اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے گرد قانون کاشکنجہ مزید سخت ہوگیا ہے، گزشتہ ماہ ہونے والی ڈرامائی پیش رفت نے نیتن یاہو کو پہلے سے کہیں زیادہ بے نقاب کردیا ہے۔ نیتن یاہو کو امریکا روانہ ہونے سے قبل پولیس کے سامنے بد عنوانی کے دو نئے مقدمات کی جوابدہی کے لیے پیش ہونا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سوال اب زیادہ دور نہیں کہ کیا نیتن یاہو کو وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جائے گا؟ اور ایسا کب ہوگا؟ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو کی جماعت کے اعلیٰ عہدیدار انہیں مردہ بطخ کہہ کر پکارنے لگے ہیں۔
نیتن یاہو کو سب سے بڑا دھچکا ان کے وفادار اندرونی حلقے کی جانب سے لگا ہے۔ سابقہ بیورو چیف شلومو فلبر نے نیتن یاہو کے خلاف گواہی دینے پر آمادگی ظاہر کردی ،جس سے بد عنوانی کے نئے اور زیادہ سنگین مقدمات جلدمنطقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔نئے الزامات کے مطابق وزیراعظم نے ٹیلی کام کی بڑی کمپنی ’’بیزق‘‘ کو قواعد سے استثنیٰ قرار دیا، جس کے بدلے انہوں نے کمپنی کی نئی ویب گاہ پر اپنے اور اپنے خاندان کے حق میں بہتر کوریج حاصل کی۔عبرانی یونیورسٹی کے سیاسی سائنسدان یارون کاکہنا ہے کہ’’فلبر کے گواہی دینے کا معاہدہ کرنے کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے نیتن یاہو کے دن گنے جاچکے،وہ زیادہ دیر اقتدار پر گرفت نہیں رکھ سکیں گے، انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ نیتن یاہو کا خاتمہ بہت قریب ہے،یاتو انہیں استعفیٰ دینا پڑے گا یا پھر انہیں حکومتی اتحاد اوران کی جماعت کی جانب سے ہٹا دیا جائے گا۔ نیتن یاہو کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں، اور ان کو بچانے والے لوگوں کو اب ان کی فکر نہیں ہے۔گزشتہ ماہ کے آغاز میں پولیس کی جانب سے نیتن یاہو کو رشوت کے مزید دومقدمات میں نامزد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان پر کاروباری افراد سے مہنگے تحائف لینے اور ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کا الزام ہے۔نیتن یاہوکے قریبی حلقے کو پہلے ہی پولیس کی جانب سے شدید دباؤ کاسامنا ہے، چار مختلف مقدمات کی تحقیقات کے دوران ان کے قریبی حلقے میں شامل کئی افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ نیتن یاہو کی اہلیہ سارا کو بھی سرکاری رہائش گاہ کے انتظام کے حوالے سے دھوکا دینے کے الزام کا سامنا ہے۔
بہرحال اسرائیلی چیف لا آفیسر مینڈل بلیٹ (اٹارنی جنرل) کی منظوری کے بعد ہی نیتن یاہو کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، مینڈل بلیٹ کو نیتن یاہو نے عہدہ دیا ہے، اس لیے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ نیتن یاہو کے خلاف قانونی عمل کو آہستہ رکھیں گے، مخصوص شرائط پر اٹارنی جنرل بنائے جانے کے تاثر کے بعد مینڈل بلیٹ بھی بڑھتی ہوئی تحقیقات کی زَد میں ہیں۔ یارون کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں مینڈل بلیٹ کے پاس تحقیقات کو ملتوی کرنے کا اختیار نہیں رہ گیا۔ فلبر اہم گواہ ہیں،نیتن یاہو پر الزامات ثابت کرنے کے لیے جس کی پولیس کو ضرورت تھی۔
نیتن یاہو پر بیزق سے فائدہ لینے کے عوض اس کی مدد کرنے کا الزام ہے،الزام یہ ہے کہ نیتن یاہو نے فلبر کو وزارت اطلاعات میں اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا، تاکہ وہ بیزق کو شدید نقصان پہنچانے والے میڈیا کے منصوبوں کو روکیں۔ پولیس کو یقین ہے کہ بدلے میں وزیراعظم کو’’والا‘‘ (بڑی نیوز ویب گاہ) پر ان کے حق میں کوریج کی پیشکش کی گئی، اس کے علاوہ ایک اور کیس میں بھی پولیس نیتن یاہو پر رشوت لینے کامقدمہ چلانے کی سفارش کر چکی ہے۔ اس مقدمے کے حوالے سے ایک آڈیو ٹیپ موجود ہے، جس میں نیتن یاہو کو اسرائیل کے بااثر میڈیا گروپ کے مالک کو معاہدے کی پیشکش کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ نیتن یاہو میڈیا گروپ کے مالک کو مخالف اخبار کو کمزور کرنے کے لیے اس کے خلاف قانون سازی کا مشورہ دے رہے ہیں اور بدلے میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے اپنے حق میں کوریج کا مطالبہ کررہے ہیں۔اس کے علاوہ بھی پولیس نیتن یاہو پر ایک اور مقدمہ چلانے کی سفارش کرچکی ہے، جس میں نیتن یاہو پر تاجروں سے۳لاکھ ڈالر کے تحائف لے کر ٹیکس کم کرنے اور سرمایہ کاری کے بہتر مواقع فراہم کرنے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ چوتھے معاملے کی تحقیقات بھی نیتن یاہو کے قریبی ساتھیوں اور سابق مشیروں کے خلاف جاری ہیں، اس معاملے میں وزیراعظم براہ راست ملوث نہیں ہیں۔
نیتن یاہو کے ساتھیوں پر جرمنی سے ۲ارب ڈالر کی ڈولفن آبدوز کے سودے میں رشوت خوری کا الزام ہے،یہ آبدوز جوہری حملے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یارون کاکہنا ہے کہ قومی سلامتی کے پیش نظر آبدوز خریداری میں رشوت خوری کے حوالے سے نیتن یاہو کے آگاہ ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے، اس معاملے کے بارے میں بھی نیتن یاہو سے جلد پوچھا جائے گا۔ان تمام معاملات کی رپورٹنگ کرنے والے ’’بین کیسپٹ‘‘ کاکہنا تھا کہ نیتن یاہو کے خلاف ٹیلی کام تحقیقات میں فلبرکے پولیس سے تعاون کے بعد نہ بند ہونے والا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ ان تحقیقات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں رکھنے کی کوششیں کررہے تھے۔ سابق وزیراعظم کے سابق مشیر کا کہنا تھا کہ ’’۲۰۱۵ء کے عام انتخابات کے بعد مخلوط حکومت میں معاہدے کے تحت نیتن یاہو نے وزارت اطلاعات اپنے پاس رکھی، نیتن یاہو نے اپنے حکومتی اتحادیوں پر بھی زور دیا ہے کہ وزارت اطلاعات کے حوالے سے ان کے تمام فیصلے منظور کیے جائیں، یقینی طورپر نیتن یاہو اسرائیلی ذرائع ابلاغ اور اپنے عوامی تاثر پر مکمل گرفت رکھنا چاہتے تھے، اس کے ساتھ وہ بڑے اخبارات اور ویب گاہوں کے مالکان کے ساتھ بھی خفیہ معاہدے کرنا چاہتے تھے۔ نیتن یاہو دو بڑے کمرشل براڈ کاسٹرز کو بھی سخت قانونی کارروائی کی دھمکی دے چکے ہیں،اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو نے مقبول فوجی ریڈیو پر بھی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس ریڈیو کی کوریج پر حکومت کی مداخلت میں اضافہ کردیا تھا‘‘۔ ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ ’’کس طرح نیتن یاہو کے حق میں کوریج کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جس سے میڈیا میں مداخلت کا الزام مضبوط ہوتا ہے‘‘۔
گزشتہ ہفتے خبر دی گئی کہ بیزق کے مالک کی ریکارڈنگ ایک ویب گاہ کے سربراہ نے پولیس کے حوالے کی۔ نیتن یاہو مبینہ طور پر اس ویب گاہ کے مدیر کو رپورٹ شائع کرنے پر برطرف کروانا چاہتے تھے۔ یہ رپورٹ ڈولفن آبدوز کے حوالے سے تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ سینئر صحافی کاکہنا ہے کہ مقدمات کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی نیتن یاہو پر ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
نیتن یاہو اب تک اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، کیونکہ ان کے اہم ساتھی ان کے خلاف کوئی ثبوت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔گزشتہ ہفتے کیے گئے ایک سروے کے مطا بق نیتن یاہو کی جماعت پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے،نیتن یاہو نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس ان کو نشانہ بنارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں لیکود پارٹی کے ارکان نے پولیس کمانڈر رونی الشیخ پر بھرپور حملہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ قانون سازوں نے رونی پر وزیراعظم کے خلاف سیاسی بغاوت کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگایا۔
ہارٹزکے تجزیہ نگارکے مطابق ’’رونی پر حملہ اصل میں اٹارنی جنرل مینڈل کے لیے ایک انتباہ ہے، کہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کا کیا انجام ہوسکتا ہے،لیکن نئے اسکینڈل سے خود متاثر ہونے کے بعد اٹارنی جنرل پر فیصلہ کرنے کے لیے شدید دباؤ ہے‘‘۔یہ نیا اسکینڈل چند دن قبل ہی سامنے آیا ہے،جس کے مطابق ۲۰۱۵ء میں نیتن یاہو کے سابق مشیرہیفٹز نے سابق جج ہیلاکوسارا کو نیتن یاہو کے خلاف قانونی کارروائی ختم کرنے کے عوض اٹارنی جنرل کے عہدے کی پیشکش کی۔ اس اسکینڈل کے بعدسے مینڈل مشکلات میں گھر گئے ہیں۔
یہ باتیں خدشات پیدا کرتی ہیں کہ نیتن یاہوکسی کی تقرری کرانے میں کتنے بااثر ہیں اور کیا اٹارنی جنرل مینڈل سے بھی کوئی سمجھوتہ ہوا ہے، کیا ہیلا کی طرح مینڈل کو بھی پیشکش کی گئی اور جس کو انہوں نے قبول کرلیا۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں سوال کیاجارہا ہے کہ کیامینڈل سے تحقیق کی جانی چاہیے؟ اور کیا اس صورت میں مینڈل کی تحقیقات کو مسترد کردینا چاہیے؟ بہرحال نیتن یاہو نے ایک بیان میں Haaretz کے حوالے سے رپورٹس کو مسترد کردیا ہے۔ ان کاکہناتھا کہ ’’میرے مشیر نے کبھی اس طرح کی کوئی پیشکش نہیں کی‘‘۔ ایہود باراک کے سابق مشیر الفر کا کہنا ہے کہ’ ’نیتن یاہو کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا ہے، سوائے اس کے کہ وہ عوامی زندگی میں یہ تاثر دیں کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ لیکن پس منظر میں نیتن یاہو کے لیے تمام راستے بند ہورہے ہیں۔ نیتن یاہو بھی اپنے پیش رو ایہود المروت کی طرح استعفیٰ دے سکتے ہیں،تاکہ ان مقدمات کے دفاع پر توجہ دی جاسکے۔ وہ اپنے استعفے کے بدلے جیل نہ بھیجنے کی ضمانت حاصل کرنے کی امید کرسکتے ہیں،یا پھر وہ اپنی مقبولیت کے پیش نظر نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ یہ آخری راستہ خطرناک ہوگا۔اگر مقدمہ قانونی طور پر مضبوط ہے تو اس سے نیتن یاہو کے معاملات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔مقدمہ بظاہر مضبوط نظر آتا ہے اوراس میں مزید انکشافات کا امکان بھی ہے۔ اسرائیلی پارلیمان کے فلسطینی رکن جمال ذکلہ کاکہنا ہے کہ’’نیتن یاہو کے خلاف مالی بے ضابطگیوں پر مقدمہ امریکی گینگسٹر الکپون کوٹیکس چوری پر سزا دینے جیسا ہے،نیتن یاہو انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ان کی زیر نگرانی بے شمار فلسطینیوں کو قتل کردیا گیا، نیتن یاہو کے خلاف ان جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے،نہ کہ مہنگی شراب اور سیگریٹ کی طلب پر مقدمہ چلنا چاہیے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Israeli PM Netanyahu ‘cannot cling on to power much longer'”.(“aljazeera.com”. Feb.25, 2018)
Leave a Reply