اسرائیل کو تنہائی کا خوف!

گزشتہ ایک ہفتہ میں اسرائیل کو دو قانونی محاذوں پر نقصان اٹھانا پڑا۔ پہلی دفعہ ۲۲ جون کو، جب اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے گزشتہ سال غزہ میں پچاس روز جاری رہنے والی جنگ کے بارے میں رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں اسرائیل کی سخت سرزنش کی گئی ہے۔ اس کے تین دن بعد فلسطین نے عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court) کی رکنیت (جو اسے سال کے آغاز میں دی گئی) کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلی دفعہ باضابطہ طور پر عدالت میں درخواست جمع کروائی، جس میں اسرائیل پر عالمی قوانین توڑنے اور مغربی کنارے پر غیرقانونی تعمیرات کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم کرنے پر بھی عدالت میں کیس دائر کیا ہے۔

عالمی فوجداری عدالت پہلے ہی اسرائیل کے خلاف ابتدائی تحقیقات کا آغاز کر چکی ہے۔ اسرئیل نے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کو متعصب قرار دے کر تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کے ہم نے شہریوں کی ہلاکتیں کم سے کم رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطابق غزہ پر حملوں کے نتیجے میں ۲۲۵۱؍افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۱۴۶۲؍عام افراد تھے۔ مرنے والے عام لوگوں میں ۲۹۹ خواتین اور ۵۵۱ بچے بھی شامل ہیں (اسرائیل کے مطابق ۲۱۲۵؍افراد ہلاک ہو ئے جن میں سے ۳۶ فیصد عام شہری تھے)۔ اسرئیل کے چھ شہری جبکہ ۶۷ فوجی ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۱۸,۰۰۰؍گھر تباہ ہوئے جبکہ غزہ کی تقریباً ۲۸ فیصد آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ رپوٹ میں گنجان آباد علاقوں پر بمباری کرنے پر بھی اسرائیل پر سخت تنقید کی گئی ہے۔

کونسل کی رپوٹ کا اہم ہدف تو اسرائیل ہی ہے، لیکن اسرائیل کے ساتھ غزہ میں حکومت کرنے والی حماس پر بھی تنقید کی گئی ہے، رپوٹ کے مطابق حماس نے اسرائیل میں شہری آبادی کا خیال رکھے بغیر اندھا دھند راکٹ فائر کیے اور جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں ۲۱؍افراد کو سرعام قتل کر دیا۔ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں کی کاروائیوں کو جنگی جرائم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

اس رپورٹ کو نہ صرف عالمی فوجداری عدالت میں تحقیقی دستاویز کے طور پر پیش کیا جائے گا، بلکہ یہ دستاویز دیگر مقاصد حاصل کرنے کے لیے بھی بنیاد بنے گی اور اس سے اسرائیل کی اس سوچ کو بھی پختگی ملے گی کہ وہ بہت تیزی سے تنہا ہو رہا ہے۔

(مترجم۔حافظ محمد نوید نون)

“Israel, Gaza and human rights: Fear of isolation”. (“The Economist”. June 25, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*