
اسرائیل میں آباد عرب باشندے آنے والے انتخابات سے اس قدر دل برداشتہ اور ناامید ہیں کہ وہ تو شاید پولنگ میں حصہ لینے کے موڈ میں بھی نہیں۔
ایک نظر ڈالیے تو ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا کوئی نتیجہ (یا مثبت نتیجہ) برآمد نہیں ہونے والا۔ ہر اسرائیلی انتخابات میں لاکھوں عرب باشندے اس امید پر ووٹ ڈالتے ہیں کہ شاید ان کے مسائل حل ہو جائیں مگر ان کی امیدیں ہر بار بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔ اسرائیل میں عرب نسل کے باشندوں کی تعداد بیس فیصد ہے مگر ان میں اور یہودیوں میں معاشی اور معاشرتی فرق بڑھتا جارہا ہے۔ عرب پارٹیاں ان قوانین کی دیوار گرانے میں ناکام رہی ہیں جو ان کی راہ میں بنیامین نیتن یاہو کی حکومت نے کھڑی کی ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد سے عرب باشندوں کے لیے بہتر انداز سے پنپنے کی راہ مسدود ہوگئی ہے۔ اسرائیل میں عرب آبادی کی اکثریت والے سب سے بڑے علاقے نزاریتھ میں ایک عرب ووٹر کا کہنا ہے۔ ’’ہم جس قدر نمایاں ہوتے ہیں اسی قدر متعصبانہ رویے کا شکار ہوتے جاتے ہیں‘‘۔
اسرائیلی حکومت سے اپنے حق میں اقدامات کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہنے پر اب عرب باشندے انتخابات میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ حیفہ یونیورسٹی کے اسد غنیم کہتے ہیں۔ ’’۱۹۹۹ء میں عرب باشندوں میں پولنگ کرنے والوں کا تناسب ۷۵ فیصد تھا۔ گزشتہ انتخابات میں یہ تناسب ۵۳ فیصد رہ گیا۔ اور ہوسکتا ہے کہ اب یہ نصف کی حد تک آگرے۔‘‘ اسرائیل کی ۱۲۰؍ رکنی پارلیمنٹ میں صرف ۱۷ عرب باشندے ہیں اور ان میں ۶ تو دروز ہیں جن میں سے ایک کا تعلق بنیامین نیتن یاہو کی لکود پارٹی سے ہے۔
چند اسلام پسند عناصر اور دانشور انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں جمہوریت صرف یہودیوں کے لیے ہے۔ عرب باشندوں کے حقوق بری طرح غصب کیے گئے ہیں۔ اب تک کسی بھی اسرائیلی حکومت نے کسی عرب پارٹی کو حکومت کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اور اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش بھی کرے تو فلسطینی مسئلہ حل ہونے تک شاید کوئی بھی عرب پارٹی حکومت کا حصہ بننے کے لیے تیار نہ ہوگی۔
عرب باشندوں میں بے روزگاری یہودیوں کے مقابلے میں دگنی ہے۔ ۶۶ فیصد عرب بچے افلاس زدہ ہیں، جبکہ افلاس زدہ یہودی بچوں کا تناسب ۲۴ فیصد ہے۔ دارالحکومت تل ابیب کے نزدیک بیس ہزار کی آبادی والے عرب قصبے کفر قاسم میں کوئی پولیس اسٹیشن نہیں۔ لا قانونیت کاراج ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے گروہ رات گئے فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔
عرب باشندوں کو مرکزی سیاسی جماعتوں نے بھی نظر انداز کردیا ہے۔ اب تک انہوں نے عرب باشندوں کے بنیادی مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ بیس سال قبل ۶۰ فیصد عرب باشندے بڑی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیا کرتے تھے۔ اب ایسا کرنے والوں کا تناسب ۲۰فیصد رہ گیا ہے۔ یہودی ووٹروں میں انتہا پسندی اور فرقہ پرستی نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں یہودی سیاست دانوں کے پاس اس بات کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے کہ عرب باشندوں کے لیے کچھ کرسکیں۔ یہودیوں کی اکثریت والی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے عرب پارلیمنٹیرینز کی تعداد میں نصف رہ جانے کا خدشہ ہے۔
عرب باشندوں کے سروے کے مطابق ۹۲ فیصد کی نظر میں حقوق کا نظرانداز کیا جانا، سماجی بہبود کے منصوبوں میں خیال نہ رکھا جانا، متعصبانہ رویہ رکھنا اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح بنیادی مسائل ہیں۔ اسرائیل کے بیشتر عرب باشندے اپنے رہنماؤں سے مایوس ہوکر اب اسرائیل فلسطین تنازع پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ عرب سربراہوں والی جن تین جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں گیارہ پارلیمانی نشستیں جیتی تھیں ان کا کہنا ہے کہ مقابلہ اسلامی، قوم پرستانہ اور سیکولر نظریات سے ہے۔ عرب سیاست دانوں میں آپس میں بھی نہیں بنتی۔ قبائلی عصبیتیں ہیں، خانوادوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ اگر تمام عرب باشندے مل کر ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیں تو پارلیمان میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔چند چھوٹی سیاسی جماعتیں عرب ووٹروں کی توجہ پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عرب سرزمین سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی الٹرا آرتھوڈوکس جماعت Shas نے عرب ووٹروں میں خاصی پرزور کنویسنگ کی ہے۔ سیاہ لباس میں ملبوس ان کے عربی بولنے والے رہنما مسلم، عیسائی اور دروز اکثریت والے قصبے گیلیلی میں کنویسنگ کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کے یہودیوں کی جماعت ’’میریز‘‘ (Meretz) نے کفر قاسم سے تعلق رکھنے والے عیساوی فریج کو نمایاں حیثیت دی ہے تاکہ عرب باشندوں کی نظر میں قابل قبول ہو۔ یہ پارٹی عرب باشندوں کو یقین دلا رہی ہے کہ ان کے بنیادی مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔
(“Israel’s Arab voters What’s the point?”… “The Economist”. January 12th, 2013)
Leave a Reply