پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر معمولی تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو ہوا دینے میں اسرائیل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے معروف برطانوی سیاسی تجزیہ کار رابرٹ فسک کا تجزیہ پیش خدمت ہے، جو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ نے شائع کیا ہے۔ رابرٹ فسک کا شمار ان تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے جو اسرائیلی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور فلسطینیوں سمیت تمام مظلوموں کے حق میں لکھتے ہوئے ذرا بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتے۔
……………………………
ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات بہت بگڑ گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کشیدگی کو ہوا دینے یا جلتی پر تیل چھڑکنے میں مرکزی کردار اسرائیل کا رہا ہے، جس کی بھارت سے دوستی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کو قریب لانے میں دو عوامل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایک تو ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دوسرے نام نہاد اسلامی دہشت گردی۔ دونوں ممالک کو قریب لانے میں اس حقیقت کا بھی اہم کردار ہے کہ دونوں کو مسلم پڑوسیوں سے خطرات لاحق ہیں۔
جب فضائی حملوں کی خبر ملی تو پہلا اندازہ یہ تھا کہ شاید غزہ یا شام میں کسی بڑے ٹھکانے کو نشانے پر لیا گیا ہے۔ پھر یہ جاننے کو ملا کہ دہشت گردوں کا تربیتی کیمپ تباہ کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو نشانہ بنانے کے الفاظ بھی کان میں پڑے۔ خبر کے مطابق بہت بڑی تعداد میں دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ وضاحت کے طور پر یہ بھی بتایا گیا کہ یہ کارروائی فوج پر حملے کے جواب میں کی گئی۔ خبر کے مطابق ایک اسلامی جہاد بیس کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ یہ تمام باتیں کچھ نہیں بتارہی تھیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ کہاں ہوا ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ بالا کوٹ میں ہوا ہے جو پاکستان کی حدود میں ہے۔ بات بہت عجیب تھی۔ بھلا کوئی بھارت اور اسرائیل کو گڈمڈ کیسے کرسکتا ہے؟
خیر، دونوں کو گڈمڈ کرنے کا تصور ابھی ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان کم و بیش ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ پھر بھی چند ایک عوامل ہیں جو انہیں ایک پلیٹ فارم پر لاتے ہیں۔ اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہے اور بھارت میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسرائیل کی لکود پارٹی اور بھارت کی بی جے پی نے تعلقات کو بہت خاموشی سے مضبوط بنانے پر خوب توجہ دی ہے۔ دونوں ممالک کا یہ بڑھتا ہوا تعلق اسلام مخالف خاموش اتحاد ہے۔ دوستی کو پروان چڑھانے کے اس عمل میں بھارت اب اسرائیلی اسلحے کی سب سے بڑی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔
بھارتی چینل اور پریس نے بالا کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے حملے کو بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا ہے۔ میڈیا کا لہجہ مکمل طور پر فخریہ تھا۔ پاکستان کی حدود میں کالعدم جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کے دوران اسرائیل بھی موجود تھا۔ یہ موجودگی ’’رافیل اسپائس ۲۰۰۰‘‘ اسمارٹ بموں کی شکل میں تھی۔ بھارتی پائلٹس نے یہ بم خوب استعمال کیے۔
دنیا بھر میں ایسے حملوں کو بہت بڑھا چڑھاکر بیان کرنے کا چلن عام ہے۔ نتائج کا حقیقت سے بالعموم زیادہ گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی علاقے میں بھارتی طیاروں کی کارروائی نتائج کے اعتبار سے زیادہ متاثر کن نہ رہی ہو، مگر دعوے بہت بلند بانگ تھے۔ اسرائیل کے جی پی ایس گائیڈیڈ میزائلوں کے کیے جانے والے حملے میں ۳۰۰ تا ۴۰۰ مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس حملے میں محض چند درختوں اور پتھروں کی ’’تباہی‘‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوا ہو۔
جو کچھ پاکستانی علاقے میں بھارتی فضائیہ نے کیا اس کے نتائج کے حوالے سے کیے جانے والے دعوے تو بے بنیاد ہوسکتے ہیں مگر۱۴؍ فروری کو (مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ کے مقام پر) بھارتی فوج اور کالعدم جیش محمد کے مبینہ جانبازوں کے درمیان جھڑپ کسی بھی طور غیر حقیقی نہیں تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے۔ اور گزشتہ ہفتے (پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں) بھارتی فضائیہ کے دو طیاروں کے مار گرائے جانے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرلینے کا واقعہ کسی بھی اعتبار سے غیر حقیقی نہیں تھا۔
بھارت اور اسرائل کے درمیان تعلقات کا تیزی سے پنپنا کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔ اسرائیل کو نظریاتی طور پر ہم خیال ملک چاہیے اور اپنے اسلحے کے لیے ایک بڑی منڈی بھی۔ بھارت نے یہ ضرورت بخوبی پوری کردی ہے۔ ۲۰۱۷ء میں بھارت اسرائیلی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار کی حیثیت سے ابھرا۔ فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ بھارت نے اسرائیل سے ایئر ڈیفنس سسٹم اور راڈار بھی خریدے۔ یہ سب کچھ پانے کے لیے بھارت کو جیب اچھی خاصی ڈھیلی کرنی پڑی یعن نئی دہلی نے تل ابیب کو 53 کروڑ ڈالر ادا کیے۔
اسرائیل نے میانمار (برما) کی فوجی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھی ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت پر مسلم روہنگیا اقلیت کو انتہائی سفاکی اور بے ضمیری سے کچلنے پر دنیا بھر سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ میانمار حکومت کو ٹینکوں، ہتھیاروں اور کشتیوں کی فروخت اسرائیل کے لیے بہت بڑے دردِ سر کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے مطمئن کرنا اُس کے لیے انتہائی دشوار ثابت ہوا ہے۔ مگر خیر، بھارت کو اسلحے کی فروخت مکمل طور پر قانونی ہے اور عام ڈگر سے ہٹ کر بھی۔ دونوں ممالک تجارت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ بڑھا چڑھاکر بیان کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
اسرائیل کے اسپیشل کمانڈو یونٹس اور بھارتی کمانڈوز نے نیگیو کے صحرا میں تربیتی مشقیں کی ہیں۔ یہ تربیت ممکنہ طور پر اس مہارت کی بنیاد پر دی گئی ہے جو غزہ اور فلسطین کے شہری علاقوں کے ’’جنگی محاذوں‘‘ پر حاصل کی گئی ہے۔
بھارت کے ۴۵ رکنی عسکری وفد میں شامل۱۶؍ گروڈ کمانڈوز کو کچھ مدت کے لیے اسرائیل کے نولاتم اور پالماچم بیسز پر بھی تعینات کیا گیا۔ بھارت کے قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے اسرائیل کے دورے کے بعد گزشتہ برس بھارت کے پہلے دورے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کے ممبئی حملوں کو بھی یاد کیا۔ ان حملوں میں کم و بیش ۱۷۰ شہری مارے گئے تھے۔ بنیامین نیتن یاہو نے بھارتی ہم منصب سے کہا تھا کہ ان حملوں کے درد کو بھارت اور اسرائیل دونوں کے شہری اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممبئی میں جو سفاکی دکھائی گئی ہے وہ ہم بھولے نہیں ہیں، ہمارا عزم جوان ہے اور ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔
بہت سے بھارتی مبصرین البتہ خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی صہیونیت اور بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی قوم پرستی کو دو طرفہ دوستی کی بنیاد ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
برسلز میں مقیم بھارتی ریسرچ اسکالر شیری ملہوترا نے (جن کی تحریریں اسرائیل کے معروف اخبار ’’ہاریز‘‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں) گزشتہ برس لکھا تھا کہ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد سب سے زیادہ مسلم بھارت میں آباد ہیں جن کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے۔ ایسے میں اسرائیل اور بھارت کی بڑھتی ہوئی دوستی کو دونوں ممالک کی انتہا پسند حکمراں جماعتوں (بی جے پی اور لکود) کی نظریاتی اساس کے تناظر میں شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
ہندو قوم پرستوں نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا ہے، جس کے مطابق مسلمانوں کے ہاتھوں بھارتی ہندو تاریخی طور پر مظالم کا ہدف رہے ہیں۔ یہ بیانیہ ان تمام ہندوؤں کے لیے انتہائی پرکشش رہا ہے جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی تقسیم کا دکھ جھیلا، یا کئی عشروں سے پاک بھارت کشیدگی دیکھتے آرہے ہیں۔
شیری ملہوترا نے ’’ہاریز‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت میں اسرائیل کے سب سے بڑے پرستار وہ ’’انٹرنیٹ ہندو‘‘ ہیں جو محض اس بنیاد پر اسرائیل سے محبت کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں سے کس طور نمٹتا ہے اور مسلمانوں سے کس طرح لڑتا ہے۔ شیری ملہوترا نے کارلٹن یونیورسٹی کے پروفیسر وویک دہیجا کی اس تجویز پر شدید تنقید کی ہے کہ (نام نہاد) مسلم دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی بنیاد پر امریکا، اسرائیل اور بھارت کو اتحاد بنالینا چاہیے۔
میڈیا پر اس بات کو بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت سے کئی نوجوانوں نے شام جاکر داعش کی صفوں میں شامل ہوکر جنگ لڑی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۱۶ء کے آخر تک بھارت سے شام جاکر داعش کی طرف سے لڑنے والے بھارتی مسلم نوجوانوں کی تعداد صرف ۲۳ تھی۔ بھارت میں کم و بیش اٹھارہ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ دوسری طرف یورپ کے چھوٹے سے ملک بیلجیم میں صرف پانچ لاکھ مسلم آباد ہیں مگر وہاں سے اب تک کم و بیش ۵۰۰ مسلم شام جاکر داعش کی طرف سے لڑچکے ہیں! شیری ملہوترا کا استدلال یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کی دوستی نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
یہ سوچنا انتہائی دشوار ہے کہ اسرائیل کی صہیونیت بھارت کی قوم پرستی میں اپنا اثر و نفوذ پیدا نہیں کرے گی جبکہ اسرائیلی حکومت بھارت کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔ اور ان جدید ترین ہتھیاروں کو بھارتی فوج پاکستان کی حدود میں اسلام پسندوں کے خلاف استعمال بھی کرچکی ہے! ایسے میں بخوبی سوچا جاسکتا ہے کہ فلسطین اور کشمیر کو کیونکر آزادی مل سکتی ہے اور یہ کہ بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو تنہا، بے قیادت اور منتشر رہنے دیا جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Israel is playing a big role in India’s escalating conflict with Pakistan”.(“independent.com”. February 28, 2019)
Leave a Reply