اسرائیل بہت پہلے ہی اپنی قانونی اور اخلاقی ساکھ سے محروم ہوچکا ہے، اب وہ اپنی سیاسی ساکھ سے بھی ہاتھ دھونے والا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جھڑپ کے نتیجے میں بہت سارے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے سیکڑوں شہری جاں بحق ہو چکے، تباہ شدہ عمارتوں سے اٹھنے والے دھویں نے غزہ کے ماحول اور آسمان کو سیاہ کردیا ہے۔
اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کے نمازیوں کو تنگ جبکہ یہودی انتہا پسندوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مغربی طاقتیں کمال ہوشیاری سے دونوں فریقین کو افہام و تفہیم کا درس دیتی ہیں لیکن وہ دیدہ دلیری سے اسرائیل کے مقاصد کا ہی دفاع کرتے ہیں۔موجودہ تنازع شیخ جراح میں برسوں سے آباد چھ فلسطینی خاندانوں کی جبری بے دخلی سے شروع ہوا تھا۔ فلسطینیوں کی اپنی زمینوں سے بے دخلی اور ان پر اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں۔ اسرائیلی ظلم و ستم کا اقوام متحدہ اور مغربی دنیا کے بے حس حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیا یہ طاقتیں یہاں کے اصل باشندوں اور جبری طور پر مسلط کیے گئے غیر مقامی افراد کے درمیان کسی بڑے تنازع کے منتظر ہیں۔ کیا ہم ایک صدی پرمحیط فلسطینیوں کی جدوجہد اور مزاحمت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچتا دیکھ رہے ہیں؟ صہیونی منصوبہ سازوں نے صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے محروم کرکے اجنبی لوگوں کو یہاں لا بسایا، فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے، جبر اور ظلم و ستم کا ہر حربہ استعمال کیا۔
آنے والا وقت ہی موجودہ بے یقینی اور اضطراب کو ختم کرے گا۔ لیکن اس وقت ہم مزید خون خرابہ، اموات، مایوسی، ناانصافی اور عالمی طاقتوں کی بے جا مداخلت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے رونما ہونے والے واقعے نے یہ واضح کردیا کہ فلسطینیوں کا جذبۂ مزاحمت ابھی زندہ ہے۔ ہر طرح کی پابندیوں اور ظلم وستم کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔
اس حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ اسرائیل اور اس کے عوام پُرامن طریقے سے تصفیہ نہیں چاہتے، بلکہ پرتشدد ذرائع اور طاقت سے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل اور مغرب کا اصل ہدف حماس ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے اسرائیل کا امن تباہ ہو رہا ہے، لہٰذا اس جارحیت کا جواب دینا اسرائیل کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ تاکہ حماس کو ایسا کرنے سے روکا جا سکے۔
عجیب منطق ہے کہ اسرائیلی جدید ڈرون طیارے تو محض دفاع کے لیے ہیں، جب کہ حماس کے دیسی ساختہ راکٹ دہشت گردی اور جارحیت کے لیے قرار پائے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے ان راکٹوں سے شاذ ہی کسی انسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسرائیلی ہتھیاروں سے غزہ کے بیس لاکھ مکین نشانہ بنتے ہیں، ۹۵ فیصد رہائشی آبادی کا نقصان ہوتا ہے۔ غزہ کے معصوم لوگوں کے ساتھ یہ ظلم ۲۰۰۷ء سے جاری ہے۔ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے غزہ کے رہائشی انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ ۵۰ فیصد سے زیادہ افراد بے روزگار ہیں۔
حالیہ جھڑپ میں اسرائیل نے پوری کوشش کی کہ عالمی برادری کو یہ باور کرواسکے کہ غزہ پر حملہ حماس کے اقدام کی وجہ سے اسے مجبوراً کرنا پڑا۔ اسرائیل کے ریاستی سطح پر جارحانہ رویے کی وجہ سے حماس کی جانب سے امن اور مصالحت کی ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۵ برس سے مستقل جنگ بندی اور دوطرفہ مفاہمت نہیں ہوسکی۔
اسرائیل نے مسلمانوں کے مقدس مہینے میں جارحانہ اقدام کرکے مقبوضہ مشرقی یروشلم اور ان تمام فلسطینیوں کو جو مزاحمتی تحریک کے حامی ہیں، ان کے زخموں اور نکبہ کی یادوں کو تازہ کردیا ہے۔
۱۹۴۸ء جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے اس وقت سے اسرائیل نے سیکڑوں فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ہے، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسرائیل کی یہ خواہش ہے کہ فلسطینیوں کو یہاں سے مستقل طور پر جلاوطن کردے اور ان کا یہاں داخلہ مسدود کر دے۔
اسرائیل ایک جمہوری اور آئینی ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کا یہ دعویٰ خود فریبی اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق غصب کرکے یہودی بالادستی کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ برسوں سے اسرائیل، ہولوکاسٹ کے تناظر میں عالمی برادری سے اپنے جرائم کو چھپانے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن اب اس کے لیے فلسطینیوں کی مزاحمت اور غم و غصہ کو روکنا ممکن نہیں۔
اسرائیل کی حالیہ جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں کے بیانیے کو مزید تقویت ملی ہے۔ انٹرنیشنل کرائم کورٹ نے اسرائیل کی بھرپور مخالفت کے باوجود ۲۰۱۵ء سے فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی تحقیقات کا کہا ہے۔ اس پر نیتن یاہو نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس عمل کو نسلی تعصب کہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی ریاستی پالیسی اس طرح ترتیب دی جاتی ہے کہ فلسطین کے عوام کا استحصال کیا جاسکے اور یہودی بالادستی کو قائم رکھا جاسکے۔ اسرائیل کی اہم انسانی حقوق کی تنظیم اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کو سلب کرکے اپنی نسلی منافرت پر مبنی برتری کو بہرصورت قائم رکھے۔
(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)
“Israel: Is this the beginning of the end of apartheid?” (“middleeasteye.net”. May 18, 2021)
Leave a Reply