تین اکتوبر ۲۰۱۲ء کو ترکی نے شام کے علاقوں پر گولہ باری کی اور ۱۰؍کلومیٹر پر محیط بفر زون قائم کرلیا۔ یہ گولہ باری شامی فورسز کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری کے جواب میں تھی، جس کے نتیجے میں سرحدی علاقے میں چند شہری مارے گئے تھے۔ یہ گولہ باری بظاہر شام کی بشارالاسد انتظامیہ کو برطرف کرنے سے متعلق ترک حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہ حکمتِ عملی ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو کی وضع کی ہوئی ہے۔
۲۰۰۶ء میں ایک موقر تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ترکی اب اخوان المسلمون کے نظریات کا عالمی مرکز ہے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات سے قبل سعودی عرب سے دس ارب ڈالر حاصل کیے تھے جو بظاہر ترکی میں وہابی ازم کو فروغ دینے کے لیے تھے۔ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے ۱۹۵۰ء کے عشرے سے مصر کے جلا وطن رہنماؤں کو سعودی عرب میں آباد کرتا رہا ہے۔
شام پر ترکی کی گولہ باری خطرناک ہے کیونکہ جوابی گولہ باری سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ ترکی نیٹو کا حصہ ہے۔ اس پر حملہ پوری تنظیم پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔
دسمبر ۲۰۱۱ء میں سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار فلپ جیرالڈ (Philip Giraldi) نے کہا تھا کہ نیٹو شام کے قضیہ میں ملوث ہوتی جارہی ہے۔ ترکی در اصل امریکا کی طرف سے جنگ لڑ رہا ہے۔ یعنی یہ پراکسی وار ہے۔ ترک وزیر خارجہ دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ مغرب کی رضامندی حاصل ہوتے ہی ترک فوج شام کے خلاف میدان میں نکل آئے گی۔ بفر زون کے قیام کے بعد جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ نیٹو کے ان مارکڈ طیارے اسکندرم کے علاقے میں لینڈنگ کر رہے ہیں۔ ان طیاروں کے ذریعے لیبیا سے اسلحہ ڈمپ کیا جارہا ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے ملٹری ٹرینرز شام کے باغیوں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ سی آئی اے اور پینٹاگون کی اسپیشل فورسز شامی باغیوں کو جدید ترین آلات اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
جس دن ترکی نے شامی علاقوں پر گولہ باری کی اسی دن اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر بھی گولہ باری کی تاکہ شام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک حکومت نے بالواسطہ طور پر اسرائیلی پالیسیوں کے مطابق کام کیا ہے یعنی شام پر دباؤ بڑھایا ہے۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک دی بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے ’’سیونگ سیریا: اسیسنگ آپشنس فار ریجم چینج‘‘ کے زیرعنوان مارچ ۲۰۱۲ء میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی گولہ باری کا بنیادی مقصد شام کو اس خوف میں مبتلا کرنا تھا کہ اسے بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ لڑنی پڑسکتی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل نژاد امریکی (یہودی) ارب پتی ہائم سبان کا کردار بہت اہم ہے۔ اس نے کئی مواقع پر صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ ہر حال میں اسرائیل کی بھرپور حمایت اور مدد کرتا رہے گا۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی رپورٹ کے لیے بھی ہائم سبان نے فنڈ دیے تھے۔ دی سبان سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی میں دائیں بازو کے انقلاب پسند عناصر نمایاں ہیں۔ ان میں اسرائیلی مسلح افواج کی ملٹری پلاننگ کے سابق سربراہ شلومو یانائی اور اسرائیل کے لیے امریکا کے سابق سفیر اور اسرائیل نواز تھینک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے بانی مارٹن انڈک اہم ہیں۔ وزٹنگ فیلوز میں اسرائیلی تنظیم شن بیت کے سابق سربراہ ایوی ڈکٹر اور اسرائیلی فوج کے ڈائریکٹوریٹ آف ملٹری انٹیلی جنس میں ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ یوسف کپر واسر شامل ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیوں چاہے گا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت نہ رہے؟ بشار حکومت کے خاتمے کی صورت میں شام میں ایک ایسی حکومت کا قیام یقینی ہے جو ممکنہ طور پر اخوان المسلمون کے زیر اثر ہوگی اور اس صورت میں اسرائیل کی سیکورٹی بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔
جیو پولیٹیکل سمت
اس وقت شام کے مسئلے پر ایران، روس اور چین ایک طرف ہیں اور ترکی، عرب و خلیجی ریاستیں اور شمالی افریقا کے ممالک دوسری طرف ہیں۔ یہ صورتِ حال خطے میںکشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول کئی ممالک کے مستقبل پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ شام کی صورتِ حال کا فائدہ اٹھاکر کئی ممالک توانائی کے حوالے سے برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو مشرق وسطیٰ کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرے گا وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنائے گا۔ روس اور یوریشیا کے لیے بھی یہ سب کچھ اہم ہے اس لیے روس اور چین بھی میدان میں ہیں۔
دنیا بھر میں گیس کو متبادل توانائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ جاپان میں فوکوشیما ایٹمی پلانٹ کے حادثے کے بعد یورپ بھر میں ایٹمی توانائی کے خلاف آواز اٹھائی جانے لگی ہے۔ یورپی یونین بھی چاہتی ہے کہ اس کے زیر اثر علاقے میں گیس کو توانائی کے بہترین متبادل ذریعے کی حیثیت سے اپنایا جائے۔
شام، ایران، عراق گیس پائپ لائن
جولائی ۲۰۱۱ء میں شام کو غیر مستحکم کرنے کے ترکی اور نیٹو کے اقدامات بھرپور طور پر عمل پذیر تھے۔ ایسے میں شام، ایران اور عراق نے ایک گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کیے۔ عالمی میڈیا میں اس معاہدے کی نمایاں رپورٹنگ نہ ہوسکی۔ دس ارب ڈالر کا یہ منصوبہ ایران کے اسولیہ بندرگاہ سے دمشق تک پھیلا ہوا ہوگا۔ پائپ لائن عراق سے بھی گزرے گی۔ ایران اس پائپ لائن کو لبنان کی بندر گاہوں تک بھی پھیلانا چاہتا ہے تاکہ یورپی ممالک کو بحیرۂ روم کے ذریعے گیس فراہم کی جاسکے۔ خلیج کے خطے میں ایران اور قطر کے درمیان جنوبی پارس کے خطے میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جنہیں ایران جلد ازجلد بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ مجموعی طور پر شیعہ گیس پائپ لائن ہوگی جو شیعہ اکثریت کے ایران سے نکل کر شیعہ نواز عراق سے ہوتی ہوئی شیعہ دوست شام تک پہنچے گی۔ پریشانی کی بات صرف یہ ہے کہ ایران کی یہ گیس فیلڈ قطر سے بہت قریب ہے جو امریکا اور یورپ کے لیے فوجی اڈا ہے۔ قطر میں امریکی ایئر فورس کا سینٹرل ہیڈ کوارٹر، رائل ایئر فورس (برطانیہ) کی ایکسپیڈیشنری فورس کا مرکز اور امریکی ایئر فورس کی ایئر ایکسپیڈیشنری یونٹ کا بھی کمانڈ سینٹر ہے۔ قطر ہی میں الجزیرہ ٹی وی چینل بھی ہے، جو بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قطر کو گیس پائپ لائن سے کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ یہ اس کے علاقے سے گزرتی ہی نہیں۔ پائپ لائن سے ترکی کا بھی کوئی تعلق نہیں مگر ہاں، قطر کی حکومت شام میں باغیوں کے ہاتھ مضبوط کرکے گیس پائپ لائن منصوبے کو سبوتاژ ضرور کرسکتی ہے۔ شام میں تیل اور گیس کی تلاش پر مامور کمپنیوں نے لبنانی سرحد سے ملحق علاقے قرا (Qara) میں ایک نئی گیس فیلڈ دریافت کی ہے۔ اس گیس فیلڈ میں بھی اتنی ہی گیس ہے جتنی قطر کی گیس فیلڈ میں ہے۔ اس گیس فیلڈ کے نزدیک تارسس (Tarsus) کی شامی بندرگاہ ہے جو روس نے لیز پر لے رکھی ہے۔ ایشیا ٹائمز کے پیپ ایسکوبار لکھتے ہیں کہ قطر اپنی گیس اردن کی بندر گاہ عقبہ کے ذریعے یورپ کو برآمد کرنا چاہتا ہے۔ قطر کے امیر نے مبینہ طور پر حال ہی میں اخوان المسلمون سے ایک معاہدہ کیا ہے، جس میں اس کی بین الاقوامی توسیع کے لیے رقوم کی فراہمی اس بنیاد پر منظور کی ہے کہ خود قطر میں کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ اردن اور شام میں اخوان المسلمون کی حکومت بنی تو گیس کی عالمی مارکیٹ میں سب کچھ تیزی سے قطر کے حق میں بدل جائے گا اور شام، ایران، عراق، روس اور چین پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایسکوبار نے لکھا ہے کہ قطر بظاہر دس ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کی جانے والی ایران، عراق اور شام گیس پائپ لائن کو کسی نہ کسی طرح سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ تہران اور بغداد نہیں چاہتے کہ دمشق میں حکومت تبدیل ہو۔ شام میں حکومت کی تبدیلی ترکی کے لیے بھی سود مند ثابت ہوگی۔
شمالی اسرائیل کے علاقے تمار (Tamar) میں گیس فیلڈ کا دریافت ہونا بھی خطے میں گیس کے حوالے سے صورتِ حال کو بدلنے کا باعث بنا ہے۔ اس گیس فیلڈ کی دریافت سے اسرائیل کے لیے توانائی کے مسئلے کو حل کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔ امریکا کی نوبل انرجی کے ساتھ مل کر تین اسرائیلی کمپنیوں نے حیفہ سے ۸۴ کلومیٹر دور اور تین کلومیٹر کی گہرائی میں واقع گیس فیلڈ سے پیداوار حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس فیلڈ میں ۱۶ ہزار ارب مکعب فٹ گیس ہے۔ اس گیس فیلڈ کے دریافت ہونے سے یہ خیال کمزور پڑگیا کہ دنیا بھر میں تیل، گیس اور کوئلے کی پیداوار میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
اسرائیل کے لیے توانائی کے معاملے میں خود کفالت کبھی ممکن نہیں رہی۔ ۱۹۴۸ء میں اپنے قیام کے بعد سے اسرائیل توانائی کے بحران میں مبتلا رہا ہے۔ عرب اور خلیج کے ممالک تو تیل اور گیس کے معاملے میں بہت خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں مگر اسرائیل کا جیک پاٹ اب لگا ہے۔ تیل اور گیس تلاش کرنے کی بیشتر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ ییم تیتھیز (Yam Tethys) کی گیس فیلڈ ملک کی ضرورت کی ۷۰ فیصد گیس فراہم کرتی ہے تاہم حکومت کا اندازہ ہے کہ اس گیس فیلڈ میں پیداوار تین سال میں ختم ہو جائے گی۔ اب نئی گیس فیلڈ کی دریافت سے اسرائیلی حکومت کو سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ہوگا۔
توانائی کے وسائل پر قبضے کی جنگ نے مشرق وسطیٰ کو ایک بار پھر تنازعات کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ شام کا ساتھ دینے والوں میں اس کے جانی دشمن ایران، عراق اور لبنان شامل ہیں۔ ایسے میں وہ چاہے گا کہ شام سے گیس کی برآمد ممکن نہ رہے۔ شام میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے اسرائیل بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ترکی اور مصر مل کر خطے کو کنٹرول کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ قطر اپنی بالا دستی چاہتا ہے۔ شام کی حکومت چاہتی ہے کہ ایران اور عراق کے ساتھ مل کر تیل اور گیس کی برآمدات میں اضافہ کرے۔ روس اور چین بھی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ پر زیادہ سے زیادہ تصرف چاہتے ہیں۔ شام میں باغیوں کو ترکی، مصر اور اسرائیل کی مدد حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت بھی اب اخوان المسلمون کی حمایت پر آمادہ ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف ہما عابدین پر اخوان سے مراسم کا الزام ہے۔ ایڈوائزری کونسل آف فیتھ بیسڈ اینڈ نیبر ہڈ پارٹنرشپس کے لیے صدر کی نامزد کردہ اور ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی کی ایڈوائزری کونسل کی رکن ڈالیا مغید (Dalia Mogahed) کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اخوان المسلمون اور اس کے ہم خیال گروپوں سے ان کے مراسم ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تیل اور (اس سے کہیں بڑھ کر) گیس کے ذخائر پر کنٹرول کے لیے امریکا نے اب اخوان المسلمون کو اپنے گھوڑے کے طور پر ریس میں شامل کردیا ہے۔
(“Syria, Turkey, Israel and the Greater Middle East Energy War”… “Global Research”. October 11th, 2012)
Leave a Reply