
بھارت کے معروف اسکالر ڈاکٹر سری ناتھ راگھ وَن نے اپنی تازہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں اسرائیل سے بھارت کے سفارتی تعلقات نہیں تھے مگر پھر اس نے پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے اس سے ہتھیار حاصل کیے تھے۔ اسرائیل سے اسلحے کے حصول کی راہ ہموار کرنے میں فرانس میں متعین بھارتی سفارت کار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
سری ناتھ راگھ ون نے اپنی کتاب نئی دہلی کے ’’نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری‘‘ میں موجود ہکسر پیپرز کی مدد سے تیار کی ہے۔ یہ کتاب دسمبر ۱۹۷۱ء میں ۱۴ دن جاری رہنے والی جنگ کے بعض ایسے پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے، جو اَب تک سامنے نہیں آئے تھے۔ ہکسر سفارت کار اور سابق وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے مشیر تھے۔
سری ناتھ راگھ ون نے بتایا ہے کہ فرانس میں متعین بھارتی سفیر ڈی این چَٹَرجی نے ۶ جولائی ۱۹۷۱ء کو ایک مراسلہ بھارتی دفتر خارجہ کو بھیجا جس میں انہوں نے تجویز پیش کی کہ اسرائیل سے مالیات اور پروپیگنڈے کے علاوہ اسلحے اور تیل کے حصول میں بھی تعاون غیر معمولی وقعت کا حامل ہوگا۔ اس وقت کی بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے یہ تجویز فی الفور قبول کرتے ہوئے Liechtenstein کی چھوٹی سی بلدیہ کے ذریعے اسرائیل سے اسلحے کے حصول کی ذمہ داری بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ‘‘ (R&AW) کو سونپ دی۔
۱۹۷۱ء تک اسرائیل سے بھارت کے باضابطہ سفارتی تعلقات استوار نہیں تھے۔ بھارت نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے عربوں کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
۱۹۷۱ء میں اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا مائر تھیں۔ انہوں نے ایران کے لیے تیار کی جانے والی ایک شپمنٹ کا رخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے عبرانی زبان میں ایک پیغام متعلقہ فرم کو دیا، جس میں اس نکتے پر زور دیا گیا تھا کہ اسلحے کے عوض بھارت سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بات کی جائے۔ دونوں ممالک کے تعلقات ۱۹۹۲ء میں پی وی نرسمہا راؤ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں استوار ہو پائے۔
سری ناتھ راگھ ون کی کتاب میں اس وقت کے ’’را‘‘ چیف آر این کاؤ کا ہکسر کے نام ایک نوٹ بھی شامل ہے، جس میں اس امر کی تفصیل درج ہے کہ اسرائیل سے اسلحہ کس طرح بھارت پہنچے گا اور براہِ راست فوج اور سابق مشرقی پاکستان میں بنگالی باغیوں کے گروہ مکتی باہنی کو دیا جائے گا۔
کتاب میں پاکستان اور ایران کے درمیان خفیہ معاہدے کا بھی ذکر ہے جس کے مطابق جنگ کی صورت میں کراچی کو ایئر کور فراہم کیا جانا تھا۔ ایران کے فرماں روا رضا شاہ پہلوی نے اس معاہدے کی پاسداری سے اس خوف کے تحت گریز کیا کہ کہیں سابق سوویت کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مسز اندرا گاندھی کو یہ ڈر تھا کہ اس جنگ میں کہیں چین نہ کود پڑے اور پورا خطہ جنگ زدہ ہوکر رہ جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت چین کے دارالحکومت پیکنگ میں متعین بھارتی ناظم الامور برجیش مشرا نے، جو بعد میں قومی سلامتی کے مشیر بھی بنے، ایک نوٹ وزیر اعظم کو لکھا جس میں انہوں نے پورے یقین سے بتایا کہ پاک بھارت جنگ کی بھٹی میں خود کو جھونکنے سے چین مکمل گریز کی راہ پر گامزن رہے گا۔ اور یہی ہوا۔
سری ناتھ راگھ ون نے لکھا ہے کہ امریکا نے بھارت کو خوفزدہ کرنے کے لیے ساتواں بحری بیڑا خلیجِ بنگال میں بھیجنے کی کوشش کی مگر اس سے کچھ بھی نہ ہوا۔ بھارت ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوا اور اس بیڑے کی آمد سے قبل ہی بھارتی فوج نے ٹانگیل میں فوجی اتار دیے، جنہوں نے سقوطِ ڈھاکا کی راہ ہموار کی۔
(روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘۔ یکم نومبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply