
اسرائیل کی فوج ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرسکے گی یا نہیں؟ اس سوال پر دنیا بھر کے میڈیا میں بحث ہو رہی ہے۔ مگر اسرائیلی فوج کو اس سے زیادہ پریشان کن سوال کا بھی سامنا ہے۔۔ یہ کہ غزہ کا کیا کیا جائے؟ اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ایویٹل لائبووچ کا کہنا ہے کہ اگست سے اب تک غزہ سے راکٹ داغنے کا سلسلہ تیز سے تیزتر ہوتا گیا ہے۔ اکتوبر کے آخری تین دنوں میں اسرائیل کے جنوبی شہروں میں غزہ کی پٹی سے داغے جانے والے ۴۰ میزائل گرے۔
اسرائیل نے جنوبی شہروں میں میزائل شکن نظام کی بیٹریز نصب کی ہیں۔ جدید ترین نظام شہریوں کو پناہ گاہ تک پہنچنے کے لیے صرف تیس سیکنڈ کی مہلت دیتا ہے۔ اسرائیلی فوج ڈرونز کی مدد سے چند ایک میزائل راستے ہی میں تباہ کردیتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ توپ خانے سے ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو میزائل داغ رہے ہوتے ہیں۔
اگر اسرائیل غزہ کی پٹی سے میزائل داغے جانے کے سلسلے کو ختم کرنا چاہتا ہے تو اسے بہت جلد ایران سے مصر کے راستے سرنگوں کے ذریعے ہتھیاروں کو غزہ کی پٹی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے وسیع زمینی کارروائی کرنا پڑے گی۔ یہ سرنگیں جتنی تیزی اور آسانی سے تباہ کی جاسکتی ہیں اُتنی ہی تیزی اور آسانی سے تعمیر بھی کی جاسکتی ہیں۔
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بینی گینز نے اسرائیلی ریڈیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ جب ہمارے پاس کوئی چوائس نہ ہو تو ہمیں معلوم ہے کہ غزہ سے کس طور نمٹنا ہے، کس نوعیت کا آپریشن کرنا ہے۔ ایک ہفتہ قبل انہوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ کینیسٹ میں کہا تھا کہ اب غزہ میں زمینی کارروائی ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔
اسرائیلی فوج آخری بار ۲۰۰۹ء میں غزہ میں داخل ہوئی تھی۔ مگر اب کھیل کے بنیادی اصول بہت حد تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ ۲۰۰۹ء کی زمینی کارروائی ’’کاسٹ لیڈ‘‘ کے بعد اسرائیل پر عالمی برادری نے غیر معمولی تنقید کی تھی۔ غزہ میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں مارے گئے تھے۔ جنوبی افریقا سے تعلق رکھنے والے جج رچرڈ گولڈ اسٹون نے اسرائیل پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اب اسرائیلی فوج نے کسی بھی بڑی کارروائی سے قبل عالمی برادری سے ایک مبصر یا وکیل کو بھی ساتھ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کسی بھی ہدف کے لیے پیشگی منظوری لی جاسکے۔
یہ اب بھی ایسی جنگ ہے جس میں صرف شکست لکھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد معرض وجود میں آنے والے جن معاہدوں اور کنونشنوں کو آج ہم بین الاقوامی قانون کا نام دیتے ہیں وہ گنجان آباد علاقوں میں جا چھپنے والے دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اسرائیل کو خطے میں ابھرنے والے دوسرے حقائق پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ مثلاً اس بات پر بھی توجہ دی جانی چاہیے کہ غزہ کے خلاف کوئی بڑی زمینی کارروائی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کی پیش رفت پر سے عالمی برادری کی توجہ ہٹا تو نہیں دے گی؟
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اس ہفتے حماس کے سربراہ خالد مشعل سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ دونوں دھڑے نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے آج بھی اتنے ہی دور ہیں جتنے کبھی ہوا کرتے تھے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں مجبوری کے تحت متحد ہو جائیں۔ ایسا ہوا تو غزہ کے خلاف اسرائیل کی کوئی بھی زمینی کارروائی خاصی مشکل ہو جائے گی۔ یہ ملاقات مصر میں ہونے والی ہے۔ مصر کی حکمراں فوجی کونسل اس ملاقات کا اہتمام کر رہی ہے۔ مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہفتے میں سبھی کچھ بدل جائے اور حکمراں فوجی کونسل تحریر اسکوائر میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جائے۔
جزیرہ نما سینا کے علاقے پر مصری فوج کا کنٹرول ختم ہوچکا ہے۔ اس علاقے میں القاعدہ اور حماس سے ہمدردی رکھنے والے کئی گروپ اسرائیل پر حملے کر رہے ہیں۔ اگر اسرائیل نے کوئی کارروائی کی تو وہ مصر کے علاقوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ یہی بات اسرائیلی فوج کے منصوبہ سازوں کو پریشان کر رہی ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے اس نے بھی صورت حال کو بہت حد تک تبدیل کردیا ہے۔ لیبیا سے طیارہ شکن میزائل اب غزہ پہنچ چکے ہیں۔ اگر شام کی صورت حال زیادہ خراب ہوئی تو لبنان میں حزب اللہ کو شمالی اسرائیل پر حملے کرنے کا موقع ملے گا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کی صورت میں کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کے ذخائر اسلام پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جو انہیں آسانی سے اسرائیل کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں۔
اگر غزہ میں ایک بار پھر بھرپور لڑائی چھڑگئی تو دنیا بھر کے میڈیا اس لڑائی کی کوریج میں جت جائیں گے۔ جنوبی اسرائیل پر داغے جانے والے میزائلوں کا کوئی ذکر نہ ہوگا مگر ہاں اسرائیلی فوج جواب میں جو کچھ کرے گی اس کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جائے گا۔
یروشلم میں حکام غزہ کے خلاف کوئی بھی زمینی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ جنوبی اسرائیل میں بسنے والوں سے بھی صبر کے گھونٹ پینے کو کہہ رہے ہیں۔ اسرائیل کے لیے شاید جدید ترین میزائل شکن نظام ہی اس وقت زیادہ کارگر ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل گینز کی بات کو محض بڑھک سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی میزائل اسرائیل میں کسی اسکول کو لگ گیا یا جدید ترین اسلحہ خانے سے کوئی میزائل تل ابیب تک پہنچ گیا تو اسرائیل کے پاس غزہ کی پٹی میں کارروائی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
امریکا کو کم از کم اتنا تو کرنا ہی چاہیے کہ عالمی برادری کو یہ بتائے کہ اسرائیل کے سرحدی علاقوں کے لوگ غزہ کی پٹی سے حملوں کے حوالے سے کس قدر خوفزدہ رہتے ہیں۔ بہتر پوزیشن کے حامل اور خاصے غیر متوازن وائٹ ہائوس یا دفتر خارجہ کو بتانا چاہیے کہ شدید لڑائی کب چھڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں کسی کو حیرت نہ ہوگی۔
(بشکریہ: ’’نیویارک پوسٹ‘‘۔ ۲۵نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply