
دوسری جنگ عظیم کے بعد بلکہ اس کے دوران ہی برطانیہ اور اس کے حواریوں نے طے کرلیا تھا کہ خلافتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کی جائے گی اور مختلف علاقوں میں ایسے لوگوں کو حکومتیں دی جائیں گی جو برطانیہ و امریکا کی اتحادی اور خیر خواہ ہیں اور یوں عالمِ اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ پہلے سے طے کرلیا تھاکہ فلسطین میں ایک صیہونی ریاست قائم کی جائے گی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وہاں یہودیوں کی تعداد بہت کم ہے تو دنیا بھر کے یہودیوں میں ایک سپرٹ پیدا کی گئی۔ سارے یہودی افراد کو اس بات پر مائل کیا گیا کہ ہجرت کرکے فلسطین میں جابسیں۔ انہیں یہ باور کروایا گیا کہ یہ بنی اسرائیل کا آبائی وطن ہے اور اس کا نام اسرائیل تجویز کیا گیا‘ نام بھی ایسا تجویز کیا گیا جس میں مذہبی جاذبیت موجود تھی کیونکہ ہر یہودی بنی اسرائیل میں سے ہوتا ہے۔
اگر جرمنوں نے یہودیوں پر ظلم کیا تھا تو اس سے یہ جواز کیسے نکل آیا کہ فلسطینیوں کو نکال کر فلسطین میں انہیں لاکر آباد کیا جائے۔ یعنی ظلم یورپ میں ہوا اور انہیں فلسطینیوں پر ظلم کرکے‘ انہیں بے گھر کرکے فلسطین میں لاکر آباد کیا گیا۔ یہ ایک نامعقول فیصلہ تھا۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی۔ ان کی زمینیں ہتھیائی گئیں‘ کچھ سے دہشت اور طاقت کے زور پر حاصل کرلی گئیں کچھ کو لالچ دیا گیا۔ جس پیمانے پر یہودیوں پر ہونے والا ظلم بیان کیاجاتا ہے بہت سارے محققین اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اگر بالغرض اس کی سچائی کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ کوئی طریقہ نہیں تھا جو ان کی دلجوئی کے نام پر روا رکھا گیا۔ برطانیہ میں تو ظلم نہیں ہوا تھا‘ ترکی میں تو نہیں ہوا تھا‘ ماسکو میں تو نہیں ہوا تھا وہاں سے اورایشیا و افریقہ سے کیوں یہودیوں کو لے جاکر فلسطین میں آباد کیا گیا؟ صدیوں سے یہ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد تھے۔ ان کے رنگ‘ طور اطوار اور زبان تک بدل گئی تھی۔ برصغیر میں مخلوط النسل لوگ ہیں۔ کوئی ایرانی النسل ہے‘ کو ئی ترکی النسل ہے۔ کئی سو سال پہلے ان لوگوں نے ہجرت کی تھی اب کیا یہ سارے لوگ واپس چلے جائیں؟ اس سے یہ ا مر بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا فیصلہ بالکل غلط اور غیر منطقی تھا۔ اسرائیل کی تشکیل سے ہی فلسطین‘ لبنان اور خطے کے مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔
اس وقت اسرائیل نے جو تازہ جارحیت شروع کر رکھی ہے اس کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک عرصے سے دنیا محسوس کررہی تھی کہ الفتح جو کسی زمانے میں بڑی پاپولر تنظیم تھی‘ کی مقبولیت فلسطینی عوام میں روبہ زوال تھی۔
یاسر عرفات کی حیات میں الفتح کی مقبولیت کسی حد تک باقی رہی۔ عرفات کی رحلت کے بعد اس کی مقبولیت کا گراف خاصا نیچے آگیا۔ محمود عباس کو جس طرح سے وہاں کا صدر بنایا گیا اس کا نوٹس پوری دنیا میں لیا گیا۔ امریکا و اسرائیل کے تعاون سے الفتح کے نمائندے کے طور پر انہیں منتخب کروایا گیا۔ فلسطین کے عوام نے اس کو بھی دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کے پیچھے ساری کی ساری سپورٹ اسرائیل و امریکا کی تھی۔ علاوہا زیں الفتح سے لوگوں کو توقعات تھیں کہ وہ ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی یہ بھی ان کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ علاوہ ازیں الفتح کی لیڈر شپ میں ہم آہنگی نہ تھی ۔ عوامی فلاح کا کوئی کام بھی الفتح نہ کرسکی اس کے مقابلے میں حماس ایک مقبول سیاسی تنظیم بن کر اٹھی۔ حماس کا نعرہ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ بھی فلسطینی عوام کے دل کی آواز تھی‘ وہ آزاد فلسطینی اور خودمختار ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔
حماس نے جارح او رغاصب اسرائیل کے خلاف علمِ جہاد بھی بلند کیا جبکہ الفتح نہ صرف اپنے ہتھیار ڈال چکی تھی بلکہ غاصبوں کے مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھا چکی تھی دوسری طرف حماس نے اپنے لوگوں کی صحت‘ تعلیم اور تعمیر و ترقی میں خدمت کرنی شروع کی اور اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی کیا حماس کی لیڈر شپ کو سیاست میں آنا چاہیے تھا یا نہیں؟ یہ حکمت عملی کا مسئلہ ہے۔ فلسطینی عوام نے اس کو ووٹ دے کر یہ ثابت کردیا کہ حماس کو سیاست میں آنا چاہیے تھا۔ فلسطینی عوام یہ چاہتے تھے کہ حماس کی لیڈر شپ سامنے آئے۔ الفتح کی غیر فعالیت کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی حقیقی لیڈر شپ سامنے آئے۔ ایک سیاسی خلا موجود تھا۔ اگر حماس سامنے نہ آتی تو پھر کوئی نہ کوئی تو ہوتا۔ کہیں ایسا نہ ہوتا کہ حماس کے علاوہ سامنے آنی والی سیاسی قوت تاش کے باون پتوں کی طرح دشمنوں کے ہاتھوں میں ہوتی۔ امریکا نے کھل کر حماس کی کامیابی کو ناپسند کیا۔ جمہوریت کے ساتھ وابستگی پہلے بھی دنیا پر آشکار تھی اس سے مزید آشکار ہوگئی۔ امریکا کے یورپی حواریوں نے بھی کہا کہ ہم حماس کے ذریعے فلسطین کی مدد نہیں کریں گے۔ یعنی امریکی و استعماری مفادات کی حامی یا اسرائیل کی سو فیصد تابع فرماں حکومت آئے تو پھر امریکا مدد کرے گا۔ حماس کے راستے مسلسل بند کیے جارہے تھے۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔
حماس کی حکومت اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے عاجز آگئی تھی۔ اس کے اکائونٹس منجمد کردیے گئے تھے‘ اگر اسرائیلی جارحیت اور ٹینکوں کی فلسطین میں موجودگی پر ایک آدھ یہودی اغواء کرلیا گیا تو کیا اس سے یہ جواز پیدا ہوجاتا ہے کہ فلسطینی پارلیمنٹ کے ممبران کو اغواء کرلیا جائے۔ اس پر کسی نے بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی بلکہ عالمِ اسلام نے بھی کوئی طاقتور آواز نہیں اٹھائی۔ اس مرحلے میں جب ہر طرف بے حسی تھی اور قبرستان کی سی خاموشی تھی‘ ایسے میں حزب اللہ کے غیرت مند جوان صبر نہ کرسکے اور انہوں نے ضروری سمجھا کہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کو لپکیں اور اسرائیل کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں کہ فلسطینی اکیلے نہیں ہیں۔ امریکی حواریوں کی طرف سے آج کہا جارہا ہے کہ لبنان کی تباہی کی ذمہ دار حزب اللہ ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ عراق کو جس طرح برباد کیا گیا اس تباہی کا کون حساب کرے گا۔ اسی طرح سے افغانستان میں امریکی بمباروں نے جو تباہی مچائی ہے اس کا کون حساب دے گا۔ کیا اسرائیل جو جی میں آئے کرتا رہے اور مسلمان خاموش بیٹھے رہیں؟ اگر حزب اللہ نے غیرت کا مظاہرہ کیا ہے تو باقی لوگوں کو بھی حزب اللہ کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ دنیا بہت جلد یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گی کہ اسرائیل ناکام ہوا ہے۔ دم تحریر ہفتے گزر چکے ہیں‘ ایک چھوٹے سے ملک میں ایک چھوٹی سی جماعت اسرائیل کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ اسرائیل کو ایک بہت بڑی طاقت قرار دیا جارہا تھا اور سمجھا جارہا تھا کہ یہ مصر کو ہڑپ کرجائے گا۔ اردن کو بھی کھا جائے گا۔ وہ تو ابھی چھوٹی سی حزب اللہ کو ہڑپ نہیں کرسکا؟ اسرائیل کو تلخ تجربہ ہے‘ لبنان کی زمین سے حزب اللہ کے جوانوں نے اسے پسپا کیا تھا اور یہ بات اسرائیل کی تاریخ میں اہم ہے کہ صرف لبنان سے ہی اسے بزور نکالا گیا تھا ورنہ اسرائیل نے جس بھی علاقہ پر قبضہ کیا اسے بزور نہیں نکالاجاسکا۔ اسرائیل محتاط ہے اور حزب اللہ کی طاقت کو آسمان سے بم برسا کر ختم کرنا چاہتا ہے اور امن افواج کے نام پر اپنے حواریوں اور سرپرستوں کی افواج لاکر وہاں پر اپنے لیے ایک محفوظ راستہ نکالنا چاہتا ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑی پریشانی اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ہے وہ یہ ہے کہ باہر سے کسی طریقے سے حزب اللہ کو امداد نہ پہنچے۔ فوری طور پر امریکا اور اس کے حواریوں نے اسرائیل کو امداد دینے کا اعلان کیاہے‘ حزب اللہ کی مدد کا جو تھوڑا بہت امکان تھا شام کی طرف سے یا ایران کی طرف سے وہ بھی اس وقت ختم ہوچکا ہے کیونکہ ایران خاصے فاصلے پر ہے لہٰذا وہ ڈائریکٹ حزب اللہ کی مدد نہیں کرسکتا لیکن شام کرسکتا تھا جبکہ اسرائیل و امریکا کی کوششیں یہی ہیں کہ کسی طرح شام کا حزب اللہ سے رابطہ نہ ہونے پائے۔ یہاں یہ سوال پید اہوتا ہے کہ مسلمان عوام اس موقع پر کیا جذبہ رکھتے ہیں۔ عوام ‘ لوگ اور قومیں ایک ہی جذبہ رکھتی ہیں خواہ آپ انہیں سعودی عرب میں دیکھ لیں‘ اردن‘ مصر ‘ شام‘ ایران اور پاکستان میں دیکھ لیں یہ ایک ہی ہیں لیکن جو الگ ہیں‘ وہ ریاستیں اور ان کے حکمران ہیں۔ جو آج حکمران ہے کل کو اس کی حکومت جاتی رہے تو وہ بھی ایسے ہی بیاں دے گا جیسے ہم دیتے ہیں‘ ایسی ہی تحریریں لکھے گا جیسی ہم لکھتے ہیں‘ لیکن جب یہ لوگ حکومت میں ہوتے ہیں تو پھر ایک خاص نظام کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ یہ جو مسلمانوں کی ۵۷ ریاستیں ہیں‘ یہ قومی ریاستیں ہیں۔ قومی ریاستوں کی اس تقسیم نے درحقیقت امت کو تقسیم کر رکھا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ سرحدیں ختم ہوتی چلی جائیں گی۔ او۔ آئی۔ سی کو اس صورتحال سے یعنی نیم مردہ حالت سے نکالا جانا چاہیے۔ اگر او۔ آئی۔ سی کو حقیقی معنی میں امت کا ترجمان بنادیا جائے تو یہ ساری ریاستیں مل کر ایک عظیم تر ریاست کی طرف پیش قدمی کریں گی۔ اگر یورپ ایسا کرسکتا ہے‘ ایک پارلیمنٹ بناسکتا ہے‘ ایک فوج بناسکتا ہے‘ ایک کرنسی بناسکتا ہے تو مسلمانوں میں تو کہیں زیادہ مشترکات موجود ہیں۔ دو چار ملکوں کو بس پہل کرنے کی ضرورت ہے باقی انشاء اللہ خود بخود اس قافلے میں شامل ہوجائیں گے حکومتوں کے درمیان باہمی اعتماد کمزور ہے۔ اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
(ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد۔ اگست ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply