اُس وقت کے ترکی کے وزیر خارجہ حکمت سیٹن نے نومبر ۱۹۹۳ء کے دورۂ یروشلم کے دوران واضح الفاظ میں اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی حمایت کی۔ اس حقیقت سے کون آنکھیں بند کر سکتا ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ غاصبانہ و ظالمانہ ہے اور عالم اسلام اور دنیا کے بیشتر انصاف پسند ممالک نے بارہا اس قبضے کی مذمت کی ہے۔ تاہم او آئی سی اور موتمر عالم اسلامی کا رکن ہونے کے باوجود ترکی کے وزیر خارجہ نے نام نہاد ’’چمنستانِ امن‘‘ میں جا کر شجر کاری کی۔ ان کی زبان اس وقت بھی خاموش رہی جب اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیر یز نے یہ بیان دیا:
’’یروشلم کی حیثیت پر کسی نقدوتبصرہ کی دعوت دینا اسرائیل کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ ہمیں آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یروشلم ماضی میں اسرائیل کا دارالحکومت رہا ہے اور آ ج بھی ہے‘‘۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے بارہ دفعات پر مشتمل اسرائیل سے تہذیبی و اقتصادی مفاہمت کے معاہدے پر دستخط کیے اور فتح کے نشے میں انقرہ واپس آئے۔ اس کے جواب میں جنوری ۱۹۹۴ء میں اسرائیل کے صدر وائز مین نے ترکی کا چار روزہ دورہ کیا۔ اسرائیل میں متعین ترکی سفیر نے اسے یہودیوں کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ قرار دیا۔ صدر وائز مین نے اپنے دورے کے تین مقاصد بتائے:
۱۔ عرب اور مسلم ممالک میں ترکی کی وساطت سے معاشی و سیاسی اور عسکری اثر ونفوذ حاصل کرنا
۲۔ خطے کی تعمیر نو میں ترکی حکومت کا تعاون حاصل کرنا
۳۔ ترکی سے پانی کی اسرائیلی ضروریات پوری کرنا
وائز مین نے جب شہر سانی رفا کا دورہ کیا اور وہاں جنوب مشرقی اناطولیہ پروجیکٹ‘‘ کا معائنہ کرنے پہنچے تو ترک عوام نے اس کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا اور اپنے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔ اگرچہ وزیر مملکت نجم الدین سیوہیری نے صفائی پیش کی کہ صدر وائز مین کے دورے سے ہمارے پروجیکٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم عوام نے ریڈیو اسٹیشنوں پر قبضہ کر کے اپنی برہمی کا اظہار کیا اور اعلان کیا کہ ہم انبیائے کرام علیہم السلام کے اس شہر میںوائز مین کی آمد کے خلاف ہیں۔
دراصل وائز مین کی میزبانی کے پسِ پردہ ترکی حکومت چاہتی تھی کہ ’’کردستان ورکرز پارٹی‘‘ (پی کے کے ) کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اسرائیل سے کوئی دفاعی معاہدہ ہو جائے اور مشترکہ دشمن حافظ الاسد (صدر شام ) کے خلاف جو کرددہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے، اسرائیل کی حمایت مل جائے۔ لیکن وائز میں نے بڑی عیاری سے ان مسائل کو نظر انداز کیا۔ اس نے حافظ الاسد کو دشمن قرار دیتے ہوئے امن کے قیام میں اس کے رویے کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود اس نے ترکی کو صدر حافظ الاسد سے کردستان کے مسئلے پر گفت وشنید کا مشورہ دیا۔ اس نے پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم ماننے سے انکار کر دیا مگر باربار اصرار کے بعد اس نے حکومت کی دل جوئی کے لیے صرف اتنا کہا کہ جن لوگوں کو مسائل کے سامنے اپنی مجبوری اور مظلومیت کا احساس ہے انہیں دہشت گردی کا سہارا لینے سے پہلے دوبارہ اپنے موقف پر غور کرنا چاہیے۔ آزاد کردریاست کے بارے میں اس کا مبہم جواب یہ تھا’’ہم مشرقِ وسطیٰ میں آزاد فلسطینی ریاست کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ہم زیادہ سے زیادہ جا سوسی نظام اور کارکنوں کی تربیت کا انتظام کر سکتے ہیں۔ آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ خود لڑنا ہو گی۔ یہ کسی ملک کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ دوسرے ملک کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہاں جا کر جسمانی طور پر جنگ میں شریک ہو۔
ترکی سیاست کا یہ زبردست المیہ تھا کہ وہاں کی حکمران جماعت اور حزبِ اختلاف، اسرائیل سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات رکھنے کے حق میں تھیں۔ چنانچہ حزب اختلاف (اے این اے پی) کے رہنما مسعود یلماز نے بھی صدر وائز مین کو ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ البتہ اس وقت کی اسلام پسند پارٹی ’رفاہ‘ (جس پر پابندی لگا دی گئی) کا موقف اس معاملے میں سخت تھا۔ پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین صبغت کازان نے اپنے بیان میں کہا’’اسرائیل دہشت گردی کی جائے پیدائش ہے، اور اس نے ترکی سرحدوں پر حرص و طمع کی نگاہ جما رکھی ہے۔‘‘
اسرائیل اور ترکی کے باہمی تعلقات کے علاوہ کردستان کے مسئلے پر بھی رفاہ پارٹی کا موقف بالکل واضح ہے۔ ۴ اکتوبر ۱۹۹۴ کو امریکی کانگریس کے پچاس اراکین نے وزیراعظم ترکی کو ایک خط میں لکھا کہ انہیں اس امر پر سخت تشویش و اضطراب ہے کہ منتخب اراکین پارلیمنٹ کو قومی اسمبلی میں کردوں کے مسئلے پر اظہار خیال کرنے کے جرم میں موت کی سزا دی جار رہی ہے امریکی کانگریس کے ان ارکان نے ترکی حکومت کو وارننگ دی کہ اگر کردوں کو سیاسی عمل میں شریک نہ کیا گیاتو کردستان کا مسئلہ حل نہ ہو سکے گا اور دہشت گرد ہر طرح سے مستحکم ہو جائیں گے اور ہم جانتے ہیں کہ ترکی حکومت اس بات کو کبھی پسند نہ کرے گی۔ اسی طرح کے سرکاری خطوط جرمنی کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اور دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے ترکی کے وزیر اعظم کو موصول ہوئے۔
یورپی یونین کے یہ ممالک کردستان کی علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہے ہیں اور آزاد کرد جمہوریہ کے قیام کے لیے ترکی حکومت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۴ء میں یورپی پارلیمنٹ نے ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی رپورٹ شائع کی اور ترکی دستورمیں مناسب ترامیم کرنے پرزوردیاتاکہ جمہوریت کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ اس رپورٹ میں ترکی میں اسلام پسند جماعت (رفا ہ پارٹی) کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ترکی کا ترمیم یافتہ، موجودہ دستور جنرل کنعان ایورن کی فوجی حکومت کا تحفہ ہے ،جسے مغرب کی اشیر باد حاصل تھی۔ ترکی عوام دستور کی بعض غیر جمہوری دفعات کی تبدیلی کے حق میں پہلے سے تھے، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عوام کا مقصد اور یورپی یونین کا مقصد ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ اگر ترک عوام آئین میں ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں تو یورپی یونین کی اسمبلی بھی اسے اپنا حق سمجھتی ہے۔ کہ ترکی جمہوریت کا وہ ماڈل تیار ہو جو اس کی مرضی و منشا کے مطابق ہو۔ چنانچہ یورپی یونین کی اسمبلی کے صدر نے ترکی کو دھمکی دی کہ اگر مجوز ہ دفعات میںترمیم نہ کی گئی تو یورپی یونین ترکی کی رکنیت کا جائزہ لے گی اور یورپ کی وحدت کے دائرے میں رہ کر اس کے مفادات کے مد نظر اقدام کرے گی۔
اس وقت کردستان کے مسئلے پر پروفیسر نجم الدین اربکان اور ان کی رفاہ پارٹی نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا۔ پارٹی کے وائس چیئرمین عبداللہ گل نے کہا ’’رفا پارٹی کردوں کے اس حق کی حمایت کرتی ہے کہ وہ تہذیبی روایات اور ثقافت کا تحفظ کریں اور اپنی کرد زبان کا بھی تحفظ کریں جیسا کہ سلطنت عثمانیہ کے عہد میںتھا۔ اس وقت یہ کوئی مسئلہ نہ تھا کیونکہ یہ ایک فطری انسانی حق سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ ایک داخلی مسئلہ ہے جو اسلام کی روشنی میں برادرانہ جذبات کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ اسے نسل پرستی کے ذہن کے ساتھ حل نہیں کیا جا سکتا۔
داخلی اور خارجی پالیسی پر رفاہ پارٹی کے صریح اسلامی موقف اور مخلصانہ رویے کے علاوہ پارٹی کے زیر انتظام چلنے والی بلدیات کی بہتر کارکردگی اور روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء کی ارزاں قیمتوں میں فراہمی نے بھی اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ مادی سیکولرازم کے پروردہ سیاست دانوں کی اخلاقی کمزوریوں، تہذیبی بحران اور ملکی سیاست کے بارے میں ان کی افادی روش نے عوام کو ان سے دور کر دیا ہے اور کرپشن اور بد کرداری کے خلاف ان کی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ دیار بکر بلدیہ کی روزانہ آمدنی پہلے تین ملین ترکی لیرا ہوا کرتی تھی۔ لیکن رفاہ پارٹی کے میئر بلدیہ نے اس شہر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لیا تو اپنی کارگردگی اور امانت کی بدولت دو ماہ کے مختصر عرصے میں اس آمدنی کو پچاس ملین ترکی لیرا تک پہنچا دیا۔ بلدیہ قونیہ میں اس جماعت کے میئر نے اخراجات میں تخفیف کی خاطر ٹیکسی اور عوامی ذرائع نقل و حمل کے استعمال کا سرکاری انتظام کیا اور پرائیوٹ کاروں اور پر تکلف گاڑیوں سے اجتناب کیا جس کی وجہ سے ایک بڑی رقم کی بچت ہوئی۔ جو اب تک نا قابل تصور تھی۔ بلدیہ انقرہ میں رفاہ پارٹی نے انتظام سنبھالتے ہی پانی کی قیمتوں میں پچاس فی صد کی تخفیف کر دی اور وہاں زمین دوز میٹر و سسٹم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق میئر بلدیہ نے جو بعد میں ڈپٹی وزیر اعظم بنے ریل کاریں درآمد کی تھیں اور ہر ریل کار کی قیمت ساٹھ بلین ترکی لیرا تھی۔ رفاہ پارٹی میر بلدیہ نے اپنے عہدے کاچارج لیا تو در آمد کا یہ سلسلہ روک دیا اور ترکی ہی میں ان گاڑیوں کی صنعت سازی شروع کی چنانچہ پانچ بلین ترکی لیرا ہی میں انہوں نے یہ ریل کاریں تیا کرا لیں۔
اسلام پسند رفاہ پارٹی کے کارکنوں نے مارچ ۱۹۹۴ء کے بلدیاتی انتخابات کے بعد مختلف شہروں کے انتظامات سنبھالے تو ان پر قرضوں کا زبردست بارتھا کیونکہ سیاست دانوں کی بدکرداری اور فضول خرچی نے معیشت کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ارض روم پرایک کھرب لیرے کا قرض تھا۔ استنبول ۵۳ کھرب لیروں کا مقروض تھا اور انقرہ پر ۱۲۰ کھرب لیرے کا بوجھ تھا۔ رفاہ پارٹی نے اس صورت حال کا سخت نوٹس لیا۔ انتظام و انصرام کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں لیا۔ اسراف اور فضول خرچی کو سختی سے روکا۔ رشوت ستانی اور کرپشن پر قد غن لگائی۔ عوامی فنڈ کا غلط استعمال روکا۔ آمدنیوں میں اضافہ کیا اور ملکی صنعتوں کو فروغ دے کر ایک طرف روزگار کے مواقع فراہم کیے اور دوسری طرف ملک کو خود کفالت اور خود انحصاری کی راہ دکھائی۔ انتخابات سے قبل رفاہ پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ وہ حجاب کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کے سر قلم کر دے گی۔ ثابت ہوا کہ یہ مخالفین کا محض پروپیگنڈا تھا۔ چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی اور ناجائز نفع اندوزی کا سر رفاہ پارٹی نے اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ضرور قلم کر دیا۔
۱۹۹۴ء میں ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی اور اس کے بعد بے لوث خدمات اور اصلاحات کے یہی وہ حالات تھے جب کویت کے معروف مقبول عربی، ہفت روزہ جریدے ’’المجتمع‘‘ کے نامہ نگار احمد منصور نے پروفیسر نجم الدین اربکان، قائد رفاہ پارٹی سے ایک طویل انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا ایک اقتباس احیائے اسلام کے نقطہ نظر سے قابلِ ذکر ہے۔
’’سوویت یونین کے سقوط اور اشتراکیت کے زوال کے بعد مغربی دنیا نے نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ دیا اور نئے منصوبوں اور نئی تجاویز کے ساتھ ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی دعوت دی۔ چونکہ مغربی تہذیب حق وانصاف پر مبنی نہیں، بلکہ طاقت و قوت پر قائم ہے اس لیے نئے نظام کے ذریعے مغربی دنیا باقی دنیا پر قابض ہونا چاہتی ہے اور اپنی طاقت و قوت کے بل پر اس کی صلاحیتوں کا استحصال کرنے کی آرزو مند ہے اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نا بود کرنا چاہتے ہیں کیونکہ تنہا اسلام ہی وہ نظریہ حیات ہے جو ہر حق دار کو اس کا حق دلاتا، ظلم و استبداد کا خاتمہ کرتا اورانہیں انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ واحد کی بندگی میں داخل کرتا ہے۔ ہم ایک حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیںوہ یہ کہ اسلام ایک آفاقی مذہب اور دین حنیف ہونے کی وجہ سے صرف مسلمانوں کی خوشحالی و کامرانی کو اپنا مقصد قرار نہیں دیتا، بلکہ ہم انسانیت کی سعادت و خوشحالی کے لیے متحرک ہیں اور پوری دنیا کی بہبود کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس جو اسلامی دستور (قرآن) اور اسوہ رسولr ہے۔ وہ خالق کی تعظیم و مخلوق پر شفقت و محبت کی تلقین کرتے ہیں، مگر مغرب میں انتہا پسند صیہونیوں اور عیسائیوں کے ایسے مراکز موجود ہیں جو تمام و سائل اور ذرائع کو اختیار کر کے اسلام کے خلاف شعلہ زنی اور مسلمانوں کے خلاف الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ غالباً بیت المقدس ان کی حرص و طمع اور مفاد و منفعت کو دور قدیم ہی سے ظاہر کرتا رہاہے، جہاں یہ ہمیشہ قتل و خون ریزی کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ یہ ان کی تاریخ کو نمایاں کرنے والی بہترین مثال ہے۔ بوسنیا اور ہر سک، کشمیر اور فلسطین اور آذر بائیجان و غیرہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے جرائم ان کی اس ذہنیت پر شاہد ہیں۔ نیٹو کی حلیف طاقتیں پہلے اپنی فوجی چالوں میں دشمن ’’سوویت یونین‘‘ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے سرخ پرچم کانشان استعمال کرتی تھیں۔ مگر اب نئے دشمن (اسلام کی علامت ان کی نزدیک سبز پرچم بن چکی ہے۔
پروفیسر نجم الدین اربکان نے اپنے انٹرویو میں مزید فرمایا: مغرب کی ان ظالمانہ کاروائیوں اور دین اسلام اور دنیائے اسلام کے خلاف ان کی دشمنیوں اور سازشوں کے عوامل ایسے ہیں جنہوں نے اسلامی بیدای کی تخم ریزی میں اور اس کی افزائش و ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کی بہترین مثال ترکی میں اسلامی احیاء و تجدید کی تحریک ہے۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ ترکی ۱۹۴۶ء سے متعدد سیاسی جماعتوں کی رزم گاہ رہا ہے جس میں اگر کوئی انقطاع ہوا ہے تو فوجی انقلاب کی وجہ سے۔ مغرب نواز حکومتیں تقریباً پچا س برسوں سے تشکیل پاتی رہی ہیں، لیکن ترکی میں اور بعض مسلم ملکوں میں پچھلے جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان سے مغرب کی ناجائز مفاد پرستی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ترکی قوم نیند سے بیدار ہوئی اور آج ترکی میں کسی بڑی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ جس طرح سوویت یونین کے سقوط سے ایک بڑا انقلاب رونما ہو ااور ظلم و استبداد کی طویل رات رخصت ہوئی، آج ترکی قوم کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ تقلید مغرب پر استوار ترکی نظام روبہ زوال ہے اور یہ حقیقت پچھلے تین انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہے۔
(بحوالہ: ہفت روزہ ’ندائے خلافت‘ لاہور ۱۳ تا ۱۹ ستمبر ۲۰۰۷)
Leave a Reply