
مشرق وسطیٰ کی غیرواضح صورت حال اور گرد آلود فضا میں لبنان کا مسئلہ ایسے مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے جسے طویل انتظام کا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ داخلی صورت ایسے موازنے اور سیاسی اتار چڑھائو کی مرہونِ منت بنی ہوئی ہے جسے علاقائی تصویر کے واضح ہونے کا انتظار ہے اور اس کا اختتام ایران کے ساتھ سلوک کے واضح ہونے پر ہو گا۔ سیاسی حلقے اندازہ کر رہے ہیں کہ خطہ کے بیشتر کھلاڑی صورتحال کے غیرواضح ہونے کی وجہ سے الجھن کا شکار اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ اسی الجھن کی وجہ سے وہ کسی بھی اہم مسئلہ میں فیصلہ کرنے میں پس و پیش کر رہے ہیں اور کسی چیز کے بارے میں قطعی فیصلہ کرنے سے احتراز کر رہے ہیں۔ ڈپلومیٹک حلقوں کا کہنا ہے کہ اس خطہ کا سب سے اہم اور نمایاں کھلاڑی ہے جس نے خطے کو ذہنی الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسرائیل و امریکا کے تعلقات خطے کے اندر ہونے والی تبدیلی اور پیش آنے والے واقعات بالخصوص سمجھوتے کی کارروائی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اس کا احاطہ کرنے کی قدرت و صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ تعلقات ہر آنے والے امریکی انتظامیہ کے لیے سوزش اور ہر امریکی صدر کے لیے دردِ سر بنے رہے ہیں۔ خواہ ان میں وہ بھی رہے ہوں جنہوں نے یہاں کے مسئلہ کو سلجھانا چاہا تھا یا جنہوں نے نہ سلجھانے کی پالیسی اپنائی تھی۔ کلنٹن انتظامیہ نے عرب اسرائیل جھگڑے کو حل کرنے کے لیے دبائو ڈالا اور اس میں سرگرمی دکھائی مگر انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ جارج بش کی انتظامیہ نے خود کو اس مسئلہ سے دور رکھا بلکہ اس نے چاہا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہو اور یوں ہی چلتا رہے۔ اوباما کی موجودہ انتظامیہ بل کلنٹن کا تجربہ دہرانا چاہ رہی ہے مگر اس کے اندر بھی اسرائیل پر دبائو ڈالنے کی قدرت و صلاحیت نہیں وہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کرنٹ سرکٹ ہے جسے چھونے سے جسم میں کرنٹ دوڑ سکتا ہے اس لیے اس کی کوئی توقع یا امید نہیں کہ امن کارروائی میں حقیقی معنوں میں کوئی پیش رفت ہو گی اور کوئی خلافِ توقع بات پیش آئے گی جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو حکومت بحران میں گھری ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس بحران کی وجہ سے دیر یا سویر قبل از وقت انتخابات کی نوبت آسکتی ہے اور صورتحال اسرائیلی حکومت کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ تمام اہم مسئلوں کو ٹالتی رہے اور کسی مسئلہ میں قطعی فیصلہ سے گریز کی پالیسی اختیار کیے رہے۔ باخبر سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا بحران صرف اندرونی مشکلات و مسائل میں منحصر نہیں بلکہ وہاں تک پھیلا ہوا ہے جسے اسرائیل میں سب سے خطرناک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور اسے مقام اوّل پر رکھا جاتا ہے۔ نیتن یاہو کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تو وہ ہے جس کی نشاندہی فوجی ادارے کر رہے ہیں اور دوسرا راستہ وہ ہے جس کی رہنمائی انٹیلی جنس ایجنسیاں کر رہی ہیں۔ فوجی اداروں کی رائے ہے کہ اسرائیل کو ایران پر زبردست فوجی حملہ کر دینا چاہیے۔ جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسی حماقت کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دے رہی ہیں اور متنبہ کر رہی ہیں کہ اگر ایران پر فوجی یا سیاسی وار کیا گیا تو اس کے برے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ فوجی کارروائی کے بارے میں خود فوجی اداروں کو بھی اپنی کارروائی کی کامیابی کے بارے میں شک و شبہ ہے۔ انہیں یقین نہیں کہ اسرائیلی فضائیہ ایرانی ایٹمی ری ایکٹروں پر تباہ کن اور بالکل نیست و نابود کر دینے والی ضرب لگانے میں کامیاب ہو سکے گی اور کچھ بھی نقصان اٹھائے بغیر ضرب لگا کر صحیح و سالم لوٹ آئے گی اور اگر اس نے ضرب لگائی‘ پھر اسے ختم کرنے میں کامیابی نہیں ملی تو مقصد حاصل نہیں ہو گا اور پورے طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنا مشکل ہو جائے گا اور یہ اسرائیل کے لیے زبردست نقصان ہو گا۔ بلکہ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسرائیلی فضائیہ اپنی سرزمین سے اڑ کر وہاں پہنچتی اور ضرب لگانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ناقابلِ تلافی نقصانات برداشت کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ فضائی راستوں کے انتخاب کی دشواری بھی ہے کہ مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ پھر اس کی سلامتی کی بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس پس منظر میں سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ اسرائیلی قیادت کے سامنے یہی رہ جاتا ہے کہ وہ دوسرا راستہ اختیار کرے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ایران پر ضرب لگانے کے بجائے حزب اﷲ پر ضرب لگائے اور اس کے وسائل ایران پر ضرب لگانے کے وسائل سے مختلف ہوں گے۔ ان ہی سفارتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی ہی صورتحال کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصہ سے لبنان کو جنگ کی دھمکی دی جارہی ہے اور حزب اﷲ کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل کی جانب سے بڑی فوجی کارروائی شروع کرنے کا پیغام مل رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے لبنانی حکومت کو بالکل واضح طور پر پیغام ارسال کیا جارہا اور دوٹوک وغیر مہم الفاظ میں جنگ شروع کرنے کی وارننگ دی جارہی ہے۔ لبنان کو ملنے والا اس طرح کا سب سے اہم پیغام وہ تھا جسے لبنانی صدر میثال سلیمان نے اپنے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر سنا‘ پھر براہ راست انہیں دھمکی دی گئی کہ اسرائیل لبنان پر فوجی ضرب لگا سکتا ہے اور اسے ایسا کرنے کا اختیار ہے کیونکہ حزب اﷲ اس کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے اور اس نے اگر حزب اﷲ کے خلاف اپنی کارروائی شروع کی تو حزب اﷲ کے انفرا اسٹرکچر اور اس کے زیر زمین ڈھانچے کو تباہ کرنے سے بھی اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیونکہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ حکومتِ لبنان کے وزارتی بیان نے حزب اﷲ کے ہتھیاروں کو تحفظ فراہم اور اس کے لیے ڈھال کا کام کیا ہے۔ اس طرح حزب اﷲ کی فوجی سرگرمیوں اور اس کے نتائج کی ذمہ دار خود لبنانی حکومت بھی ہے۔ ان دھمکی آمیز پیغاموں کو صرف لبنانی صدر میثال سلیمان ہی نے نہیں سنا بلکہ لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نے بھی فرانس میں سنا ہے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ خود ترکی نے سعد الحریری کو آگاہ کیا ہے کہ اسرائیل لبنان کو ختم کرنے اور اس کے وجود کو مٹانے کے لیے جنگ چھیڑنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ اردغان نے حریری کو مشورہ دیا ہے کہ سرحدوں پر اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کی جھڑپ سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ اسرائیل اسے بہانہ بناتے ہوئے لبنان کے خلاف جنگ نہ چھیڑ دے۔ کیونکہ وہ اس مقصد کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں ہے اور کسی بھی واقعہ کو جواز بنا کر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ان دھمکیوں اور تیاری کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لبنان کا اسٹیج اس نئی محاذ آرائی کے لیے بالکل تیار ہو چکا ہے؟ اور کیا اسرائیل کی جنگ چھیڑنے کے لیے تیاری مکمل ہو چکی ہے؟ بیشتر باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دنوں لبنانی حکومت اسرائیلی جنگ کو روکنے کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں سے ربط پیدا کرنے میں مصروف ہے کیونکہ اس کی معلومات کے مطابق اسرائیل حزب اﷲ پر ضرب لگانے کے لیے مکمل تیاری کی حالت میں ہے۔ اس کی یہ تیاری متعدد فوجی و سیاسی عوامل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اسرائیل نے اپنے میزائل شکن نظام کو ترقی دینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے‘ اس نے ’’آہنی گنبد‘‘ تیار کر لیا ہے جو آئندہ چند ماہ کے دوران کام شروع کر دے گا۔ یہ نئی کامیابی ہی بنیادی طور پر آئندہ کی جنگ کا ٹائم ٹیبل مقرر کرے گی اور یہ جنگ بہار یا خزاں کے موسم میں چھیڑی جاسکتی ہے۔ آئندہ کی جنگ سے متعلق اسرائیل کی فکر صرف یہ ہے کہ اسرائیل کے اندرونی حصوں کو نشانہ بنائے جانے سے روکا جائے اور اس کی طرف آنے والے کسی بھی میزائل کو اسرائیلی سرحد عبور کرنے سے پہلے ہی مار گرایا جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے فوری بعد اسرائیل تیزی کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے لیے لمحہ صفر کی طرف آگے بڑھے گا اور کسی توقف یا لیت و لعل کے بغیر اپنی عسکری کارروائی شروع کر دے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ حزب اﷲ کے میزائل کو روکنے کے لیے میزائل شکن سسٹم کی تنصیب کا کام جوں ہی پایۂ تکمیل کو پہنچے گا جنگ کا بگل بجا دیا جائے گا۔
۲۔ اسرائیل کی فضائی برتری قائم رکھنے کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے‘ اسی لیے اس نے ہمیشہ شام کو انتباہ کیا اور وارننگ دی ہے کہ وہ لبنان کو ہرگز ایسا ہتھیار نہ دے جو طیارہ شکن ہو‘ اس کی کارکردگی اعلیٰ درجے کی ہو اور وہ اسرائیلی فضائیہ کی نقل و حرکت کو روکنے پر قادر ہو۔ اس کی یہ کوشش بھی رہی ہے کہ شام کوئی ایسا ہتھیار حاصل نہ کر سکے جس کے ذریعہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائیہ کی نقل و حرکت متاثر ہو سکتی ہو۔ اس طرح اسرائیل کی جنگی حکمتِ عملی گویا اس پر مرکوز ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کی مدد اور اس کی مکمل نگرانی میں حزب اﷲ کے خلاف زمینی کارروائی کی جائے اور ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر موجود رہیں۔
۳۔ اسرائیل نے بری فوج اور اس سے متعلق ہتھیاروں کو بھی خوب ترقی دے لی ہے۔ اس نے بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کو اس طرح تیار کیا ہے کہ وہ ٹیک شکن میزائل کا بھی سامنا کر سکتے اور ان میزائلوں کے گرنے کے باوجود وہ کام کرتے رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس نے ہی یہ انکشاف کیا تھا کہ حزب اﷲ نے جنوبی لبنان اور مغربی حصے میں کچھ میزائل جمع کر رکھے ہیں جو ٹینک شکن ہیں‘ اس کی کارکردگی اور پوری مہارت کا اندازہ کر لینے کے بعد ہی زمینی حملے کا فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ اس کے بعد حزب اﷲ کے راکٹوں کی فکر اسے نہیں رہے گی اور اس محاذ سے یکسو ہو کر وہ اپنے انداز سے حملے کرنے میں آزاد ہو جائے گا۔
۴۔ اسرائیل نے اپنے جاسوسی نظام کو بھی خوب ترقی دے کر پہلے سے کہیں زیادہ بہتر بنا لیا ہے۔ وہ حزب اﷲ کی فوجی صلاحیتوں کا پوری گہرائی سے جائزہ لے رہا ہے اور اس پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں موساد کے جن ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا تھا‘ اس نئی ترقی کے وہ ایک حصہ تھے بلکہ بہت معمولی حصہ تھے کیونکہ اس کے ایجنٹوں کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور وہ چپے چپے میں پھیل چکے ہیں۔ گویا اسرائیل اپنے اس ہمہ جہت جاسوسی عمل کے ذریعہ چاہتا ہے کہ آئندہ کسی بھی جنگ اور فوجی کارروائی کے ابتدائی ساعتوں ہی کے اندر حزب اﷲ کی کمر توڑ دے اور اس کی صلاحیتوں کو اس طرح کمزور کر دے کہ وہ مقابلہ پر جمے رہنے سے قاصر رہے۔ یعنی پہلے اس میزائل طاقت کو تباہ کر دے پھر کنٹرول کرنے اور قیادت کرنے کے مراکز کو تباہ کرتے ہوئے اس کے سارے وسائل کو تباہ کر دے۔ دوسری طرف حزب اﷲ کے بارے میں رپورٹیں آرہی ہیں کہ اب سے پہلے تک اس نے جنگ کی جو تیاری کی تھی اس وقت اس سے کہیں بڑھ کر جنگ کی تیاری میں لگا ہو اہے۔ وہ ہتھیاروں سے اس قدر لیس ہو رہا ہے کہ اس کی نظیر اس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے فضائی دفاع کا سسٹم تیارکیا ہے جس کے ذریعہ وہ جاسوسی کرنے والے طیاروں کی نقل و حرکت کو معطل‘ ہیلی کاپٹروں کے استعمال کو ناکارہ اور راڈار میں مداخلت کرتے ہوئے اس کی کارکردگی کو بے فیض بنا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حزب اﷲ نے دفاع کا مکمل منصوبہ تیار کیا ہے جس کے لیے اس نے مختلف علاقوں کی حکمت عملی کی روشنی میں اپنی فوجی حکمت عملی کو خوب ترقی دی اور گزشتہ چار برسوں کی کوتاہیوں کی تلافی کے لیے کامیاب کوشش کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت وہ جنگ کو طول دے سکتا اور طویل مدت تک اس کے شعلوں کو بھڑکا کر رکھ سکتا ہے اور اسے طویل مدت تک جاری رکھنے میں اسے کسی کی مدد کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ یہاں تک کہ خط لطانیہ کے جنوب میں بھی وہ اس جنگ کو عرصہ تک جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ اس کی بہت بڑی خصوصیت اور نشانِ امتیاز ہے جو اس کی قوت و صلاحیت میں گوناگوں اضافہ کرنے والا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں اس نے یہ ثابت کر دکھایا تھا کہ وہ اسرائیلی زمینی فوج کو مشغول رکھ کر اور دیہاتوں میں الجھا کر اس کی طاقت کو کمزور کر سکتا ہے۔ باخبر ذرائع نے اشارہ کیا ہے کہ حزب اﷲ نے اپنے انسانی وسائل کو تقویت دے کر اسے مضبوط و مستحکم بنا لیا ہے۔ اب اس کے پاس لاکھوں نئے جنگجو موجود ہیں جنہیں ایران میں تربیت دی گئی ہے۔ اس نے ایمرجنسی منصوبہ بھی بنایا ہے جس کا مقصد جنگ کو طول دے کر حملہ آور اسرائیل کو مہینوں جنگ میں مشغول رکھنا ہے۔ کسی ایک شعبہ میں نہیں بلکہ ہر شعبہ میں۔ یہ سوال کہ مستقبل کی متوقع جنگ کے تعلق سے حزب اﷲ نے کون سی نئی حکمت عملی اپنائی ہے، اس کے جواب میں ’’الوطن العربی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے فوجی ماہرین نے کہا ہے کہ اسرائیلی افواج خشکی کے راستے مغربی حصے سے لبنان میں داخل ہونے کی کوشش کریں گی تاکہ وہ وسطی علاقہ تک پہنچ کر جنوبی حصے کو شمالی حصہ سے کاٹ سکیں‘ پھر مغربی حصے کی پٹیوں پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی۔ اس منصوبے کی تکمیل اور اس مقصد کو حاصل کر لینے کے بعد اس کے لیے اس علاقہ پر قبضہ کر لینا آسان ہو جائے گا۔ پھر اسے اپنے کنٹرول میں لے لینے کے بعد اسرائیلی فوج جبل ریحان کے علاقہ کی طرف آگے بڑھ سکتی ہے اور اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس پہاڑی پٹیوں میں داخل ہو جانے اور کسی حد تک اس پر غلبہ حاصل کر لینے کے بعد حزب اﷲ کو اپنا دفاع کرنے سے روکنے میں اسے کامیابی مل جائے گی اور حزب اﷲ کو اپنی حفاظت کے لیے جو ڈھال حاصل تھی‘ وہ اس سے محروم ہو سکتی ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اگلی جنگ کافیصلہ ہو چکا اور اس کا چھڑنا یقینی ہے۔ اب صرف آخری لمحے کا انتظار باقی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جنگ عرب اسرائیل نزاع کی ایک نئی تصویر پیش کرے گی اور شاید یہ اس نزاع کے لیے حد فاصل ثابت ہو۔ اس کی روشنی میں ہی مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا اور خطے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
(بشکریہ: ’’الوطن العربی‘‘)
Leave a Reply