مسجدِ اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت
اس وقت عالمِ اسلام کی صورتحال دھماکے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ عراق میں جاری خون خرابہ عراق کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکا شیعہ سنی اختلافات کو برادر کشی کی حد تک پہنچا چکا ہے۔ روزانہ سیکڑوں عراقی موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ فلسطین میں حماس والفتح کی کشیدگی نے دسیوں فلسطینیوں کی جان لے لی۔ عین اس وقت جبکہ حماس و الفتح کے قائدین مکہ مکرمہ میں خادم حرمین شریفین کی دعوت پرباہمی مصالحت کے لیے جمع تھے۔ اسرائیل نے اپنی قدیم شرانگیزی کا اعادہ کرتے ہوئے مسلمانانِ عالم میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی کے بعد مسجدِ اقصیٰ سب سے مقدس مقام ہے۔ یہیں سے نبیٔ رحمتﷺ کو معراج سے سرفراز کیا گیا تھا۔ احادیث کی رو سے یہاں ایک نماز کا ثواب پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجدِ اقصیٰ میں نبیٔ رحمتﷺ نے انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی تھی۔ مسلمانانِ عالم کے نزدیک اس قدر مقدس مقام رکھنے والی مسجدِ اقصیٰ کے احترام کا تقاضا تھا کہ یہود اس کے خلاف کسی بھی قسم کی شرانگیزی کی جرأت نہ کرتے۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے تعلق سے مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود یہودیوں کی شرانگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔
مسجدِ اقصیٰ اور بیت المقدس کے تقدس کو پامال کرنے کی اسرائیلی سازشیں بہت قدیم ہیں۔ آتش زنی ہو یا لوٹ مار، عریانیت ہو یا ننگا ناچ، ظلم و جور ہویا سیر و تفریح، تقدس کی پامالی کی شاید ہی کوئی شکل ہو جسے اسرائیل نے استعمال نہ کیا ہو۔ اس مقدس مقام پر صیہونیوں کی جانب سے مکروہ مناظر دہرائے گئے جس کے تصور سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ مذہبی مقدسات کی بے حرمتی یہودیوں کا وطیرہ رہا ہے۔ یہ تو شروع سے گستاخ واقع ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں ان کی گستاخانہ حرکتوں کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس قوم نے تو خدا کی شان تک میں گستاخی کی اور کہا کہ جب تک ہم خدا کو اپنے سامنے کھلے عام نہ دیکھ لیں، خدا پر ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے انبیائے کرامؑ کے قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔ اﷲ کی کتاب میں تحریف اس قوم کا شیوہ رہا۔ موجودہ دور کے یہودی شروع سے مسجدِ اقصیٰ کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ عیسائیوں سے آزاد کرانے کے بعد صلاح الدین ایوبیؒ نے مسجدِ اقصیٰ میں ایک منبر رکھا تھا۔ ۲۱ اگست ۱۹۲۹ء میں اپنی خبث باطنی اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجدِ اقصیٰ میں آگ لگا کر اس منبر کو جلا ڈالا۔ تفصیلات کے مطابق ایک آسٹریلوی نوجوان ’’مائیکل روہان‘‘ نے مسجدِ اقصیٰ میں آگ لگائی۔ پھیلتے پھیلتے ایک بڑا حصہ آگ کی لپیٹ میں آگیا اور منبرِ ایوبی جل کر خاکستر ہو گیا۔ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے اس دن بیت المقدس کی بلدیہ نے پانی کی فراہمی بھی مسدود کر دی تھی بروقت آگ نہ بجھائے جانے کے سبب مسجد شدید متاثر ہوئی۔ منبرِ ایوبی کے علاوہ مسجد کے جنوب مشرقی چھت کو بھی نقصان پہنچا اور مسجد کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا۔
مسجدِ اقصیٰ کے اطراف کھدائی کا سلسلہ بھی کافی عرصہ سے جاری ہے۔ اس طرح کی کھدائی نام نہاد ہیکل سلیمانی کی دریافت کے بہانے کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ بار بار کھدائی کے باوجود اسرائیلی ماہرین کو کسی بھی چیز کا پتا لگانے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ عبریہ یونیورسٹی کی کھدائی ٹیم کو یہ کام سونپا گیا تھا۔ ٹیم کے صدر منامین سازادنے، ۱۹۷۵ء میں شائع شدہ اپنی ایک کتاب میں اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ کھدائی کے نتیجہ میں اس شہر کی پتھریلی بنیادیں نمایاں ہوئی ہیں۔ مگر ہیکل سلیمانی کا کہیں پتا نہ لگا۔ اس نے کہا پرانا شہر ’’قدس‘‘ زیرِ زمین دفن ہو چکا ہے۔ اس صراحت کے باوجود یہودیوں کی کھدائی کا سلسلہ ۱۹۶۷ء سے جاری ہے۔ بار بار کے کھدائی کے عمل سے مسجدِ اقصیٰ اور اس کے آس پاس زیرِ زمین زبردست خلاء ہو گیا ہے جو کسی بھی وقت مسجد کے انہدام کا سبب بن سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام ہمیشہ باور کراتے ہیں کہ کھدائی دیگر انتظامی مقاصد کے لیے کی جارہی ہے لیکن ایک طویل عرصہ سے جس بڑے پیمانہ پر کھدائی کا عمل جاری ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل مسجد کی بنیادوں کو اندر سے کھوکھلی کر دینا چاہتا ہے تاکہ خودبخود عمارت منہدم ہو جائے۔
مسجدِ اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی جارحیت یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ۱۹۲۹ء میں یہودیوں نے دیوارِ براق پر قبضہ کرنا چاہا لیکن مسلمانوں کی مزاحمت کے سبب یہودیوں کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ دیوار براق مسجدِ اقصیٰ کا ایک جز ہے جو مسجد کی جنوبی سمت میں واقع ہے۔ حضورﷺ کو جب معراج ہوئی اور آپﷺ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تشریف لائے تو آپﷺ نے اسی دیوار سے اس براق کو باندھا تھا جس پر سوار ہو کر آپ تشریف لائے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے دیوارِ براق پر قبضہ کی کوشش سے پیدا صورتحال پر قابو پانے کے لیے برطانوی نمائندہ حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور اسے اس تنازعہ کے تصفیہ کی ذمہ داری سونپی تھی۔ کمیٹی نے تحقیق کے بعد مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیا اور کھلے الفاظ میں کہا کہ یہ دیوار مسجد کا ایک حصہ ہے اور یہودیوں کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ کمیٹی نے تو مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیا لیکن ۱۹۶۷ء میں جب یہودیوں نے مسجدِ اقصیٰ پر غاصبانہ قبضہ کیا تو اس دیوار کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے اطراف کے مکانوں کو منہدم کر کے وہاں ایک وسیع محل بنا دیا اور اس مقام کا نام ’’مقامِ گریہ‘‘ رکھا۔ بعض عرب مولفین کے مطابق یہودیوں نے مسجدِ اقصیٰ کے زیرِ زمین ایک کشادہ تہ خانہ تعمیر کیا ہے اور اس میں ایک یہودی گرجا گھر بنایا گیا ہے اور اس گرجا گھر میں جانے کا راستہ دیوارِ براق سے بنایا گیا جس کو اب لوگ دیوارِ گریہ کہنے لگے ہیں۔ ۱۹۹۴ء میں بھی اسرائیل کی ایک شرانگیزی سامنے آئی تھی۔ اسرائیل نے آثارِ قدیمہ کی سرنگ کے قریب گیٹ کھولنے کی جرأت کی تھی جس پر زبردست احتجاج ہوا تھا اور جھڑپوں میں ۴۱ اسرائیلی اور ۱۵ عرب مارے گئے تھے۔ حالیہ انہدامی کارروائی کے بارے میں اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ الحرم کو جانے والے مغربی گیٹ کے قریب کچھ تعمیر و مرمت کا کام کیا جارہا ہے لیکن حیرت ہے کہ تعمیر و مرمت کے لیے بلڈوزر کی ضرورت کیسے پیش آئی۔ مقامِ واردات پر بلڈوزر دیکھے گئے، دوسری جانب اسرائیلی ماہرین آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک پل کی تعمیرِ نو کے لیے کی جارہی ہے۔ اسرائیل نے جب بھی مسجدِ اقصیٰ کے قریب کھدائی کا آغاز کیا، کچھ نہ کچھ بہانہ بناتا رہا ہے۔
صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہودی سپریم کورٹ کی جانب سے پاس کیے گئے ایک قانون میں کہا گیا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ اسرائیلی سرزمین ہے۔ اسرائیلی حکومت اس کی مالک ہے۔ نیز اس مسجد کی نگرانی ’’امنا جبل الہیکل‘‘ نامی ایک صیہونی ٹیم کے ذمہ ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ کا یہ ایسا فیصلہ ہے جو تاریخی اعتبار سے کسی بھی طرح حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ اس فیصلہ کے ذریعہ مسجدِ اقصیٰ پر مسلمانوں کے تاریخی و مذہبی حق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کا ایک رخ یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیل نے سیر و تفریح کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ سیاح مسجد کے تقدس و احترام کا قطعی لحاظ نہیں کرتے۔ نیم برہنہ لباس میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط، قہقہے، اور بوسہ بازی جیسی دیگر نازیبا حرکات بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی حرکتیں تمام مقامات پر بھی معیوب سمجھی جاتی ہیں چہ جائے کہ مسجدِ اقصیٰ جیسے مقدس مقام پر کی جائیں۔
مقدس سرزمینِ فلسطین میں یہودی مملکت کا قیام ایک بین الاقوامی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ اُمتِ مسلمہ کا ایک ناسور ہے جو نصف صدی سے زائد عرصہ سے اُمتِ مسلمہ کے لیے چیلج بنا ہوا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بعد اب مسجدِ اقصیٰ ایک نئے ایوبی کے انتظار میں ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کے تقدس کی پامالی اُمتِ مسلمہ کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اسرائیل کے مظالم اور مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی پر مسلمانانِ عالم کی برہمی فطری بات ہے۔ لیکن صرف وقتی طور پر برہمی کا اظہار کافی نہیں ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور ناپاک یہودی مملکت کے خاتمہ کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اس کے لیے حکمِ ربانی ’’واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل‘‘ پر عمل کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ضروری ہے۔
آج اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ یہ خوش آئندہ بات ہے کہ مکہ کی چوٹی کانفرنس کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور حماس و الفتح قائدین نے ایک قومی اتحادی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔ یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ مکہ معاہدہ پر عمل کرنے میں دونوں فریق کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ مکہ کی مقدس سرزمین پر طے شدہ معاہدہ ضرور اثر دکھائے گا۔ بیت المقدس کی آزادی کا خواب خوش کن نعروں سے شرمندہ تعبیر نہ ہو گا۔ اس کے لیے مادی و معنوی تیاری کے ساتھ اُمت مسلمہ کے اندرونی اصلاح کی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر خدا کی مدد نہیں آتی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)