
یہودی مذہبی پیشوا ’یسروئیل ویس‘ (Yisroel Weiss) کا تعلق یہود کے اس گروپ سے ہے جو ’’صہیونیت‘‘ کے خلاف مصروف‘ جہد و پیکار ہے‘ حال ہی میں موصوف سے امریکن انائونسر نیل کارووٹو (Neil Cavuto) نے ایک انٹرویو لیا تھا جسے امریکا کے نیوز فوکس چینل نے پچھلے دنوں نشر کیا ۔
مبصرین کے خیال میں یہ انٹرویو جسے ایک عالمی نیوز چینل نے براڈ کاسٹ کیا‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے ‘ اولاً اس وجہ سے کہ یہ انٹرویو ایک یہودی پیشوا کی آواز ہے جو ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ صہیونی ڈھانچے کو ختم کرنا از حد ضروری ہے‘ کیونکہ بقول ان کے توریت کے مطابق اس کا قیام قطعاً ممنوع ہے اور اس کی وجہ سے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے‘ حتیٰ کہ خود یہودی قوم بھی مصیبت سے دوچار ہے۔ ثانیاً اس انٹرویو کو نشر کرنے والا ادارہ‘ امریکا کا وہ فوکس چینل ہے جو اپنی اسلام دشمنی کے لیے مشہور ہے۔
اس بناء پر یہ انٹرویو گھر کے ایک فرد کی اہم ترین گواہی کی حیثیت رکھتا ہے ‘ اس لیے کہ صاحب انٹرویو اور اسے نشر کرنے والا چینل دونوں ہی فلسطینیوں یا مسلمانوں کے ہمدرد یابہی خواہ نہیں ہیں‘ بلکہ ان کے دشمنوں میں شامل ہیں‘ لہٰذا یہ گواہی خاصی اہمیت رکھتی ہے اور اس لائق ہے کہ اس پر غور و فکر کیا جائے تفصیل ملاحظہ ہو:
یسروئیل ویس کہتے ہیں کہ صہیونی ڈھانچے کے قیام نے واضح طور پر اور نہایت واشگاف انداز میں اس شیطانی فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے جس نے ایک مدت سے دنیا کے نیک نیت افراد کو دھوکے میں ڈالے رکھا اور اطمینان سے اس مذموم اور بدباطن وجود کی حمایت کرتے رہے جو اپنے آپ کو ’’یہودی مملکت‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اسرائیل‘‘ نے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے‘ خواہ وہ یہودی ہوں یا دیگر لوگ۔
ان کا کہنا ہے کہ میری یہ رائے گزشتہ ایک صدی سے متفق علیہ نقطہ نظر ہے۔ یعنی اس وقت سے جبکہ صہیونی تحریک نے یہ تصور یا خیال ایجاد کیا کہ ’’یہودیت‘‘ کو ایک روحانی مذہب سے تبدیل کرکے ایک مادی وجود کی شکل دے دی جائے جس کا قومی مقصد زمین کے ایک ٹکڑے کا حصول ہو‘ حالانکہ تمام مذہبی حوالہ جات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ چیز مذہب یہودیت سے سراسر متصادم ہے۔ توریت میں اسے قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے‘ کیونکہ اللہ کے فیصلے کے مطابق ہم لوگ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کاووٹو: لیکن اس میں حرج کیا ہے کہ آپ لوگوں کی ایک الگ مملکت ہو اور آپ کا ایک علیحدہ ملک ہو جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں‘ آخر آپ کی اپنی حکومت ہونے میں مضائقہ کیا ہے؟
یسروئیل ویس: ہماری کوئی ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں دیگر اقوام کے مابین ہی زندگی گزارنی چاہیے جیسا کہ یہود دو ہزار سالوں سے زائد عرصے سے مخلص شہری کے طور پر رہتے آرہے تھے اور وہ پرامن طور پر اللہ کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر رحمت خداوندی کا عکس غالب رہا۔ لوگ خواہ کچھ بھی سمجھیں‘ لبنان میں جاری یہ جنگ (اشارہ ہے لبنان کے خلاف اسرائیل کی حالیہ جارحیت کی طرف) ہرگز مذہبی معرکہ آرائی نہیں ہے‘ ہم ‘ عرب اور مسلم معاشروں کے درمیان بڑے آرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور کبھی بھی اقوام متحدہ کی تنظیمات حقوق انسانی کی طرف سے نگہداشت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
کاووٹو: محترم ! مجھے یہ سوال کرنے دیجیے کہ کیا ’’اسرائیل‘‘ کی یہودی ریاست کے قیام سے پہلے یہودیوں کی زندگی زیادہ بہتر اور خوشگوار تھی؟
یسروئیل ویس : جی ہاں! صد فیصد بہتر تھی‘ ہمارے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے‘ چنانچہ فلسطین میں مقیم رہ چکی یہودی برادری اور دیگر مقامات پہ رہنے والی برادریاں بیان کرتی ہیں کہ وہ باہمی ملاپ سے زندگی بسر کیا کرتے تھے اور ہمارے پاس جو دستاویزات موجود ہیں ان کے مطابق انھوں نے اقوام متحدہ سے بھی یہی اپیل کی تھی ‘ خود یروشلم کے ایک بڑے یہودی مذہبی پیشوا نے بھی کہا تھا کہ ’’ہمیں یہودی ریاست نہیں چاہیے۔‘‘
اسرائیل کے قیام کا جب فیصلہ کیا گیا تو پوری طرح اس ملک کے مسلم‘ عیسائی اور یہودی باشندوں کو نظر انداز کیا گیا۔
کاووٹو: بہرحال ‘ آپ کا اپنا کوئی ملک نہ تھا جس سے آپ اپنی نسبت رکھتے ‘ تاہم آپ لوگ اس درجہ غربت و مسافر کی حالت میں رہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران‘ آپ لوگ ظلم و جبر اور قتل و غارت کا نشانہ بنتے رہے‘ خصوصاً پطچا‘ ساٹھ سال پہلے جو واقعہ ہوا‘ اس کی یاد ذہنوں میں اب بھی تازہ ہے؟
یسروئیل ویس: یہودیوں کا جو بھی قتل عام ہوا وہ سامیت دشمنی کا نتیجہ تھا لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ یہ سامیت دشمنی جب بھی پیدا ہوئی‘ وہ صیہونیت کی وجہ سے پیدا ہوئی دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو کچھ ہوا یوں ہی بلاسبب نہیں ہوا‘ آپ خود اپنے پڑوسیوں کی کھڑکیاں کھٹکھٹا کر(یعنی ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے) ان کو سامیت دشمنی پر اکساتے ہیں۔
کاووٹو: جہاں تک مجھے علم ہے‘ آپ ایک آرتھوڈوکس یہودی ہیں‘ اس صورتحال کے بارے میں روایت پسند یہودیوں کا کیا خیال ہے؟
یسروئیل ویس: یہودیوں کا عام خیال یہی ہے کہ دراصل ہماری کوئی ریاست نہیں ہونی چاہیے‘ تاہم یہ ریاست معرض وجود میں آگئی اور صہیونیت کے اس پروپیگنڈے کے سبب کہ ’’عرب ہر یہودی کو سمندر میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔‘‘ یا یہ کہ ’’عربوں کے دلوں میں یہودیوں سے بغض و نفرت ہے‘ بہت سے یہودی اسے سچ سمجھنے لگے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ دوبارہ اس سرزمین پر واپس آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
کاووٹو: اچھا‘ ٹھیک ہے‘ آپ انھیں ملامت نہیں کرسکتے یہ بات درست ہے‘ لیکن آپ کے پاس ایرانی صدر (احمد نژاد) کی مثال موجود ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کا واقعہ سرے سے پیش نہیں آیااور یہ کہ اگر ان کے بس میں ہو تو وہ ’اسرائیل‘ کو نیست و نابود کردیں اور تمام یہودیوں کا خاتمہ کر ڈالیں؟
یسروئیل ویس: یہ سراسر جھوٹ ہے‘ صدر کے اپنے ملک ایران میں یہودی برادری سکونت پذیر ہے‘ موقع ملنے پر انھوں نے تو ان کا قتل نہیں کیا۔
کاووٹو: اس کا مطلب آپ ان کی بات کو اس معنی میں نہیں لیتے کہ یہودیوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں؟
یسروئیل ویس: نہیں ‘ وہ صرف ’’اسرائیل‘‘ کے سیاسی ڈھانچے کو توڑنا چاہتے ہیں‘ امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ سال ہم مذہبی پیشوائوں کا ایک گروپ ایران کے دورے پر گیا تھا‘ ایرانی رہنمائوں نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا‘ ہم نے نائب صدر سے بھی ملاقات کی‘ کیونکہ اس وقت صدر (احمدی نژاد) وینزویلا کے دورے پر گئے ہوئے تھے‘ اسی طرح روحانی پیشوائوں سے بھی ہماری ملاقات ہوئی اور سب نے کھل کر اور پوری صاف گوئی سے یہ بات کہی کہ یہود کے ساتھ ان کی کوئی چپقلش نہیں ہے۔
کاووٹو: محترم رہنما! یہ عجیب و غریب بات ہے‘ عموماً اس قسم کا نقطۂ نظر ہمارے سننے میں نہیں آتا؟
یسروئیل ویس: آپ کے ساتھ جو گفتگو ہوئی ہے اسے جلد از جلد پوری دنیا میں عام کیا جانا چاہیے۔
(بشکریہ: ’’المجتمع‘‘ کویت۔ شمارہ:۵ ۱۷۱)
Leave a Reply