
اسرائیلی جارحیت کا مقصد صرف غزہ پر قبضہ یا حماس کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ اس جارحیت کے پس پردہ یہودی قوم پرستی ہے جو دنیا پر اپنی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔ یہودی دراصل دنیا پر اپنی حکمرانی کا خواب دیکھنا اور اسے عملی جامہ پہنانا اپنا حق تصور کرتے ہیں اور وہ اس حق کے حصول کے لیے ہی علیحدہ یہودی ریاست کے قیام کی جدوجہد کا آغاز ۱۹۳۰ء میں کرچکے تھے اور اسی دہائی میں برطانیہ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۹۴۸ء کے بعد کے حالات سے ہر کوئی واقف ہے کہ کس طرح یہودیوں نے ایک خطہ پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے اپنی مملکت کا اعلان کردیا۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت صرف ایک فوجی کارروائی نہیں ہے بلکہ ان کارروائیوں کے پس پردہ یہودیوں کی مذہبی قیادت بھی تجاویز اور منصوبے تیار کرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف جدوجہد میں مصروف القسام مجاہدین نے جن حالات کا سامنا کیا ہے، ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، کی مالا جپنے والے امریکا نے نہ صرف اسکول کے معصوم بچوں کی شہادت پر اسرائیل کی مذمت کی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس کربناک حملے پر مخالف اسرائیل ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
اس کے باوجود اسرائیل کی جانب سے کسی پس و پیش کے بغیر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو صرف ایک خطے کی حد تک محدود رکھنے کا منصوبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ عالم اسلام پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ معصوم بچوں کی شہادت پر بھی اگر اہل عرب خاموشی اختیار کرتے ہوئے تماش بین رہتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ کہنا دشوار ہوگا کہ یہودیوں کی جانب سے چھیڑی گئی اس مذہبی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل ایمان تیار ہیں۔
لیکن اگر ہر عرب مملکت کے فرمانروا کا طرز کم از کم قطر کے امیر کی طرح ہوجائے تو ممکن ہے کہ حالات بڑی حد تک تبدیل ہو جائیں۔ قطر پر عالمی دباؤ کے باوجود قطر نے فلسطین کے متعلق اپنے موقف میں کسی قسم کی نرمی نہ لاتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطین کے لیے ضرورت پڑنے پر عسکری مدد کے لیے بھی تیار ہے۔ یہی صورتحال کچھ ترکی کی بھی ہے جس نے عالمی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین کی راست مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فلسطین کی بقا کے لیے جدوجہد کا حصہ بننے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ بیشتر ممالک وزیراعظم ترکی رجب طیب اردوان کے اقدامات کو ۱۰؍اگست کو ترکی میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیش نظر قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رجب طیب اردوان کے علاوہ صدر ترکی عبداللہ گل فلسطینی کاز کے حامی ہیں اور ترک عوام حکومت کے اس موقف پر مطمئن ہیں بلکہ موقف میں مزید شدت پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت پر صدر فلسطینی اتھارٹی محمود عباس نے گزشتہ ہفتہ شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’غزہ‘‘ تباہ کن علاقہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ محمود عباس کا یہ ردعمل جنگ کے ۲۲ ویں دن منظر عام پر آیا جب تک ۱۳۰۰ سے زائد فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوچکے تھے۔ فلسطینی عوام محمود عباس کے طریقہ کار پر شدید اعتراض کرنے لگے ہیں کیونکہ محمود عباس ان تمام حالات کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ فلسطین کے بعض خطوں میں انہیں باغی بھی قرار دیا جانے لگا تھا۔
حماس کی قیادت پر لگائے جانے والے الزامات کو حماس کے قائد خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ نے یک لخت مسترد کرتے ہوئے عوام کے درمیان پہنچ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ ان پر اعتماد کرنے والوں کو جنگی حالات میں تنہا چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ شہید عبدالعزیزالدین القسام بریگیڈ کے جیالوں نے ان قائدین پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار اور اسرائیل افواج کو نشانہ بنانے کے طریقہ کار کے بدلے فلسطینی عوام کا دل جیت لیا ہے اور عوام ان کی حمایت میں آگے آرہے ہیں۔ ابتدائی سطور میں جو بات کہی گئی تھی کہ اسرائیلی جارحیت صرف خطہ زمین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی جنگ کے طور پر لڑا جانے والا معرکہ ہے اور یہودی اس مذہبی جنگ کے عرصہ دراز سے منتظر تھے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ دنیا میں منتخب قوم ہے اور دنیا پر حکمرانی کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ یہودی جو عمومی اعتبار سے علمِ نجوم سے دور رہتے ہیں لیکن سورج و چاند گہن کے معاملے میں وہ اپنی مقدس کتابوں سے پیش گوئیاں لیتے ہیں۔ یہودیوں کی مقدس کتابوں کے مطابق چاند گہن بنی اسرائیل کے لیے ایک برا شگون ہوتا ہے لیکن اگر گہن کے دوران چاند سرخ ہو تو وہ اسے اپنی قوم کے لیے ’’غم و اندوہ کے بعد کامیابی و فتح‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہودی چاند گہن کے معاملات کا گزشتہ دو ہزار برس سے مطالعہ کرتے چلے آرہے ہیں اور ان کی مقدس کتابیں ’’باہیر‘‘، ’’سفر راذیل حمالخ‘‘ اور ’’ظہر‘‘ ایسی تصانیف ہیں جو انہیں ان کے دعوؤں کے مطابق علم تصوف جسے یہودی ’’قبالہ‘‘ کہتے ہیں، فراہم کرتی ہیں۔ دنیا میں جب کبھی سرخی مائل چاند گہن ہوتا ہے تو اسے عام فہم لفظوں میں ’’خونی چاند گہن ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس طرح کے چار چاند گہن مسلسل یہودیوں کے مقدس ایام میں طلوع ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ انہیں مشکل کے بعد فتح حاصل ہونے والی ہے۔ ۹۳۔۱۴۹۲ء میں ہوئے اس طرح کے خونی چاند گہن کے بعد بنی اسرائیل پر آفت آئی۔ جب اسپین فرڈینڈ نے فتح کیا، یہودیوں پر افتاد پڑی۔ قتل ہوئے، غلام بنے لیکن اسی دوران امریکا کی دریافت نے یہودیوں کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کا راستہ دکھایا اور یہودی امریکا کا رخ کرنے لگے۔ ۵۰۔۱۹۴۹ء میں جب دوسری مرتبہ ایسے چار خونی چاند گہن ہوئے، اُس وقت اسرائیل کی غاضبانہ مملکت وجود میں آچکی تھی اور ڈیوڈ بن گوریان اسرائیل کا پہلا صدر بن چکا تھا۔ اس وقت بھی یہودیوں کو کافی مشکلات کا سامنا رہا اور مغربی ممالک سے یہودی اسرائیل کا رخ کرنے لگے تھے۔ اُس وقت عرب۔اسرائیل جنگ میں بھی یہودیوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ تیسری دفعہ جب یہ چار خونی چاند گہن ۶۸۔۱۹۶۷ء میں ہوئے اُس وقت بھی انہیں جنگی صورتحال کا سامنا رہا، لیکن اس جنگی صورتحال کے دوران امریکا نے اسرائیل کی مدد کی اور ’’القدس‘‘ شہر یہودیوں کے قبضہ میں آگیا۔
خونی چاند گہن کی اس طویل تاریخ کے بعد اب ۲۰۱۴ء میں دو مرتبہ اور ۲۰۱۵ء میں دو مرتبہ یہ خونی چاند گہن ہونے جارہا ہے اور یہ چار گہن یہودیوں کے مقدس ایام میں نمودار ہورہے جوکہ سال ۲۰۱۴ء کے اوائل میں یعنی ۱۵؍اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوچکا ہے اور اسی سال ۸؍اکتوبر کو ایک اور گہن ہونے جارہا ہے جو یہودیوں کا مقدس دن ہوگا۔ آئندہ سال تیسرا گہن ۴؍اپریل ۲۰۱۵ء کو ہوگا اور یہ بھی یہودیوں کے مقدس دن ’’یدش‘‘ کے ایام میں ہونے والا ہے۔ اسی طرح ۲۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو بھی مکمل چاند گہن ہوگا اور یہ بھی یہودیوں کے مقدس ایام میں نمودار ہوگا۔ اسرائیلی جارحیت کے پس پردہ یہودی مذہبی جنگ کا تصور ان چاند گہن کی تواریخ کا جائزہ لیتے ہوئے کیا جاسکتا ہے لیکن اس مذہبی جنگ کے لیے کون کس حد تک تیار ہے، اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ یہودیوں کا ایقان ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ان کی حکمرانی ہوگی اور دجال کے پیرو دنیا پر حکومت کریں گے۔
یہودی اگر مذہبی جنگ نہیں کر رہے ہیں تو ممکن ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا جیسی قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے ذریعہ وہ جنگ بندی کے لیے رضامند ہوجاتے لیکن ایسا نہ کرتے ہوئے اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ پڑوسی مملکت مصر میں موجود اپنے پروردہ عبدالفتح السیسی کو ثالثی کے طور پر قبول کیا جائے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل السیسی سے بڑی حد تک مطمئن ہے چونکہ السیسی نے الاخوان المسلمون کے خلاف معرکہ آرائی میں کسی بھی اسرائیلی مشورہ کو پس پشت نہیں ڈالا بلکہ ان پر عمل آوری کے ذریعہ ہی مصر میں عوامی منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ جزائرۃ العرب میں موجود مملکتوں کے سربراہان اگر ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے متحدہ طور پر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کا عہد کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اسرائیل کو ہزیمت اٹھانی پڑ سکتی ہے لیکن موجودہ حالات میں اگر عالمی سطح پر جاری مذہبی جنگی جنون کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر عرب ملک اپنی سرحدوں میں کسی قسم کے جنگی جنون کو پنپنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تاکہ ملک کے اقتدار کو اندرونی خلفشار سے بچائے رکھا جاسکے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر جاری تحریکوں، مظاہروں، بائیکاٹ کی مہم کے باوجود اسرائیل پر اس کا اثر نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ خود اسرائیل نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ وہ مذہبی جنگ کا حصہ بنا ہوا ہے، اگر اسرائیل نے یہ طے نہیں کیا ہوتا کہ وہ مذہبی جنگ کر رہا ہے تو ایسی صورت میں اسے محفوظ دستوں سے ۱۶۰۰۰؍افواج کو غزہ کی سمت روانہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسرائیل کی جانب سے محفوظ دستوں کے ذریعہ جنگ میں شدت پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسرائیل اب جنگ بندی کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ وہ ہزیمت کے بعد فتح کے خواب دیکھتے ہوئے جنگ کو طویل کرنا چاہتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲؍اگست ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply