
اسرائیل کی ۶۰ویں سالگرہ کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات میں مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ فلسطینیوں نے اپنے لیے اس دن کو یومِ نکبت (ذلت) قرار دیا ہے۔ نیشنل پوسٹ جو کہ ایک اسرائیل نواز اخبار ہے، نے Jeet heer کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا تناظر قدرے مختلف ہے اور مضمون نگار جشن قیام اسرائیل کے حوالے سے بہت زیادہ جوش و خروش کا اظہار کرنے کے بجائے کچھ تلخ حقائق کو آشکار کرتا ہے۔ (س ر ا)
ساٹھ سال قبل ایک بارہ سالہ لڑکے نے اپنے خاندان کے افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا تھا۔ اس کا نام فہیم زیدان تھا اور وہ فلسطین کے دیر یٰسین نامی عرب گاؤں میں رہتا تھا۔ اس گاؤں پر ۹ اپریل ۱۹۴۸ء کو Irgun and Stern نامی دہشت گرد گروہ کے غنڈوں نے دھاوا بول دیا تھا۔ یہ گروہ ایک رضاکار دستہ تھا جس کا تعلق صیہونی تحریک کے دائیں بازو سے تھا۔ اس صیہونی دستے کے دہشت گرد گاؤں میں گھس آئے اور مشین گنوں سے بُری طرح گولیاں برسانا شروع کردیں۔ اس حملے میں جو لوگ بچ گئے انہیں ان دہشت گردوں نے گھروں سے زبردستی باہر نکال کر ایک میدان میں جمع کیا۔ زیدان نے بتایا کہ وہ ہمیں یکے بعد دیگرے باہر لے کر گئے۔ پہلے ایک بوڑھے آدمی کو گولی ماری اور جب اس کی بیٹیوں میں سے ایک نے چیخ ماری تو انہوں نے اُس کو بھی گولی مار دی۔ پھر اس کے بعد انہوں نے میرے بھائی کو بلایا اور اسے ہمارے سامنے گولی ماری اور جب میری والدہ نے اس کے اوپر جھک کر آہ و بکا اور گریہ کیا اس حالت میں کہ اُن کے بازو میں میری سب سے چھوٹی بہن ہُدرا تھی اس وقت شیر مادر پر ہی پَل رہی تھی تو ظالموں نے انہیں بھی گولی مار دی۔ Irgun کے کمانڈر Ben zion Cohen جو کچھ ہوا تھا اس کی قدرے واضح تصویر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ہم نے ہراُس عرب کو جو ہماری راہ میں آیا صفحہ ہستی سے مٹا دیا‘‘ بہرحال اس کا یہ بیان اس حقیقت پر پردہ ڈال دیتا ہے کہ Irgun Stern نامی گروہ نے بعض فلسطینی خواتین کو قتل کرنے سے پہلے ان کی اجتماعی آبروریزی کی تھی۔ کم از کم ۹۳ باشندے گاؤں کے اُس دن قتل کر دیے گئے تھے جن میں محض مرد اور عورتیں ہی شامل نہیں تھیں بلکہ بچے بھی شامل تھے۔ دیر یٰسین کا قتل عام ۱۹۴۸ء کے بہیمانہ واقعات میں ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔ لیکن یہ بہیمیت واحد بہیمیت نہیں تھی اور نہ ہی یہ اس زمانے کی سب سے بڑی درندگی تھی۔ درحقیقت کوئی بہت زیادہ گہرائی میں جانے والا ہو تو وہ یہ استدلال کر سکتا ہے کہ دیر یٰسین کے واقعہ کی اس لیے زیادہ تشہیر کی گئی کہ اس بھیانک جُرم کو انجام دینے والے Irgun & stern گروہ کے دہشت گرد تھے اور ان پر اس جرم کا الزام رکھ کر ڈیوڈ بن گورین کی لیبر پارٹی کی شہرت کو زیادہ قابل احترام ظاہر کیا جا سکتا تھا۔
۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا دیریٰسین کا واقعہ اس کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ صیہونی افواج، بشمول ان افواج کے جو بن گورین کے زیر کمان تھی، نے مقامی آبادی کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے دہشت گردی کے بڑے بھیانک حربے استعمال کیے۔ اسرائیل کا قیام ہی نسل کشی کے ذریعہ عمل میں آیا اور وہ بھی ایسی بھیانک نسل کشی جس سے حالیہ تاریخ بمشکل آشنا ہے۔ اسرائیلی ریاست کا قیام ایک فتح بھی ہے اور سانحہ بھی ہے۔ فتح بہت معروف معنی میں یعنی یہ کہ کس طرح ایک نوزائیدہ اور غیر محفوظ صیہونی تحریک نے جو ہنوز ہالوکاسٹ کی دہشت سے جانبر نہیں ہوئی تھی فلسطین میں قومی آزادی کی جنگ لڑی اور دشمن عرب افواج سے گریز کرتے ہوئے ایک نئی یہودی ریاست کی تخلیق میں کامیاب ہو گئی۔ ایک حوصلہ بخش داستان ہے ایک نحیف و نژار گروہ کی جس نے مشکلات کے مقابلے میں فتح حاصل کی۔ اس فتح کو ہمیشہ مذہبی اور مافو ق الفطری معنوں میں منایا جاتا ہے (Leon uris)کی مشہورِ زمانہ ناول Exodus کے اس باب کا تصور کریں جو حضرت موسیٰ کی یاد دلاتا ہے۔
لیکن اسرائیل کے قیام کا المناک پہلو بھی تھا۔ وہ نسل کشی جس کے سبب اسرائیل وجود میں آیاوہ ستم رسیدہ عربوں کو ہنوز دہشت زدہ کرتی ہے اور یہ جُرم اسرائیلی ریاست کا آج بھی پیچھا کر رہا ہے۔
عرب افواج کے خلاف خارجی جنگ عربوں کے خلاف اس داخلی جنگ کی آئینہ دار ہے جو فلسطین میں رہ رہے تھے۔ اس المناک واقعے کے پیش نظر بغیر کسی مقصد کے ۱۹۴۸ء میں قائم ہونے والے اسرائیل کا جشن منانا عربوں اور یہودیوں دونوں کے لیے یکساں طور سے برا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سارے قارئین کو میرے لفظ ’’نسل کشی‘‘ کے استعمال پر صدمہ ہو گا جو ان لوگوں کے نزدیک بہت سخت ہے جن کی اٹھان Leon uris کی افسانہ سازی پر ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے بہترین مورخین جن میں بعض ’’کٹّرصیہونی‘‘ ہیں ۱۹۴۸ء کے واقعات کو واضح طور سے نسل کشی بتاتے ہیں۔ اس حوالے سے سنجیدہ بحث صرف یہ ہے کہ آیا یہ نسل کشی صیہونی رہنماؤں کی دانستہ پالیسی تھی یا جنگی فضا کا حادثاتی طور پر ضمنی نتیجہ تھا۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ کیا ہوا تھا؟ اس صورت حال کا خیال کریں جس سے صیہونی تحریک کو ۱۹۴۸ء سے قبل فلسطین میں سامنا تھا۔ اس تحریک کے ساتھ یہودیوں کی بہت تھوڑی تعداد تھی (انتداب زدہ فلسطین کی آدھی آبادی سے بھی کم) ان کے پاس زمینیں بھی بہت کم تھیں (یہودی اُس علاقے میں ۶ فیصد سے بھی کم زمین کے مالک تھے) اور وہاں عربوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ۱۹۳۸ء میں بن گورین نے Jewish Agency Executive سے کہا تھا کہ ’’میں جبری منتقلی کے حق میں ہوں مجھے کوئی چیز غیر اخلاقی نظر نہیں آتی‘‘بن گورین اور اس کے پیروکار وں نے جبری منتقلی کی اسی پالیسی میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۴۹ء تک سات لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ ۵۰ سے زائد گاؤں تباہ کر دیے گئے تھے اور ہمسائیگی کے حامل کئی شہروں کی آبادیاں اجاڑ دی گئی تھیں۔ جیسا کہ اسرائیلی کمانڈر Yitzhak Pundak ۲۰۰۴ میں اُن واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جن میں وہ اس زمانے میں شریک تھا بتاتا ہے کہ ’’اس وقت کوئی دو سو گاؤں تھے جو اب نہیں ہیں۔ ہمیں انہیں تباہ کرنا پڑا ورنہ عربوں کی یہاں آبادیاں ہوتیں (یعنی فلسطین کے جنوبی حصّے میں) جیسا کہ اس وقت ہم گلیلی میں پاتے ہیں۔ بصورت دیگر یہاں مزید ایک ملین فلسطینی ہوتے۔ اگر آپ صیہونیت کو مغربی تناظر میں دیکھیں تو اس کی منطق بہت واضح اور قابل قبول ہے۔ یہودیت مخالف جذبہ یورپی تاریخ میں گہری جڑیں رکھتا ہے ۔ہالوکاسٹ اسی بات کا اعلان ہے کہ اگر یہودیوں کے پاس اپنی ریاست کی شکل میں کوئی حفاظتی ڈھال نہ ہو تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہالوکاسٹ جیسا احساسِ جرم صرف جرمنوں سے تعلق نہیں رکھتا ہے جو اس کے اصل مرتکبین تھے بلکہ پولینڈ، یوکرائن اور دیگر ممالک کے ان بہت سارے لوگوں سے بھی تعلق رکھتا ہے جو اس میں برابر کے شریک تھے۔ نہ ہی انگریزی بولنے والے لوگوں کو اس حوالے سے بے خطا قرار دیا جا سکتا ہے۔ انگلینڈ، کینیڈا، امریکا اور انگریزی علاقے کے کچھ دوسرے ممالک نے بھی یہودیوں کو اپنے یہاں سے نکالنے کے لیے انہیں پناہ گزین بنانے کی انتھک کوشش کی۔
مغربی تہذیب نے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائیوں میں بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا۔ لہٰذا مغرب پر بطور قرض یہ واجب تھا کہ وہ یہودیوں کو ایک ریاست دے۔ لیکن اگر آپ صیہونیت کو عالمی تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک ایسا تناظر ہے جو عربوں کو انسان تسلیم کرتا ہے تو پھر ایسی صورت میں اخلاق کا پہلو کہیں زیادہ تاریک تر ہو جاتا ہے۔ یورپی عوام کے برعکس فلسطینی تو ہالوکاسٹ کے براہ راست شریک نہیں تھے۔ پھر فلسطینیوں کو کیوں اہل جرمن، اہل پولینڈ، اہل یوکرائن اور دوسرے یورپی ممالک کے باشندوں کے جرائم کے عوض اپنی سرزمین کھونا چاہیے؟ اسرائیل کے قیام، مقامی آبادی کی بے دخلی اور فلسطینی سرزمین پر جاری قبضے کی توجیہہ بہت مشکل ہے۔ لیکن اس نتیجے پر پہنچنا بہت مشکل نہیں ہے کہ فلسطینی دوسروں کے گناہوں کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی معاصر ’’حارِذ‘‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں مورخ Benny Morris جو ایک اہم لیبر صیہونی ہے، ۱۹۴۸ء کی نسل کشی کی ایک نامکمل توجیہہ پیش کرتا ہے کہ ’’آبروریزی کے واقعات کا کوئی جواز نہیں ہے‘‘ یعنی وہ اعتراف کرتا ہے۔ ’’قتل عام کے واقعات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ سب جنگی جرائم ہیں۔ لیکن بعض مخصوص حالات میں بے دخلی جنگی جُرم نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۴۸ء میں جو بے دخلی ہوئی وہ جنگی جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ بغیر انڈا توڑے آملیٹ تیار نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے ہاتھ گندے کرنے ہوں گے‘‘ مورس نے مزید کہا کہ ’’تاریخ میں کچھ ایسے حالات پیش آئے جو نسل کشی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ اصطلاح ۲۱ ویں صدی کی تعلیمات میں مکمل طور سے منفی تصور کیا جاتا ہے لیکن جب نسل کشی اور اپنی نسل کے خاتمے کے مابین انتخاب کا سوال آئے گا تو میں نسل کشی کو ترجیح دوں گا‘‘ (کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ آیا ۱۹۴۸ء میں فلسطین کی مقامی عرب آبادی جو کہ ایک کسان آبادی تھی اور اپنے یہودی حریفوں کے مقابلے میں بہت کم منظم تھی یہودی نسل کے خاتمے کی خواہش کر سکتی تھی اور کیا وہ اس پر قادر بھی تھی؟)
۱۹۴۸ء کے واقعات ہنوز اسرائیل کی تقدیر کو تشکیل دے رہے ہیں۔ کئی پہلوؤں سے اسرائیل نمایاں طور سے ایک کامیاب ملک رہا ہے۔ جب میں ۲۰۰۴ء میں اسرائیل گیا تو اسرائیلی شہریوں کی نفاست اور عمدہ حسنِ مزاح سے بہت متاثر ہوا۔ اس کی زندہ سیاسی ثقافت، اس کی ترقی اور اس کے ثقافتی کارناموں سے بھی میں بہت حیران ہوا۔ اس کے باوجود اسرائیل اُس بنیادی نقشے سے بہت مختلف ہے جو صیہونیوں کے ذہن میں تھا۔ ان کا خواب یہ تھا کہ یہ معمول کا ایک ملک ہو گا اور یہ انگلینڈ، فرانس یا کینیڈا کے ہم پلہ ایک یہودی ملک ہو گا۔ لیکن درحقیقت سلامتی کی اپنی منفرد صورت حال کے سبب اسرائیل معمول کے ملک سے بہت مختلف ہے۔ سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی طور سے یہ بہت زیادہ عسکریت زدہ ہے (کہا جا سکتا ہے کہ اس کی تازہ اقتصادی خوشحالی اسلحہ کی اُس نئی مارکیٹ کی وجہ سے ہے جو عالمی عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے) Sparta (قدیم یونان کی ایک زبردست فوجی قوت کی طرح اسرائیل کے شہری اور سپاہیوں کو ہر وقت چوکنّا رہنا پڑتا ہے کہ مبادا (Helots Sparta) کے محکوم کسان) بغاوت نہ کر جائیں۔
عرب آبادی خواہ وہ اسرائیل میں شہری کی حیثیت سے رہتی ہو یا اسرائیل کے غاصبانہ فوجی تسلط میں ہو مستقل پریشانی کا سرچشمہ ہے۔ اسرائیل کا عظیم ترین افتخار اس کا دعوٰے جمہوریت ہے جس کی حیثیت فلسطینی سرزمینوں پر برسوں سے قبضے کے بعد کچھ بھی نہیں رہ جاتی اور صورت حال اَپارتھیڈ کے زمانے کے جنوبی افریقا سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ مزید براں اسرائیل اپنی بقاء کے لیے مکمل طور سے امریکی سہارے کا محتاج ہے جبکہ امریکا کی استعماری قوت زوال پذیر ہے۔ اگر امریکا کبھی اس سے رُخ پھیر لے جیسا کہ اس سپر پاور نے اپنے دوسرے متنازعہ حلیفوں کے ساتھ کیا مثلاً جنوبی ویتنام اور اَپارتھیڈ کے زمانے کے جنوبی افریقہ کے ساتھ تو یہودی ریاست کا دنیا میں کوئی دوست نہ ہو گا۔ پوری دنیا میں اسرائیل کی قانونی حیثیت سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ اس کا مشاہدہ کینیڈا اور امریکا کے جواں سال یہودیوں میں کیا جا سکتا ہے جو اپنے باپ دادا کے مقابلے میں صیہونیت کی جانب بہت زیادہ پُرجوش نہیں ہیں۔
تمام تر کامیابیوں کے باوجود اسرائیل اپنے قیام کے ۶۰ سال بعد بھی بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ اسرائیل کے مسائل کا بہترین حل یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء کی نسل کشی کی تلافی کی جائے اور ایک موثر فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد دی جائے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کا ایک معمول کے ملک بننے کا خواب پورا ہو سکے گا۔
(بشکریہ: ’’نیشنل پوسٹ‘‘ ٹورانٹو۔ شمارہ :۷ مئی۲۰۰۸ء)
Leave a Reply