اسرائیل کے جوہری ہتھیار عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں!

ابھی جبکہ اسرائیل کے جوہری اسلحوں کا ذخیرہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہونے کے سبب متنازعہ بنا ہوا ہے کہ صیہونی حکومت کے جوہری اسلحوں کے پروگرام کے حوالے سے کچھ نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی تحقیق کار Ronen Bergman نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جو مقبوضہ فلسطین میں “Time of Accident” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے صیہونی حکومت کے اُن فیصلوں کا انکشاف کیا ہے جو عرب ممالک کے خلاف جوہری اسلحوں کے استعمال سے متعلق گذشتہ سالوں میں کیے گئے ہیں۔ کتاب کے اہم اقتباسات گذشتہ ہفتے اسرائیلی روزنامہ “Yediot Aharnot” میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ برگ مین کے مطابق ۱۹۷۳ء میں اس وقت کے وزیرِ دفاع موشے دایان اسرائیلی فوج کے کمانڈر کو بالسٹک میزائل کی تیاری کا حکم دیا تھا جو جوہری مواد کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے شام کے دارالحکومت دمشق کو مکمل طور سے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ صیہونی فوج کے جوہری منصوبوں کے حالیہ انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیل خطے کے ممالک کے خلاف جوہری اسلحوں کے استعمال کے حوالے سے کسی تکلف یا پس و پیش کا قائل نہیں ہے۔ اپنے جوہری اسلحوں سے متعلق اس کتاب کی اشاعت کی اجازت دینے سے اسرائیل کے دو اہم مقاصد ہیں۔ صیہونی حکومت ہمیشہ جوہری اسلحوں اور جوہری تنصیبات سے متعلق اپنی سرگرمیوں کو صیغۂ راز میں رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے‘ اس ڈر سے کہ عالمی برادری اس کے خلاف کوئی ردِعمل نہ دکھائے۔ بہرحال اسرائیل کے جوہری اسلحوں کے پروگرام سے متعلق معتبر دستاویزات کا پردہ فاش ہونا اور جوہری سائنسدانوں مثلاً Mordechai Vanunu کے ذریعہ اہم انکشافات کا سامنے آنا اور عالمی برادری کے دبائو جیسے عوامل نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ اپنے جوہری اسلحوں کو مزید خفیہ رکھنے کی کوشش اب ترک کر دے۔ اسرائیلی حکومت کو معلوم ہے کہ جلد یا بدیر اسے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس کے پاس جوہری اسلحوں کا ذخیرہ موجود ہے چنانچہ وہ بتدریج اس مسئلے پر غیرسرکاری انکشافات کی اجازت دے کر باضابطہ اعتراف و اعلان کی راہ اپنے لیے ہموار کر رہی ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت اس اعلان سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک خوف و دہشت کا ماحول بھی پیدا کرنا چاہتی ہے اور اپنی مخالف قوتوں کو یہ دھمکانا چاہتی ہے کہ اگر وہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں رکاوٹ بنیں گے تو یہ علاقائی ممالک کے خلاف اپنے جوہری اسلحوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ لہٰذا ان تازہ انکشافات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جوہری اسلحے صیہونی حکومت کی جنگی حکمتِ عملی کا اہم جزو ہے۔ چنانچہ اسرائیل کے جوہری خطروں سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہییں۔

(بشکریہ: ’’تہران ٹائمز‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*