عبرانی زبان میں شائع ہونے والے معروف اسرائیلی تحقیقاتی جریدے میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اسرائیلی عزائم کے بارے میں ایک انکشافاتی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ جریدے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بنائے جانے والے منصوبے کے تحت سب سے پہلے اس سلسلے میں سعودی عرب کی اسلام پسند حکومت کو مغربی و یورپی ممالک کی نظر میں برا ثابت کر کے اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیونکہ اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی درحقیقت سربراہی ہمیشہ سعودی انتظامیہ کے ہاتھ میں رہی ہے، اسی کی جانب سے اربوں ڈالر کا سرمایہ خرچ کر کے دنیا بھر میں ایک اسرائیل مخالف لابی تشکیل دینے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے جس میں اسے بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے۔
عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اسرائیلی روزنامے ’’مارو‘‘ کے مطابق اسرائیل کے موجودہ وزیر خارجہ ایویگر لبرمین کی جانب سے بنائے جانے والے منصوبے کے مطابق عنقریب ایک ایسی عالمی مہم شروع کی جائے گی جس میں سعودی عرب پر الزامات عائد کر کے عالمی رائے عامہ کو اس کے خلاف ہموار کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے سعودی عرب میں نافذ اسلامی قوانین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے سراسر خلاف جبکہ خواتین کے پردے اور گھروں میں رہنے کو ان پر ہونے والے ظلم سے تعبیر کرتے ہوئے عالمی برادری میں سعودی عرب کو اکیلا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں امریکی و یورپی ممالک میں موجود طاقتور یہودی لابیوں کو اہداف سونپ دیے گئے ہیں جن پر وہ جلد ہی اپنا ہوم ورک مکمل کر کے اسرائیلی وزارت خارجہ کو آگاہ کریں گی۔ روزنامے کا کہنا ہے کہ منصوبے کے تحت صرف امریکی کانگریس اور یورپی ممالک کی پارلیمنٹ کو ہی استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ سعودی عرب کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات بھی درج کرائے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے دنیا بھر میں موجود اپنے سفارت کاروں اور نمائندوں کو اس بات کی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ایسے سعودی شہریوں کو تلاش کریں جو اس کام میں ان کے معاون ثابت ہو سکیں۔ منصوبے کے مطابق ایسے سعودی شہریوں کو ثبوت کے طور پر سعودی عرب کی اسلامی حکومت کے خلاف عالمی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا جو کسی اسلامی سزا یا قانون کی وجہ سے سعودی انتظامیہ سے ناراض ہیں۔
مذکورہ منصوبے کے ذریعے اسرائیلی حکومت دو بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں سے ایک تو سعودی عرب کی موجودہ انتظامیہ کو بھرپور دبائو میں لے کر انہیں اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم اور غیر قانونی آبادکاروں پر آواز اٹھانے سے روکا جاسکے۔ جبکہ دوسرا بڑا اور اہم مقصد دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی سربراہی کرنے والی سعودی انتظامیہ اور اسلامی قوانین کی توہین کی جاسکے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی تیاریوں کی رو سے ابتدائی چند دنوں میں امریکی حکومت کو ایک ایسی رپورٹ پیش کی جائے گی جو گزشتہ چند برسوں میں سعودی عرب میں ہونے والے مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خواتین کے حقوق کی پامالی پر ایک چارج شیٹ ہو گی۔ بعد ازاں اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر امریکی حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس سلسلے میں سعودی عرب کی انتظامیہ پر دبائو بڑھائیں۔ اس موقع پر اگر امریکی حکومت کی جانب سے انکار یا میانہ روی کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی گئی تو اسرائیلی حکومت اقوام متحدہ، یورپی ممالک اور امریکی پارلیمنٹ میں موجود اپنی اسرائیلی لابیز کو استعمال کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کے خلاف پیش کی جانے والی چارج شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فوری طور پر عالمی عدالتوں میں سعودی حکومت کے خلاف مقدمات داخل کروائے جائیں گے، جو بظاہر تو عام سعودی شہریوں کی جانب سے داخل ہوں گے لیکن ان کے پیچھے اسرائیلی حکومت کا ہاتھ ہو گا۔ اس طرح چہار اطراف سے دبائو بڑھانے کے بعد اسرائیلی حکومت کی جانب سے سعودی انتظامیہ کو خفیہ صلح کا پیغام دیا جائے گا جس کے عوض وہ اپنی مرضی کے مطالبات اور مستقبل میں سعودی انتظامیہ کو اپنی ظالمانہ کارروائیوں پر خاموش رہنے پر مجبور کر سکے گا۔
اسرائیلی روزنامے ’’مارو‘‘ کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں اسرائیل کے اعلیٰ سیاسی عہدیداران کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی سربراہی سعودی عرب کی حکومت کر رہی ہے۔ جبکہ اس کی جانب سے سالانہ لاکھوں ڈالر کا سرمایہ خرچ کر کے نہ صرف اسرائیل کے خلاف لابی بنائی جا رہی ہے بلکہ دوسری طرف وہ حماس اور دیگر فلسطینی جہادی گروپوں کی بڑے پیمانہ پر مالی امداد بھی کرتی ہے۔ مذکورہ اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں عالمی برادری سے دہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے، جسے وہ بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو سعودی انتظامیہ روشن خیالی اور ترقی کا نعرہ لگا کر مغربی و یورپی ممالک سے ہر طرح کے فائدے حاصل کرنے میں مشغول ہے تو دوسری جانب مملکت کے اندر نافذ کیے جانے والے اسلامی قوانین کے ذریعہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی اور خواتین پر ظلم کی انتہا کی جا رہی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کی جانب سے عالمی برادری کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ روشن خیال اور غیر قدامت پسند نظریے کے لوگ ہیں حالانکہ درحقیقت وہ قدامت پسند اور شدت پسندوں کا ساتھ دینے والے لوگ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں، لیکن بعض اسرائیلی سرکاری عہدیداران کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے افراد کا کہنا ہے کہ عالمی مہم کا اسرائیل کو براہِ راست کوئی فائدہ نہ ہو گا جبکہ اس میں ناکامی کی صورت میں عالمی برادری میں اسرائیل کی جگ ہنسائی ہونے کے امکانات بھی ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد فی الحال سعودی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آ سکا ہے جبکہ سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔
(بشکریہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply