
یہ مسلمانوں کا المیہ ہے کہ ان کی عصری تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی کمی نہیں رہی۔ مسلمانوں کو جتنا نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے غیروں نے نہیں پہنچایا۔ مسلمانوں کی صفوں میں موجود ضمیر فروش اور ملت فروش افراد اپنے حقیر مفادات کے لیے ہمیشہ ملت کو کھوکھلا کرتے رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں امریکا، اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کو عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اس میں مسلمانوں میں پائے جانے والے ان آستین کے سانپوں کا اہم کردار رہا ہے۔ افغانستان و عراق اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ عراق کے تعلق سے بارہا رپورٹیں آچکی ہیں کہ کس طرح بعض مسلمانوں کو قابض افواج نے مخبری کے لیے استعمال کیا۔ افغانستان میں بھی ضمیر فروش افغانیوں کو خریدا گیا اور ان کے ذریعہ مزاحمت کاروں کے ٹھکانے معلوم کیے گئے۔ غزہ پر ہوئی حالیہ یلغار میں بھی اسرائیل نے اس فارمولے کو استعمال کیا ہے۔ محمود عباس کی الفتح پارٹی سے تعلق رکھنے والے نام نہاد فلسطینی مسلمانوں نے حماس کے خلاف جاسوسی کر کے اسرائیلی افواج کے لیے حماس کے ٹھکانوں پر یلغار کو آسان بنایا۔ فلسطینیوں میں اور بالخصوص مغربی کنارہ کے فلسطینیوں میں ایک بڑی تعداد اسرائیلی ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس سے قبل بھی ایسے ایجنٹوں کا مسئلہ موضوع بحث بنا تھا لیکن غزہ پر کی گئی حالیہ یلغار میں جس بڑے پیمانے پر اسرائیلی ایجنٹوں نے اسرائیل کے لیے کام کیا ہے اس سے یہ مسئلہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ غزہ کی تازہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے حماس کے سیاسی شعبہ کے نائب صدر ابومرزوق نے کہا کہ حماس کے خلاف جاسوسی کرنے والے فلسطینی ایجنٹ جنہوں نے حالیہ یلغار کے دوران غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی اسرائیل کے پانچویں فوجی دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ غزہ پر حالیہ جارحیت سے قبل اور جارحیت کے دوران اسرائیل کے لیے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے والے فلسطینیوں کی نقل و حرکت کے متعلق حماس کی قیادت کو بہت کچھ اطلاعات موصول ہوئیں جن کی تفصیلات عالم عرب کے معروف جریدہ ’’المجتمع‘‘ نے اپنی حالیہ اشاعت میں شائع کی ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی ایجنٹوں کی سرگرمیاں
اسلامی تحریک مزاحمت، حماس کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ کو غزہ پر جارحیت کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل غزہ میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کا کام کرنے والے ایک پورے نیٹ ورک کا پتہ چلا تھا۔ ایجنٹوں کے یہ خفیہ گینگ فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہانیہ اور ان کے رفقاء کی نقل و حرکت کے تعلق سے معلومات اکٹھا کرنے میں مصروف تھے۔ نیز اسماعیل ہانیہ کے مکان اور ان کے رفقاء کی آمدورفت پر کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔ اس خفیہ نیٹ ورک کے بارے میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس سے وابستہ فلسطینی ایجنٹ نہ صرف غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے کے لیے کام کر رہے تھے بلکہ ایجنٹوں کے کئی گروپ حماس حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی سطح پر بھی ساز باز میں شریک تھے۔ غزہ کے ’’تل الھوی‘‘ علاقہ میں جسے اسرائیل نے انتہائی وحشیانہ بمباری کر کے تباہ کیا، اسرائیل کے لیے کام کرنے والے فلسطینی ایجنٹوں نے حماس کارکنوں پر پیچھے سے فائرنگ کی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایجنٹ اسرائیل کی خاطر حماس کے ساتھ دو بدو لڑائی کرتے رہے۔ اسرائیل کے فضائی حملوں کے بعد ایجنٹوں کی جانب سے زمینی کارروائی کی گئی۔ فلسطینی ایجنٹ اسرائیل کو حماس قائدین کے مکانات اور ان کے ٹھکانوں کے تعلق سے معلومات بھی فراہم کرتے رہے، حتیٰ کہ بعض ایجنٹوں نے تو حماس کے اداروں اور مراکز کی نشاندہی کے لیے فاسفورس نشانات وضع کیے تاکہ اسرائیل وہاں بمباری کر سکے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات پائے ثبوت کو پہنچی کہ حالیہ جارحیت کے دوران حماس کے دو اعلیٰ قائدین نزار ریان اور سعید صیام کی شہادت میں ان ایجنٹوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اسرائیل ان کے مکمل تعاون ہی سے انہیں ہلاک کر سکا۔ حماس کے وزیر خارجہ سعید صیام ان دنوں جس گھر میں مقیم تھے وہ دو ماہ قبل کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا۔ مقامی فلسطینی ایجنٹوں کی نشاندہی کے بغیر اس گھر پر فضائی حملہ ممکن نہ تھا۔ غزہ میں فلسطینی افراد کا اسرائیل کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا معاملہ صرف چند افراد تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی جڑیں کافی گہری ہیں جس وقت سے فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کا آغاز کیا بالخصوص ۱۹۹۳ء کا اوسلو معاہدہ، پھر اس کے بعد دیگر سلامتی معاہدے جن میں سرکاری سطح پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور قابض اسرائیلی افواج کے تعاون سے فلسطینی علاقوں میں سیکوریٹی مسائل حل کیے جانے لگے تب ہی سے اسرائیل کو بھرپور طریقہ سے اپنے ایجنٹ پھیلانے کے مواقع ہاتھ آئے۔ اس طرح باقاعدہ ایجنٹوں کی تقرری کے لیے ادارے کام کرنے لگے۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے حکام اس میں پیش پیش رہنے لگے۔ غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ سے حماس کا بالکلیہ صفایا اور اسے محمود عباس کے زیرِ اقتدار لانا تھا۔ چونکہ یہ اقدام محمود عباس کے اقتدار میں آنے کا باعث تھا اس لیے محمود عباس کی پارٹی الفتح کے ارکان نے غزہ پر جارحیت کے دوران اسرائیل کے لیے بھرپور جاسوسی کی اور اسرائیل کی مدد میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ غزہ پر یلغار کے دوران جس قسم کے حالات پیش آئے ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ محمود عباس کی حکومت اسرائیل کے ساتھ پورے طور پر شریک تھی اور اسرائیل کو ہر طرح کی معلومات فراہم کر رہی تھی۔ چنانچہ الفتح ارکان کے اشاروں ہی کی بنیاد پر اسرائیل بمباری کر رہا تھا۔ غزہ پر ہوئی حالیہ یلغار میں محمود عباس اوران کی الفتح پارٹی کے اسرائیل کے ساتھ بھرپور تعاون کے حوالے سے درج ذیل شواہد پائے جاتے ہیں۔ (۱) غزہ پر ہوئی جارحیت اسرائیل عباس منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل کی جارحیت سے عین قبل محمود عباس حماس کے تعلق سے اپنے مؤقف میں شدت لائے اور اسرائیل کی وزیر خارجہ زیپی لیونی نے غزہ پر حملہ کے مقاصد اور اس کے مراحل کے تعلق سے تمام معلومات محمود عباس کو فراہم کیں۔ نیز محمود عباس کو اس حملہ کا مکمل علم تھا۔ (۲) الفتح کے قائد محمود دھلان غزہ پر جارحیت کے دوران اور اس سے قبل اسرائیل کے ساتھ رابطہ میں تھے۔ اسرائیلی ادارہ برائے عمومی سلامتی کے صدر جنرل یوفارڈسیکن نے محمد دھلان کے سامنے حملہ کی مکمل نوعیت رکھی تھی اور دھلان حملہ کے دوران غزہ میں متعین اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اسرائیل کو معلومات فراہم کر رہے تھے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دھلان نے غزہ میں اسرائیل کے خلاف برسرِپیکار مختلف مجاہدین کے گروپ سے ربط کر کے انہیں مزاحمت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے مختلف جہادی گروپوں کو یقین دلایا کہ کنارہ کشی کی صورت میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا لیکن دھلان کی ہزار کوششوں کے باوجود ان گروپوں نے مزاحمت کو روکنے سے انکار کیا۔ (۳) محمود عباس نے غزہ پر جارحیت سے ایک دن قبل اپنے فوجی کمانڈروں کے ایک دستہ کو العریش شہر کو روانہ کیا تاکہ وہاں سے جلدی کے ساتھ غزہ پہنچا جا سکے۔ دستہ جن افراد پر مشتمل تھا ان میں محمد دھلان رشید ابو شایاک اور سمیر شھراوں بھی شالم تھے۔ (۴) غزہ پر جارحیت کے پہلے دن محمود عباس کے سیاسی مشیر نے عباس کے حکم سے اسرائیلی فوجی جنرل حاموس جلعاد سے ملاقات کی اور ملاقات کر کے اس سے مطالبہ کیا کہ حماس کے خصوصی ٹھکانوں کو خصوصیت کے ساتھ نشانہ بنایا جائے (۵) محمود عباس نے حملہ سے پہلے ۱۵۰۰ سیکوریٹی گارڈ العریش شہر کو روانہ کیے تاکہ وہ غزہ پہنچنے کے لیے پورے طور پر تیار رہیں اور حماس کی شکست کے ساتھ غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیں (۶) محمد دھلان نے فلسطینی اتھارٹی کی بعض شخصیات کو یہ اطلاع دی کہ اسرائیل کے سیکوریٹی ادارے شایاک کے صدر یوفال ڈسکن نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ غزہ واپسی کے لیے عالمی فوج کے ساتھ تیار رہیں، ناٹو افواج بھی ان کے ساتھ ہوں گی۔ مذکورہ شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ غزہ پر ہوئی حالیہ جارحیت میں محمود عباس اور اسرائیل کی مشترکہ منصوبہ بندی تھی۔ غزہ کے حالیہ حملوں میں فلسطینی ایجنٹوں کے کردار کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ القسام کے مختلف مجاہدین نے حملہ کے دوران متعدد ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔ متعدد ایجنٹ فوجی لباس میں ملبوس تھے بہت سے ایجنٹوں پر حماس کے کارکنوں نے گولیاں بھی چلائیں۔
اس طرح جنگ بندی کے بعد حماس کی خصوصی فورس نے ۱۰۰ کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا جن پر نہ صرف جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام ہے کہ یہ اسرائیل کی طرف سے فراہم کردہ خصوصی آلات کے ذریعہ حماس کی اہم تنصیبات کے اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش گاہوں اور اسلحہ کے ذخیروں کی نشاندہی کرتے رہے۔ حماس کے مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کی جانب سے اس بات کا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے انہیں راملہ سے الفتح کے بیشتر ارکان نے ہدایات دی تھیں۔ اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے الفتح کے ارکان کی حماس کی جانب سے گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دراصل الفتح کے ارکان اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے پکڑے گئے کیونکہ وہ کھلے عام ریڈیو پر نہ صرف گفتگو کرتے رہے بلکہ اپنے حامیوں کو یہ بھی کہتے رہے تھے کہ اب حماس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسرائیلی افواج جلد ہی غزہ کا کنٹرول سنبھال لیں گی اور اس کے بعد یہاں حکمرانی دوبارہ الفتح کی ہو گی۔ اس دوران حماس کی انٹیلی جنس تمام کارروائی کا نہ صرف مشاہدہ کرتی رہی بلکہ اس نے ریڈیو پر ہونے والی تمام گفتگو پر بھی اپنی توجہ رکھی۔ حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انہیں سب سے پہلے الفتح کے اراکین پر منظم جاسوسی کا شبہ اس وقت ہوا جب غزہ پر اسرائیلی حملہ کے دوران حماس کے چوٹی کے قائد نزار ریان کو شہید کر دیا گیا۔ اخبارات میں شائع رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ الفتح کے اراکین نے غزہ آپریشن کے دوران اسرائیلی رہنمائوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مغربی کنارہ میں کسی بھی قسم کی پریشانی کھڑی نہیں کرنے دی جائے گی۔ اس کے بدلہ مصر اور محمود عباس نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ غزہ سے حماس کا مکمل خاتمہ کیا جائے اوراسرائیلی فوج اس وقت غزہ خالی کرے جب محمود عباس کی سیکوریٹی فورسز غزہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیں۔ اس مقصد کے لیے خود غزہ کے اندر سے بھی کارروائی کی جاتی تھی اس میں ایک تو حماس کے اہداف اور تنصیبات کی نشاندہی کرنا تھا، تاکہ اسرائیلی فضائیہ انہیں نشانہ بنا سکے اور دوسرے نمبر پر عوامی سطح پر حماس کے خلاف بڑے پیمانہ پر مظاہرے کرانا تھا تاکہ دنیا پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ حماس کو غزہ کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق غزہ کی حالیہ جارحیت کے تعلق سے اسرائیل اور محمود عباس کے درمیان منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی اور یہ حملہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں اور محمود عباس کے خفیہ اداروں کی جانب سے پیش کردہ معلومات کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ غزہ میں اسرائیل کی شکست کے بعد لیے گئے جائزوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالیہ حملہ کے لیے اسرائیل اور محمود عباس کی جانب سے جمع کردہ معلومات کافی پرانی تھیں۔ چنانچہ غزہ میں کیا گیا پہلا حملہ جس میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا وہ پرانی اطلاعات کی بنیاد پر تھا جو غلط ثابت ہوئیں۔ اس طرح اسرائیل اور عباس کی اطلاعات میں حماس کے پاس کئی راکٹوں کی موجودگی بتائی گئی تھی جو صرف ۸۲ کلومیٹر کے فاصلے سے وار کر سکتے ہیں۔ جبکہ حقائق سے ثابت ہوا کہ حماس کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں ۵۰ کلومیٹر سے زائد مسافت سے وار کرنے والے راکٹ پائے جاتے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کافی عرصہ سے جاری ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق مغربی کنارہ اور غزہ میں اسرائیل کے لیے ۳۰ ہزار فلسطینی جاسوسی کرتے ہیں جاسوسی کرنے والے فلسطینی اسرائیل سے ہزاروں ڈالر حاصل کرتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین کی شہادت کا واقعہ بھی اس قسم کی جاسوسی کے سبب پیش آیا۔ حسن محمد مسلم نامی فلسطینی نے شیخ یاسین کی ہلاکت کے لیے اسرائیل کو معلومات فراہم کی تھیں جس کے لیے اسرائیل نے اسے تین ہزار امریکی ڈالر دیئے تھے۔ بعد میں القسام عسکری ونگ نے اسے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply