
فلسطین کو غصب کرکے اسرائیل کہلوانے والی ناجائز صہیونی ریاست پر تنقید کو صہیونی یہودی امریکا اور یورپ میں ایک اصطلاح استعمال کرکے رد کررہے ہیں۔ یہ اصطلاح Anti-Semitism ہے یعنی اسرائیل پر تنقید کرنے والے Semitism کے مخالفین ہیں لہٰذا ان کی تنقید یا مخالفت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یہ Semitism آخر کیا شے ہے؟ امریکا میں مستعمل مشہور لغت ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق لفظ Semite کے کل تین معانی ہیں او بنیادی طور یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ Shem سے اخذ کیا گیا ہے۔ عبرانی زبان میں اسے شام کہہ سکتے ہیں لیکن عربی اور انگریزی میں اسے سام کہا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام کے ایک فرزند کا نام سام تھا۔ لہٰذا Semite یا سامی کے معانی ہوئے حضرت نوحؑ کے بیٹے سام کی اولاد میں سے۔ مثال کے طور پر حضرت ہاشم کی وجہ سے قریش کاذیلی قبیلہ بنو ہاشم کہلایا اور ان کی اولاد ہاشمی کہلائی اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین حضرت علیؓ بھی ہاشمی ہیں۔
سامی یعنی ایسا کوئی بھی شخص کہ جو سامی زبان بولتا ہو ۔ سامی زبانوں میں عبرانی اکیلی زبان نہیں ہے بلکہ عربی بھی سامی زبان ہے۔ ویبسٹر ڈکشنری میں لفظ Semiteکے تیسرے معانی جو کہ دراصل معانی نہیں بلکہ اس لفظ کا Loose استعمال ہے وہ یہ ہے کہ یہ یہودیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر عرب صہیونیت پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں اس لیے سامی مخالف قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ان کی اپنی ثقافت حضرت نوحؑ کے اس بیٹے کی ثقافت کا تسلسل ہے حتی کہ ان کی زبان عربی بھی سامی زبان ہے۔ حضرت نوحؑ کا صرف ایک بیٹا کنعان ایسا تھا کہ جو ان کے اہل بیتؑ میں شامل نہیں تھا او ر اس نافرمان بیٹے کا تذکرہ سورہ ہود آیت نمبر ۴۶ میں کیا گیا ہے۔ عالمِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو پہلے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ؐ کا اُمتی ہو‘ پیروکار ہو اور حضرت نوحؑ کے فرماں بردار بیٹے ’’سام‘‘ سے بغض یا کینہ رکھتا ہو۔
دراصل اردو زبان میں ایک لفظ ’’سام راج‘‘ استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بھی سیاسی اصطلاح میں ایسے ملک کے لیے جو دوسروں کو اپنا زیرِ نگین بنا کر اپنا تسلط قائم کرے۔ امریکی حکمران کے لیے انکل سام کا خطاب بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر صہیونیت اور یہودی واقعاًاپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو سادہ الفاظ میں ’’سام‘‘ اور ’’سامیت‘‘ کی تعریف بیان کریں تاکہ دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو مگر وہ ایسا کیوں کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ صہیونیت اصل میں حضرت نوحؑ کے فرمانبردار فرزند کا نام بدنام کررہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں ’’کنعانیت‘‘ کے جراثیم پائے جاتی ہیں۔
فلسطین اور لبنان میں سامی عربوں پر ’’اسرائیل‘‘ کے نام سے نصف صدی سے زائد عرصے سے جارحیت کرکے بھی صہیونی یہودی Anti-Semite نہیں ہوئے تو پھر صہیونیت کے ردعمل میں بولنے ‘ لکھنے اور مقاومت کرنے والے کیوں کر سامی مخالف قرار دیئے جائیں۔
یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ لبنان پر اسرائیل کی جارحیت ‘ جنگ اور یلغار کے لیے انگریزی الفاظ War`Aggression اور Invasion استعمال کرنے کے بجائے مشرق وسطیٰ میں بحران Crisis in Middle East اور Violence جیسے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ لبنانی صدر ’’ایمل لحود‘‘ نے ممتاز پاکستانی صحافی ’’فہد حسین‘‘ کو حالیہ دنوں میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیل نے ۱۹۸۲ ء سے تین لبنانی فوجیوں کو قیدی بنا رکھا ہے۔‘‘
اس حقیقت کا تذکرہ “CNN” ‘”BBC” وائس آف امریکا ‘ سمیت تمام مغربی ذرائع ابلاغ میں کہیں نہیں ملتا۔ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے زیرِ تربیت دو فوجیوں کو قیدی بنانے کے عمل کو انگریزی میں Retaliation کہنا چاہیے۔ لبنان کے ’’شیبافارمز‘‘ نامی علاقے پر اسرائیلی قبضہ ان اسرائیلی فوجیوں کے قیدی بنائے جانے سے پہلے بھی برقرار تھا۔ لہٰذا حزب اللہ کی کارروائی وطن کا دفاع ہے۔ لبنان کے وزیراعظم اور صدر اس بات کو بار بار دنیا کے سامنے بیان کرچکے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کی سا لمیت وخودمختار ی کا دفاع کررہی ہے۔
امریکا کے وزیر جنگ ڈونلڈرمس فیلڈ بھی اس ناقابل تردیدحقیقت کا اعتراف آن دی ریکارڈ کرچکے ہیں کہ امریکا “War of Ideas” ہار چکا ہے۔ لیکن صہیونی لابی اور مسلم دنیا میں موجود ان کے ٹٹ پونجیے اس حقیقت سے نظر چرا رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ صہیونیت کو آئیڈیا ہی نہیں کہ وہ اپنی تیار قبر کو پیٹھ دیئے کھڑی ہے اور ایک ہلکا سا دھکا بھی اسے اس کی آخری ’’آرام گاہ‘‘ میں لے جاسکتا ہے۔
اب پوری دنیا سے ہماری درخواست ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ امریکا و صہیونیت شیعوں کے مقابلے میں سنیوں کے دوست اور ہمدرد ہیں تو وہ فلسطین پر اسرائیل نامی ناجائز ریاست ختم کرواکے حماس کو یروشلم میں اپنی حکومت کا دارالحکومت قائم کرنے کا حق دلوائیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ امریکا اور صہیونیت سنیوں کے مقابلے میں شیعوں کے دوست اور ہمدرد ہیں تو وہ مشرق وسطیٰ کے شیعہ اکثریتی ممالک میں دین دار شیعہ حکومت کے قیام کے خلاف ساری سازشیں ترک کرواکے لبنان سے فوری طور پر صہیونیت کی دستبرداری کروائیں اور ایران کے پرامن نیو کلیئر پروگرام کو تسلیم کروائیں۔
پوری دنیا کو ہماراچیلنج ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں مسلم ممالک کی عدم ترقی کا سبب فلسطین کا غاصب اسرائیل ہے۔ مسلمان اگر ان شعبوں میں کچھ ایجاد کرتے ہیں تو صہیونیت کے تابع ذرائع ابلاغ اور حکومتیں واویلا شروع کردیتے ہیں۔ ڈونلڈ رمس فیلڈ کی طرح برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی یہ بات سمجھ میں آچکی ہے‘ اسی لیے انہوں نے نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
(ماہنامہ ’’منتظرِ سحر‘‘ کراچی۔ اگست ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply