے لیے روانہ کی گئی تھی۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کے پاس کم از کم دو سو جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اس کے لیے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ وینونو نے دمونہ میں ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۵ء تک کام کیا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق ۱۹۷۶ء سے قبل اسرائیل ۲۰۰ کلو گرام پلوتونیم تیار کر چکا تھا۔ ۱۹۸۶ء تک مزید ۴۰۰ کلو گرام پلوٹونیم تیار کیا گیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت سے اب تک ۳۰۰ کلو گرام پلوٹونیم تیار ہو چکا ہو گا۔ اس طرح اسرائیل کے پاس ۹۰۰ کلو گرام پلوٹونیم ہے۔ وینونو نے بتایا تھا کہ اسرائیل ایک ہتھیار میں ساڑھے چار کلو گرام پلوٹونیم استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کے پاس لگ بھگ دو سو جوہری ہتھیار موجود ہیں اور وہ دنیا کی پانچویں بڑی طاقت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ ممبئی)
اسرائیلی جوہری پروگرام‘ ایک نظر میں
٭ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء۔ اسرائیلی ریاست کا قیام۔ نومبر ۱۹۵۶ء فرانس اور اسرائیل میں جوہری تعاون کا سمجھوتہ۔
٭ ۱۹۵۸ء۔ تل ابیب کے جنوب میں نہل سورق کے مقام پر جوہری پلانٹ قائم ہوا۔
٭ ۱۹۵۸ء۔ کا اہتمام امریکی جاسوس طیاروں نے دمونہ جوہری پلانٹ کا سراغ لگالیا۔
٭ ۱۹۶۰ء۔ فرانسیسی صدر ڈیگال کا اسرائیل کو جوہری تعاون سے انکار۔
٭ ۲ دسمبر ۱۹۶۰ء۔ اسرائیل نے جوہری تنصیبات قائم کی ہیں‘ امریکی محکمہ خارجہ۔
٭ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۰ء۔ نیو یارک ٹائمز میں اسرائیلی جوہری تنصیبات کی خبر۔
٭ ۱۹۶۲ء۔ فرانس نے اسرائیل کے ساتھ دوبارہ تعاون شروع کر دیا۔
٭ ۲ اپریل ۱۹۶۳ء۔ وائٹ ہائوس میں نائب اسرائیلی وزیرِ دفاع شمعون پیریز سے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی ملاقات‘ جوہری پروگرام کے حقائق بیان کرنے پر اصرار۔
٭ ۵ جولائی ۱۹۶۳ء۔ کینیڈی نے اسرائیلی وزیراعظم ایشکول کو دھمکی دی کہ جوہری پروگرام کے حوالے سے معلومات نہ دی گئیں تو امریکا حمایت سے ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔
٭ ۲۲ نومبر ۱۹۶۳ء۔ کو صدر کینیڈی کو ڈلاس میں قتل کر دیا گیا۔
٭ ۱۹۶۶ء۔ اسرائیل نے جوہری ہتھیار تیار کر لیے۔
٭ ۱۹۶۷ء۔ اسرائیلی فضائیہ کا طیارہ بھٹک کر دمونہ پلانٹ کے پاس آنے پر مار گرایا گیا۔
٭ ۲۲ دسمبر ۱۹۷۹ء کو جنوبی بحر ہند میں ایٹمی تجربہ کا کوئی ذمہ دار سامنے نہیں آیا لیکن اسرائیل اور جنوبی افریقہ پر شبہ ظاہر کیا گیا۔
٭ ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۶ء۔ سنڈے ٹائمز میں مردکئی وینونو کے انکشافات کی اشاعت۔
٭ ۲۷ مارچ ۱۹۸۸ء۔ وینونو کو غداری کے الزام میں اٹھارہ سال قید کی سزا دی گئی۔
٭ ۲۱ جون ۱۹۹۰ء۔ سورق‘ اسرائیل میں تابکار مواد کا حادثہ۔
٭ ۱۹۹۴ء۔ جینز انٹیلی جینس ریویو نے رپورٹ دی کہ اسرائیل کے پاس دو سو ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
٭ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء۔ اسرائیلی چینل ٹو پر پہلی بار جوہری پروگرام کے حوالے سے رپورٹ نشر ہوئی۔
{}{}{}
Leave a Reply